دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ریاستی درجہ بحالی ، امید بر آنے کا فوری امکان نہیں!
شاہد رہبر ، سرینگر
شاہد رہبر ، سرینگر
جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ طاقت کے دو مراکز تباہی کا نسخہ ہے اور جموںوکشمیر جیسی حساس ریاست میں دوہرا کنٹرول قومی مفاد میں نہیں ہے بلکہ اب تو وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ امن و قانون کی صورتحال سیاسی حکومت ہی بہتر بنا سکتی ہے ۔یہ بیانات دراصل وزیراعلیٰ کی فرسٹریشن کا نتیجہ ہیں کیونکہ وہ یوٹی کے موجودہ نظام میں خود کو بے بس پا رہے ہیں اور عملی طور ان کے ہاتھ میں کچھ زیادہ نہیں ہے بلکہ اب تو لیفٹیننٹ گورنر نے انکا قافیہ حیا ت مزید تنگ کرکے رکھاہے اور وہ ہر معاملہ میں دخل دے رہے ہیں جس کا دبے الفاظ میں اظہارعمر عبداللہ نے (آج تک انکلیو )میں بھی کیا جہاں انہوںنے کہا کہ اُنہیں لگ رہا تھا کہ یوٹی کے معاملات سمجھنے میں اُنہیں پریشانی ہوگی لیکن یہاں الٹا دوسرے فریق کو ہی پریشانی ہورہی ہے تاہم جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایل جی کی جانب اشارہ کررہے ہیں اور ایل جی ان کے معاملات میں کس طرح کی مداخلت کررہے ہیں تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملہ پر وزیر داخلہ سے بات کریںگے۔

اس کے بعد ہوا یوں کہ عمر عبداللہ نے اسی ہفتہ وزیر داخلہ امت شاہ سے اپنی دوسری ملاقات بھی کر ڈالی لیکن اس ملاقات کے بعد بھی صورتحال بدلنے کا نام نہیں لے رہی ہے کیونکہ اس ملاقات کے دوران کوئی اعلان نہیں ہوا اور سرکاری سطح پر صرف اتنا کہاگیا کہ جموںوکشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کی ۔ظاہر ہے کہ اگر کوئی بڑی پیش رفت ملاقات کے دوران ہوئی ہوتی تو یقینی طور پر سرکاری سطح پر اس کا اعلان کیاگیا ہوتا لیکن بادی النظر میں ایسا لگ رہا ہے کہ اس ملاقات میں بھی زبانی جمع خرچ تک ہی معاملات محدود رہے ۔گوکہ عمر عبداللہ نے کہا کہ انہوںنے ریاستی درجہ کی فوری بحالی اور یوٹی کا نظام چلانے سے متعلق تجربات وزیر داخلہ کے ساتھ شیئر کئے ۔در اصل وہ شکایت لگا رہے تھے کہ ایل جی ا نکے کام میں مداخلت کررہے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر کی چھوٹی سی کابینہ نے اپنی پہلی میٹنگ میںریاستی درجہ کی بحالی کیلئے باضابطہ قرارداد منظور کی اوراسے لازمی منظوری کیلئے ایل جی منوج سنہا کے پاس بھیجا گیا اور پھر عمر عبداللہ نے اسے ذاتی طور پروزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے حوالے کیاتاہم اس کے بعد اس ضمن میںکوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔اس کے بعد وزیراعلیٰ نے اب وزیر داخلہ سے دوسری ملاقات بھی تاہم کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے ۔اگر چہ وزیراعلیٰ کے بقول انہیں دلّی سے یقین دہانی حاصل ہوئی ہے تاہم عملی طور کچھ ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے اور ریاستی درجہ کی بحالی ابھی دور ہی نظر آرہی ہے کیونکہ پھر یوٹی حکومت کیلئے بزنس رولز ترتیب دینے کا عمل شروع نہیں کیاجاتا۔

ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ مرکزی حکومت نے پہلے ہی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر وعدہ کیا ہے کہ جموںوکشمیر کا ریاستی درجہ بحال کیاجائے گا جبکہ جموںوکشمیر کے اسمبلی الیکشن مہم کے دوران بھی وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے اس یقین دہانی کا اعادہ کیا ۔اتنا ہی نہیں ،مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں باضابطہ بیان حلفی کی صورت میں تحریری یقین دہانی جمع کرائی ہے کہ مناسب وقت پر جموںوکشمیر کا ریاستی درجہ بحال کیاجائے گا اور یہ اسی تحریری یقین دہانی کا نتیجہ تھا کہ سپریم کورٹ نے جموںوکشمیر کے ریاستی درجہ کی تنزلی کی آئینی حیثیت کی جانچ نہیںکی اور یوں یہ مسئلہ ایک طرح سے سپریم کورٹ میں آج بھی اوپن ہے اور اگر مرکز وعدے سے مکر جاتا ہے تو پھر سپریم کورٹ حرکت میں آسکتا ہے ۔ویسے بھی سپریم کورٹ میں اب اس ضمن میں عرضی دائر ہوچکی ہے اور چیف جسٹس سے اس کی فوری سماعت سے اتفاق کیا ہے تو عین ممکن ہے کہ ا س مسئلہ پر فوری سماعت شروع ہو اور یہ مسئلہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے تاہم سپریم کورٹ جب سماعت کرکے اور کب فیصلہ سنائے ،یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا اور یوں بے یقینی کی صورتحال مسلسل جاری رہے گی کیونکہ وزارت داخلہ کی جانب سے ایسا کوئی اشارہ نہیں مل رہا ہے کہ وہ جموںوکشمیر کا ریاستی درجہ فوری بحال کرنے کے موڈ میںہیں۔عمر عبداللہ سے ملاقات کے کچھ گھنٹوںبعد وزیر داخلہ نے دہلی میںہی جموںوکشمیر کی سیکورٹی جائزہ میٹنگ کی صدارت کی ۔اُس میٹنگ میں ملی ٹینسی کے حوالے سے جس صفر روادار ی کا اعادہ کیاگیا اور جموںوکشمیر کو ملی ٹینسی سے پاک بنانے کا عزم دہرا کرانسداد ملی ٹینسی آپریشنوں میں تیزی لانیکی ہدایت دی گئی،وہ اپنے آپ میں اس بات کا اعلا ن تھا کہ فی الحال ریاستی درجہ بحال ہونے والا نہیں ہے اور ابھی کیلئے وزارت داخلہ خود جموںوکشمیر کے امور دیکھنا چاہتی ہے کیونکہ شاید ان کے نزدیک ابھی مشن مکمل نہیں ہوا ہے ۔

اس طرح عمرحکومت کی بے بسی بھی جاری رہے گی کیونکہ یہاں لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات میں وسیع توسیع کی گئی ہے اور عملی طور پر منتخب حکومت راج بھون کے رحم و کرم پر ہے اوروزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے لئے کام کرنا آسان نہیں ہے۔لیفٹیننٹ گورنر مسلسل بیروکریٹس کے ساتھ میٹنگیں لے رہے ہیں اور نہ صرف اپنے ڈومین میںپڑنے والے معاملات کی نگرانی کررہے ہیں بلکہ ترقیاتی عمل ،جو عمومی طور یوٹی حکومت کا ڈومین ہے ،کی بھی مسلسل نگرانی کررہے ہیں اور انتظامی معاملات بھی خود ہی دیکھ رہے ہیں۔لیفٹیننٹ گورنر نہ صرف جموںاور سرینگر شہروں میں ترقیاتی منصوبوںکا برسر موقعہ جائزہ لے رہے ہیں بلکہ افسران کی میٹنگیں لیکر ضروری ہدایات بھی جاری کرکے عمر حکومت کا دائرہ تنگ سے تنگ تر کرتے چلے جارہے ہیں۔اسی طرح افسران کے تبادلوں میں عمر حکومت کو خاطر میں نہیںلایاجارہا ہے جبکہ ایڈوکیٹ جنرل کی تقرری کے معاملہ پر بھی راج بھون اور عمر حکومت آمنے سامنے ہیں۔گزشتہ دنوں اُسوقت حد ہی ہوگئی جب ایل جی نے جموں وکشمیر یونیوسٹی ایکٹ کے تحت چانسلر کی حیثیت سے حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یکطرفہ طور جموں یونیورسٹی اور شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی سرینگر کے وائس چانسلروں کی معیاد ملازمت میں بالترتیب دو اورتین سال کی توسیع کرڈالی حالانکہ عمر عبداللہ اسی قانون کی رو سے ان یونیورسٹیوں کے پرو چانسلر بھی ہیں اور اُن سے مشاورت ہونی چاہئے تھی لیکن راج بھون نے ایسا نہ کیا ۔

اعلیٰ سطح پر یہ توسیع ویسے بھی عمر حکومت کی پالیسی کے منافی تھی کیونکہ عمر حکومت واضح کرچکی تھی کہ نوکریوں میں توسیع نہیں کی جائے گی اور نہ ہی سبکدوشی کے بعد دوبارہ ملازمتیں فراہم کی جائیں گی ۔اتناہی نہیں ،عمر حکومت کو زرعی یونیورسٹی کشمیر کے وائس چانسلر پروفیسر نذیر احمد گنائی کے بارے میں شدید تحفظات تھے اور اُن پر مختلف قسم کے بدعنوانی کے الزامات بھی زیر تفتیش تھے لیکن راج بھون نے عوامی حکومت کے تحفظات اور سبھی الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اُنہیں مزیددو برسوںکیلئے وائس چانسلر کی کرسی پر براجمان رہنے کا مختار نامہ سونپ دیا اور عمر حکومت دیکھتی ہی رہ گئی اور اس حکومت کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔

عملی صورتحال یہ ہے کہ عمر عبداللہ اپنے چناوی وعدوںکو عملی جامہ نہیں پہناپارہے ہیں اور نہ ہی انتظامی سطح پر اپنی رٹ قائم کرپارہے ہیں۔انہوں نے اپنے چناوی منشور میں عوام سے ایک وعدہ کیاتھا کہ وہ ہر کنبہ کو 200یونٹ ماہانہ مفت بجلی دیںگے لیکن تاحال یہ وعدہ وفا نہ ہوا اور اب تو عمر عبداللہ کہتے ہیں کہ مارچ سے اس پر عمل ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وعدہ کو عملی جامہ پہننا نا آسان نہیں ہوگا کیونکہ اگر عمر عبداللہ مارچ 2025میں ماہانہ 200یونٹ مفت بجلی ہی فراہم کرنے کا اعلان کریں گے تو اُنہیں اس کیلئے لیفٹیننٹ گورنر سے رجوع کرنا پڑے گا کیونکہ اس میں بے پناہ سرمایہ کا مسئلہ درپیش ہے اور پھر یہ لیفٹیننٹ گورنر کی صوابدید پر ہے کہ وہ اس کو منظوری دے یا نہیں کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ جموں وکشمیر کا بجلی بجٹ ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے اور شایدہی ایل جی اس مد میں مزید خسارہ اٹھانے کی اجازت دیں گے ۔چونکہ آگے بجٹ سیشن آنے والا ہے تو اس میں ہر چیز کا حساب کتاب کیاجائے گا اور وزارت خزانہ بجٹ کی باریکیوں میں جائے گی تو دیکھنا یہ ہوگا کہ عمر عبداللہ حکومت200یونٹ مفت ماہانہ بجلی کی فراہمی کے وعدے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کہاں سے پیسے کا بندو بست کرے گی۔اسی طرح ہر بی پی ایل کنبہ کو ماہانہ10کلو مفت راشن دینے کا وعدہ کیاگیا ہے ۔اس کیلئے عمرعبداللہ کو زر کثیر کا انتظام کرنا پڑے گا اور یہ بھی ایل جی کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔محتاط اندازوں کے مطابق اس کیلئے ماہانہ پونے دو سو کروڑ روپے کا بندو بست کرنا ہوگا جو عمومی حالات میں ممکن نہیں ہے کیونکہ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جموں وکشمیر کو جو راشن ملتا ہے ،وہ قومی سطح پر نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے تحت ملتا ہے اور اگراضافی راشن دینا ہے تو اس کا بندو بست یوٹی حکومت کو خود کرناپڑے گا اور اُنہیں یہ اضافی چاول یا تو فوڈ کارپوریشن آف انڈیا یا پھر اوپن مارکیٹ سے بازاری نرخوں پر خریدنا پڑے گا ۔اس کیلئے یقینی طو ر پر پیسہ درکا ر ہوگا ۔اب وہ پیسہ کہاں سے آئے گا،یہ عمر عبداللہ کو دیکھنا پڑے گاتاہم اس کا نتظام کرنا بلاشبہ آسان نہیں ہوگا اور یہ مسئلہ بھی مفت بجلی کی طرح عمر عبداللہ کے سر درد میں اضافہ ہی کرے گا۔ ایک اور چناوی وعدہ ہر کنبہ کو سال میں12گیس سلنڈرمفت دینے سے متعلق ہے۔یہ وعدہ وفا بھی آسان نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمر عبداللہ حکومت کو یہ سارے گیس سلینڈر خریدنا پڑیںگے اور پھر عوا م کو مفت دینا پڑیںگے جس کیلئے وافر سرمایہ درکار ہے اور جب وافر سرمایہ کی بات آئے تو راج بھون کا دروازہ کھٹکھٹا نا پڑے گا کیونکہ مالیات سے جڑا ہر مسئلہ ایل جی کی نوٹس میں لانا ضروری ہے ۔انتظامی سطح پر یہ سبھی اعلانات ایسے ہیں کہ اگر ان پرعمل کیاجائے تو یقینی طور پر عوام کو بڑی راحت ملے گی لیکن ان وعدوں کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہے، کیونکہ اس میں راج بھون کی منظوری حائل ہے۔

عمر حکومت کی بے بسی کا واحد علاج ریاستی درجہ کی بحالی ہے لیکن اس سلسلے میں دلی ابھی بہت دور ہے اور مستقبل قریب میں ریاستی درجہ کی بحالی کا کوئی امکان نظرنہیں آرہا ہے کیونکہ اس ضمن میں دہلی کی جانب سے کوئی اشار ے نہیں مل رہے ہیں اور یوں جب تک ریاستی درجہ بحال نہیں ہوتا ،عمر عبداللہ حکومت کی بے بسی خلاف عادت جاری رہے گی اور عمر عبداللہ کو مجبوراً راج بھون کے سامنے سر خم تسلیم کرناہی پڑے گا۔

واپس کریں