شاہد رہبر ، سرینگر
سندھ طاس آبی معاہدہ اور ہند و پاک آبی مناقشہ جموں وکشمیر کو بلا شبہ کچھ نہ ملالیکن معاہدہ سے بندھے رہنا دونوں ممالک کی مجبوری۔ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے حالیہ بیان نے ایک بار پھر سندھ طاس معاہدہ کو زیر بحث لایا ہے ۔گزشتہ دنوں نئی دہلی میں ملک کے وزرائے بجلی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جموں وکشمیر یونین ٹریٹری کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ جموں وکشمیر میں پن بجلی پیدا وار میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ کی شقیں پانی کو ذخیرہ کرنے سے روکتاہے جونتیجہ کے طور پر ہماری پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو محدود کردیتا ہے اور اس کا خمیازہ جموں وکشمیر کے لوگوں کو سردیوں میں ٹھانا پڑتا ہے جب بجلی بہت کم دستیاب ہوتی ہے۔ وزیراعلیٰ کے بیان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا کہ عمر عبداللہ کو طے شدہ مسائل کو دوبارہ اچھال کربی جے پی کو فائدہ نہیں دینا چاہئے کیونکہ بقول انکے یہ وہ واحد معاہدہ ہے جو جنگو ں اور کشیدگیوں کے باوجود قائم ہے ۔
محبوبہ مفتی کے بیان کے بعد وزیراعلیٰ کے مشیر اور نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما ناصر اسلم وانی کو وضاحت کرناپڑی کہ عمر عبداللہ نے معاہدہ ختم کرنے کی بات نہیں کی بلکہ جموں وکشمیر کو اُن نقصانات کا معائوضہ دینے کی مانگ جو اس یونین ٹریٹری کو اس معاہدہ کی وجہ سے ہورہے ہیں۔اُن کا کہناتھا کہ ہم بہت پہلے سے کہتے آرہے ہیں کہ یہ معاہدہ جموں وکشمیر دوست نہیں ہے اور اس سے جموں وکشمیر کو نقصان ہورہا ہے جس کا معائوضہ جموں وکشمیر کو ملنا چاہئے ۔ واضح رہے کہ بی جے پی کا موقف ہے کہ بھارت کو اس معاہدہ سے دستبردار ہوکر پانی کا بہائو پاکستان کی طرف روکنا چاہئے اور اُس پانی کو جموں وکشمیر میں آبپاشی اور پن بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال کرناچاہئے ۔یہ محض بی جے پی کا تنظیمی موقف ہی نہیں ہے بلکہ نریندر مودی کی سربراہی والی مرکزی حکومت کا موقف بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔
بھارت نے پاکستان سے دونوں ملکوں کے درمیان سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کاباضابطہ مطالبہ کیا ہے۔نئی دہلی نے اسلام آباد کو دئے گئے ایک نوٹس میں کہا کہ حالات میں ’بنیادی اور غیر متوقع‘ تبدیلیوں کے باعث معاہدے کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت پیدا ہو گئی ہے۔یہ نوٹس پاکستان کو 30 اگست کو سندھ آبی معاہدے کے آرٹیکل XII(3) کے تحت جاری کیا گیا، جس کے مطابق معاہدے کی شقوں میں وقتاً فوقتاً ترامیم ممکن ہیں۔یہ نوٹس پاکستانی مندوب کو سندھ طاس معاہدے کے تحت سرحد پار آبی پراجیکٹس کی نگرانی کی غرض سے دورے کے دوران دیا گیا۔جنوری 2023 میں بھی نئی دہلی نے پن بجلی پروجیکٹوں کی تعمیر پر بار بار اعتراضات اٹھاتے ہوئے معاہدے کے نفاذ میں اسلام آباد کی ’مسلسل مداخلت‘ کی وجہ سے سندھ طاس معاہدہ کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا تھا۔حالیہ نوٹس دوپن بجلی پروجیکٹوںپر ایک دیرینہ تنازع کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے، جوچناب میں تعمیر ہورہے ہیں۔ان پروجیکٹوں میں پہلا دریائے کشن گنگا اور دوسرا دریائے چناب پر تعمیر ہونے والے منصوبے ہیں۔پاکستان نے ان منصوبوں پر تکنیکی اعتراضات اٹھائے ہیں اور ان کا غیر جانبدار ماہرین کے ذریعے نگرانی کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا واقعی یہ معاہدہ جموں وکشمیر مخالف ہے اور کیا کوئی ملک اس کی خلاف ورزی کرنے یا اس سے دستبردار ہونے کا متحمل ہوسکتا ہے ؟۔ سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟ پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان ، بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور عالمی بینک کے صدر کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر 19 ستمبر 1960کو دستخط ہوئے تھے ۔دراصل عالمی بنک کی نگرانی میں طے پائے گئے سندھ طاس معاہدے کی روسے تین مشرقی دریائوں راوی ، ستلج اور بیاس کے پانی پرپہلاحق بھارت جب کہ تین مغربی دریائوں سندھ جہلم اور چناب کے 80 فی صد پانی پر پاکستان کا حق ہے ۔معاہدے کی روسے دونوں ممالک آبی ذخائرکی تقسیم کے معاملے پر سال میں کم از کم ایک بار ضرور ملاقات کر کے اختلافات اور تحفظات پر بات چیت کریں ۔اس کے علاوہ بدلے میں بھارت نے پاکستان کو 62 لاکھ پونڈ ادا کیے تھے جو 125 میٹرک ٹن سونا کے برابر تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو دس سال کا عرصہ بھی دیا گیا تھا جس میں الحاقی نہروں کی تعمیر سے راوی اور ستلج کی پیاس بجھائی گئی تھی۔
اس منصوبے کی تکمیل کے لئے ورلڈ بینک کے علاوہ برطانیہ ، امریکہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ اور مغربی جرمنی نے بھی فنڈنگ کی تھی۔عام طور پر جنرل ایوب خان کو یہ کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ معاہد ہ پاکستان کی جانب سے کیاتاہم موصوف کا اس ضمن میں جو کردار تھا وہ صرف ایک ایسے معاہدے پر دستخط کرنے کے سوا کچھ بھی نہ تھا جس پر قیام پاکستان کے وقت سے کام ہورہا تھا۔سندھ طاس معاہدے پر 1954ء ہی میں ورلڈ بینک نے فنڈنگ کی منظوری دے دی تھی لیکن اس وقت پاکستان اپنے حصہ کے دریاؤں کا پانی بھارت کو دینے کو تیار نہیں تھا۔ یہ معاہدہ اس وقت ممکن ہوا تھا جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر پانی و بجلی ، قدرتی وسائل اور قومی تعمیر نو تھے اور انہی کی سمری پر یہ تاریخی معاہدہ ہوا تھا اور انہی کی نگرانی میں اس منصوبے پر کام بھی شروع ہوا تھا۔ معاہدہ کا پس منظر 1909 میں برطانوی حکام نے پنجاب کو برصغیر کے لیے گودام بنانے کے ایک زیریں سندھ طاس کے منصوبے پر غور کیا اور مطابق ایک دریا کے پانی کو دوسرے دریا تک پہنچایا جانا تھا۔ جہلم کو ایک نہر کے ذریعہ چناب سے ملا دیا گیا۔ نہروں اور پنجند اور معاون دریاؤں پر بہت سے بند اور بیراج باندھے گئے۔ اس طرح یہ سیلاب کے وقت پانی کا ذخیرہ کرلیتے تھے۔ اس طرح جہاں سیلابوں پر کسی حد تک قابوں پایا جا سکتا تھا اور ان میں جمع شدہ پانی کو سردیوں کے خشک موسم میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔
1932 میں سکھر کے مقام پر دریائے سندھ پر تعمیر کیا گیا پہلا بیراج کھول دیا گیا اور دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی کے نظام نے کام کرنا شروع کر دیا۔ تقسیم سے کچھ عرصہ پہلے دوسرا بیراج کالا باغ کے مقام پر تعمیر کیا گیا۔ جس وقت یونین جیک اتارا گیا اس وقت تک برطانوی انجینئر سندھ طاس کو دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی نظام مہیا کرچکے تھے۔ یہاں انھوں نے جو فارمولے تشکیل دیے وہ دنیا میں ہر جگہ نہروں کی تعمیر اور ان کو چلانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ تقریباً پچاس سال تک صحرا میں پانی کے مسلہ کو میدانوں میں ان طاقتور دریائوں کو قابو میں رکھنے اور لگام ڈالنے کا کام ایک مکمل وحدت کے طور پر انجام دیا جاتا رہا۔ مگر 1947 کی تقسیم کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ سر سیرل کلف اس کمیشن کا چیرمین تھا۔ جسے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ برطانیہ کو اپنے اس نہری نظام پر فخر تھا اور قدرتی طور پر اس کی خواہش تھی کہ کامیابی سے چلتا رہے۔ اس لیے سر سیرل کلف نے تقسیم کے وقت نہروں اور دریاؤں کو کنٹرول کرنے کے اس نظام کی اہمیت پوری طرح دونوں فریقوں پر واضح کردی اور برطانوی خواہش کے مطابق تجویز پیش کی کہ دونوں ملک ایک معاہدہ کر لیں کہ وہ اس سارے نظام کو ایک اکائی کی طرح چلائیں۔ مگر دونوں فریق ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور بڑی سختی سے یہ تجویز دونوں نے رد کردی گئی۔ پاکستان جانتا تھا کہ اس طرح وہ بھارت کے رحم و کرم پر رہے گا۔ نہرو نے بڑے سیدھے الفاظ میں کہہ دیا کہ بھارت کے دریا بھارت کا مسئلہ ہیں کیوں کہ اس کو امید تھی کہ کشمیر میں مسلم اکثریت کے باوجود وہاں کا ہندو راجا بھارت کے ساتھ شامل ہونا پسند کرے گا۔ شاید ان کے درمیان اندرون خانہ کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا۔ کشمیر کے بھارت میں شامل ہونے کی صورت میں دریاؤں پر اس کی بالادستی قائم رہے گی۔ وہ پاکستان سے پانی کے لیے اپنی من مانی شرائط منوا سکتا تھا۔
ہوا بھی یہی تقسیم کے وقت گورداسپور کا مسلم اکثریت کا علاقہ بھارت کے حوالے کرکے کشمیر کا زمینی راستہ دے دیا گیا۔ تقسیم کے وقت ظاہری طور پر پاکستان فائدے میں نظر آتا تھا کہ پنجاب کی 23 مستقل نہروں میں سے 21 پاکستان کے قبضہ میں آگئیں لیکن ہر وہ دریا پر جو پاکستان کی نہروں کو پانی مہیا کرتے تھے،وہ بھارتی علاقہ میں آگیاتھا ۔پنجند کے پانچوں دریا مغرب میں پاکستان پہنچنے سے پہلے اس علاقے سے بہتے ہوئے آتے تھے بلکہ دریائے سندھ خود بھی کشمیر کے ایک حصے سے بہتا تھا لیکن ہمالیہ کی دور دراز گھاٹیوں میں بہنے کی وجہ سے وہاں اس کا رخ بدلنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن دوسرے دریا خاص طور پر ستلج بھارت کے میدانوں میں میلوں چکر کاٹ کر آتا ہے۔ اس کے علاوہ پانی کی تقسیم کے لیے دونوں دریاؤں راوی اور ستلج پر قائم تمام اہم ہیڈ ورکس بھی بھارت کے قبضہ میں آگئے تھے۔ یہ وہ ہیڈورکس تھے جو پچاس سال سے ان کھیتوں کو پانی پہنچا رہے تھے جو پاکستان کے علاقے میں تھے۔ بھارت اس پوزیشن میں تھا وہ جب چاہتا وہ پاکستان کو پانی کی سپلائی روک سکتا تھا اور ہوا بھی یہی۔
ہند پاک آبی مناقشہ بھی ان درجنوں معاملات کی طرح ہی اُلجھا ہوا ہے جو دونوں جوہری ہمسائے 70 برس گزرنے کے باوجود حل نہیں کر پائے ۔یہ مناقشہ بھی برصغیر ہندو پاک میںبرطانوی سامراج نے ایک رستے ناسور کی مانند چھوڑ دیا ۔جس سے اٹھنے والی ٹیس سے دونوں ممالک کے عوام متاثر ہیں ۔تقسیم بر صغیر کا اصول تھا کہ جن علاقوں میں مسلم اکثریت ہے ان کو پاکستان میں شامل کیا جائے اور اس کا تعین ضلعی سطح پر ہونا تھا ریڈ کلف نے ضلع کے اصول کو نظر انداز کر کے گور داس پور کی تقسیم تحصیل کی بنیاد پر کی لیکن 4 میں سے تین تحاصیل میں بھی مسلمان اکثریت تھی ۔ گور داس پور تحصیل میں مسلمان 52 فی صد تھے مالہ میںبٹالہ میں55 فی صد سے زائدشکر گڑھ میں51 فی صد سے زائد صرف پٹھان کوٹ میں مسلمانوں کی تعداد 38 فی صد تھی ۔ لیکن پاکستان کو صرف شکر گڑھ تحصیل ملی اس کی وجہ ریڈ کلف نے یہ بتائی کہ اسے آبپاشی نظام کا بھی خیال رکھنا تھا۔اب اگر پانی کی تقسیم اتنا اہم اصول تھا کہ اس کی وجہ سے مسلم آبادی کی اکثریت کے اصول کو نظر انداز کیا جا سکتا تھا تو پھر منطق کے مطابق فیروز پور پاکستان کو تحصیل کی بنیاد پر ملنا چاہئے تھا تاکہ پاکستان کو اس ہیڈ ورکس کا کنٹرول مل جاتا جس سے پاکستان میں دیال پور نہری نظام کو پانی ملتا تھا اور فیروز پور تحصیل بھی مسلم اکثریتی تحصیل تھی ۔گورداس پور میں مادھوپور کے مقام پرجو ہیڈ ورکس تھا اورجس کا پانی امرتسر اور لاہور میں استعمال ہوتا تھا تو گورداس پور ، مادھوپور یا پھر فیروز پور پاکستان کو مل جاتا تو پاکستان کم ازکم بعض علاقوں کے پانی کو کنٹرول کر سکتا اور دونوں ممالک ایک دوسرے کو چیک کرتے یعنی اگر ایک ملک دوسرے ملک کا پانی بند کرتا تو دوسراملک جوابی کارروائی کر سکتا تھا۔
بھارت کے ساتھSTAND STILLمعاہدہ 31 مارچ 1948 کو ختم ہوا اور یکم اپریل 1948 کی صبح بھارت نے فیروز پور واٹر ہیڈ ورکس سے دیالپور نہری نظام کاپانی بند کر دیا۔ بالآخر معاہدہ ہوگیا پاکستان اور بھارت کے درمیان تکرار جاری تھی کہ951 1 میں ورلڈ بینک نے کوشش کی کہ دونوں ممالک سندھ طاس نظام کو ایک وحدت کے طور پر چلانے کے لیے آپس میں تعاون کر لیں اور کسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے کوشش کی۔ تاہم یہ جلد واضح ہو گیا کہ بھارت کسی ایسے معاہدے کا خواہش مند نہیں تھا جس کے تحت اس کا دریاؤں پر سے کنڑول ختم ہوجائے جبکہ پاکستان کو کسی صورت میں بھارت کی بالادستی اور دریاؤں پر پورا کنڑول منظور نہیں تھا۔ یہ گفت و شنید بڑی لمبی اور تھکا دینے والی تھی اور دونوں ممالک اپنی اکتا دینے والی ایسی دلیلیں اور تجویزیں پیش کر رہے تھے جس سے مخالف فریق کے مفادات اور دریاؤں کی بادستی پر ضرب پہنچتی تھی۔ 1960 تک دونوں ملکوں میں مفادات کا توازن تقسیم کی نسبت ہموار ہو چکا تھا اور آخر ورلڈ بینک بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس کے معاہدے پر دستخط کروانے میں کامیاب ہو گیا۔ دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا جو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا۔ ہائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم کیا گیا جس کی معلومات تک رسائی دونوں ممالک کو حاصل تھی۔ پنجند کے تین مشرقی دریا ایک مقرہ مدت کے بعد جس کے دوران پانی کی ایک طے شدہ مقدار پاکستان کو مہیا کی جانی تھی، مکمل طور پر بھارت کے سپرد کر دیے گئے۔ دریائے سندھ اور پنجند کے دو جہلم اور چناب پر پاکستان کی حاکمیت تسلیم کی گئی اور بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان کے بہاوَ میں کبھی بھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔
جموں وکشمیرکو کچھ نہیںملا سندھ طاس آبی معاہدہ تو ہوگیا لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ اس معاہد ہ پر کام اُسی وقت میں شروع ہوا تھا جب جموں وکشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں تھا اور بھارت اور پاکستان کی دعویداری چل رہی تھی جبکہ اقوام متحدہ کا سیکورٹی کونسل کشمیر پر پے درپے قراردادیں منظور کررہا تھا لیکن اُن قراردادوں کو بالائے طاق رکھ کر عالمی طاقتوں کی مدد سے بھارت اور پاکستان نے پانیوں پر دوطرفہ معاہدہ کیااور اُس وقت وہ جموں وکشمیر کی متنازعہ حیثیت بھول گئے اور جموں وکشمیر کے پانیوںکا بھی سود اکیاگیا ۔مغربی دریا جہلم ،سندھ اور چناب جموں وکشمیر سے بہتے تھے اور آج بھی بہہ رہے ہیں لیکن اُس وقت نہ ہی پاکستان اور نہ ہی بھارت کو یاد رہا کہ ہمیں متنازعہ خطہ سے بہنے والے دریائوں پر مالکانہ حقوق جتانے کا اختیار نہیں ہے لیکن چونکہ دونوں ممالک کیلئے پانی بہت بڑا مسئلہ تھا تو جموں وکشمیر کے مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے دونوں ممالک نے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ضروری سمجھا اور یوں ایک دو طرفہ معاہدہ کے ذریعے جموں وکشمیر کے پانیوں کا سودا کیاگیا اور جموں وکشمیر کو بدلے میں کچھ نہیں ملا۔
الزامات و جوابی الزامات پاکستان جس کی زرعی معیشت کا انحصار دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں کے پانی پر ہے ،کو یہ تحفظات ہیں کہ بھارت کی طرف سے تعمیر کئے جارہے ڈیم پاکستان کی طرف دریائوں کے قدرتی بہائو کو روک دیتے ہیں ۔ پاکستان میں اکثریتی حلقوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ بھارت جان بوجھ کردریائی پانی کو روک کرملک کی زرعی پیداوار متاثر کر رہا ہے ۔ مبصرین کا کہنا ہے پاکستان کی کل آبای کا تین فی صد دریائے سندھ کے پانی پر منحصر ہے اور بھارت کی طرف سے آبی جارحیت کی صورت میں پاکستان کی زرعی پیداوار متاثر ہوگی ،جوکہ پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی کیونکہ زرعی آمدن پاکستان کے جی ڈی پی کا 24فی صد زراعت سے ہونی والی آمدن پر مشتمل ہے،ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان کی 95فی صد اراضی دوآبہ سندھ میں ہے ۔بھارت اس طرح کے الزامات کو یکسر مسترد کرکے انہیں خالی وسوسوں سے تعبیر کررہا ہے جس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ۔ بھارت کا کہنا ہے کہ تمام پروجیکٹ Run-of-river طرز پر ہیں اور محض بجلی کی پیداوار کے لئے ہیں نہ کہ پانی کو ذخیر ہ کرنے کے لئے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت پن بجلی پروجیکٹوں کے چرخابوں(Turbine)کے لئے پانی روکتا ہے جس کے بعد پانی کے بہاو پر کوئی روک نہیں ہوتی اورپاکستان کی طرف بہنے والی پانی پر روک کا کوئی سوال ہی نہیں بنتا۔
آگے کیا ہوگا؟ دونوں جوہری ہمسایوں کے مابین کشیدہ تعلقات کوئی نئی بات نہیں ۔اس کشیدگی کی بھینٹ کبھی سمجھوتہ ایکسپریس چڑھی تو کبھی کھیل لیکن سندھ طاس معاہدہ نے تین جنگوں کو جھیلا ۔لیکن آج یہ معاہدہ 21ویں صدی کے چیلنجوں سے نمٹ سکے گا یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا اور آیا یہ معاہد ہ محفوظ رہے گا بھی یا نہیں۔ولندیزی محققوں کی تازہ ایک تازہ تحقیق کے مطابق 2050 تک مختلف گلیشروں کے پگھلنے کی وجہ سے دریاے سندھ کا بہائو 8 فی صد کم ہو گا ۔ دوسری جانب پاکستان میں ایک غالب حلقہ اپنے ہمسایہ کو قابل اعتبار نہیں مان رہااور پاکستان میں پانی کی کمی کوبھارت کی جانب سے آبی جارحیت قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ بھارت ایک ساتھ کئی پن بجلی منصوبوں پر کام کر رہا ہے ۔حقیقت میں بھارت نے پن بجلی پیداوار میں بے حد اضافہ کیا ہے حکومت نے 45 پروجیکٹ مغربی دریائوں پر تعمیر کئے ہیں یا تکمیل کے قریب ہیں جن میں 1000 ہزار میگا واٹ کے کئی پروجیکٹ قابل ذکرہے۔ مجموعی طور اس طرح سے تعلقات مزید کشیدہ ہو رہے ہیں ۔ دونوں ممالک کے مابین آبی مناقشہ بھی مخاصمت کو پس پشت ڈالنے میں سدِ راہ بنا ہوا ہے۔ کیا معاہدہ ختم ہوسکتا ہے؟ ماہرین کے مطابق کئی لوگ جو گہرائی سے نہیں جانتے ،ان کو لگتا ہے کہ ان دریاؤں کا 80 فیصد پانی پاکستان کو جاتا ہے اس لئے یہ معاہدہ بھارت کے حق میں نہیں ہے اور اسے منسوخ کر دینا چا ہئے یا نیا معاہدہ کیا جانا چاہئے۔ انکے مطابق یہ معاہدہ بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا،ندیوں کا بٹوارہ، ان کی ہائیڈرولوجی، ان کا بہاؤ، وہ کس طرف جا رہی ہیں، ان میں کتنا پانی ہے۔ ان سب کو مد نظر رکھ کر یہ معاہدہ طے پایا تھا۔
بھارت پاکستان جانے والے دریاؤں کا رخ اگر اپنی طرف موڑنا بھی چاہے تو نہیں موڑ سکتا کیونکہ وہ ڈھلان کی طرف (پاکستان میں) ہی اتریں گی۔ اس لئے اس طرح کی باتیں ماہرین پر چھوڑ دینی چاہئیں۔جنوبی ایشیا میں دریاؤں کے تنازع پر ایک کتاب کے مصنف اور سنگاپور نیشنل یونیورسٹی کے مصنف پروفیسر امت رنجن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ سندھ طاس معاہدے سے اگر دونوں میں سے کوئی ایک ملک بھی یکطرفہ طور پر نکلنا چاہے تو وہ نہیں نکل سکتا۔وہ کہتے ہیں کہ ویانا کنونشن کے تحت معاہدے ختم کرنے یا اس سے الگ ہونے کی گنجائش موجود ہے لیکن اس پہلو کا اطلاق سندھ طاس معاہدے پر نہیں ہو گا۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان سفارتی اور قونصلر سطح کا تعلق بھی ٹوٹ جائے تو بھی اس معاہدے کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کسی طرح یہ معاہدہ ٹوٹ بھی جائے تو بھی ایسے بین الاقومی کنونشن، ضوابط اور اصول موجود ہیں جو دریائی ملکوں کے آبی مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں‘‘۔پروفیسر امت لکھتے ہیں’ ’ایک دستاویز کے طور پر اس معاہدے میں کچھ کمیاں اور خامیاں ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدہ اور خراب تعلقات ہیں اور اصل میں اُسی مسئلہ کو ایڈرس کرنا ہے‘‘۔ اتناہی نہیں،اس کے دیگر مضمرات بھی ہیں۔پاکستان میں سندھ طاس کے آبپاشی کے نظام کا 80 فیصد سے زائد پانی (117 بلین کیوبک میٹر) جہلم سمیت انڈس بیسن کے مغربی دریاؤں سے آتا ہے۔ پاکستان کی طرف ان کا بہاؤ دو طرح سے روکا جا سکتا ہے، یا تو ان کے پانی کو وہاں پہنچنے سے پہلے ذخیرہ کر لیا جائے یا پھر ان کا رخ کسی اور طرف موڑ دیا جائے۔لیکن ایک ماہر کے مطابق 117 بلین کیوبک میٹر پانی ہر سال 120,000 مربع کلو میٹر کے رقبے کو ایک میٹر کی کی اونچائی تک ڈبونے کیلئے کافی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پانی کی یہ مقدار ایک سال میں پورے کشمیر کو سات میٹر کی اونچائی تک ڈبونے کیلئے بھی کافی ہے اور اس کو ذخیرہ کرنے کیلئے بھارت کو 260.5 میٹر اونچے اور 592 میٹر طویل تہری ڈیم جتنے 30 ڈیموں کی ضرورت ہوگی جو کہ ناممکن ہے۔ اختتامیہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ معاہدہ جموں وکشمیر کے مفادات کے حق میں نہیں ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ معاہدہ تین جنگیں اور کشیدگیاں برداشت کرچکاہے اور صحیح سلامت رہ چکاہے ،ایسے میں آگے بھی رہنے کے امکانات ہیں کیونکہ دونوں ممالک کی اپنی مجبوریاں ہیں اور یہ مجبوریاں ان کو انتہائی اقدامات اٹھانے سے باز رکھیں گی۔
واپس کریں