دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
احتجاج میں احتیاط لازم ہے۔ سبسڈی پر حکومت کشمیر کو 70 ارب خسارہ
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
وزیر اعظم انوار الحق کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کے خدوخال دیکھنے کے لیے ممبران اسمبلی اور سول سوسائٹی پر مشتمل کمیٹی کے قیام اور سپریم کورٹ آف آزاد جموں و کشمیر کی جانب سے آرڈیننس کی معطلی کے بعد اس مسئلے کو لے کر 5 دسمبر کو ہڑتال کی آواز لگانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ محترم وزیراعظم انوار الحق نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی قانون حتمی نہیں ہوتا جب کہ آرڈیننس کی تو ایک محدود مدت ہے اگر اسمبلی میں پیش نہیں ہوتا تو ختم ہو جائے گا۔ گویا وزیراعظم نے اشاروں کنایوں میں کہہ دیا کہ باہمی اشتراک و اعتماد ہوتا ہے تو حکومت اس کو ایکٹ بنانے پر باضد نہیں۔ وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر کے یہ اقدامات اور لچک دار رویہ جمہوری نظام اور معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ آرڈیننس پر تحفظات اور خود کو متاثرین سمجھنے والوں کو بھی خواہ وہ کوئی بھی ہوں، جمہوری رویہ اختیار کرتے ہوئے مثبت انداز میں جواب دیناچاہئےتھا اور کسی بھی انتہائی اور حتمی فیصلے سے قبل کمیٹی کی رپورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے تھا۔

ہڑتالیں، جلوس ہنگامہ آرائی، گرفتاریاں اور جلاؤ گھیراؤ مسائل کا حل نہیں، گفتگو اور عدالتوں پر اعتماد سے ہی مسائل حل ہوتے ہیں۔ ہڑتالیں اور شٹر ڈان عوامی احتجاج اس وقت کیا جاتا ہے جب اتھارٹی اپنی بات پر اٹل ہو اور متاثرین سے بات کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہو۔ یہاں تو ایسی کوئی بات ہی نہیں جب حکومت بات کرنے چاہتی ہے تو کیوں نہ بات چیت سے مسئلے کو حل کر لیا جائے۔۔۔ بدقسمتی سے احتجاج اور ہڑتالیں آزاد کشمیر کا کلچر بنتا جا رہا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے معاشرے میں افراتفری ہے اور گزرتے دن کے ساتھ بے چینی میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے یہ بلا وجہ نہیں اس کے پیچھے کچھ عوامل ضرور کام کر رہے ہیں جن کے کوئی مقاصد ہو سکتے ہیں۔حتمی اور مصدقہ اطلاعات نہیں تاہم مبینہ طور پر بہت ساری افواہیں اور باتیں گشت کرتی ہیں، کچھ قصے کہانیاں، سوشل میڈیا اور اخبارات میں بھی شائع ہو رہی ہیں اس سے بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ مختلف عوامل اپنے اپنے مفاد کے حصول میں سرگرم ہیں کس کی جیت ہوتی ہے اور کس کے مقاصد پورے ہوتے ہیں یہ وقت ہی بتائے گا لیکن ہڑتالیں اور ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ کسی جگہ وہ دانستہ یا غیر دانستہ استعمال تو نہیں ہو رہے۔

تاجروں کی ایکشن کمیٹی جو بنیادی طور پر ٹریڈ یونین ہے، عوام کے دو بڑے مسئلے لے کر عوام میں اتری خوش قسمتی سے اس کو سیاسی میدان خالی ملا اور عوام کا یہ مسئلہ حل کرانے میں کامیاب ہوئی، جن پر پاکستان کی سیاسی فرنچائز مرکز کی اجازت کے بغیر بات نہیں کر سکتیں تھیں۔ یہ ایک بڑا مسئلہ تھا۔ جو سہولت پاکستان کے عوام کو نہیں وہ ریاست آزاد کشمیر کے عوام کو مل گئی۔ سستے آٹے کا مسئلہ تو ممکن ہے کسی حد تک حل بھی ہو جاتا لیکن وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ محترم انوار الحق کی جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو بجلی تین روپے یونٹ کی فراہمی ہڑتالوں اور جلوس سے کبھی ممکن نہ ہوتی جس پر حکومت آزاد کشمیر کو 70 ارب روپے کا مالی خسارہ ہے۔ گویا انوار الحق کی فراخدلی سے حکومت 70 ارب روپے آزاد کشمیر کے عوام پر براہ راست خرچ کر رہی ہے جس سے ہر فرد فیض یاب ہو رہا ہے ۔ اسے قدرت کا انعام سمجھ کر شکر ادا کرنا چاہئے ورنہ پاکستان کے عوام انرجی کے حوالے سے آج جن مشکلات میں ہیں اس کے تصور سے ہی کلیجہ ہل جاتا ہے۔

آج بھی انوار الحق اس بات پر قائم ہیں کہ آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں ہر گز اضافہ نہیں کیا جائے گا ہم اخراجات میں کمی اور ریونیو میں اضافہ کر کے اس خسارے کو پورا کریں گے لیکن ایکشن کمیٹی کے ایک ذمہ دار کا کلپ سنا جس میں وہ باضد ہیں اور جس کا مفہوم یہ ہے کہ حکومت آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے والی ہے لہذا ہم ہڑتال کر رہے ہیں ۔ ممکن ہے قائد محترم کی اطلاع درست بھی ہو لیکن ردعمل تو عمل پر ہو گا اطلاع پر نہیں۔ عوامی مسائل پر بات کرنے سے ایکشن کمیٹی پر عوام کا اعتماد بحال اور بھرپور تعاون رہا جب کہ اب بھی آزاد کشمیر کی سیاست میں ایکشن کمیٹی زیر بحث ہے۔ اس کے باوجود ایکشن کمیٹی ٹریڈ یونین ہی ہے، جو سیاسی میدان میں داخل ہو چکی، اب ان کو فیصلہ کرنا ہے کہ ٹریڈ یونین تک محدود رہتے ہیں یا عوامی سیاست کی طرف آتے ہیں۔ اگر حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ ہر کوئی دائرہ اختیار میں رہ کر بات کرے تو جھگڑے میں اضافہ ہے ہونا ہے، ایسے میں وفاقی وزیر داخلہ کے جملے یاد آتے ہیں تو خوف آتا ہے کہ اس کے نتائج کتنے بھیانک ہیں۔ ابھی ایکشن کمیٹی کے مطالبات ہی پورے نہیں ہو رہے تھے کہ آل پارٹیز رابطہ کمیٹی 16 عدد چارٹر آف ڈیموکریسی کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔ جس نے ڈیمانڈ کو منظور کرنے کے لیے9 دسمبر کی تاریخ دی ہے گویا 10 دسمبر کو آزاد جموں و کشمیر میں پھر ہڑتال ہو گی ممکن ہے ڈیمانڈ کی منظوری کے لیے طاقت کا استعمال بھی ہو جو ریاستی طاقت کو اپنے اوپر چڑھائی کی دعوت دے ۔ کیوں کہ منتخب حکومت اور اسمبلی کو کیوں کوئی ختم کرے گا اور نہ ہی اس طرح معاہدہ کراچی اور 1974ء کا ایکٹ ختم کیا جا سکتا ہے ۔ 16 نقاط میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی سہولت کے لیے ایک نقطہ بھی نہیں رکھا گیا۔ نہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کا مطالبہ، نہ تحریک آزادی کو تیز کرنے کے لیے کوئی مشورہ حتی کہ 16 نقاطی مطالبات میں بھارت کی جیلوں میں بند سیاسی قیدیوں کے مسائل کو اٹھانے کی بھی کوئی بات نہیں۔ قوم پرستوں نے یاسین ملک کے مسائل پر بھی کوئی نقطہ شامل نہیں کیا کہ یاسین ملک کو بیماری کی حالت میں علاج معالجے کی سہولت بھی نہیں دی جا رہی اس کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اس صورت حال میں وسوسے اور خدشات پیدا ہوتے ہیں کہ اس کے پیچھے ماجرا کیا ہے بھارت کے لیے اتنی فراخدلی اور پاکستان کے ساتھ اتنی ناراضگی ۔ احتجاج ضرور کریں لیکن احتیاط شرط ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے خطہ حساس ہی نہیں جموں و کشمیر کے عوام کے لیے روشنی کا منبع ہے، اس کے انفراسٹرکچر کو باقی رہنا تحریک آزادی کشمیر کے لیے لازم ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں جب اندرونی خود مختاری ختم کی جا رہی تھی، اسی دوران پاکستان میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے اور آزاد کشمیر کے دو ٹکڑے کر کے پہنجاب اور خیبر پختون خواہ میں ضم کرنے کی " اک نوائے رفتہ کی بازگشت تھی" تب ہی راجہ فاروق حیدر خان نے خود کو آزاد جموں و کشمیر کا آخری وزیر اعظم ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس میں مبالغہ آمیزی بھی نہیں تھی، مبینہ طور پر دونوں جانب سے اعتماد سازی کے ساتھ یہ کام ہو رہا تھا۔ تاہم پاکستان میں کشمیریوں کے ہمدرد اور بہی خواہ ابھی بھی نظام میں موجود ہیں جن کا خیال ہے کہ آزاد جموں و کشمیر کا جھنڈا جموں و کشمیر کے عوام کا نشان اور ہمارے پاس امانت ہے جب تک یہ لہراتا رہے گا مودی مائنڈ سیٹ بے چین رہے گا۔ تاہم سازشی عناصر اپنا کام ابھی بھی کر رہے ہیں۔ مودی مائنڈ سیٹ کی اولین خواہش ہے کہ آزاد کشمیر کا نظام بھی لپیٹ دیا جائے۔ جس دن مظفرآباد کا انفراسٹرکچر ختم ہو گا مسئلہ جموں و کشمیر کا نام و نشان ہی مٹ جائے گا۔ راجہ فاروق حیدر خان نے پھر کہا کہ آزاد جموں و کشمیر میں غیر ضروری افراتفری سے یہاں کے نظام کو خطرہ ہے۔ اور کئی سنئیر سیاست دان بار بار متنبہ کر چکے کہ اس نظام کے باقی رہنے میں سب کا بھلا اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے اس میں نیک شگون ہے۔ لیکن ریاست میں افراتفری ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ بڑے سوچ بیچار کے ساتھ ہی آگئیں بڑنا چاہئے اور اپنے ہمدردوں اور بہی خواہوں کو مایوس نہیں کرنا چاہئے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ سیاسی مطالبات اور منشور سے دست بردار ہوا جائے لیکن شائستگی اور جمہوری اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر۔

مبینہ طور پر آزاد کشمیر کے سرکاری ملازمین دوکان داروں سے زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں تو پھر یہ نعرہ کیسے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ٹیکسوں پر پل رہے ہیں۔ پاکستان کے دو چار افسر آزاد کشمیر میں ضرور تعینات ہیں لیکن اس کا احساس بھی ہو کہ آزاد کشمیر کی محدود آبادی سے لاتعداد افراد پاکستان کے اعلی عہدوں پر فائز ہیں لیکن پاکستان کے کسی کونے سے یہ آواز نہیں آئی کہ یہ غیر پاکستانی ہیں یا کوٹہ سے زیادہ کیوں۔ مہاجرین جموں و کشمیر کی اسمبلی سے نشتوں اور ملازمتوں سے کوٹہ کے خاتمے کا مطالبہ کوئی کشمیری نہیں کر سکتا یہی نشستیں ہمیں مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ جوڑے ہوئے ہیں ۔ برحال آزاد کشمیر کے سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کا ایک ہی نقطہ نظر ہونا چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کا باعزت حل ہو اور منقسم ریاست کی بحالی اور اتحاد ہو وہ گال گلوچ بدتہذیبی اور بدتمیزی سے ممکن نہیں دشمن سے نمٹنے کے لیے دوستوں میں اضافہ کریں۔ پاکستان کی حکومتوں سے جو بھی اختلاف ہو اسے تدبر سیاست اور حکمت سے حل کریں اور جو کرپٹ اور نااہل سیاست دان معاشرے پر قابض ہو چکے ان سے عوام کی جان چھوڑانے کی حکمت عملی اختیار کریں۔ پاکستانی سیاسی فرنچائز سے جان چھوڑانے کے لیے مقامی سیاست کو مضبوط کریں جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر لبریشن لیگ بہترین پلیٹ فارم ہیں۔ یہ سب لڑائی جھگڑے سے ممکن نہیں۔ ہمیں خیال رکھنا چاہئے کہ
کوئی تو ایسا ہو جو تم کو بچائے تم سے
کوئی تو اپنا بہی خواہ سفر میں رکھنا

واپس کریں