بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
3 اپریل 1963 کو کشمیر میں پیدا ہونے والے معروف کشمیری علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک نے گزشتہ دو ہفتوں سے بھارتی حکومت کی ناانصافیوں کے خلاف تہاڑ جیل دلی میں بھوک ہڑتال کر رکھی ہے۔ یاسین ملک کے ساتھ انتظامی، سیاسی یا نظریاتی اختلاف کے باوجود تسلیم کرنا پڑے گا کہ جموں و کشمیر کا واحد حریت رہنما ہے جو ریاست کے ہر خطہ میں مقبول ہے۔ لیکن یاسین ملک کے چانے والے کبھی ایک پلیٹ فارم پر کھڑے نہیں ہوئے۔ جب کہ یاسین ملک نے اپنے مقصد کو پانے کے لیے ساری زندگی جدوجہد کی اور اس جدوجہد میں اس نے سخت مسائل، مشکلات اور مصائب دیکھے۔ جموں و کشمیر میں سیاسی مسائل، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، چیلنجوں اور ریاست کی واحدت، آزادی اور خود مختاری کو اجاگر کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کی جس کی پاداش میں اسے 30 سے زیادہ مرتبہ گرفتاریوں اور نظربندیوں سے گزرنا پڑھا۔ ان کے جسم کی ہڈیاں اسی جدوجہد میں ٹوٹی، اور اس کے اثرات چہرے پر بھی نمایاں ہوئے۔ مودی سرکار نے یاسین ملک کو جعلی مقدمات میں سزائے موت دے کر جان چھوڑانے کی سوچ بچار کی تھی پھر کسی سیانے نے مودی کو بتا دیا کہ یہ غلطی مت کرنا۔ مرا ہوا یاسین ملک زندہ یاسین ملک سے زیادہ خطرے ناک ہو گا۔ مودی سرکار نے اپنی سوج کو عمر قید میں تبدیل کیا اور بغیر کسی جرم کے تہاڑ جیل میں قید کر دیا۔ بظاہر تو یاسین ملک گوریلا لیڈر کے طور پر مشہور ہے لیکن اس طویل جدوجہد کے دوران یاسین ملک کو تجربہ کار سیاسی مدبر کی طرح مختلف چالیں چلنےاور پینترے بدلتے دیکھا گیا۔ کئی جگہ اس نے دوست نما دشمنوں سے دھوکہ بھی کھایا اور اسے دوستوں کی بے وفائی کا سامنا بھی رہا ۔ اس نے اپنی سیاست یا جدوجہد کا آغاز اس وقت کی بر سر اقتدار پارٹی نیشنل کانفرنس کے خلاف ایک طلبہ لیڈر کے طور پر کیا۔ وہ قوم پرستی کا پرچار کرتا تھا، لیکن 1987ء کے انتخابات میں امیرا کدل سے مسلم یونائٹڈ فرنٹ کے امیدوار محمد یوسف شاہ کی حمایت کی جو خالصتا پاکستان نواز ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلح جدوجہد کی وجہ بھی یہی انتخابات بنے تھے جہاں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی۔۔ مسلح جدوجہد میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جس کی قیادت اس وقت "حاجی" کے نام سے مشہور تھی۔ حاجی کوئی ایک فرد نہیں بلکہ چار حریت پسند نوجوانوں کے گروپ کا نام تھا جن میں حامد شیخ، اشفاق احمد وانی، جاوید احمد میر اور یاسین ملک شامل تھے۔ ان چاروں نوجوانوں کے نام کے پہلے حرف کو جوڑیں تو "حاجی" بنتا ہے۔ آئی جی کشمیر کے گھر پر حملے سے یہ گروپ جموں و کشمیر کے افق پر نمودار ہوا اور بھارت کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی صاحب زادی رابعہ سعید کے اغواء سے حاجی کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ حاجی کی قیادت میں مسلح جدوجہد میں خاصی تیزی آئی بین الاقوامی برادری بھی متوجہ ہوئی اور بھارت پسپائی کے دہانے پر آ پہنچا تھا لیکن بدقسمتی سے کشمیریوں کے ہمدرد نے مذہبی متنوع ریاست میں مولویوں کی شکل میں جہاد داخل کر دیا۔ جس سے نہ صرف ریاست کی 40 فیصد سے زیادہ آبادی بھارت کی طرف چلی گئی بلکہ جہادیوں نے اندرون وادی خون خرابہ بھی کیا۔ کشمیریوں کی اصل نسل پنڈتوں کی ہجرت سے بھارت کو مسلح جدوجہد کو دہشت گردی کہنے کا موقع ملا بلآخر وہ بین الاقوامی برادری کو قائل کرنے میں کامیاب ہوا۔ حاجی گروپ کو دوسرا دھچکہ اس وقت لگا جب وہ تحریک آزادی کو پی ایل او طرز پر متعارف کرانے کی کوشش کر رہا تھا تاہم امان اللہ خان کی متوازی حکومت کے اعلان نے تمام شہرت اور مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکال دی جس سے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ دو گروپوں میں تقسیم ہوئی۔ راولاکوٹ کے سردار رشید حسرت جو مقبول بٹ کے ساتھ کام کر چکے تھے ایک بھاری عددی تعداد کے ساتھ امان اللہ خان سے الگ ہوئے۔ اس سے یاسین ملک کو پارٹی میں نمایاں ہونے کا تو موقع ملا لیکن حاجی کو یہ شہرت زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی، رفتہ رفتہ حاجی کا زور ختم ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ دو شہید ہوئے اور دو جماعت کو تقسیم کر کے اپنے اپنے گروپ کے سربراہ بن گئے۔ سیاست اور شہرت کی دوڑ میں یاسین ملک سب سے آگے نکل گیا اور سب سے زیادہ دکھ و تکلیفیں بھی اسی کے حصے میں آئیں۔ یاسین ملک پر بیرون ملک علاج کرانے میں را کے ساتھ اور پاکستانی شہری کے ساتھ شادی کرنے پر آئی ایس آئی کے ساتھ رابطوں کے الزامات بھی لگے اور گئی دیگر سنئیر ساتھ جماعت چھوڑ گئے جو آج دنیا کے نقار خانوں میں طوطی کی آوازیں نکالتے ہیں ۔ یاسین ملک کی ہر گرفتاری میں کوئی نہ کوئی تبدیلی رونما ہوتی رہی۔ 1994ء میں جب انہیں گرفتار کیا گیا تو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے تشدد کی بجائے امن کا راستہ اختیارکر کے "گاندھین" بنے اور سہ فریقی مذاکرات کی حمایت کی ۔
1999ء اور 2002ء کی گرفتاری کے بعد انہوں نے دنیا بھر کے رہنماؤں سے ملاقات اور کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بین الاقوامی برادری سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جو مناسب طریقہ کار تھا۔۔ 2007ء میں "سفر آزادی" کے نام سے لوگوں سے ملاقات اور دستخط کی مہم شروع کی تو بھارت نے اس مہم کو حکومت کے خلاف نفرت پیدا کرنے سے تعبیر کیا۔ یاسین ملک نے 2013ء میں 'لشکر طیبہ' کے سربراہ حافظ محمد سعید کے ساتھ سٹیج شیئر کیا تجزیہ نگاروں نے ایسے یاسین ملک کی سب سے بڑی سیاسی غلطی قرار دیا، جس کا یاسین ملک اور اس کی پارٹی کو نقصان ہوا۔ بھارت کی سول سوسائٹی جو یاسین ملک کی نظریہ کو کسی حد تک حمایت کرتی تھی کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ یاسین ملک نے ممبئی بم دھماکوں کے "ماسٹر مائنڈ" سے ہاتھ ملایا ہے۔ تاہم علی گیلانی اور میرواعظ جیسے پاکستان نواز قائدین سے خود اور اپنے نظریات کو تسلیم کرانا یاسین ملک کی کامیاب حکمت عملی تھی۔ آخری بار یاسین ملک کو 22 فروری 2019 کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار اور سات مارچ کو انھیں جموں کوٹ بلوال اور بعد ازاں تہاڑ جیل منتقل کیا گیا۔ انہوں نے اپنے مقدمہ کی پیروی سے انکار کیا اور عدالت نے انہیں نہ کردہ گناہ کی سزا موت دے دی۔ یاسین ملک تہاڑ جیل کی کال کوٹھڑی میں ہیں۔ کوئی مضبوط بین الاقوامی تحریک نہ ہونے کے باعث رہائی کے امکانات معدوم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ تاہم جموں و کشمیر کی صورت حال نے پوری دنیا میں شدید بحثیں چھیڑ رکھی ہیں خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے صاف گو عالمی رہنماوں کے اقتدار میں آنے سے جو جنگوں سے کنارہ کشی اور بات چیت کے فروغ کا نعرہ لگاتے ہیں کشمیریوں کے مسائل نے جذبات کو ہوا دی ہے کہ مودی کا دوست انصاف پر مبنی فیصلہ کرنے میں کشمیریوں کے مسائل کو مند نظر رکھے گا جو ان سے کما حقہ واقف ہے۔ ان مسائل کی پیچیدہ داستان کے مرکز میں یاسین ملک ہیں، ایک ممتاز علیحدگی پسند رہنما جس کی حراست نے انسانی حقوق، قانون، اخلاقیات اور کشمیری قوم کی سالمیت کے بارے میں اہم سوالات پیدا کئے ۔ اختلاف رائے کو دبانے کی بھارتی کوشش کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی تنظیموں نے پہلے ہی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یاسین ملک اور دیگر کشمیری رہنماوں کی نظربندی اس تنقید کا اہم واقعہ ہے۔ ان کی رپورٹس میں درج ہے کہ یاسین ملک اور دیگر رہنماؤں پر لگائے گئے الزامات سیاسی ہیں اور ان کا مقصد حریت کو خاموش کرانا ہے۔ جس سے انفرادی آزادیوں اور بھارت میں قانون کی حکمرانی کے بارے میں سنگین خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ بھارت کا یہ عمل انسانی حقوق کے تشویش ناک صورت حال کو سامنے لاتا ہے۔ یہ ایسی مثال ہے جہاں سیاسی اختلاف کو جرائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کو سوچنا چاہئے کہ یاسین ملک کی نظربندی کے خطہ پر اہم سیاسی اثرات پڑھیں گے جو خطے کے ممالک کے درمیان اختلاف کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کو متاثر کر سکتے ہیں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ یاسین ملک صرف کشمیری شناخت ہے اور آزادی کشمیر کی جدوجہد کو مجسم بناتا ہے۔ بلکہ یاسین ملک کے مطالبات کشمیریوں کے دل کی دھڑکن ہیں جو محسوس کرتے ہیں کہ خطے میں جاری تنازعات اور عسکریت پسندی سے چھٹکارہ مسلہ کشمیر کے آبرمندانہ حل میں مضمر ہے۔ یاسین ملک کے معاملے میں ہندوستانی حکومت کی حکمت عملی سے جوابی کارروائی کا خطرہ موجود اور ممکنہ طور پر کشمیری نوجوانوں میں زیادہ اختلافی ہوا دیتا رہےگا۔ حق خود ارادیت جس کو کشمیری پیداشی حق سمجھتے ہیں کی وکالت کے جرم میں یاسین ملک کی گرفتاری مزاحمت کی علامت کے طور پر اس کی حیثیت کو مستحکم کرتی ہے، جو کشمیریوں اور خاص طور پر اس کے حامیوں کے درمیان علیحدگی پسندانہ وجوہات کے لیے اٹھنے والی پکار کو متحرک کرتی رہے گی۔ عالمی برادری یاسین ملک کے ساتھ ہونے والی زیادتی سے باخبر ہے ۔ انسانی حقوق کی متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے کشمیر میں من مانی نظربندیوں پر تحفظات کو اجاگر کرتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی بین الاقوامی جانچ بھارت کی اندرونی غیر منصفانہ پالیسیوں کو اجاگر کرتی ہے اور اختلاف رائے کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے فوری بات چیت کا آغاز کرنے پر زور دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، اقوام متحدہ کا چارٹر انسانی حقوق کے تحفظ کی اہمیت دیتا ہے، خاص طور پر کشمیر جیسے متنازع علاقوں میں غیر سرکاری تنظیموں کی رپورٹوں میں غلط حراستوں اور اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے ریاستی تشدد کے واقعات کو دستاویزی شکل دی گئی ہے، جس سے ہندوستانی حکومت کے اقدامات پر عالمی سطح پر مذمت ہونا چاہئے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یاسین ملک کا مقدمہ کشمیر میں انسانی حقوق اور سیاسی آزادی کے حامیوں کے لیے اہم موڑ کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ ہندوستانی حکام کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ جبر کے بجائے بات چیت کی طرف بڑھتے ہوئے اختلاف رائے کے طریقوں پر نظر ثانی کریں۔ جموں وکشمیر کے ہر خطے کے عوام کو یاسین ملک کا ہم آواز ہونا چاہیے، یہی نظریہ خطے میں امن کی طرف نئی راہیں ہموار کر سکتا ہے۔ جمہوری ذرائع سے سیاسی اظہار کو پنپنے کی اجازت دینا بہت ضروری ہے۔ جموں و کشمیر میں جاری جبر نہ صرف دو کروڑ انسانوں کی آزادی کو سلب کرتا ہے بلکہ کشمیر کے ارد گرد خطے میں دیرینہ تنازعات کو مزید خراب کر سکتا ہے جس سے امن کے خواب کی تعبیر نہیں نکل سکتی۔ دنیا کے حکمرانوں کو سامنے آ کر بھارت کو سمجھانا چاہئے کہ یاسین ملک کی آواز کشمیریوں کے حقوق اور خود ارادیت کے لیے جاری جدوجہد کا ایک اہم پہلو ہے۔ اس کے خلاف الزامات خطے میں شہری آزادیوں اور انصاف کے بارے میں اہم مسائل کو جنم دے رہے ہیں۔ بھارت کا یہ عمل اختلاف رائے کے خلاف بھارتی حکومت کا غیرقانونی زیرِقبضہ جموں کشمیر پر سخت گیر موقف کو واضح کرتا ہے جسے معزز دنیا قبول نہیں کرتی تو صرف کشمیر ہی میں خاموشی کیوں ۔ یاسین ملک کی نظربندی کے اثرات دور تک پھیلے ہوئے ہیں جو سیاسی اور سلامتی کی جدوجہد میں الجھے ہوئے ان گنت کشمیریوں اور ان کے ہم خیال دیگر خطوں کے افراد کو متاثر کرتے ہیں۔ تاہم امید ابھی بھی باقی ہے کہ بات چیت بالآخر جبر پر فتح حاصل کرے گی، اور مسلہ کشمیر کو منصفانہ اور پرامن مستقبل کی طرف لے جائے گی۔ کیوں کہ یاسین ملک کا بیانیہ صرف ایک فرد کی آواز کی عکاسی نہیں کرتا، بلکہ خطے کے سیاسی تنازعات کے پیچیدہ مسائل کے درمیان آزادی، انسانی حقوق اور انصاف کے وسیع تر حصول کی آواز ہے۔ یاسین ملک اور دیگر کشمیری اسیران کی قید دنیا کو یاد دلاتی ہے کہ کشمیر کی آزادی اور حق خود ارادیت کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔ آگے کا راستہ ابھی بھی چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ چیلنج صرف کشمیریوں کے لیے ہی نہیں خطے کے اربوں انسانوں کے لیے جن کی سلامتی اور امن اس سے وابستہ ہے۔ آخر میں کشمیریوں اور خاص طور پر یاسین ملک کے چاہنے والوں اور کارکنوں کے لیے کہ ان کا کام صرف پاکستان اور بھارت کو گالیاں دینے سے نہیں بنے گا بلکہ اس اہم کام کو جاری رکھنے کے لیے بین الاقوامی برادری کا تعاون بہت ضروری ہے۔ یہ کام کوئی مدبر، متحرک اور سنجیدہ قیادت کے بغیر ممکن نہیں جو بدقسمتی سے کشمیری اور خاص طور پر لبریشن فرنٹ پیدا نہیں کر سکی۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے تمام دھڑوں بلکہ آزادی اور خود مختاری کی بات کرنے والے ہر فرد کے لیے ضروری ہے کہ ایک لڑی میں پرو جائیں اس عمل کو مضبوط کرنے کے لیے، ہر فرد کو اپنے حصے کا کام انجام دینا چاہئے جائے وہ ادنی سا کارکن ہی کیوں نہ ہو۔ یاد رہے کہ ہر عمل، خواہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، انصاف اور انسانی حقوق کی وسیع تر لڑائی میں حصہ ڈالتا ہے۔
واپس کریں