اسو۔ثقافتی، اقتصادی اور تاریخی روایات، بکرمی تقویم کا چھٹا مہینہ
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
جب یہ کالم لکھا جا رہا ہے 29 ستمبر 2024ء اور 17 اسو2081 ب ہے۔ کلینڈر میں "ب" سے مراد بکرمی لیا جاتا ہے جو برصغیر کا اپنا اور دیسی تقویم ہے۔ بکرمی تقویم کے مطابق اسو سال کا چھٹا اور سردیوں کا پہلا مہینہ ہے جس کی سنہری ثقافتی، اقتصادی اور تاریخی روایات ہیں جو برصغیر اور خاص طور پر جموں و کشمیر کے عوام کے لیے لوگ ورثہ تاریخ اور ہیریٹیج سے کم نہیں۔آج کا کالم اسو کی رونق میلے، لیتریاں، کھائیاں، راشن جمع کرنے کے طور طریقوں اور 50 سال قبل اس ماہ کے دوران باہمی اشتراک و اتحاد کے مثالی منظر نامے پر لکھنے چا رہا ہوں جو آج کی نسل کے لیے عجوبہ سے کم نہیں جس کے بارے میں اس زمانے میں ایک محاورہ زبان زد عام ہوتا تھا کہ " اسو کے رنگ نرالے۔ دن کو دھوپ رات کو پالے۔" لیکن پہلے تقویم بکرمی کے بارے میں جس کو زمانہ بھولتا جا رہا ہے۔
آج دنیا میں راج الوقت تقویم میں بکرمی سب سے قدیم ہے جو عیسوی سے بھی 57 برس قبل راجہ بکرم اجیت نے اپنی پیدائش کے روز سے جاری کیا۔ راجہ بکرم اجیت کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ وہ 102ق م سے 15ء تک اوجین کا طاقت ور بادشاہ رہا۔ اوجین بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کا ایک چھوٹا سا ضلع ہے۔ اسے مندروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے ۔ جس کا کل رقبہ 152 کلومیٹر اور 2011 کی مردم شماری کے مطابق آبادی 515,215 ہے۔ یہاں اجین کی تفصیل بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جو خطہ آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے آج اتنا چھوٹا ہے سو سال قبل مسیح میں اس کی کیا صورت حال ہوئی ہو گی اور اس کے حاکم کا ویژن کتنا بڑا تھا کہ اس نے کلینڈر جاری کیا، اور وہ آج بھی برصغیر کے لگ بھگ دو ارب افراد پر تقویم کے باعث حکومت کر رہا ہے۔ راجہ بکرم اجیت کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں کہ وہ علم، بہادری اور سخاوت کے لیے پورے خطے میں شہرت رکھتا تھا۔ ہندوستانی تاریخ میں بعد میں آنے والے بہت سے بادشاہوں نے اس کی نسبت سے لقب اختیار کیا۔
بکرم اجیت کی اولاد کے لوگ آج بھی بھارت میں کاہلوں کہلاتے ہیں۔ اجین میں بکرم اجیت خاندان کی حکومت کو سری نگر کشمیر کے بانی راجہ پرورسین نے 600۔550ء میں حملہ کر کے ختم کیا جب وہاں شلادتیہ پرتاپ شیل راجہ تھا۔ اس تقویم کو دیسی، ہندی، پنجابی، سرائیکی کیلنڈر، دیسی سال اور جنتری کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے، لیکن اصل نام بکرمی کیلنڈر ہی ہے تاہم برصغیر کے مختلف علاقوں میں مختلف نام دیئے جاتے ہیں جس کا پہلا مہینہ بیساکھ ہے۔ بعض جگہوں پر چیت کو پہلا ماہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ تاہم آدھی صدی قبل تک برصغیر بھر میں اور آج کے دونوں پہنجاب میں یکم بیساکھ کے تہوار بیساکھی کو جس خوشی اور عقیدت سے منایا جاتا ہے اس سے اندازہ تو یہی ہوتا ہے کہ یہ سال کے آغاز کا جشن ہے، جو زمانہ قدیم سے جاری ہے۔ جیسے 31 دسمبر کی رات گزرے سال کو الودع اور نئے سال کو خوش آمدید کے طور پر منایا جاتا ہے اسی طرح مختلف علاقوں میں بیساکھ کے تہوار کو بھی بڑی خوشی سے منایا جاتا ہے۔۔ بچپن میں جب ہم گاوں کی صورت میں بند وادیوں میں رہتے تھے، پہلی بیساکھ کو ان دیکھی خوشی ہوتی تھی جب ماں جی کہتی کہ آج پہلی بیساکھ ہے۔
نانا، دادا اور ان کی عمر کے بوڑھوں کو اسلامی اور عیسوی کیلنڈر کے مہینوں کے نام یاد ہوں یا نہ ہوں، بکرمی کیلنڈر کے مہینوں کے نام اور درست تاریخ یاد رہتی تھی۔ خاص طور پر سردیوں کے دنوں میں جب گھٹنے گھٹنے برف پڑتی بابے گن گن کر دن گزارتے کہ آج پھاگن کی اتنی تاریخ ہے ماہ ڈیڑھ ماہ اور گزر جائے بیساکھ چڑھ جائیں تو سال اور جی لیں گے۔۔ اس زمانے میں بیساکھ زندگی کی علامت سمجھا جاتا تھا کہ آگئیں بہار کا موسم شروع ہو گا پہاڑوں اور مرگوں پر سے برف پگلے گی بنیں، ٹہاکے میں ہریالی اور جنگلات، کھیتوں میں پھول کھلیں گے۔۔ زمین سے جڑی بوٹیاں مشروم( کوگتھو) اگئیں گئے کونپلیں پھوٹیں گی اور پھول کھلیں گے۔۔ جموں و کشمیر کا یہی موسم مثالی ہے جہاں رونقیں، بہاریں اور خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی ہیں ۔ ورنہ چلہ کلاں یا کالیاں راتیں زندگی اور موت کی کشمکش میں گزتی۔ کمزور اور بھوڑے جو اکثریت موسم کی سختیاں برداشت نہیں کرتے ان کا انتقال زیادہ طرح اس موسم میں ہوتا۔
بکرمی کیلنڈر کے بھی 365 دن ہوتے ہیں۔ 9 ماہ 30 دنوں کے بیساکھ31 دن جیٹھ اور ہاڑ 32 دن کے ہیں۔ بکرمی اور عیسوی کا موازنہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ یکم بیساکھ - 13 اپریل، یکم جیٹھ - 14 مئی، یکم ہاڑ - 15 جون، یکم ساون - 17 جولائی، یکم بھادروں - 16 اگست، یکم اسوج - 15 ستمبر، یکم کاتک - 15 اکتوبر، یکم مگھر - 14 نومبر، یکم پوہ - 14 دسمبر، یکم ماگھ - 13 جنوری، یکم پھاگن - 12 فروری، یکم چیت - 14 مارچ ہے۔ ھجری تقویم چوں کہ چاند کے ساتھ منسلک ہے لہٰذا بکرمی اور عیسوی کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ بکرمی مہنوں کے مختلف علاقوں میں زبان کے لہجے کی تبدیلی سے مختلف نام ہیں۔ بیساکھ، وساکھ، ویساکھ، وساخ، وسیوک۔ اس ماہ کا موسم گرم سرد، مِلا جُلا ہوتا ہے یہ گرمیوں کا پہلا مہینہ ہے جہاں سردیوں کے بھی کچھ اثرات باقی ہوتے ہیں۔ جیٹھ گرم ماہ ہوتا ہے جب کے نشیبی علاقوں میں لُو چلنے لگتی ہے ۔ہاڑ، ہاڑھ، اساڑھ، آؤڑ ،گرم مرطوب ماہ ہوتا ہے اور اسی ماہ کے دوران مون سون کا آغاز ہوتا ہے۔ ساون، ساؤن، وأسا کے دوران حبس، گرمی اور مکمل مون سون ہوتا ہے۔ ساون کی مینہ کے قصے کہانیوں اور شاعری سے کتابیں بھری پڑی ہیں
"ترے پیام ہی سے سرخ ہو گیا ہے بدن
کہ مینہ پڑا نہیں ہے کھل اٹھے کنول پہلے"
" بھولا پھرے کیسان کاتک مانگے مینہ" وغیرہ وغیرہ۔ بھادوں، بدرو، بدرا، بھادروں، بھادری یہ معتدل اور فصل پکنے کا مہینہ ہوتا ہے اس ماہ میں ہلکی مون سون بارشیں ہوتی ہیں۔ اسو، اسوں، اسوج، آسی۔ معتدل موسم دن کو گرمی رات کو سردی، اس ماہ کو سردی گرمی کی کشمکش یا کھیچا تانی بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم پچھلی صدی تک یہ بہت ہی اہم ماہ ہوتا تھا۔ کاتک، کَتی، کاتئے سردیوں کا آغاز ہو چکا ہوتا ہے تاہم کشمیر کے بعض علاقوں میں اس ماہ کے دوران ہلکی سردی جب کے پہاڑوں پر برف گرنا شروع ہو جاتی ہے۔ مگھر، منگھر سرد موسم ہوتا ہے کشمیری چائے، کانگڑھی کا موسم شروع ہوتا ہے۔ پوہ سخت سردی کا مہینہ ، وادی کشمیر میں چلہ کلاں اور پیر پنجال میں کالیاں راتیں شروع ہوتی ہیں۔ ماںا، ماگھ، مانگھ، مانہہ، کُؤنزلہ سخت سردی، دھند برف باری۔ پھاگن، پھگن، سردی کی شدت میں کمی ہونا شروع ہوتی ہے، سرد خشک ہوائیں چلتی ہیں اور بہار کی آمد کی نوید ہوتی ہے۔ چیت، چیتر سال مکمل اور بہار کا موسم شروع ہوتا ہے۔ برف پگلنے لگتی ہے اور زمین ہری درختوں پر پھول اور کونپلیں پھوٹنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بکرمی تقویم میں ایک دن یعنی 24 گھنٹوں کے آٹھ پہر ہوتے ہیں۔ جب کہ ہر پہر دو سے چار گھنٹے کا ہوتا ہے۔ آج کی جدید گھڑی کے مطابق ہر پہر کو تین گھنٹوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ وقت کو "ویلا" کہتے ہیں ۔
دھمی نا ویلا یا لوئی والا ویلا صبح کے اوّلین لمحات، جس کو پو پھوٹنا کہتے ہیں، نماز فجر سے تھوڑی دیر پہلے۔ " پو پھوٹنے میں وقت ہے جانا ہے مجھ کو دور۔ ۔۔۔ سورج سے پہلے گھر سے نکلنے لگا ہوں میں" پو پھوٹنے سے 9 کے درمیان کا وقت لوئی والا ویلا ہے۔ دوپاراں نا ویلا۔۔ 9 بجے سے دوپہر 12 بجے تک کا وقت ہے۔ پیشیہ نا ویلا، دوپہر کے 12 سے 3 بجے سہ پہر تک کا وقت۔ دیگری نا ویلا سے مراد سہ پہر 3 سے شام 6 بجے تک کا وقت۔ نماشاں نا ویلا، نماز مغرب سے تھوڑا پہلے سے نماز عشاء کے اولین وقت تک۔ کفتاں نا ویلا، نماز عشاء سے رات 12 بجے تک کا وقت۔ ادھی رات نا ویلا، رات 12 بجے سے سحر 3 بجے تک کا وقت۔ پچھلے پہر نا ویلا، سحر سے تھوڑا پہلے سے صبح ہونےتک کا وقت۔ آج ہم بکرمی کیلنڈر کے مطابق اسو کی 17 تاریخ میں ہیں اور اسو اپنی بہار سے نکل کر خزاں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس مہینہ کی بڑی روایات ہیں جو ثقافت، اقتصادیات، محنت، جفاکشی کے ساتھ ہماری تاریخ سے جڑی ہوئی ہیں، جن کا میں خود اور ہماری ہم عمر نسل راوی ہے۔
50 سال قبل جب ہم نے کشمیر چھوڑا تو اس وقت ہم 14 سال کے تھے اور اسو کی کئی بہاریں دیکھ چکے۔ امی ابو کے ساتھ شانہ بشانہ کھتوں میں کام کرنا اور روایات پر پورا اترنا ہمارا خاصا تھا، جو ذرا ذرا ہمیں یاد ہے۔ اعلی تعلیمی ادارے، کراچی کی چکا چوندھ روشنیاں، پرتعیش اور مرغ و متنجن زندگی بھی اسو کی بہارو اور سختیوں کو نہیں بھلا سکی۔ جب ہم جانوروں اور انسانوں کا آئندہ چھ ماہ کے لیے خوراک اور غلہ جمع کرنے کی خاطر جنگی بنیادوں پر کام شروع کرتے تو کام میں جتے دن رات ایک ہو جاتا خبر نہ ہوتی کہ رات کب شروع ہوئی اور دن کب ختم ہوا۔۔ دن کا گھاس کاٹنا اور گھاس کو باندھنے کے لیے رات کو گھاس ہی کی رسیاں بنانا روز کا معمول ہوتا۔اور یہ سارا کام 20 اسو سے پہلے ختم کرنا ضروری ہوتا۔آسو کے پہلے دس دن شدید گرمی ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ جانور اور انسان سایہ ڈھونڈتے۔ درخت تو دور دور تک ہوتے نہیں تھے کہ ان کے سائیہ میں گھاس اور فصل تباہ ہو جائیں گے۔ گھاس کاٹتے دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے جگہ کا پہلے سے تعین کیا جاتا، جہاں کسی کونے میں کوئی درخت یا سائیہ ہوتا۔ وسائل نہ ہونے کے باعث کسی مزدور کا تصور بھی محال تھا، بلکہ یہ تو سوچ میں بھی نہیں آتا کہ اسو کے کام کے لیے مزدور کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ عورت مرد چھوٹے بڑے سب مل کر کام کرتے البتہ لوگوں کے درمیان اشتراک عمل بہت مضبوط ہوتا۔ لیتری یا کھائی اسو کا خوبصورت روایتی اور ثقافتی پروگرام ہوتا جہاں درجنوں افراد مل کر ایک کھیت سے کھاس گاٹتے پھر دوسرے یا تیسرے کھیت سے، جس زمیندار کے کھیت بڑے اور کھاس زیادہ ہوتی دیگر گاوں والے رضاکارانہ اس کی مدد کو پہنچتے۔۔ فصل عورتیں کاٹتی۔ جس عورت کی بھابھیاں کثرت سے ہوتی اس کے تو مزے ہی مزے۔ میں نے اپنی ممانیوں کو ہر مشکل وقت میں امی کے پاس کھڑے دیکھا۔۔مکئی کاٹنا ہو یا چھیلنا، مکان کی لپائی ہو یا کوئی دوسرا کام ہماری چھوٹی دونوں ممانیاں امی کے پاس موجود رہتی جن کے گھر ہمارے پڑوس پر تھے۔
اسو کا ہر لمحہ اپنے اندر محنت و عظمت کی ایک پوری داستان رکھتا ہے۔ غلہ کو جمع کرنا، سوکھانا اور سنبھالنا مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور یہ سارے کام صرف ایک ماہ کے مخصوص دنوں میں کرنے پڑتے۔ 25 تاریخ تک ٹھنڈی بارش برستی، اس کے بعد سردی کا آغاز ہوتا ہے۔ بارش کے ساتھ ہلکی آندھی فضا میں خنکی پیدا کرتی جس سے موسم خزاں کا احساس ہونے لگتا۔ درختوں کے ہرے پتے پیلے پڑتے اور پھر ہوائیں ان کو لے اڑتی۔ درختوں کی ٹہنیاں گنجی اور زمین پتوں سے زرد ہو جاتی یہ زمین کا وہ چکر ہے جو انسانی زندگی کو آگئیں لے جاتا ہے یعنی خاتمے کی طرف۔ ایسے موسم میں دور کسی پہاڑ پر گوالے کی بانسری کی دھن اور کسی شوقیا فن کار کی آواز میں صوفی شاعر میاں محمد بخش کی شاعری کی ترنم بھری پر اثر آواز حساس دل انسان کا کلیجہ نکال دیتی۔ اسو کی ٹھنڈی اور تیز ہوائیں فصلوں کو الٹ پلٹ دیتی تھیں جب کہ بدلتے موسم کے خوبصورت رنگین نظارے بالکل نئے احساسات اور نئی امنگ پیدا کرتے تھے۔ گزرتے اسو میں عجیب اداسی کا سماں اور دیہات کی زندگی میں ٹھیراو پیدا کرتا تھا۔ جو باثر اور رشتے ناتوں کے حوالے سے تگڑے ہوتے وہ اسو ختم ہونے کے ساتھ ہی کام بھی ختم کر دیتے اور فخریہ ایسوں پر تبرہ بھیجتے جن سے کام ختم نہ ہوا ہو۔
اسو ختم ہوتے ہی سردی آتی اور سب کچھ ٹھہر جاتا جیسے رواں دواں زندگی اچانک رک گئی ہو۔ اس نسل کے سامنے یہ سب کچھ جھوٹ ہی لگتا ہے کہ کبھی کسی زمانے میں ایسا بھی ہوتا تھا۔۔لیکن یہ سچ ہے کہ بکرمی تقویم میں بہت کشش اور اسو ثقافتی، تاریخی اور اقتصادی لحاظ سے بہت اہم مہینہ تھا، لیکن اب نہ بیساکھ کی کوئی اہمیت ہے نہ اسو کی افادیت ۔ اگر اہمیت ہے تو یورپ کی امریکہ، کینیڈا کی اور اگر وہاں تک پہنچ نہیں تو پھر مشرق وسطی کی جہاں سارے اسو کا مال متاح ایک ماہ میں مل جاتا ہے۔ ان کچے مکانوں کے سچے مکین اور وہ محبت و ایثار کے پیکر لوگ رہے نہ وہ زمانے۔ سب کچھ بدل گیا حتی کہ رشتے ناطے اور قریبی رشتوں کے رویے بھی بدل گئے۔ طبقاتی نظام قائم ہو چکا جس کا اس زمانے میں تصور تک نہیں تھا۔۔۔ آج کی نسل اس زمانے کو چپڑ قناتی یا دقیانوسی کہتی ہے اور آج کے زمانے کو جدید و ماڈرن لیکن دقیانوسی زمانے کے گھٹ بندن اور روایات تاریخ کے سنہرے دور کی علامتیں لوگوں کے ذہنوں پر نقش رہیں گی جب جب تاریخ کے ورق کھلیں گے۔
واپس کریں