دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایران اسرائیل جنگ ؟
عمرفاروق۔آگہی
عمرفاروق۔آگہی
ایران نے اس سال 13اپریل کوتین سومیزائل اسرائیل پرداغے تھے اوراب یکم اکتوبرکوچارسومیزائل اسرائیل پربرسائے عالمی میڈیاکی رپورٹ کے مطابق ا ن حملوں میں اسرائیل کاکچھ نقصان نہیں ہوا،اس کے مقابلے میں یکم اکتوبرکوہی دوفلسطینی جانبازوں نے جافاپرحملہ کیا اورایک درجن کے قریب اسرائیلی ہلاک کردیا ۔سوال یہ ہے کہ آخر ایران کے پاس ایسے کون سے میزائل اور راکٹ ہیں جو عراق پر گرتے ہیں تو سینکڑوں مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں ، شام پربرستے ہیں تو لاکھوں مسلمانوں کو پلک جھپکتے ہی شہیدکردیتے ہیں ، شہرکے شہر تباہ کردیتے ہیں ،گائوں قبرستان میں تبدیل کردیتے ہیں ،پاکستان پر یہ میزائل لگتے ہیں تومعصوم بچوں کوموت کی آغوش میں سلادیتے ہیں ۔غرضیکہ یہ میزائل اورڈرون مسلم ممالک پر توقہر برپا کرتے ہیں لیکن جب یہی میزائل اسرائیل کارخ کرتے ہیں تو ایک یہودی بھی مردار نہیں ہو تا؟ اسرائیل کے کسی راہ چلتے شہری کوگزندبھی نہیں پہنچتی ۔آخرکیوں ؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ کیاایران عسکری ،افرادی اوررقبے کے اعتبارسے اسرائیل سے کمزورہے ؟اس کاجائزہ لیں تویہ بات بھی درست نہیں لگتی ۔ایران کارقبہ 1648195 مربع کلومیٹرہے اوراس کی آبادی 9کروڑسے زائدہے جبکہ اس کے مقابلے میں اسرائیل آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بہت چھوٹا ہے۔اسرائیل میںصرف 93 لاکھ لوگ بستے ہیں۔غاصب اسرائیل کا رقبہ محض ساڑھے بیس ہزار مربع کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہے۔ دنیا کے سکہ بند دو سو ممالک میں بہ لحاظ رقبہ اسرائیل کا 153 واں نمبر ہے۔اس چھوٹے سے ملک پرآپ چارسومیزائل برسائیں اوراس کاپتہ بھی نہ ٹوٹے تواس کامطلب ہے کہ یاتوآپ کاحملہ جعلی ہے یاپھراس کادفاع مضبوط ہے ۔یادال میں کچھ کالاہے ۔ حالیہ حملے کے بعدیران کے پاسدارانِ انقلاب نے دعوی کیا ہے کہ اس کے 90 فیصد میزائل اپنے اہداف تک پہنچے میں کامیاب رہے اگران کایہ دعوی درست مان لیاجائے توپھراسرائیل کوتواس وقت تک صفحہ ہستی سے مٹ جاناچاہیے تھا ؟

ایران اور اسرائیل کے درمیان تقریبا 2152 کلومیٹر کا زمینی فاصلہ ہے اور ایران نے وہاں تک اپنے میزائل پہنچا کر یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ ایران اسرائیل کونشانہ بناسکتاہے اس سے پہلے یہ سوال کیاجاتاتھا کہ آیاایران اسرائیل کونشانہ بناسکتاہے کہ نہیں ۔ جہاں تک عسکری طاقت کے موازنے کاتعلق ہے تو ایران کے پاس 3ہزارسے زیادہ' بیلسٹک میزائل ہیں۔دوسری جانب اس بات کی کوئی حتمی تصدیق نہیں کہ اسرائیل کے پاس کتنے میزائل ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ مشرق وسطی میں اگر کسی ملک کے پاس جدید ترین میزائلوں کا ذخیرہ ہے تو وہ اسرائیل ہے۔اس کے علاوہ اسرائیل کئی ملکوں کو میزائل برآمد بھی کرتا ہے۔اسرائیل کے مشہور میزائلوں میں ڈیلائلا، جبریئل، ہارپون، چریکو 1، جریکو 2، جریکو 3، لورا اور پوپیئی شامل ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ایران، اسرائیل سے بہت زیادہ بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی اسرائیل سے دس گنا زیادہ ہے۔مگر اسرائیل ایران سے کہیں زیادہ رقم اپنے دفاعی بجٹ کی مد میں خرچ کرتا ہے اور اس کی سب سے بڑی طاقت بھی یہی ہے۔اگر ایران کا دفاعی بجٹ 10 ارب ڈالر کے قریب ہے تو اس کے مقابلے میں اسرائیل کا بجٹ 24 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔جہاں ایران کی آبادی اسرائیل سے کہیں زیادہ ہے اسی طرح اس کے حاضر سروس فوجی بھی اسرائیل کے مقابلے میں تقریبا چھ گنا زیادہ ہیں۔ ایران کے فعال فوجیوں کی تعداد چھ لاکھ دس ہزار جبکہ اسرائیل کے ایسے فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار ہے۔اسرائیل کے پاس جس چیز کی برتری ہے وہ اس کی ایڈوانس ٹیکنالوجی اور بہترین جدید طیاروں سے لیس فضائیہ ہے۔ اس کے پاس 241 لڑاکا طیارے اور 48 تیزی سے حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹر ہیں جبکہ ایران کے پاس جنگی طیاروں کی تعداد 186 ہے اور اس کے بیڑے میں صرف 13 جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔دونوں ممالک نے ابھی تک اپنی بحری افواج کی زیادہ صلاحیتوں کا مظاہرہ تو نہیں کیا لیکن اگرچہ وہ جدید بنیادوں پر نہ بھی ہو، پھر بھی ایران کی بحری فوج کے پاس 101 جہاز جبکہ اسرائیل کے پاس 67 ہیں۔

ایران نے عراق کے ساتھ جنگ کے بعد سے اپنے میزائل سسٹم اور ڈرونز پر زیادہ کام کیا اور شارٹ اور لانگ رینج میزائل اور ڈرونز بنائے جو مبینہ طور پر اس نے مشرقِ وسطی میں اپنے حریفوں کو بھی مہیا کیے ہیں۔حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب پر داغے میزائلوں کے تجزیے سے بھی یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ ایرانی ساخت کے تھے۔اورایران یہ کام سب سے اچھے اندازمیں کام کرتاہے کہ وہ پراکسی وارمیں بہت ماہرہے اورخاص کرکے مسلمان ممالک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے اورفسادات کروانے میں ایران کابڑاہاتھ ہے شام ،عراق ،لبنان ،پاکستان یمن اس کی واضح مثالیں ہیں ۔

ایران کے میزائلوں میں شہاب ون میزائل ہے جس کی رینج تین سو کلومیٹر ہے جبکہ اسی کا دوسرا ورژن شہاب ٹو پانچ سو کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے۔ شہاب سیریز کا تیسرا میزائل شہاب تھری دو ہزار کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس کے علاوہ ایرانی میزائلوں میں 700 کلومیٹر تک مار کرنے والا ذوالفقار، 750 کلومیٹر تک مار کرنے والا قائم 1 بھی شامل ہیں۔ایران کے میزائلوں میں ایک اہم اضافہ فتح -110 ہائپر سونک میزائل ہیں جو 300 سے 500 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یوں دیکھا جائے توایران کئی اعتبارسے اسرائیل پربرتری رکھتاہے مگرپھربھی وہ اسرائیل پراصلی حملہ نہیں کررہا؟

دوسری طرف امریکہ اوراسرائیل گزشتہ چندسالوں میں ایران کاکافی نقصان کرچکے ہیں مگرایران فرینڈلی میزائل بازی کررہاہے اس کی وجہ کیاہے ؟اس وقت مشرق وسطی میں اسرائیل اورعالمی طاقتیںجوکھیل کھیل رہی ہیں اس میں ایران سمیت کوئی بھی ملک مزاحم نہیں ہوناچاہتاعرب ممالک پہلے ہی ڈھیرہوچکے ہیں ایران کے لیے عربوں کی طرح اسرائیل سے ہاتھ ملانامشکل ہے کیوں کہ ایسی صورت میں اسے عراق ،لیبیا،شام جیسی صورتحال کاسامناہوسکتاہے اس لیے وہ ایک خطرناک منصوبے پرعمل پیراہے جوانتہاپسنداوردہشت گردتنظیمیں اس نے کھڑی کی تھیں اس کی قیادت کوختم کرنے میں وہ امریکہ اوراسرائیل کی سہولت کاری کررہاہے ۔

امریکہ نے سب سے پہلے اسرائیل کے ساتھ مل کرپاسداران انقلاب کے سربراہ قاسم سلیمانی کونشانہ بنایااورایران نے امریکہ کوبتاکرمیزائل کی چاندماری کی ،پھراس سال اپریل میں اسرائیل نے دمشق میں ایرانی قدس فورس کے اہم کمانڈرزکوہلاک کیاایران نے اسی طرح کی میزائل بازی کی ،اس سال 31جولائی کوتہران میں حماس کے سربراہ اسمعیل ہنیہ کوایران کی سہولت کاری کی وجہ سے اسرائیل نے نشانہ بنایا،کیوں کہ حماس کوایران کے تعاون کے بغیرختم نہیں کیاجاسکتاایران ایک منصوبے کے تحت حماس کواسلحہ کی فراہم کرتارہاہے اورحماس بھی عربوں سے زیادہ ایران پراعتمادکرتے رہے مگراسمعیل ہنیہ کی شہات کے بعدحماس چوکس ہوگئی ہے لیکن اب پچھتائے کیاہوت ۔

حالیہ ہفتوں میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ سمیت ان کے انتہائی تجربے کار عسکری کمانڈرز کواسرائیل نے موت کے گھات اتارا جن میں رضوان فورس کے انچارج ابراہیم عاقل اور تنظیم کے میزائل یونٹ کمانڈ کرنے والے ابراہیم قبیسی ،حزب اللہ کے ڈرون یونٹ کے کمانڈر محمد سرور اور جنوبی لبنان میں جنگجووں کی قیادت کرنے والے علی کرکی بھی اسرائیل کے فضائی حملے میں مارے جاچکے ہیں۔رواں برس جولائی میں اسرائیل نے ایک حملے میں حزب اللہ کے اعلی ترین ملٹری کمانڈر فواد شکر کو نشانہ بنایاتھا ۔یوں حزب اللہ تمام قیادت فارغ ہوچکی ہے ۔حزب اللہ کاقیام اورتربیت پاسداران انقلاب کی تھی اوراب ان دونوں کاخاتمہ بھی ایران کی سہولت کاری سے کیاجارہاہے ۔اسرائیل پردوستانہ میزائل باری ایران کی مجبوری ہے ایک طرف وہ عالمی طاقتوں کویہ باورکروارہاہے کہ وہ اگریہ حملے نہیں کرے گا توملک کے عوام مشتعل ہوسکتے ہیں اورایسی صورت میں اس کے پاس جو میزائل ٹیکنالوجی اورایٹمی پروگرام ہے وہ انتہاپسندوں کے ہاتھ لگ سکتاہے دوسری طرف وہ اس طرح کے جعلی حملے کرکے اپنے عوام کاغصہ بھی ٹھنڈاکررہاہے اورتیسری طرف وہ امت مسلمہ کوبے وقوف بنارہاہے کہ وہ ان کی جنگ لڑرہاہے ۔

واپس کریں