ڈاکٹر خالد سہیل
(اقوام متحدہ میں ترکی کے صدر طیب اردگان کی تقریر کے چند اقتباسات کا ترجمہ اور تلخیص)
صاحب صدر ’ریاستوں کے رہنما اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل۔ میں آپ سب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنے کا موقع فراہم کیا۔مجھے پوری امید ہے کہ یہ اجلاس ساری دنیا کے لیے امن اور خیر کی خبر لائے گا۔ مجھے اس اجلاس میں فلسطین کے نمائندے کو دیکھ کر دلی مسرت ہو رہی ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی اقوام متحدہ میں فلسطین کی نمائندگی قائم رہے گی اور فلسطین دھیرے دھیرے بین الاقوامی برادری کا حصہ بن جائے گا۔یہ ہم سب کا اخلاقی فرض ہے کہ ہم فلسطینیوں کی کوششوں کو سراہیں اور ان کے حوالے سے اپنا فرض نبھائیں۔فلسطینیوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں وہ ہم سب ہر روز اپنے گھروں کے ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر دیکھ رہے ہیں کیونکہ فلسطینی ایک بھیانک جنگ سے دوچار ہیں۔ہو سکتا ہے بعض لوگوں کر میری باتیں ناگوار گزریں لیکن میں آج اس بین الاقوامی محفل میں اپنا سچ بیان کرنے آیا ہوں۔ میں اپنے سچ کا برملا اور بے خوف اظہار کروں گا۔
اقوام متحدہ دوسری جنگ عظیم کے بعد بنائی گئی تھی جس میں لاکھوں معصوم جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔ اقوام متحدہ اس لیے بنائی گئی تھی تا کہ دنیا میں امن اور انصاف کی ریت نبھائی جائے۔ میں یہ بات بڑے دکھ سے کہہ رہا ہوں کہ پچھلے چند سالوں میں اقوام متحدہ اپنے مقصد میں ناکام رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے اقوام متحدہ چند بڑے ممالک اور رہنماؤں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن گئی ہے جو سیکورٹی کونسل میں اپنی ویٹو کی طاقت استعمال کر کے امن کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ غزہ کی جنگ کو شروع ہوئے تین سو پچاس دن ہو گئے ہیں۔ اس دوران اکتالیس ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے۔ دس ہزار سے زیادہ لوگ لاپتہ ہیں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ زخمی ہو گئے ہیں۔ کسی کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے کسی کا بازو، ایک سو بہتر صحافی اپنا سماجی فرض نبھاتے مارے جا چکے ہیں، پانچ سو سے زیادہ نرسیں اور ڈاکٹر مریضوں کی جانیں بچاتے قتل کر دیے گئے ہیں، دو سو پندرہ سے زیادہ اقوام متحدہ کے کارکن بموں کی زد میں آ گئے ہیں۔
اسرائیل نے اپنے بموں سے رفیوجی کیمپ کے معصوم بچوں کو، مسجدوں اور گرجوں کو، ہسپتالوں اور سکولوں کو، ایمبولینسوں کو جو مریضوں کو ہسپتال لے جا رہی تھیں تباہ و برباد کر دیا۔ہمیں جو اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں پر مظالم کی تصویریں ملی ہیں انہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے وہ کونسنٹریشن کیمپوں کی تصویروں ہوں۔اسرائیل کے بموں کی وجہ سے کئی سویلین خاندانوں کے ماں باپ ہلاک ہو گئے اور بچے یتیم ہو گئے۔ غزہ میں نجانے کتنے بچے ایسے ہیں جن کے پاس نہ کھانے کو کچھ ہے نہ پینے کو ۔ غزہ میں معصوم بچے بھی مر رہے ہیں، اقوام متحدہ کے اصول بھی مر رہے ہیں، سچ بھی مر رہے ہیں، مغربی دنیا کے آدرش بھی مر رہے ہیں۔غزہ کی گلیوں میں یہ سوچ کر اب بچے کھیل بھی نہیں سکتے نجانے کب ان پر بم پھینک دیے جائیں۔ اسرائیلی فوج نے ان صحافیوں کو بھی قتل کر دیا جو غزہ کی تباہی کی تصاویر ساری دنیا کو دکھاتے تھے۔
میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کو کب اور کیسے روکے گی۔ آپ کب نیتن یاہو اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کریں گے۔میں ان اقوام کے سیاسی رہنماؤں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو اسرائیل کی عسکری مدد کر رہے ہیں آپ کب تک معصوم بچوں کو قتل ہوتا دیکھتے رہیں گے؟ کیا آپ اسرائیل کی ’جو نسل کشی کر رہا ہے‘ معاشی سیاسی اور عسکری مدد کرتے ہوئے احساس ندامت اور خجالت کا شکار نہیں ہوتے؟ آج انسانیت اخلاقی تنزل کا شکار ہے۔ اس کی اعلیٰ اقدار کا دیوالا نکل چکا ہے۔ساری دنیا کے رہنماؤں کی نظروں کے سامنے اسرائیلی حکومت اور فوج انسانی حقوق کو پامال کر رہی ہے، بین الاقوامی قوانین کو پاؤں تلے روند رہی ہے۔
فلسطینی اپنے حق خود ارادیت اور جابر حکومت سے اپنی آزادی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ اس حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں جو ان کی زمینوں پر قابض ہو گئی ہے۔میں ایسے مجاہدین کو عزت سے سلام کرتا ہوں جو اپنی آزادی اور خود مختاری کے لیے اپنی جان کی بازی لگا رہے ہیں۔میں ان ممالک کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو اس مشکل وقت میں فلسطینیوں کی مدد کر رہے ہیں۔وہ مغربی ممالک جو اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں وہ فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ ان کی مدد کے بغیر اسرائیل یہ جنگ نہیں لڑ سکتا۔پچھلے چند ماہ میں فلسطینیوں نے کئی بار جنگ بندی کی رضامندی کا اظہار کیا لیکن اسرائیلی حکومت اسے التوا میں ڈالتی رہی اور پھر اس فلسطینی رہنما کو مکاری سے اجنبی ملک میں قتل کر دیا جو امن کا ہاتھ بڑھا رہا تھا۔
فلسطینی پچھلے ستر برس سے قربانیاں دے رہے ہیں۔ جس طرح کل کئی ملکوں نے مل کر ہٹلر کو روکا تھا اسی طرح آج ہمیں نیتن یاہو کو روکنا ہو گا تا کہ انسانیت پر ظلم و ستم کم ہو سکے، جنگ بندی ہو سکے، ہوسٹیج واپس آ سکیں۔ ہمیں فلسطینیوں کی جلد مدد کرنی ہوگی ورنہ سردیوں کے موسم میں آزمائشیں اور بھی بڑھ جائیں۔ہم اسرائیل کے عوام کے خلاف نہیں ہیں ہم ان رہنماؤں کے خلاف ہیں جنہوں نے امن کو چھوڑ کر جنگ کو گلے لگایا۔ترکی نے فلسطینیوں کے لیے باقی ممالک سے زیادہ کھانے پینے کی چیزیں بھیجی ہیں۔ ہم نے اسرائیل سے کاروباری تعلقات منقطع کر دیے ہیں۔میں ساری دنیا کے ان تمام سیاسی رہنماؤں اور خاص طور پر طالب علموں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے فلسطینیوں کی ڈنکے کی چوٹ پر حمایت کی اگرچہ اس حمایت کے لیے انہیں بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑی۔اب اقوام متحدہ کے ممبروں کر مل کر سوچنا ہو گا کہ ہم کس طرح فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق دلوا سکتے ہیں تا کہ وہ ایک دن ایک آزاد و خودمختار ریاست میں زندگی گزار سکیں۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں