ڈاکٹر خالد سہیل
کیا آپ ایک شرمیلے انسان ہیں اور اپنی شامیں اپنی تنہائی کے ساتھ گزارتے ہیں یا آپ کے دوستوں کا حلقہ وسیع ہے؟ اور اگر دوستوں کا حلقہ وسیع ہے تو اس حلقے میں ہر رنگ ’نسل‘ زبان ’مذہب اور قومیت کے مردو زن شامل ہیں یا آپ صرف اپنے ہی قبیلے اور نظریے کے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں؟ کینیڈا آنے کے بعد اور پچھلے چند سالوں میں ’ہم سب‘ پر باقاعدگی سے کالم لکھنے کی وجہ سے میرے دوستوں کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا اور ایک انسان دوست ہونے کے ناتے میں نے رنگ ’نسل‘ زبان ’مذہب اور قومیت سے بالاتر ہو کر صرف انسانیت کی بنیاد پر دوست بنانے کی کوشش کی۔
9 اکتوبر 1977 کو جب میں کینیڈا کے سینٹ جانز نیوفن لینڈ کے چھوٹے سے ائرپورٹ پر اترا تو ایک گورے کینیڈین نے آگے بڑھ کر مجھ سے پوچھا ’کیا آپ ڈاکٹر سہیل ہیں؟‘ ’جی ہاں‘ ’ میرا نام میکس ویلر ہے میں نفسیات کا طالب علم ہوں اور آپ کو لینے آیا ہوں‘ ۔ میکس نے میرا سوٹ کیس اپنی گاڑی میں رکھا اور مجھے جینوے اپارٹمنٹس میں لے آیا جہاں ایک خالی اپارٹمنٹ میرا منتظر تھا۔ میکس جاتے ہوئے کہنے لگا، ’کل چھٹی ہے میں پرسوں آ کر آپ کو ڈنر کے لیے اپنے گھر لے جاؤں گا‘۔ میکس دو دن بعد مجھے اپنے گھر لے گیا اور میرا تعارف اپنی بیگم نینسی سے کروایا۔ وہ شام بہت پر لطف تھی۔ لذیذ کھانے اور دلچسپ گفتگو۔
دو ہفتوں کے بعد ایک شام غیر متوقع طور پر فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے سوچا میں تو اس شہر میں کیا اس ملک میں کسی کو نہیں جانتا۔فون اٹھایا تو آواز آئی، ’کیا ڈاکٹر سہیل ہیں؟‘ ’ جی ہاں بول رہا ہوں‘ ، ’میں ڈاکٹر نذیر ہوں اور آپ کو اتوار کی شام اپنے ہاں ڈنر پر بلانا چاہتا ہوں‘ ، ’بہت شکریہ لیکن میرے پاس گاڑی نہیں ہے‘ ، ’کوئی بات نہیں۔ میں آپ کو آ کر لے جاؤں گا اور ڈنر کے بعد چھوڑ بھی جاؤں گا‘ ، ’ بہت نوازش‘۔ ڈاکٹر نزیر مجھے اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیگم فاطمہ سے میرا تعارف کروایا۔ دونوں نے بڑی محبت سے مجھے کھانا کھلایا او دیار غیر میں مجھے اپنائیت کا احساس دلایا۔ چند سال بعد ان کے ہاں دو بچے پیدا ہوئے۔ بیٹی کا نام مونا اور بیٹے کا نام عمر رکھا گیا۔ وہ دونوں مجھے سہیل چاچا کہتے ہیں۔ یہ نام میرے اس لیے زیادہ اہم اور دل کے قریب ہے کیونکہ میری ایک ہی بہن عنبر ہے اور عنبر کے بچے مجھے سہیل ماموں کہتے ہیں۔
میں شہر سینٹ جانز میں جس ہسپتال میں کام کرتا تھا اس کے سکول کی پرنسپل کا نام ڈونا کیوینا تھا۔ میری ڈونا سے دوستی ہو گئی۔ ڈونا نے میرا تعارف اپنے ہندوستانی دوست سریش بلکھوڈے سے کروایا اور ہم تینوں نے فیصلہ کیا کہ ہم ڈانس کرنا سیکھیں گے۔ وہ جون ٹریولٹا کے ڈسکو ڈانس کا دور تھا چنانچہ ہم نے مل کر ڈانسنگ سکول میں باقاعدہ داخلہ لیا اور اپنی استاد جوڈی کی زیر نگرانی ڈسکو ڈانس سیکھا۔ ہم تینوں اس تجربے سے بہت محظوظ و مسحور ہوئے۔سریش بلکھوڈے سے دوستی کے بعد میرے جو ہندوستانی ہندو دوست بنے ان میں شانتا رام اور اشوک مالا اور ہرشا پجارا بھی شامل تھے۔
ٹورانٹو آنے کے بعد میں نے جو دوست بنائے ان میں عیسائی نرس دوست این ہنڈرسن اور یہودی سوشل ورکر دوست ہلڈی ابراہم شامل تھیں۔ جب ہم نے فیمیلی آف دی ہارٹ بنائی تو میرے دوستوں کا حلقہ اور بھی وسیع ہو گیا۔ پچھلے چند سالوں میں میرے جو قریبی دوست بنے ان میں
کمیونسٹ خیالات کے مالک سید عظیم
انارکسٹ دانشور محمد مظاہر کی بیٹی زہرا نقوی
ایک پکے دہریہ رفیق سلطان اور
احمدی خاندان کے رشید ندیم شامل ہیں۔
مجھے رشید ندیم کا یہ شعر بہت پسند ہے
یہ شہر اگر ظرف کشادہ نہیں رکھتا
میں بھی یہاں رہنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
رشید ندیم کے دوست افضال نوید بھی میرے دوست بن گئے مجھے ان کا بھی ایک شعر بہت ہی پسند ہے
ساون آیا مگر نہ آیا وہ
وہ جو تیری گلی کا ساون تھا۔
بعض دوستوں سے تو اب خاندانی مراسم ہو گئے ہیں۔
میں اپنے شاعر اور دانشور دوست امیر حسین جعفری سے ملنے جاتا ہوں تو ان کی بیگم سیمیں جاوید نہ صرف لذیذ کھانے کھلاتی ہیں بلکہ ادبی مکالمے میں شرکت بھی کرتی ہیں۔ ان کے دونوں بیٹے زائر حسین جعفری اور اختر حسین جعفری جونیر بڑے پیار سے گلے ملتے ہیں اور میں انہیں بڑی محبت سے ہر ماہ میک ڈانلڈ کھلانے لے جاتا ہوں۔فیمیلی آف دی ہارٹ کے سیمیناروں اور محفلوں میں ہم نے تمام مذاہب تمام مسالک اور تمام مکاتب فکر کے پیروکاروں کو دعوت دی۔ ان ادبی محفلوں میں خدا کو ماننے والے اور خدا کو نہ ماننے والے ہاتھ ملاتے ہیں اور گلے ملتے ہیں۔ تبادلہ خیال کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ اختلاف الرائے دوستی کو مضبوط کرتا ہے اور انسان دوستی اسے مضبوط بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ ہم سب مل کر ادبی تخلیقی اور نظریاتی کام کرتے ہیں۔پچھلے چند ماہ میں پیپلز پارٹی کے مداح ’مسلم لیگ کے خیر خواہ اور عمران خان سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے بڑے جوش و جذبے سے اپنے نظریات اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور میں جو کہ ان تینوں میں سے کسی بھی پارٹی کا ممبر نہیں ہوں اور صرف عوام کے انسانی حقوق کر طرفداری کرتا ہوں ان کی باتیں سن کر دل ہی دل میں مسکراتا رہتا ہوں،
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دھوکہ دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا
فیمیلی آف دی ہارٹ بیس سال پیشتر سات دوستوں نے شروع کی تھی دھیرے دھیرے اس میں ساری دنیا سے سینکڑوں ہزاروں دوست شامل ہوتے گئے جو ہمارے سیمیناروں میں بڑے شوق سے شرکت کرتے ہیں اور ان سیمیناروں میں پیش کیے گئے مقالے شوق سے پڑھتے ہیں۔جب سے میں نے ’ہم سب‘ پر کالم لکھنے شروع کیے ہیں اور گرین زون سیمیناروں کا اہتمام کیا ہے دوستوں کا حلقہ اور بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔مجھے ہر ہفتے اور ہر ماہ ان گنت محبت نامے وصول ہوتے ہیں جن میں بعض دوست نفسیاتی ’بعض سماجی اور بعض نظریاتی مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ وہ مجھ سے اتنا پیار اور محبت اور اپنائیت کا اظہار کرتے ہیں کہ میں اکثر اوقات ان کی محبت کی بارش سے اندر تک بھیگ جاتا ہوں۔اس کالم سے جہاں میں آپ کو نئے دوست بنانے کی دعوت دے رہا ہوں وہیں پرانے دوستوں کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں۔ جہاں رہیں خوش رہیں اور گرین زون کی پر سکون اور پر امن زندگی گزاریں۔یہ میرے دل کی گہرائیوں سے نکلی آپ سب کے لیے سیکولر دعا ہے۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں