مقبوضہ کشمیر میں انتخابات، بین الاقوامی کشمیر سینیٹ
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکمرانوں سمیت اسلام آباد میں بیٹھے حریت رہنماؤں کی جانب سے فراڈ کہنے کے باوجود مقبوضہ جموں و کشمیر کے انتخابات میں سامنے آنے والا منظرنامہ شیخ عبداللہ کے زمانے میں بھی نہیں دیکھا گیا۔۔ پہلے مرحلے میں نہ صرف ووٹ کا تناسب تاریخ کا بلند ترین رہا، بلکہ انتخابات کے روز پولنگ اسٹیشنز پر رش کا عالم اور انتخابی مہم میں کشمیریوں نے دل کا غبار ہلکہ کیا۔ پانچ سال بعد زبان کھولی اور زور زور سے بلکہ چیخ چیخ کر نعرے بھی لگائے اور زندہ باد مردہ باد بھی کہا۔۔ یہ جاننے کے باوجود کہ یہ اسمبلی میونسپلٹی کی کونسل سے بھی کم درجے پر ہے، لوگ خوش ہیں کہ وہ گھٹن کے ماحول سے نکلے خوف کا ماحول کم اور دل و دماغ پر سے بوج کم ہوا۔ درجنوں مین سٹریم سیاسی جماعتیں، بھاجپا، انڈین گھٹ بندن، آزاد امیدواروں کی شکل میں جماعت اسلامی، ماضی کے حریت پسندوں کی بڑی کھیپ، ممنوعہ تنظیموں اور جیلوں سے رہا ہونے والے افراد کی یلغار کشمیریوں کو گھروں سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوئی۔
اب ہمارے پاس بیان بازی اور بَغْلیں جھانکْنے کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔۔ اگر سننے پڑھنے کی تاب اور حوصلہ ہے تو سچ یہی ہے کہ کشمیری نوجوان ماضی بھولنے کے مشورے پر بہت افسردہ بھی ہوئے اور ناراض بھی۔ سید علی گیلانی کی ناراضگی اور پیرانہ سالی میں تحریک سے علیحدگی نوجوانوں کے دل و دماغ پر نقش ہے۔ ان کے عمل سے لگتا ہے کہ وہ اب مذید کسی دھوکے میں نہیں آنا چاتے۔جس کا اظہار انہوں نے انتخابات کے دوران کیا۔ اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اس کے اثرات آزاد کشمیر میں بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں۔انتہائی مشکل وقت میں کشمیریوں کو تنہائی کا احساس ہوا جب کسی نے ان کے آنسوؤں پونچھنے کی کوشش کی نہ سر پر ہاتھ رکھا۔ کشمیری نوجوانوں کا خیال ہے کہ جموں و کشمیر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا۔ مسلح جدوجہد یا جہاد سے بے پناہ جانی، مالی اور اقتصادی نقصان اٹھانے کے باوجود کشمیریوں کو کچھ حاصل نہیں ہوا اور بھارت تشدد سے تحریک دبانے میں کامیاب ہو گیا۔ انہی خدشات کا اظہار کے ایچ خورشید نے کیا تھا کہ سیاسی و سفارتی ذمہ داریاں کشمیریوں کو دیئے بغیر مسلحہ جدوجہد شروع کرنے سے کشمیری تباہی کے دہانے پر پہنچ جائیں گے۔ اس مشکل وقت میں کشمیریوں کو سیاسی اور اخلاقی حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ ایک دو سے تین نسلوں کو فصل کی طرح کاٹا گیا دنیا ٹس سے مس نہ ہوئی اور نہ جانے دار سفارت کاری ہوئی، مہنگائی اور بے روزگاری نے کشمیریوں کا جینا مشکل کر دیا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ پی ایچ ڈی ڈگری یافتہ نوجوان سڑکوں پر خشک میوہ جات فروخت کر رہے ہیں۔ کالجوں، یونیورسٹیوں میں اگرچہ آسامیاں خالی ہیں، لیکن غیر ملکی قابض انتظامیہ ان پر کشمیری نوجوانوں کو تعینات کرنے سے گریزاں ہے۔ جب کہ بڑے بڑے اسکالر کو معمولی نوعیت کا کام بھی نہیں مل رہا۔
اس صورت حال میں کشمیری نوجوان سید علی گیلانی کے بیانیہ " ہم ہیں پاکستانی، پاکستان ہمارا ہے " کو بھول کر انجینیئر رشید کے بیانیہ پر اس کے گرد جمع ہوئے جس نے تہاڑ جیل سے رہائی کے بعد سری نگر پہنچ کر فٹ پاتھ پر سجدہ کیا اور اپنے وطن کی مٹی کو چوما۔ ساتھ ہی پہلے ہی بیان میں آر پار کشمیر کے مسائل کی بات کی اور کہا " لکھن پور سے گلگت تک سارا کشمیر ہمارا ہے " لکھن پور جموں کا حصہ ہے جسے کاٹ کر ہما چل پردیش کے ساتھ لگایا گیا ہے۔ جو قبل ازیں پہنجاب ہی تھا۔جب کہ گلگت پاکستان کے زیر کنٹرول ہے۔ پھر کیا تھا یہ نعرہ آر پار گھونجنے لگا اور سوشل میڈیا کا اسی طرح ٹرینڈ بن گیا، جیسے بنگلہ دیش کے نوجوانوں نے " ہم تم کون سہولت کار سہولت کار " کا نعرہ لگایا تھا۔ کشمیری آج لکھن پور سے گلگت تک سارا کشمیر ہمارا ہے کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔ برہان وانی نے سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو تحریک آزادی کے ساتھ جوڑا تھا، انجینیئر رشید نے اس نعرے کے ذریعے اپنے ساتھ جوڑا۔ ممکن ہے انجینیئر رشید کا یہ سیاسی ڈرامہ ہو، جیسا کہ عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی، سجاد لون اور دیگر نے اس کا اظہار بھی کیا کہ انتخابات سے چند دن قبل انجینیئر رشید کو تہاڑ جیل سے نکال کر انتخابی میدان میں اتارنا اور کالعدم جماعت اسلامی کے آزاد امیدواروں اور عوامی اتحاد پارٹی کا اتحاد قائم کرنا، کشمیریوں کے ووٹ تقسیم کرنے کی سیاسی چال ہے جس کا سارا فائدہ بھاجپا کو ہو گاجب کہ انجینیئر رشید نے جوابی وار میں معروف صحافی برکھا دت کو انٹرویو میں کہا کہ 370 ختم کرانے میں یہ لوگ مودی کے ساتھ شامل تھے۔۔ ہمیں تو جیل میں ڈال دیا گیا ان لوگوں کو چھ ماہ کے لیے ایک ریسٹ ہاوس میں جمع کیا گیا تاکہ لوگ ان کو احتجاج پر مجبور نہ کریں جہاں ان کے کھانے پر ریاست کے ساڑھے تین کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
مین سٹریم پارٹیوں کا لزام کچھ غلط بھی نہیں، بغیر حکومتی رضا مندی کے انجینیئر رشید تہاڑ جیل سے کیسے باہر آ کر کڑاکے دار تقریریں اور پاکستان و بھارت کو ایک ساتھ للکار سکتے ہیں۔ اگر یہ بی جے پی کی چال ہے، تب بھی کشمیریوں نے بھارت اور خاص طور پر مودی کو یہ پیغام دیا کہ ان کے نزدیک وطن پرستی اور استصواب رائے سے مقدم اور کوئی چیز نہیں اگر انجینیئر رشید کے اطراف نوجوان جمع بھی ہوئے تو، " لکھن پور سے گلگت تک سارا کشمیر ہمارا ہے" کے نعرے کی بنیاد پر۔۔ اگر وہ مودی کے ترقیاتی منصوبوں اور نیا کشمیر کا بیانیہ لے کر آتا تو ممکن ہے اکیلا سڑکوں پر گھوم رہا ہوتا۔ اسی نعرے کی بنیاد پر نوجوانوں کی نئی پود اس طرح اس کے گرد جمع ہو رہی ہے جیسے 90 کی دہائی میں لوگ تحریک آزادی میں شامل ہو رہے تھے۔ بھاجپا کانگریس کی قیادت میں انڈین گھٹ بندن سے خوف زدہ ہے جس نے کھلے عام یہ کہہ دیا کہ کامیابی کے بعد 370 کو ختم اور سابق ریاستی درجہ بحال کیا جائے گا تاہم دانشور حلقے عمر عبداللہ اور محبوبہ جی کے ان خدشات پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں کہ بھاجپا کی یہ کوشش تو نہیں کہ آئندہ جموں و کشمیر کا وزیر اعلی ہندو ہو، اور جماعت اسلامی اور انجینیئر رشید سہولت کار ہیں۔
یہ شک اس لیے بھی گہرا ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے وادی کشمیر میں اثر رسوخ والے مسلمانوں کو ٹکٹ دئے ہوئے ہیں جو ماضی میں اسمبلی رکن رہے یا انتخابی سیاست کا حصہ تھے۔ انجینیئر رشید اور جماعت اسلامی ووٹروں کی خاصی تعداد کھنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو بھاجپا کے ان امیدواروں کیطکامیابی یقینی ہو جاتی ہے اور وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائے گی ۔۔ انڈین گھٹ بندن انجینیئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، پیپلز کانفرنس، اپنی پارٹی، آزاد ڈیموکریٹک پارٹی کے سینکڑوں امیدوار میدان میں کھڑے ہیں، پس پردہ مائنس گھٹ بندن، مستقبل کی ایک نئی قیادت سیاسی منظر نامے پر لانے کی کوششیں جاری ہیں۔ جو انجینیئر رشید ہو سکتے ہیں۔ نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد آزاد امیدوار کے انتخابی اکھاڑے میں موجود ہے جن میں اکثر کے بارے میں خیال ہے کہ انہیں پس پشت مرکزی سرکار کی آشیرواد حاصل ہے۔ جماعت اسلامی کے انتخابی دھنگل میں اترنے سے لوگوں کو بڑی حیرانگی ہوئی جو جموں و کشمیر کی الحاق پاکستان کی حامی اور90 کی ڈھائی سے تحریک آزادی میں پیش پیش رہی ہے، جماعت کے ذمہ دار اس بات سے انکاری ہیں کہ ہم کبھی بھارت سے الگ ہونے کی پالیسی پر تھے۔۔ ان کا کہنا ہے کہ جماعت میں صرف دو افراد کا ایسا خیال تھا جن کو جماعت کے نظم سے الگ کر دیا تھا۔ یہ سید علی گیلانی اور اشرف صحرائی کی طرف اشارہ ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ نتائج کے بعد انجینیئر رشید، جماعت اسلامی، عوامی ایکشن کمیٹی، آزاد امیدوار اور چند چھوٹی جماعتوں کا ایک اتحاد بنا کر کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جائے گا جو نیشنل کانفرنس، کانگریس، پی ڈی پی اور دوسری ناپسندیدہ جماعتوں کو حکومت سازی سے روک سکتا ہو ۔ یہی بی جے پی کی سرکار کا اہم ایجنڈا ہے۔ پہلے مرحلہ میں 18 ستمبر کو ہوئے انتخابات میں ٹرن آؤٹ مجموعی طور پر 58 فیصد سے زیادہ رہا۔ جن سات ضلعوں میں ووٹنگ ہوئی ان میں سے 4 انتخابی حلقوں میں 74 فیصد سے 80 فیصد تک ووٹ ڈالے گئے۔ سات جنوبی اضلاع کے 24 حلقوں میں انتخابی عمل مکمل ہو چکا۔ جموں و کشمیر میں تین مرحلوں کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹنگ پرامن رہی، کسی جگہ پر بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔ میڈیا نے رپورٹس گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، اندروال میں سب سے زیادہ 80.06 فیصد ووٹ ڈالے گئے، جو موجودہ صورت حال میں بہت ہی زیادہ ہیں۔ پڈر ناگسینی میں 76.80 فیصد اور کشتواڑ میں 75.04 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ ڈوڈا مغربی میں بھی 74.14 فیصد سے زیادہ ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا گیا۔ وادی کشمیر کے علاقے پہلگام میں سب سے زیادہ 67.86 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ اس کے بعد ڈی ایچ پورہ 65.21 فیصد، کولگام 59.58، کوکرناگ 58 فیصد اور ڈورو 57.90 فیصد رہا۔سب سے کم ٹرن آؤٹ 40.58 فیصد ترال میں ریکارڈ کیا گیا، پلوامہ ضلع کے چار حلقوں کے عوام نے بھی 50 فیصد کا ہندسہ عبور نہیں کیا۔ پہلے مرحلے میں 23 لاکھ سے زیادہ ووٹروں نے 90 آزاد سمیت 219 امیدواروں میں سے 24 کا انتخاب کیا ہے جس کا اعلان 25 ستمبر کو دوسرے اور یکم اکتوبر کو تیسرے مرحلے کی تکمیل کے بعد 8 اکتوبر کو کیا جائے گا ۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق، پہلے مرحلے میں میں کل 23,27,580 افراد ووٹ ڈالنے کے اہل تھے، جن میں 11,76,462 مرد، 11,51,058 خواتین اور 60 تیسری جنس کے ووٹرز شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 14,000 افراد 3,276 پولنگ سٹیشنوں پر انتخابی عمل کی نگرانی پر مامور تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی تک انتخابی عمل پر بدانتظامی یا دھندلی کی شکایت سامنے نہیں آئی اور نہ ہی قابض فوج پر مداخلت کا الزام لگا اس کے باوجود کہ انتخابی مہم اور پولنگ سٹیشنوں کا پورا کنٹرول انڈین فوج نے سنبھالے رکھا ہے جو وسیع تر اختیارات کے ساتھ مقبوضہ جموں و کشمیر میں قابض اور سیاہ و سفید کی مالک ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیریوں نے بھارت کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ ان انتخابات میں انہوں نے فرسٹیشن نکالی ہے۔ انتخابات سے چند ماہ قبل سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حریت پسندی کی تازہ لہر نے سر اٹھایا ہے۔ بھارتی فوج خاصی مشکل میں اور مورال بھی کافی حد تک پست ہوگیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا بھی کشمیری حریت پسندوں کو پہلے سے کہیں زیادہ پُرعزم قرار دے رہا ہے۔
برطانیہ کے ایک نامور اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ کشمیری حریت پسند پہلے سے کہیں زیادہ پُرعزم اور جدید ترین ہتھیار استعمال کر رہے ہیں جب کہ بھارتی سیکیورٹی فورسز کا مورال پست ترین سطح پر ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا کہ کشمیری حریت پسند پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر تربیت یافتہ ہیں اور اہداف کو درستی کے ساتھ نشانہ بناتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا کہ کشمیری حریت پسند جنگی سازوسامان کی ترسیل کےلیے ڈرونز استعمال کرتے ہیں اور باڈی کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے گھات لگانے کی فلم بناتے ہیں۔ بھارتی فوج نے بھی تسلیم کیا کہ حریت پسندوں کے پاس جدید ہتھیار ہیں، ہم حکومت سے اضافی مدد مانگ رہے ہیں۔ اخبار کے مطابق اب تک 200 فوجی افسران و جوان ہلاک ہو چکے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو کبھی بھی مکمل طور پر کچلا نہیں جاسکتا اور نہ ہی یہ سمجھا جائے کہ انتخابات سے کشمیریوں کو اصل مقصد سے ہٹایا جا سکتا ہے۔البتہ حریت کی سیاسی تحریک بند ہو چکی تاہم جنوری 2025ء کشمیریوں کے لیے بہت اہم ہو گا جب بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کی منتخب قیادت، کشمیر بین الاقوامی سینیٹ کا اعلان کیا جا رہا ہے جس کے لیے 2021ء سے کوشش کی جا رہی ہے۔ مبینہ طور پر یہ سینیٹ متوازی جلاوطن حکومت کا اعلان کر سکتا ہے جو مظفرآباد اور سری نگر کی حکومتوں کو مسترد کر دے گی۔ اس کی تفصیل آئندہ کالم میں ملاحظہ فرمائیں
واپس کریں