دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقبوضہ کشمیر کے انتخابات سے بھاجپا کا راہ فرار
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
دنیا کی سب سے بڑی جیل میں قید مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام نے اپنے قول کو سچ کر دیکھایا کہ ہندوستان سونے کی سڑکیں اور چاندی کے کھمبے بھی نصب کر دئے وہ حق خودارادیت کے متبادل نہیں اور کشمیری حق خودارادیت سے نیچے کسی فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے۔ "پردھان منتری آواس یوجنا" کی سارے ہندوستان میں دھوم مچی ہوئی ہے اور اس فلاحی منصوبے کے باعث ملک بھر میں مودی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے لیکن مقبوضہ جموں و کشمیر میں یہ جادو بھی کارگر نہیں ہوا۔ ایسا نہیں کہ مودی کے اس منصوبے سے جموں و کشمیر کے عوام محروم رہے، ان کو بھی اس کا حصہ بقدر جثہ ملا۔ اس اسکیم سے لگ بھگ ایک لاکھ 84 ہزار سے زائد پختہ مکانات مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعمیر اور تقسیم ہوئے لیکن اس کا رتی بھر اثر بھی عوام پر نہیں پڑا کہ بھاجپا کے لیے کوئی اچھے تاثرات پائے جاتے ہوں ۔ مقبوضہ وادی کے عوام ہندوستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ہاوسنگ سکیم میں حصے کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے رہے بلآخر بھاجپا نے وادی کشمیر سے وہ بساط خود ہی لپیٹ دی جو 2019ء کو بچھائی تھی اور جس کے بعد مودی جی اور ان کے وزرا کہتے پھرتے تھے کہ کشمیر میں اب سب ہری ہری ہے۔

امیت شاہ کا تازہ بیان مایوسی اور بھوکلاٹ کی علامت ہے جو انہوں نے حال ہی میں کہا کہ کشمیر میں دہشت گرد ہیں جن کے ہاتھوں میں پھتر ہیں۔ سری نگر جانے والوں کا خیال تھا کہ چند سال کے دوران مقبوضہ وادی میں جو ترقی ہوئی اس کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی آئندہ انتخابات جیت جائے گی اور یہ غلط فہمی بھاجپا کو 2020ء میں مقامی انتخابات جیتنے کے بعد ہوئی تھی۔ جب کہ اس دوران کچھ مسلمان بھی پارٹی میں شامل ہوئے جو سمجھتے ہیں کہ سوسائٹی میں ان کا اچھا خاصا اثر ہے، اسی بنا پارٹی نے ان کو بھاری عہدے بھی دئے، لیکن قومی سطح پر عوام نے ان کو کوئی پذیرائی نہیں دی "پردھان منتری آواس یوجنا" ہاوسنگ پروگرام کا وادی کشمیر میں بھی ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ پردھان منتری جی نے یہ کارنامہ انجام دیا اور وہ کارنامہ انجام دیا۔ اور اس میں کوئی شک و شبہ بھی نہیں کہ اس ہاوسنگ سکیم کے تحت وادی کشمیر میں مالی سال 2018،19 کے دوران 17,672 گھروں کی تعمیر ہوئی، 2019،20 کے دوران 38,612، پختہ گھر غریب اور مستحق شہریوں کو تعمیر کر کے دئے گئے،مالی سال 2020،21 کے دوران 64,036، گھر مالی سال 2021،22 کے دوران 55,844 گھر اور 2022،23 کے دوران 7,810 پختہ گھر تعمیر اور تقسیم کئے گئے جو عام حالات میں بھاجپا کو انتخابی سیاست میں کامیابی کے لیے کافی تھے۔ لیکن کشمیری تو کہہ چکے کہ ترقیاتی منصوبے حق خودارادیت کا متبادل نہیں ہیں۔ کشمیریوں کے اسی غم و غصے کو دیکھ کر مودی سرکار نے انتخابات سے راہ فرار اختیار کی۔

سیاسی تجزیہ کاروں اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا موقف ہے کہ بھاجپا کا یہ فیصلہ اس کے اس دعوی کی نفی ہے کہ جموں وکشمیر میں سب ٹھیک ہو گیا ہے۔ بلکہ بھاجپا کا یہ اقدام خطے میں پہلے کی طرح غم و غصے کی نشاندہی کرتا ہے جس کا پارٹی نے خود اعتراف کر لیا ۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے کنوئینر محمود احمد ساغر کے یہ الفاظ تاریخ کا حصہ بن چکے کہ " جنہوں نے کشمیریوں کو بندوق تھمائی تھی وہ بے گانہ ہوئے لیکن کشمیری تو بے پناہ مالی و جانی قربانیوں کے باوجود، اللہ کے بھروسہ پر اپنے موقف پر کھڑے ہیں کل کیا ہونا ہے اللہ کو ہی معلوم ہے"۔ دہلی اور کشمیر کے درمیان تعلقات روز اول سے کشیدہ ہیں۔ پچھلی صدی کی سب سے زیادہ پراثر اور حقیقت پر مبنی محمود ہاشمی کی رپوتاژ " کشمیر اداس ہے" جنہوں نے بھی پڑی ان کو معلوم ہے کہ 27 اکتوبر 1947ء کو جب بھارتی فورسز سری نگر ائرپورٹ پر اتری تھیں اس وقت بھی کشمیریوں نے اس عمل کو تسلیم نہیں کیا تھا اور دوسرے ہی دن 28 اکتوبر صبح 10 بجے رام باغ روڑ سری نگر پر 13 کشمیریوں کو صرف اس بنیاد پر شہید کر دیا گیا تھا کہ لوگوں نے فورسز کا شہر میں داخلے کا راستہ روک رکھا تھا۔ گزشتہ 76 برسوں میں 6 لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہوئے لیکن تین دہائیوں کے دوران بانیال کے اس پار ہندوستان کی حکمرانی کے خلاف عوامی بغاوت اور اس بغاوت کو کچلنے کے لیے فوجی کارروائی اور اس کارروائی کے لیے فوج کو غیر فطری اختیارات، خواتین اور بچوں کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کارروائی ابھی بھی جاری ہے اور یہ زخم " پردھان منتری آواس یوجنا " ہاوسنگ اسکیم سے کئی درجہ زیادہ بھاری ہیں کہ کوئی بھولنا بھی چاہیے تو کنن پوش پورہ کو کیسے بھولے۔

2019 میں جموں و کشمیر کی صورت حال مزید خراب ہوئی جب پردھان منتری نے دفعہ 370 کو منسوخ کر کے 35 اے کے ساتھ چھیڑخانی کی اور تاریخی ریاست کے ٹکڑے کر دئے۔ پابند سلاسل کی بات حریت قیادت تک ہی نہیں، تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت مین اسٹریم پارٹیوں کے سینکڑوں سیاسی رہنماؤں کو بھی جیل بھیج دیا گیا جو صبح و شام بھارت کا دم بھرتے اور محبت کی مالا جپتے نہ تھکتے تھے۔ مودی نے اپنی کاسہ لیسی کے لیے 800 ارب کے ترقیاتی پیکج کے ساتھ وادی میں کئیں نئے اداکار اتارے جنہوں نے گھر گھر مہم چلا کر کشمیر میں بھارت کی حمایت بڑھانے کے لیے دن رات کام کیا اور ترقیاتی میدان میں کچھ تبدیلی بھی نظر آئی۔ لیکن اس کے باوجود راہ فرار جو 5 اگست 2019ء کے بعد خطہ کا پہلا انتخاب ہے اس ڈرامہ کی ناکامی اور عوامی ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔ البتہ ہندو اکثریتی ریجن جموں کی دو سیٹوں پر بی جے پی پرامید ہے لیکن وادی کی تین سیٹوں پر ایک بھی امیدوار نہیں لائی۔ بھاجپا نے اس ناکامی پر پھر پینترا بدلا کہ انتخابات ترجیح نہیں، ان کا بنیادی مقصد "لوگوں کے دل" جیتنا ہے۔ لیکن یہاں ہر تدبیر الٹی ہو گئی نہ دل جیتا گیا نہ انتخاب۔

اس سارے قضیہ کا حاصل یہ کہ ہندوستان کی قیادت کو اتنا معلوم ہو چکا کہ کشمیر میں فتح اور کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں پانچ مرحلوں میں ووٹنگ ہو رہی ہے۔ نیشنل کانفرنس کے علاوہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، یپیپلز کانفرنس، جموں و کشمیر اپنی پارٹی اور کانگریس انتخابی میدان میں ہیں۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کا دعویٰ کیا ہے کہ بی جے پی پی سی اور اپنی پارٹی کی حمایت کر رہی ہے۔ بھاجپا نے باضابطہ اعلان نہیں کیا ۔ لیکن ذرائع کہتے ہیں کہ بھاجپا کچھ ایسی جماعتوں کی حمایت کررہی ہے جن کا شمالی اور وسطی کشمیر میں اثر ہے۔ تاکہ کانگریس، این سی اور پی ڈی پی کا راستہ روکا جائے۔ بھاجپا 1996ء کے بعد پہلی مرتبہ انتخابی دھنگل سے باہر ہوئی ہے۔ 2016ء کے ریاستی انتخابات میں وہ87 نشتوں میں سے 25 نشتوں کے ساتھ دوسری بڑی پارٹی کے طور پر ابھری اور پی ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہوئی اس وقت مفتی محمد سعید کے بعد محبوبہ مفتی وزیر اعلی چنی گئی تاہم یہ ریاست مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی کے آخری انتخابات تھے۔ 2018ء میں مودی نے گورنر راج نافذ کیا جو اب تک جاری ہے۔ ریاستی اسمبلی کے حلقوں میں ردوبدل کیا گیا جس کے بعد جموں میں چھ اضافی نشستوں کے ساتھ 43 جب کہ کشمیر میں ایک اضافی نشست کے ساتھ تعداد 47 ہوئی جس سے اسمبلی کی کل تعداد 90 ہوگئی۔اس مشق کو انتخابی سیاست میں غیر مسلموں کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے اقدام کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو بھاجپا کا ایجنڈا ہے ۔تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ تمام حربے استعمال کرنے کے باوجود بی جے پی علاقے میں اثر قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مودی سارے ہندوستان سے جیت کر بھی کشمیر کی تین سیٹوں سے ہار جاتا تو اس کی پالیسیوں کو دھچکا لگتا، تاہم انتخابات سے راہ فرار مودی کی ناکامی ہی سمجھا جائے گا۔ آزادی پسند اس کامیابی کو اپنے حق میں کس انداز میں اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں جموں کے مسلم اکثریتی ضلعے پونچھ راجوری بارہ مولہ، کٹھوعہ اور دیگر کے عوام بھی ان کے ساتھ ہیں۔
واپس کریں