دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کھری باتیں بہ انداز سخن کہہ دوں تو کیا ہوگا۔ محمود ساغر کا شکوہ
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
یہ لاوا وقتی ہے یا صورت حال سیاسی موت کے قریب پہنچ چکی، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن فی الحال آزاد جموں و کشمیر کی سیاسی قیادت شدید ہزیمت سے دوچار ہے، ہر طرف سے طعن و تشنیع، سرزنش و نفریں، زجر و توبیخ کے نشتر چل رہے ہیں۔ ان کی کارکردگی سوالیہ نشان بن چکی۔ فرنچائز کے ہیڈ کوارٹر ہوں، ہینڈلر یا عوام، ہر کارنر سے ایک ہی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ تم نے کیا، کیا ہے، ہمیں بھی بتاو۔ اب مقبوضہ جموں و کشمیر کے نمائندوں نے بھی یہی سوال کر دیا کہ اگر تم جانتے ہو تو ہمیں بھی بتائو۔

آل پارٹیز حریت کانفرنس جموں و کشمیر آزاد کشمیر چپٹرکے کنوینئر محمود احمد ساغر نے اسلام آباد میں منعقد ایک کانفرنس میں آزاد کشمیر کے لیڈران سے ایسے سوالات اور شکوہ کیا کہ جواب کیا بنتا، آدھے اپنی باری پر تقریر کرتے ہی چلتے بنے جو کسی وجہ سے رہ گئے منہ لٹکائے بیٹھے صلواتیں سنتے رہے۔یہی سچ ہے جو محمود احمد ساغر کہہ رہے تھے۔ لیکن ان کے پاس جواب کہاں تھا، ان بیماروں نے یکجہتی ریلی نکالنے سے زیادہ کچھ سیکھا ہی نہیں۔ اس ہفتے تو ریلیاں بھی ٹھس ہو گئیں۔ انہوں ان سب باتوں کی معلومات ہی نہیں جو محترم ساغر صاحب پوچھ رہے تھے، اگر کچھ جانتے بھی ہیں تو بولنے کی اجازت نہیں اور بغیر پوچھے بولنے کی ان کو عادت بھی نہیں۔

ہاں سچ تو یہی ہے جو ساغر صاحب نے پوچھا بلکہ وہ سچ سے بھی آگے کی بات کہہ گئے کہ مقبوضہ کشمیر اور مظفرآباد کی اسمبلی میں کوئی فرق نہیں۔ وہ دہلی کے اشاروں پر چلتی ہے اور یہ ادھر کے اشاروں پر۔ لیکن یہ سچ کون بتائے کہ مسئلہ کشمیر سے آزاد کشمیر کے لیڈران کا کیا واستہ وہ پاکستان کی سیاسی فرنچائز کھولے منافع بخش کاروبار کر رہے ہیں۔ جن کی وجہ سے آزاد کشمیر کے عوام بھی اصل مسئلے یعنی آزادی کی تحریک سے دور چلے گئے۔ ہاں ان میں کچھ دیسی مرغے بھی ہیں جو مجاہد بننے کا شوق تو رکھتے ہیں لیکن شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کے چکر میں اتنے ناتواں ہیں کہ ان میں مجاہد جیسی آذان دینے کی ہمت ہی نہیں رہی۔ جو بھی جعلی بھرم تھا وہ محمود احمد ساغر نے بیچ چوراہے ہنڈیا پھوڑ کر نکال دیا اور بھری محفل میں رسوا کیا۔

دیر آئید درست آئید کے مصداق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح آزاد کشمیر کے عوام میں بیداری کی لہر اٹھی مقبوضہ کشمیر کی قیادت میں بھی کچھ احساس انگڑائی لے رہا ہے، تب ہی کسی حریت رہنما کی زبان سے پہلی مرتبہ اس انداز سے بات سن کر اندازہ ہوا کہ پیرانہ سالی میں سید علی گیلانی تحریک سے کیوں الادا ہوئے تھے۔ حریت قیادت نے بہت تاخیر سے کی مگر سچ اور حق بات کہہ ہی دی۔ یہ دراصل آزاد کشمیر کے عوام کو بھی پیغام ہے کہ تم کہاں کھڑے ہو۔ محمود احمد ساغر نے آزاد کشمیر کے لیڈروں کی مسلہ کشمیر پر غیر سنجیدگی کی طرف توجہ دلائی کہ مجھ سے قبل یہاں پر موجود آزاد کشمیر کی قیادت میں سے جو جو بات کرتا اٹھ کے چلا جاتا گیا اب عتیق صاحب اور حسن ابراہیم صاحب ہی موجود ہیں۔ ان کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر کچھ درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نیکہا کہ ایک بزرگ نے بہت اہم بات آپ کے سامنے رکھی ہے اس بات پر عمل کے بعد مسائل کا حل اور آگے چلنے کے راستے نکل سکتے ہیں۔ اگر آزاد کشمیر کی حکومت کو حکومت پاکستان نے مسئلے کشمیر کے حوالے سے اعتماد میں لیا ہے تو وہ اعتماد کی بات ہم سے بھی شیئر کی جائے۔

یہ بات حقیقت ہے جو سڑکوں پہ گھوم رہی ہے، کہ کوئی سیٹلمنٹ ہو گیا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں ایک وزیر اعظم دوسرے وزیر اعظم کو کہتا ہے کہ اس نے کشمیر بیچ دیا۔ دوسرا اس کو کہتا ہے کہ اس نے بیچا ہے۔ کس نے بیجا ہمیں کچھ پتہ ہی نہیں۔۔ لیکن ان تمام باتوں پر بحث ہو رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی حریت کانفرنس کی طرف سے میں آزاد کشمیر کی قیادت سے درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ آزاد کشمیر کی موجودہ پارلیمانی قیادت کے بارے میں عوامی فیصلہ آ گیا، آزاد کشمیر کے عوام آپ کے ساتھ نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے فیصلے خود منوائے۔ ان کے چاہے آٹے کے مسائل تھے بجلی کے مسائل تھے ان کی پارلیمنٹ، اسمبلی نے ان مسائل کو حل نہیں کیا۔ عوام نے خود اپنے مسائل کا حل نکالا یہ آپ کے خلاف واضح راہ شماری ہے اس پر ہمیں افسوس ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو اس بات کا اعتماد تھا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں۔ اسی بات پر ہم نے تحریک شروع کی بلکہ تحریک نے زور پکڑا۔ ہم تو 45 سال سے سیاسی جدوجہد کر رہے تھے میں 12 سال وہاں جیل میں رہ چکا ہوں، غلام محمد صفی صاحب وہاں پر جیلوں میں رہ چکے ہیں۔ ہم نے عسکری تحریک کو شروع آپ کے کہنے پر کیا۔ آپ سے مراد آپ بھی ہیں اور آپ کو پیچھے سے چلانے والے پاکستان کے مضبوط ادارے بھی ہیں۔ لیکن آج آپ کا وہ عسکری جذبہ کہا گیا ہے جس کا ہمیں درس دیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ تینوں محاز جب مضبوط ہوں گے تو مسئلہ کشمیر حل ہوگا۔ میں کہتا ہوں کہ ہندوستان کے ساتھ آپ کے پاس بارگینگ کے لیے کوئی دوسری چیز ہی نہیں ہے اگر آپ کی عسکریت مضبوط نہیں تو۔ جب کل تک عسکریت مقبوضہ کشمیر میں مضبوط تھی تو ہندوستان الیکشن نہیں کر پا رہا تھا۔ کل اس نے الیکشن کرایا لیکن مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حوصلے کو داد دیں کہ وہاں پہ بی جے پی کو اپنا امیدوار بھی نہیں ملا۔ جس کی اس نے بڑی کوشش کی، اس نے دنیا کو کہا کہ میں نے یہاں پر سب کچھ صحیح کر دیا ہے۔ لیکن اس نے 10 لاکھ فوجوں میں 10 ہزار فوجی بھی کم نہیں کئے ہیں۔ اس نے کشمیر کی تحریک آزادی کی قیادت میں سے کسی کو رہا نہیں کیا۔ حد تو یہ ہے کہ ہماری 32 بہنیں آسیہ اندرابی صاحبہ کی قیادت میں تہاڑ جیل میں اس وقت بھی بند ہیں ۔ میں آج مقبوضہ جموں و کشمیر میں رہنے والے اپنے کسی یتیم بچے کی کفالت نہیں کر پا رہا ہوں۔ مقبوضہ کشمیر سے ہزاروں میل دور ہندوستان کی جیل میں بند کسی قیدی کی کوئی مدد نہیں کر پا رہا ہوں۔ آج حالات بدل گئے ہیں لیکن اس کے باوجود میں آپ کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ تحریک ہماری ہے۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، وادی، جموں اور لداخ، سب مل کر کوئی ایسا فارمولا نکالیں کہ ان پانچوں اکائیوں کے لیڈران کے درمیان بات چیت ہو۔ ان کو ایک جگہ جمع کریں۔ اللہ تعالی کل کس کی سنتا ہے، کیا کرے گا سب کا مالک اللہ ہی ہے۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آزاد کشمیر کی اسمبلی اور مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی برابر ہیں۔ وہاں کے قائدین دہلی کے اشاروں پر چلتے ہیں اور یہاں پر یہاں کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ ان کے پاس کشمیر کے حوالے سے کیا معاملہ ہے معلوم نہیں۔ کیا آزاد کشمیر کی اسمبلی کے پاس کوئی اختیار ہے، مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے۔ کیا آزاد کشمیر کی اسمبلی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے کوئی لابنگ کر سکتی ہے۔ جب تک پاکستان کسی کو اسٹیٹ منسٹر کا سٹیٹس نہیں دے گا کوئی کسی اجلاس کے کمرے کے اندر نہیں جا سکتا۔ کیا حیثیت ہے کشمیریوں کی۔ آزاد کشمیر صرف نام ہے۔ ہمیں صرف یہ کہا جاتا ہے جی بس آپ صبر کریں ہم صبر کریں گے ہمیں تو قرآن کہتا ہے صبر اور نماز ہمیں صبر سیکھاتی ہے۔ ہمارا ایمان ہی ہمارا مذہب ہے لیکن آزادی میرا دوسرا مذہب ہے، مجھے متحرک کرتا ہے اپنی آزادی کے لیے۔ مجھے پاکستان کے ساتھ کوئی اور ہمدردی نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہاں اسلام ہے۔ ورنہ ہندوستان آپ سے کئی گناہ آگے ہے آپ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان پیچھے چلا جائے گا تو آپ آگے جائیں گے پھر تحریک آزادی کی مدد کریں گے۔ کیسے جائے گا۔ یہ خیام خیالی ہے۔ البتہ آپ حوصلہ پیدا کریں جنگیں ہتھیاروں سے نہیں جیتی جاتی حوصلے سے جیتی جاتی ہیں۔ آپ نے حوصلہ چھوڑ دیا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ کل ہی ایک بڑے ٹی وی اینکر حامد میر نے اس مسئلے کو اٹھایا ہے کہ دبئی میں فیض حمید اور جندل کے درمیان ملاقاتیں ہوتی رہی۔ ان کی میٹنگ کیا تھی۔ کیا سابقہ وزیر اعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر صاحب نہیں کہتا کہ مجھے تین مہینے باہر بھیجا گیا، جس کا ذکر یہاں بھی کیا گیا کہ جب 5 اگست 2019 کا واقعہ ہوا تو حضرت کشمیر میں کیوں نہیں تھے۔ کیا کچھ ہوا کہ آزاد کشمیر میں باڑ لگی اور اس کو مستقل بارڈر بنا لیا گیا ہے۔ ہمیں بتایا جائے کہ باٹم لائن کیا ہے اگر شملہ ایگریمنٹ میں آپ نے کمٹمنٹ کی ہے، ہمیں بھی بتا دیں کہ آپ اس کمٹمنٹ کو نہیں توڑ سکتے۔ ورنہ 5 اگست کو آپ کو سامنے آنا چاہیے تھا۔ اور اعلان کرنا چاہیے تھا کہ وہ تمام دو طرفہ معاہدے جو ماضی میں کئے گئے ہندوستان کے ساتھ ان کو ختم کرتے ہیں، کیوں کہ ہندوستان نے خود خلاف ورزی کی ہے ان معاہدوں کی۔ 370 ہندوستان اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے درمیان بندھن کی ایک ائینی شق تھی جس کو ہندوستان نے خود اپنے لیے طے کیا تھا کہ مجھے کشمیر میں کیسے راستہ ملے گا۔ اس کو ہم نے تو نہیں ختم کیا اس نے خود ہندوستان نے توڑا۔ اگر ہمارے پاس طاقت ہوتی تو فیصلہ اسی دن ہو گیا تھا۔ پانچ اگست 2019 کو ہندوستان اور مقبوضہ کشمیر کا رشتہ ختم ہو گیا۔ اس لحاظ سے میری آزاد کشمیر کی لیڈرشپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ وہ اپنا رول متعین کرے کہ کشمیر کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ اگر کر سکتے ہیں تو کریں نہیں کر سکتے تو ہمیں بتائیں مقبوضہ کشمیر والوں کو پھر ہم خود ہی کشمیر کی آزادی کی بات کریں گے پھر تو ہمیں سارے جموں و کشمیر کو کیا کرنا ہے۔۔ اگر صرف مقبوضہ کشمیر کی عوام کو ہی پسنا ہے، تو وہ خود دیکھ لیں گے۔لیکن یہ کل جو آپ کو سہولت ملی ہے، جس کو آپ کہتے ہیں کہ ہم نے حکمت سے حاصل کی ہے، اس کی وجہ بھی وہ مقبوضہ جموں و کشمیر ہے۔ پاکستان کو پتہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر اس کا کیا برا اثر پڑے گا۔ اس لیے آپ کی باتوں کو فوری مانا گیا۔ آپ ان باتوں کا خیال رکھیں۔ مقبوضہ کشمیر کی عوام آپ کی طرف ضرور دیکھتے ہیں لیکن وہ سب سے پہلے اللہ کی طرف دیکھتے ہیں اور میں یہ بات آپ کو آج عتیق صاحب کہنا چاہتا ہوں کہ جس پانی پر آپ پاکستان سے رائیلٹی لیتے ہیں وہ پانی ہمارا ہے۔اس پر رائیلٹی کا حق ہمارا ہے ہم ہیں اس کے حق دار۔ اس کا پیسہ تحریک آزادی پر خرچ کیا جائے وہ تین دریا وہاں سے آتے ہیں آپ ہماری تنخواہوں پر پریشان ہیں اس رائیلٹی پر حق مقبوضہ کشمیر کے عوام بھی رکھتے ہیں۔ اس پیسے کو تحریک ازادی پہ خرچ کیا جائے اور میری باتوں سے ناراض نہ ہو تحریک ہماری ہے ہم اس کو انشااللہ انجام تک پہنچائیں گے۔"

جناب ساغر صاحب کی اس گفتگو پر بعد میں تبصرہ بھی کریں گے اور تجزیہ بھی سردست اتنا کہ
"کھری باتیں بہ انداز سخن کہہ دوں تو کیا ہوگا
عدوئے جان و تن کو جان من کہہ دوں تو کیا ہوگا
نگہبان وطن کو راہزن کہہ دوں تو کیا ہوگا
کسی بھی بدچلن کو بدچلن کہہ دوں تو کیا ہوگا
غریبی جن کے لتے لے گئی تا حد عریانی
جو میں ان عصمتوں کو سیم تن کہہ دوں تو کیا ہوگا
واپس کریں