دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایف سی اور پی سی کی تعیناتی کے کیا مقاصد ہیں؟
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
شہباز شریف کے کچھ مقاصد ہیں یا چوہدری انوار الحق کی درخواست کی قبولیت، معاملہ کچھ بھی ہو آزاد کشمیر میں پی سی یا ایف سی کی تعیناتی مشکل ہی نہیں دشوار بھی ہے۔ کوئی بھی حکمران مشکل اور دشوار فیصلہ بلاوجہ اور بلاضرورت نہیں کرتا۔ یقینا شہباز شریف کے بھی اس فیصلے کے پس پردہ کچھ مقاصد تو ہوں گے، یا کسی کا حکم بجا لانا ہے۔ بصورت دیگر شہباز شریف حکومت نے بلدیاتی انتخابات کے موقع پر انتہائی ضروری ہونے کے باوجود آزاد حکومت کو اضافی نفری دینے کی استدعا مسترد کر دی تھی اور کہا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کرانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ آج یک جمبش قلم پیراملٹری فورسز کی آزاد کشمیر میں تعیناتی کے احکامات اتنی سادہ سے بات تو نہیں۔ آزاد کشمیر کے باشعور عوام نے آز خود حکمران اشرافیہ کی عیاشیوں کے خلاف ایک سال سے عوامی تحریک شروع کر رکھی ہے ممکن ہے پاکستان کے حکمرانوں کو ڈر ہو کہ اس کا دائرہ پاکستان تک پھیل گیا تو ان کے لیے ہی نہیں ان کی آئندہ نسلوں کے لیے بھی قیامت ڈھا جائے گا۔ سب مل ملا کر اس تحریک کو کشمیر کے پہاڑوں تک ہی روکنا چاہتے ہوں اگر مقاصد یہ ہیں تو اس لیے قومی ادارے کو استعمال کرنے کی منصوبہ بندی انتہائی قابل مذمت ہے۔

محترم شہباز شریف صاحب کے حوالے سے تو یہ مشہور ہے کہ بلا ضرورت اپنے تائیں موصوف ایک دن چھٹی کا فیصلہ بھی نہیں کرتے۔ نگرانوں کو پی ڈی ایم کا تسلسل کہا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ان کے دور حکومت میں 85 ارب روپے کی گندم اسکینڈل کی انکوائری کا حکم دے کر یہ پیغام دیا گیا کہ یہاں سب کچھ ممکن ہے کوئی کسی کا بندہ نہیں چائے وہ فارم 45 غائب کرا دے یا فارم 47 نمایاں کر دے۔ چوہدری انوار الحق صاحب کو سمجھنے کے لیے یہ اشارہ ہی کافی ہے کہ ٹشو پیپر لاکھ اچھا اور خوشبو دار ہو لائبریری کی زینت نہیں بن سکتا، اسے صفائی کا کام انجام دینا ہے اور تحلیل ہو جانا ہے پھر ایسے کام کا انتخاب کیوں جہاں تحلیل ہونے کا احتمال ہو۔ پی سی کی آزاد کشمیر میں تعیناتی پر معروف صحافی خواجہ کاشف میر کی حالیہ تحریر بروقت ہے کہ آزاد کشمیر میں پیراملٹری فورسز کی تعیناتی کوئی نئی مثال نہیں 1952 اور 1954 میں بھی تعینات کی گئی تھی اس کے جو نتائج ہوئے تھے وہ خواجہ صاحب کی تحریر میں موجود ہیں۔ اگر عوام اور فورسز میں تنازعہ پیدا ہوا تو اس کا انجام سربراہ حکومت کی تبدیلی سے ہوتا ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی عوام کو متحرک کر رہی ہے اور میری اطلاع کے مطابق جنہوں نے 11 مئی کو مظفرآباد نہیں جانا تھا پی سی کا سن کر وہ بھی تیاری کر رہے ہیں۔ اس کے ایک روز بعد 12 مئی کو ماوں کا عالمی دن ہو گا، اس روز دنیا بھر کے بچے ماوں کو پھول اور گلدستے پیش کر رہے ہوں گے۔

سری نگر میں 23 ہزار بیوہ اور 12 ہزار بھارتی فوجیوں کی زخم خورہ ریپ زدہ مائیں اداس اور غمگین ہوں گی، نگائیں اٹھائے اس پار بیس کیمپ کی طرف دیکھ رہی ہوں گی، کاش کوئی بیٹا ہمیں پھول نہ، ہمارے لیے پھول جیسی بات ہی کر دے۔ لیکن بیس کیمپ کے بیٹے تو یہاں سرواول کی جنگ لڑ رہے ہوں گے، ایک طبقہ مراعات بچانے کی اور دوسرا بھوک مٹانے کی کوشش میں آمنے سامنے ہوں گے۔ بس اتنا خیال رہے کہ آزاد کشمیر کی کوئی ماہ اس دن سرخ رنگ کے گلاب کا خوب صورت گلدستہ وصول کرنے کے بجائے، سرخ خون میں لت پت گلاب جیسے بیٹے کی لاش وصول نہ کر رہی ہو۔ پھر لوگ سری نگر اور مظفرآباد کے درمیان مماثلت کریں گے اور ترجمان وضاحتیں کرتے رہیں گے۔ مظفرآباد کی ماہ سری نگر والی ماہ کو کہہ رہی ہو گی بہن صبر کر میں بھی بیٹے کو دفنا کر آتی ہوں پھر دونوں مل کر بین کریں گی۔ ایسا وقت کیوں آنے دیتے ہو، عوام بے چاروں کے مطالبات کیا ہیں اس میں غیر مناسب کیا ہے۔ ان کا یہی مطالبہ ہے نا کہ ہم مجبور ہیں ہم بے کس ہیں، ہم لاچار ہیں، تماری عیاشیاں اور پروٹوکول ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔

عوام کا صرف یہی مطالبہ ہے کہ عیاشیوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے 3 روپے لاگت سے تیار ہونے والی بجلی ہمیں 22 روپے بیچنے پر باضد کیوں ہو۔ گوداموں میں پڑی گندم سڑ رہی ہے اور عوام روٹی کو ترس رہے ہیں۔ آپ کے بچے باہر سے پڑھ کر آئیں اور ہم پر حکومت کریں، ہمارے بچوں کو کتاب کاپی خریدنے کے پیسے نہیں۔ مبینہ طور پر آپ اور آپ کے بچوں کے علاج لبریشن سیل کے فنڈز سے بیرون ملک ہوں ،ہمارے اور ہمارے بچوں کے لیے اسپتالوں میں ایک گولی نہیں۔ ہم نے آپ کا انتخاب کیا کہ ہمارے مسائل حل کرو آپ نے نیا قانون متعارف کرایا کہ اسمبلی ممبران کو بھی پنشن ملے گی۔ ہم انتظار میں ہی رہے کہ کچھ ہماری بھی سوچو گئے، لیکن ہم مزید کمزور اور غریب ہوتے گئے۔ آپ کی ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ بیٹا، بیٹی اور اب پوتا، نواسہ بھی سیاست اور حکومت میں ہیں، محلات تعمیر ہو گئے، مہنگی گاڑیاں آ گئیں، عیش عشرت ہے لیکن عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
" پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں، تُو بھی تو دِلدار نہیں!"

اس سال پاکستان میں گندم کی پیداوار مثالی ہوئی اور اوپر سے یوکرین سے منگوائی گئی گندم کے ڈھیر الگ سڑ رہے ہیں تو پھر پاکستان اور خاص طور پر آزاد کشمیر کے عوام آٹے کے لیے کیوں بلبلا رہے ہیں۔ یہ اس حکومت کے لیےایک سوال ہے۔ دونوں کمپنی ہیڈ اس وقت اسلام آباد میں براجمان ہیں تو آزاد کشمیر فرنچائز کے لیے دوسرا سوال کہ وہ کس منہ سے جاتی امرا اور بلاول ہاؤس کا دم بھرتے ہیں، اپنے منافع کے لیے یا عوام کے دکھوں میں کمی کے لیے۔ عوام میں سے جو لوگ ان کے پیچھے نعرے بازی کرتے ہیں ان کے لیے تیسرا سوال چھوڑتے ہیں کہ اس منافع میں آپ کا حصہ کتنا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کشمیری نژاد پاکستان کا وزیر اعظم آزاد کشمیر کے عوام کو تشدد سے ڈرانے کے لیے 600 افراد کی نیم فوجی نفری بھیجنے کے بجائے قیمت لاگت پر 600 مکاواٹ بجلی اور سڑتے ڈھیروں میں سے 600 ٹن گندم کی بوریاں ہی بھیج دیتا اور اعلان کرتا کہ کشمیری چھوٹے چھوٹے مسائل سے نہ گھبرائیں مودی کی چالبازیوں اور چہرہ دستیوں کا مقابلہ کریں تمارے یہ مسئلے ہم حل کریں گے۔ آزاد کشمیر کے حکمران اعلان کرتے کہ اسمبلی ممبران کی پنشن سمیت آئندہ دس سال کے لیے گاڑیوں سمیت ہر قسم کی خریداری بند کر دی گئی جس سے عیاشیوں کا گمان ہوتا ہو، آزاد کشمیر کابینہ دس افراد اور ججوں کی تنخوائیں پنشن اور مراعات نصف کر دی گئی ہیں اور ان اخراجات کی کمی سے جو بچت ہوئی اس سے عوام کو سبسڈی دی جاتی ہے۔ لیکن مقصد ہی کچھ اور ہو تو فیصلہ بھی اسی کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا۔

حکومت کی آزاد کشمیر میں افراتفری پھیلانے کی کوشش اور کیا سوچ ہے اس پر کئی آراء ہو سکتی ہیں۔ جو بھی پلان ہے اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ ممکن ہے وقتی طور پر مقاصد حاصل کر بھی لیے جائیں لیکن ماضی میں وقتی مقاصد کے حصول سے خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا۔ ایک طرف قابل رشک مثال ہے کہ ہم چاند پر جا رہے ہیں اور دوسری طرف روٹی سستی کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کے لیے نیم فوجی نفری تیار رہنے کی ہدایت جیسے دشمن طاقتوں کے حملے کا خطرہ ہو۔ پیپلز پارٹی نے حسب سابق اس مسئلے پر بھی نعرے بازی شروع کر دی ہے۔ کون نہیں جانتا کشمیر کی آزادی کے لئے ہزار سال جنگ کا نعرہ لگانے والوں نے ہی گلگت بلتستان میں اسٹیٹ سبجیکٹ ختم اور صوبہ بناو گھناؤنی سازش کے ساتھ تقسیم کشمیر کی راہ ہموار کی۔ اب کے بار پھر اندرونی حمایت کے باوجود آزاد کشمیر میں پی سی، ایف سی کی تعیناتی کی مخالفت کی ہے۔ پارلیمانی لیڈر حاجی سردار یعقوب خان مظفرآباد اسمبلی کے فورم پر کہہ رہے تھے کہ ہماری پارلیمانی پارٹی نے فیصلہ کیا کہ ہم آزاد کشمیر میں پی سی، ایف سی کی حمایت نہیں کریں گے۔ کیا پیپلزپارٹی اسلام آباد اور مظفرآباد میں اقتدار کے ایوانوں کے مزے نہیں لے رہی۔ صدر پاکستان ملٹری اور پیراملٹری فورسز کا سپریم ہیڈ نہیں ہوتا۔ مسلم لیگ ن کے اس اقدام سے اختلاف پر پیپلز پارٹی اقتدار سے الگ ہو جائے گی جواب نہیں ہے تو کیوں لوگوں کو بے وقوف بناتے ہو۔ آج 1974ء نہیں 2024ء ہے، آج کا نوجوان خوب جانتا ہے، خوب سمجھتا ہے اسے کوئی بےوقوف نہیں بنا سکتا۔ بنانے والا کبوتر کی مانند خود بن رہا ہوتا ہے۔ جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرتا ہے۔ دو چار روز سے صورت حال بہت ابتر معلوم ہوتی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی اسی اعلان کو اچھال رہی ہے کہ آٹا بجلی مانگنے پر پیراملٹری فورسز کو طلب کیا گیا۔ بے شک سب ہماری قابل احترام فورسز ہیں لیکن آزاد کشمیر میں اسے لشکر کشی سے تعبیر کیا جا رہا ہے جو کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں۔ میں یہاں عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت سے اپیل کروں گا کہ اگر حکومت تدبر سے کام نہیں لیتی تو آپ ہی سیاسی حکمت عملی سے کام لیں۔ اگر ایف سی اور پی سی کو بازاروں اور سڑکوں پر تعینات کر دیا گیا تو آپ عوام کو گھروں میں بند رہنے کا مشورہ دیں، لانگ مارچ کے بجائے یوم سوگ کا اعلان کریں فل پیہ اور شٹر ڈان سے لانگ مارچ سے بھی زیادہ مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔
واپس کریں