دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
’ریٹائر آپ ہو رہے ہو پاکستان نہیں‘
وسعت اللہ خان
وسعت اللہ خان
ذشتہ برس پندرہ اگست کو طالبان کابل میں داخل ہوئے۔ چار ستمبر کو آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اچانک کابل پہنچےحالانکہ تب تک کابل میں کسی باضابطہ حکومت کا وجود نہیں تھا۔جنرل صاحب نے پاکستانی سفارت خانے میں چائے کا کپ ہاتھ میں لیے نہایت اطمینان سے صحافیوں کا سامنا کیا۔برطانوی چینل فور کی صحافن نے پوچھا کیا آپ سینیئر طالبان قیادت سے ملیں گے۔ افغانستان کے بارے میں آپ کی اب کیا امید ہے؟ فیض حمید نے مسکراتے ہوئے کہا ’ڈونٹ وری ایوری تھنگ ول بھی اوکے‘ (پریشان نہ ہوں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘اس جملے کو ایک برس چودہ دن گزر گئے۔ اس عرصے میں افغان طالبان کے بارے میں یہ حسنِ ظن انجام کو پہنچا کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کی سرکردہ قیادت کو پاکستان کے حوالے بھلے نہ کریں لیکن سرحد پار سے ان کی مسلح سرگرمیوں کو ضرور روکیں۔

افغان طالبان کے بااثر حقانیوں نے بیچ میں پڑ کے ٹی ٹی پی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بات چیت اور جرگے کا بھی اہتمام کیا۔ پاکستانی علما نے کابل کا دورہ کر کے انھیں ریاستی تمناؤں سے بھی آگاہ کیا۔ مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے۔ دو بار جنگ بندی بھی ہوئی اور ٹوٹ بھی گئی۔خود کابل اور اسلام آباد کے درمیان سرحدی باڑ اور زمین کی ملکیت کے معاملے پر کئی مسلح جھڑپیں بھی ہوئیں۔طورخم اور چمن کی سرحد پر تجارت بھی بارہا معطل ہوئی۔ افغان وزیرِ دفاع ملا یعقوب نے ایمن الزواہری کی ہلاکت کا ذمہ دار پاکستان کی سرزمین سے گزر کے آنے والے امریکی ڈرونز کو قرار دیا۔

اور اب نقشہ یوں ہے کہ شمالی و جنوبی وزیرستان کے اضلاع سے ویسی ہی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں جو سات برس قبل آپریشن سے پہلے آیا کرتی تھیں۔ٹارگٹ کلنگ، سڑک کنارے نصب بموں کے دھماکے، پاکستانی فوجیوں اور عسکری قافلوں پر حملے۔ خیبر ضلع سے متصل وادی تیراہ میں طالبان کی موجودگی کے سبب مخالف مقامی لوگوں کی دوبارہ نقل مکانی۔مالاکنڈ ڈویژن کے مختلف علاقوں بالخصوص سوات کے پہاڑوں میں مسلح طالبان کی بڑھتی ہوئی نقل و حرکت اور اغوا کاری و دھماکہ گیری کے ذریعے اپنی واپسی کا پر اعتماد عملی اعلان۔مقامی متمول افراد کو تاوان کی پرچیاں اور دھمکیاں۔ فوج نے سویلینز کی جو امن کمیٹیاں قائم کی تھیں ان کے ارکان کو چن چن کے نشانہ بنانے کے عمل میں تیزی۔ حالانکہ سوات میں ایک فعال فوجی چھاؤنی بھی ڈالی جا چکی ہے۔جو لاکھوں مقامی باشندے طالبان کے پہلے دور کو بھگت چکے ہیں وہ دوبارہ اس زمانے میں نہیں لوٹنا چاہتے۔لہٰذا سوات کے مختلف قصبات، جنوبی و شمالی وزیرستان اور دیگر بندوبستی علاقوں میں پرانے دھشتی دور کی ممکنہ واپسی کے خلاف عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ان میں تمام سیاسی جماعتوں کے حمایتی بلاامتیاز شریک ہیں۔ مگر قومی میڈیا میں ان مظاہروں کی کوریج نہ ہونے کے برابر ہے۔

جس طرح سوات میں طالبان کے دورِ اوّل کے آغاز، انجام اور ان کے پشت پناہوں اور فرار کروانے والے کرداروں پر سے پراسراریت کا دبیز پردہ آج تک نہیں اٹھ پایا۔ اسی طرح پچھلے چند ماہ میں طالبان کی مختلف علاقوں میں دبے پاؤں مسلح واپسی کس کے کہنے پر ہوئی، کس سمجھوتے کے تحت ہوئی۔یہ سمجھوتہ کس نے کس سے کیا۔ حتمی مقصد کیا ہے؟ وفاقی شہبازی حکومت، خیبرپختون خوا کی انصافی حکومت اور پارلیمنٹ بھی اس بابت لاعلم ہیں یا خود کو بوجوہ لاعلم ظاہر کر رہے ہیں۔

لیکن اس بار جو بھی تازہ مہم جوئی کا ڈیزائنر ہے وہ شاید گذشتہ دور کی طرح بوتل سے نکلنے والے جن کو بند نہ کر پائے۔تب بہت زیادہ جانی قربانیاں دے کر ٹی ٹی پی کو سرحد پار دھکیلنے میں جزوی کامیابی اس لیے نصیب ہوئی تھی کہ پاکستان کی اقتصادی حالت بیساکھیوں پر ضرور تھی مگر آئی سی یو کے بستر پر نہیں تھی۔تب فیٹف نے بھی اتنی سختی سے گلا نہیں پکڑا ہوا تھا۔ تب عمران خان جیسا کوئی ضدی بالم اسٹیبلشمنٹ کی گردن پر گرم گرم پھونکیں بھی نہیں مار رہا تھا۔ تب فوج کی قیادت ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے نیزوں پر بھی نہیں تھی۔تب وزیرستان اور مالاکنڈ کے بھولے عوام اس یقین دہانی پر بے گھر ہونے کے لیے بھی آمادہ تھے کہ آپ علاقہ خالی کریں تاکہ ہم باریک کنگھی پھیر کر دہشت گردی کی تمام جوئیں مار سکیں۔

تب 2010 کا سیلاب ضرور آیا تھا مگر 2022 میں پاکستان کے سر سے گزرنے والی آبی قیامت کا تصور بھی نہیں تھا۔تب کے سیلاب نے آج کی ماحولیاتی قیامت کی طرح بیڈ گورنننس کے سارے کپڑے اتار کر کندھے پر نہیں رکھ دیے تھے۔گویا حالات آج کے برعکس بہت غنیمت تھے۔ اسی لیے آپ نے سابق قبائلی علاقوں اور بندوبستی اضلاع میں شدت پسندی کے خلاف کامیاب آپریشن بھی کر لیے۔اب یہ تھوڑی بہت عیاشی بھی نہ آپ کو میسر ہے نہ ہی ریاستِ پاکستان کو۔لہٰذا لنگوٹی میں پھاگ کھیلنے سے باز رہا جائے۔ ذومعنی و تجریدی و علامتی گفتگو کے بجائے سیدھے سیدھے بتایا جائے کہ طالبان کی واپسی کیوں اور کس سمجھوتے کی کِن کِن شرائط کے تحت ہو رہی ہے۔ اس کے ملک و قوم کو کیا فوائد ہوں گے اور خود آپ کو کیا فیض پہنچے گا؟ اور کیا ایک برس بعد بھی یہ جملہ بامعنی ہے کہ ’ڈونٹ وری ۔ایوری تھنگ ول بھی اوکے‘۔ آپ سب تو باری باری ریٹائر ہو کے سائیڈ پر ہو جاؤ گے۔ پاکستان تو حاضر سروس ہی رہے گا نا۔

بشکریہ بی بی سی
واپس کریں