دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آئین کی کتاب اور جوشیلے لونڈے
وسعت اللہ خان
وسعت اللہ خان
جب تک ہم حقائق سے نظریں چرا کے خود کو دھوکہ دیتے رہیں گے تب تک یہ دھوکہ ہمیں دھوکہ دیتا رہے گا۔پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ملک متحدہ ہندوستان سے انگریزوں کے چلے جانے کی صورت میں جدید طرزِ جمہوریت کے نتیجے میں ہندو اکثریت کی جانب سے مسلمان اقلیت کو مستقل کچلے جانے کے خوف نے بنوایا۔دوسری حقیقت یہ ہے کہ ایک اکثریتی مذہبی گروہ (ہندو) کے ممکنہ تسلط سے بچنے کے لیے جو ملک بنا وہ بھی ایک اور اکثریتی گروہ (مسلمان) کے تسلط کو یقینی بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا۔ یعنی پولٹیکل سائنس کی زبان میں ایک میجاریٹیرین ریاست سے بچنے کے لیے ایک متبادل میجاریٹیرین ریاست وجود میں لائی گئی۔

(میجاریٹیرین ریاست وہ ہوتی ہے، جس میں بیشتر بنیادی قوانین کسی ایک مذہبی، نسلی یا علاقائی اکثریت کے مفاد کو دیگر ہم وطن اقلتیوں کے مفادات پر مقدم رکھیں)۔چنانچہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اکثریت کی بنیاد پر تشکیل پانے والی نئی ریاست کی نئی اقلیتوں میں وہ بقائی خوف منتقل نہ ہو جس بقائی خوف کے ہاتھوں پاکستان وجود میں آیا۔اس بابت جناح صاحب کی گیارہ اگست کی تقریر کے ایک پیرے نے جو عارضی خوش فہمی پیدا کی۔ وہ خوش فہمی ان کی وفات کے بعد اسمبلی سے منظور ہونے والی قرار دادِ مقاصد نے رفع کر دی۔بدقسمتی سے جو نئی ریاست ایک مذہبی اقلیت کو مساوی حقوق دلانے کے لیے وجود میں آئی، وہ اپنی اکثریت کو بھی مطمئن نہ رکھ سکی۔شمالی ہندوستان اور مغربی پنجاب کی جاگیری و متوسط و مذہبی مسلمان قیادت کی جانب سے ایک مذہب، ایک ملت، ایک ریاست کا نعرہ نئے ملک کی تشکیل کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے کی حکمتِ عملی کے طور پر تو مثر تھا۔مگر اس نعرے کی بنیاد پر ملک بننے کے بعد نئے زمینی حقائق کی روشنی میں اگر ریاست یہ بیانیہ فروغ دیتی ہے کہ ملک بنانے کا مقصد اکثریت کے ہاتھوں اقلیت کو بلڈوز ہونے سے بچانا تھا۔ اب جبکہ یہ مقصد حاصل ہو چکا ہے تو یہ ملک بلاامتیاز اپنی حدود میں رہنے والے سب پاکستانیوں کا ہے۔مگر یہ میجارٹیرین ریاست بھی اکثریت کا اعتماد حاصل نہ کر سکی۔ اس کا ثبوت ہمیں 16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں مل گیا۔

اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شکست کے اسباب کو پیشِ نظر رکھ کے جو نیا آئین بنایا جاتا وہ پاکستان کی حدود میں رہنے والے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق و فرائض کی محض کاغذی کے بجائے اصالتا نمائندگی کرتا۔مگر ایسا کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا بلکہ جان لیوا خول توڑنے کے بجائے اسی خول میں خود کو اور سمیٹ لیا گیا۔میجارٹیرین ریاست پر مسلط منظم اقلیت اور مضبوط ہو گئی ۔انیس سو اکہتر سے پہلے بنگال کی اکثریت کو آبادی کی بنیاد پر وسائیل تک رسائی نہ دینے کے لیے ون یونٹ تخلیق کیا گیا۔ یعنی مشرقی پاکستان کی چھپن فیصد اکثریت اور مغربی پاکستان کی چوالیس فیصد اقلیت کو ففٹی ففٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ جیسے ہی بنگال نے وفاق سے طلاق لی تو باقی پاکستان میں وسائیل کی تقسیم کے لئے آبادی کی بنیاد کا فارمولا اپنا لیا گیا۔ون یونٹ کا فائدہ بھی پنجاب کو ہوا اور آبادی کی بنیاد پر وسائیل کی تقسیم کا نیا فارمولا بھی پنجاب کے حق میں گیا۔ باقی صوبوں کو یہ پڑھایا گیا کہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت وسائل کی تقسیم بھی احساس محرومی دور نہ کر پائی۔متحدہ پاکستان میں غیر مسلم اقلیت کا تناسب لگ بھگ بائیس فیصد تھا۔نئے پاکستان میں اقلیت راتوں رات کم ہو کے دو سے ڈھائی فیصد رھ گئی۔جب اقلیت بائیس فیصد تھی تو قرآن کی بے حرمتی کا مشرقی و مغربی پاکستان میں ایک واقعہ بھی نہیں ہوا۔جب اقلیت کم ہو کے ڈھائی فیصد تک رھ گئی تو اس نے دیدہ دلیری سے مسلمان اکثریت کے مذہبی جذبات کو تواتر سے پامال کرنے پر کمر کس لی۔

یقین نہ آئے تو گذشتہ چالیس برس کے توہینِ مذہب کے واقعات میں اقلیتی ملزموں کا تناسب دیکھ لیجیے۔ ساتھ ہی ساتھ میجاریٹیرین سٹیٹ میں توہینِ مذہب کے واقعات میں ماخوز مسلمانوں کی کثیر تعداد دیکھ بھی لیجیے۔اگر تو یہ واقعی میجاریٹیرین سٹیٹ ہوتی تب بھی صبر آ جاتا کہ کم ازکم اکثریتی فرقہ تو سکون سے رہ رہا ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ اس میجارٹیرین سٹیٹ پر بھی ایک بالادست اقلیت نے اپنے ہم خیال مسلح نظریاتی گروہوں کی مدد سے تسلط قائم کر لیا اور اس تسلط کو قوانین کی ڈھال بھی فراہم کر دی گئی۔ان گروہوں کو مخصوص نظریاتی بلکہ سیاسی، نسلی،علاقائی اور معاشی دبا کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے عوض انھیں اپنے ہم مذہب مخالفین یا غیر مسلم اقلیتوں کو پنچنگ بیگ بنا کے اپنا سیاسی و سماجی دبدبہ پھیلانے کی اجازت ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو اس وقت جیلیں سیاسی قیدیوں کے بجائے نظریاتی منافرت اور دہشت پھیلانے والوں سے بھری ہوتیں۔

لاقانونیت پر تو قابو پایا جا سکتا ہے مگر قانونی انارکی پر قابو پانا بہت مشکل ہے۔جڑانوالہ قدرتی ردِ عمل نہیں تھا بلکہ منظم افراتفری تھی۔جب تک ایسی منظم افراتفری ریاستی مقاصد آگے بڑھانے میں معاون ہے۔ آپ انیس سو تہتر کے آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق، اسلام میں اقلیتوں کی حرمت کا بیان اور گیارہ اگست کی تقریر کے حوالے دیتے رہیں۔جس جوشیلے لونڈے کے دماغ میں تیزاب، دائیں ہاتھ میں سریا اور بائیں ہاتھ میں عمارتیں جلانے والا کیمیکل ہو اس کے سامنے آئین اور عفو و درگزر کے صفحات لہرا کے دکھائیں نا۔یہ نظام کی خرابی ہرگز ہرگز نہیں۔ نظام ہی اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے۔

بشکریہ ' بی بی سی اردو'

واپس کریں