محمد محسن میر ایڈووکیٹ ڈڈیال
گزشتہ کئی سالوں سے اس پریشانی میں مبتلا تھاکہ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ کیوں ڈھائے جارھے ہیں اس سلسلے میں نے "رخاہن بحران"(برما) کے بارے میں گہری ریسرچ کی تلاش شروع کردی جب میں نے (راقم)"رخاہن بحران"کے بارے میں گہری ریسرچ کی تو مجھے حقائق اس کے برعکس نظر آئے جو عام طور پر کسی میڈیا میں دکھائی نہیں دیتے تھے اس سلسلے میں مجھے "رخاہن بحران"کے مسائل نظر آئے ہیں وہ مندر ذیل ہیں،
(1)شہریت کا مسئلہ
(2) رخاہن کا قتل عام
(3) عالمی طاقتوں کا برما کا کردار
(4)برمی فوج کا کردار
سب سے پہلے ہم رخاہن ریاست کے جفرافیے پر کے بارے میں تفصیل سے بحث کرتے ہیں تاکہ ہمیں رخاہن ریاست کے بارے میں کچھ معلومات کا صیح اندازہ ہو سکے ۔
"روہنگیا مسلمانوں کی زبان و کلچر چٹاگانگ کے مقامی لوگوں جیسا ھے یہ وہی چٹاگانگ ھے جس کی بندرگاہ کو چین نے پانچ سال قبل خرید لیا ھے رخاہن ریاست خلیج بنگال میں 53کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے یہ برما کے دوسری خطوں سے ارکان پہاڑی سلسلے کے ذریعے مکمل طور پر کٹی ہوئی ہے لکین خشکی کے راستے پر موجودہ بنگلادیش کے چٹاگانگ نامی سے 230کلومیٹر لمبی پٹی کے ذریعے قدرتی طور جڑا ھوا ھے اور اسی حوالے سے اس علاقے کی تاریخ سیاست اور ثقافت ہزاروں سال برما کے بجائے بنگال سے وابستہ ہے سب سے پہلے روہنگیا مسلمانوں کے شہریت کے مسئلے پر بحث کرتے ہیں جہاں تک میں نے "رخاہن بحران"پر جو ریسرچ کی ھے ان روہنگیا مسلمانوں میں تعلیم کی کمی کا سب سے بڑا بحران ھے روہنگیا مسلمانوں کی اکثریت جہالت کی شب دیجور میں ڈوبی ہوئی ہے شہریت کے مسئلے کو حل کرنے سے پہلے ان کو اپنی تعلیم پر توجہ دینا ھوگی ان کو چاہیے جن مسلم ممالک سے ان کو مالی امداد مل رہی ہے اس سے ان روہنگیا مسلمانوں کو چاہیے اس مالی امداد سے سکول 'کالجز اور یونیورسٹی بنائے کیونکہ ریاست رخاہن میں سکولز کالجز اور یونیورسٹیز کھلے گی تو تب جا کر ریاست رخاہن کے مسلمانوں کا ایک پڑھا لکھا طبقہ تیار ھو گا اور پھر یہی "پڑھا لکھا طبقہ" اپنے شہریت کے حصول کے لیے جہدوجہد کرے گا رخاہن ریاست کے مسلمانوں کی شہریت کا مسئلہ بالکل وہی ھے جو ہمارے بہاری مسلمانوں کا ھے وہ بھارت اور پاکستان دونوں ممالک کے شہریت سے محروم ہیں جس طرح روہنگیا مسلمانوں نے 1947 میں پاکستان میں شامل ھونے کی جہدوجہد کی تھی وہ اپنے صوبے رخاہن کو پاکستان میں شامل کریں گے جس کی وجہ سے آج تک برما کی شہریت سے محروم ہیں ان کو پاکستان میں شامل ھونے والی تحریک شروع کرنے کی سزا آج تک دی جارہی ہے۔ چاہے تو یہ تھا پاکستان ان کی شہریت کے لیے برما سے بات کرتا لیکن پاکستان نے برما کے مسلمانوں کو بلکل تہنا چھوڑ دیا ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کے کی شہریت کا مسئلہ بالکل اسی طرح ھے جس طرح بہار کے مسلمانوں کا ھے روہنگیا مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ ریاست رخاہن کے علاہ باقی تمام ریاستوں میں مسلمان جہاں رھتے ہیں ان تمام مسلمان کو برما کی شہریت حاصل ہے جن میں چینی نسل اور بھارتی مسلمان ہیں ان کو برما کی شہریت حاصل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو سیاسی' معاشی اور مزہبی حقوق حاصل ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے (رخاہن) مایو کے مسلمان بھی اپنے آپ کو روہنگیا کہلانے پر اصرار کرتے ہیں ورنہ برما میں اس کے علاہ محتلف نسلوں کے مسلمان موجود ہیں جس میں ہندوستانی سپاہیوں کی اولاد یا نسلیں جو کمان کہلاتی ہیں چینی کے مشہور صوبے یونان کے فارسی نسل مسلمان اور برما کے مسلمان کے اپنے مقامی باشندے جنھوں نے اسلام کی برما آمد کے بعد اسلام قبول کیا ان سب نسلوں کو برمی حکومت برما کا باشندے تسلیم کرتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے مذہبی تشخص برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ برما کی ثقافت بھی برقرار رکھی جو ان کے لیے فائدے مند ثابت ھوئی لکین رخاہن ریاست کے مسلمانوں نے برمی ثقافت کو اختیار نہ کیا جس کی وجہ سے برمی حکومت ان کو پنا شہری(citizenship) تسلیم نہیں کرتی یہاں تک کہ میرا (راقم) کا خیال ہے روہنگیا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ برما کی ثقافت کچھ چیزوں کو اختیار کریتاکہ ان کی شہریت کے حصول کے میں کچھ نرمی پیدا ھو جائے اس کے ساتھ یہاں میں ایک اور بات اصافہ کروں گا ہماری ثقافت میں کچھ چییزیں ہندوں سے ملتی جلتی ہیں یعنی شادی بیاہ کی رسوم وغیرہ اس کے علاہ ہمارے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر قبلہ آیاز احمد کے مطابق رخاہن مسلمانوں میں تعلیم کی شدید کمی ہے اور اس کے ساتھ ہی ان کی معاشی حالت بہت ابتر ھے جبکہ دوسرے صوبوں کے مسلمانوں کی معاشیسیاسی تعلیمی اور تجارتی حالت بہت مضبوط ہے چینی اور بھارتی نسل مسلمان تجارت بھی کرتے ہیں جبکہ روہنگیا مسلمان صرف کسان ہیں ان چیزوں کی کمی نے روہنگیا مسلمانوں کو برما کی شہریت سے محروم کر رکھا ہے ان روہنگیا مسلمانوں کو شہریت کے حصول کے لیے اپنی سیاسی معاشی تعلمیی اور تجارتی حالت بہتر کرنا ھو گا اس کے ساتھ ان کو ایک سیاسی جماعت بھی بنانا ھو گی جس کے لیے ان کو شہریت حصول کے لیے ایک پرامن تحریک چلانا ھوگی اور غیر ملکی سفارتکاروں کو متحرک کرنا ھو گا۔
اب آتے ہیں رخاہن کے مسلمانوں کے قتل کی طرف، اس سلسلے میں جب غیر ملکی میڈیا کے نمائندے برمی جرنیلوں سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے حوالے سے سوال کرتے ہیں تو برمی جرنیل یہ جواب دتیے ہیں کہ رخاہن ریاست میں فوجی آپریشن اس لیے کیا جارہا ھے وہاں کچھ دہشتگرد تنظیمیں موجود ہیں جو صوبہ رخاہن کو برما سے الگ کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ الگ اسلامی ریاست قائم کر سکے یہ تھے جنوری 2012 میں ایک بنگلادیشی اخبار نے انکشاف کیا تھا کہ محتلف روہنگیا عسکریت پسند گروہ بنگلادیش میں داخل ھو رھے ہیں جن میں روہنگیا سولیڈریٹی آرگنائزیشنارکان موومنٹارکان فریڈم پارٹی اور ارکان آرگنائزیشن بڑے نام ہیں ان تنظیموں نے گٹھ جوڑ کر کے برما کے صوبے رخاہن کو الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اسی طرح ستمبر میں 2012 میں ایک اور اخبار نے رپورٹ شائع کی کہ برما کے صوبے رخاہن کی ایک اور جماعت"الارخاہن" عسکری سرگرمیوں میں مصروف ہے اور اس جماعت کا تعلق ایک کالعدم بنگلادیشی مجاہدین کی جماعت سے ھے جس کی وجہ سے جب فسادات ھوئے تو جب روہنگیا مسلمانوں نے بنگلادیش کی طرف ہجرت کی تو بنگلادیش نے ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ کچھ رخاہن باغی ہیں جو غالبا خود کو جہادی بھی کہتے ہیں اور رخاہن کو خودمختار یا آزاد کرائے جانے کی غرض سے مسلح سر گرمیاں کرتے ہیں۔
برما کی اسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس روسی ماہرین کا موقف سامنے رکھتے ہیں جو انہوں نے برما کی صورتحال پر پیش کیا ماسکو کی مصروف پیلز فرینڈشپ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ برائے مطالعہ تزویہ و اندازہ جات کے نائب منتظم ایگور چینکو کا کہنا ھے کہ "جارج سورس جو ایک امریکی کی تنظیم ھے جب میں جارج سورس کسی ملک میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں پر مذہبی نسلی اور سماجی تضادات کو نگاہ میں رکھتے ہیں پھر ایک منصوبے کے تحت ان میں سے کسی ایک کو یا کسی کو ھوادے کر معاملات کو گرم کرتے ہیں ماہر موصوف کا کہنا ھے اب چاہیں تو اس کو بھی ایک سازشی مفروضہ قرار دے لیکن سچ یہی ھیکہ اس بار بھی مسلمان ہی زد پر ہیں یہ ایک زہریلا چکر ھے کہ پہلے نام نہاد مجاہدین پیدا کیے جاتے ہیں پھر اس علاقے کے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ھے جس کے نتیجے میں مزید بنیاد پرست تنظیمیں سزا یافتہ بھارتی ہیں پھر ان کی سر کوبی کا کھیل کھیلا جاتا ھے روسی ماہرین کے خیالات جو انہوں نے برما کی صورتحال کے بارے میں پیش کیے یہاں تک کہ میرا نقظہ نظر ھے (محمد محسن میر ایڈووکیٹ) ھے کہ اگر مجاہدین جماعتیں صوبہ رخاہن کو برما سے الگ کرنا چاہتے ہیں تو ان کو سب سے پہلے یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ ان مجاھدین جماعتوں کو خونی جہاد کے بجائے سیاسی جہاد کے ذریعے صوبہ رخاہن کے مسلمانوں کا مقدمہ لڑنا چاہیے ان مجاھدین جماعتوں کو سیاسی جماعتوں میں تبدیل کرنا چاہیے اگر یہ مجاھدین جماعتیں خونی جہاد کریگی تو اس سے صوبہ رخاہن کے مسلمانوں کے درمیان نفرت کے انگار کا جوش پیدا کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی میں ایک اور بات بتاتا چلوں کہ سیاسی جہاد خونی جہاد سے افضل ہے سیاسی جہاد میں غصے کو کنٹرول کیا جاتا ہے جبکہ خونی جہاد میں جذبات کو کنٹرول میں نہیں رکھا جاتا ہے اس کی واضح مثال ہمارے سامنے موجود ہے صلح حدیبیہ کی فتح ایک سیاسی جہاد کے ذریعے ھوئی تھی جو ہماری اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی فتح تھی اسی سیاسی جہاد کے ذریعے قاہداعظم محمد علی جناح رحم اللہ علیہ نے پاکستان کو حاصل کیا اور اسی سیاسی جہاد کے ذریعے ملاہیشا نے فلپائن سے ایک اور اسلامی ملک (اسلامک مورو"کو حاصل کیا اس اسلامی ملک (اسلامک مورو)کو حاصل کرنے کے لیے ملاہیشا نے فلپائن سے سیاسی مذاکرات کیے جس سے "اسلامی مورو"کو آزاد کرایا یہ ملایشیا کی بہترین سیاسی ڈپلومیسی تھی جو پاکستان جیسا ملک کے لیے بہترین مثال ہے آپ نے کبھی دیکھا ھو گا کہ 1971 میں مشرقی پاکستان کے وقت جماعت اسلامی نے اپنے عسکری ونگ "الشمس و بدر"کے ذریعے کاروائیاں کیں تو آپ نے تاریخ کا مطالعہ کیا ھو تو اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آج تک جماعت اسلامی کے خلاف مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کے اندر آج بھی نفرت کا بھوت سواری کر رہا ھے یہاں تک کہ میرا نقظہ نظر ھے کہ جماعت اسلامی وہاں خونی جہاد کے بجائے سیاسی جہاد کرتی تو نتائج اس کے برعکس نظر آتے یعنی جماعت اسلامی اگر مشرقی پاکستان میں سیاسی جلسے جلوس اور سیمینارز منعقد کرتی تو اس کے ساتھ ہی وہاں کی عوام کے نقط نظر کو غور سے سنتی بلکہ اس پر عمل بھی کرتی اس سے یہ فاہدہ ھوتا مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں کے اندر جماعت اسلامی کے لیے محبت اور مزہبی قربت کا خون کا جوش مارتا جس طرح آج دانشوروں کی مشرقی پاکستان کے حوالے سے کتابیں شائع ہو رہی ہیں ان کتابوں میں اس بات کی تصدیق ھو رہی ہیکہ جماعت اسلامی "الشمس و بدر"کے بجائے وہاں سیاسی کردار ادا کرتی تو بہتر ھوتا اس کے ساتھ ساتھ آج کل جماعت اسلامی کے متعلق مزید انکشافات سامنے آ رہے ہیں کہ مولانا ابوالاعلی مودودی صاحب رحم اللہ علیہ مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کے رویہ کے متعلق جماعت اسلامی سے مایوس ہو چکے تھے
اب آتے ہیں، "برما میں عالمی طاقتوں کا کردار"۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ برما میں چین نے سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے یہ 2011 کی بات ہے جب چین نے ریاست رخاہن میں پائپ لائن بچھانے کا اعلان کیا تو یہاں بھی ایک بات قابل غور ہے کہ چین نے 1990 سے صوبے رخاہن میں پائپ لائن بچھانے پر غور کررہا تھا جب چین نے2011 میں پائپ لائن بچھانے کا اعلان کیا تو صوبہ رخاہن میں جہاں سے پائپ لائن بچھانے کے لیے بہت سے ساری زمین کی ضرورت تھی ظاہری بات ھیکہ جہاں سے یہ پائپ لائن گزرتی تھی وہاں غریب روہنگیا مسلمان بستیاں تھیں چنانچہ ان غریب روہنگیا مسلمان زمینداروں نے احتجاج کیا تو بات حد سے بڑھ گئی تو برمی حکومت نے فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے بہت سے بے گناہ روہنگیا مسلمان شہید ھو گئے ان غریب روہنگیا مسلمانوں کا قصور صرف یہ تھاکہ انہوں نے صرف زمین کے معاوضے کے لیے آواز بلند کی تھی چنانچہ نوے کی دہائی سے یہ فوجی حکمران ان چھوٹے زمینداروں سے جبری زمین ہتھیانے میں مصروف ہیں لوگوں سے یہ زمین زیادہ تر فوجی چھاونی چیںن بنانے معدنی وسائل ڈھونڈنے بڑے بڑے فارم ہاسز بنانے اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کے نام پر ہتھائی جارہی ہے مثال کے طور پر برما کی اور ریاست"کیچن"میں بھی غریب زمینداروں کی زمین سے سونے نکالنے کے بہانے 500 ایکڑ زمین چھینی گئی ہے لوگوں کو زبردستی گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے اور پھر اس کے لیے 2011 میں میانمار کے فوجی حکمرانوں نے معاشی اصلاحات کا اعلان کیا اور عوام کو یہ لالی پاپ دیا گیا کہ اصلاحات سے بیرونی سرمایہ کاری کا سیلاب آ جائے گا اور ان کے دن پھر جائیں گے اور اس اعلان کے فورا بعد 2012 میں مذہبی فسادات پھوٹ پڑے جس پر امن سمجھے جانے والے بودھ کے ماننے والوں نے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا کمال کی بات تو یہ تھی میانمار حکومت اس قتل عام کو روکنے کے بجائے لوگوں سے زمین ہتھیانے کے لیے نئے قوانین بنانے میں مصروف تھی اصل مسئلہ یہ ہے کہ چینی سرمایہ کار نوئے کی دہائی سے میانمار کی شمالی ریاست "شان"کے دریاں جنگلات اور معدنی وسائل کے استعصال میں ملوث ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے مقامی لوگوں اور حکومت کے درمیان تصادم بھی ھوا یہی ریاست "رخاہن"کی ریاست میں ھوا جہاں چین اور بھارت اپنے اپنے مفادات کے منصوبوں پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں نئی نئی سڑکیں بنانے اور ریاست "رخاہن" سے چین اور بھارت کے درمیان پائپ لائن بچھانے پر کام جاری ہے نیشنل پڑوم کمپنی آف چائنا "ریاست رخاہن"کے دارالحکومت وہ ستوے سے چینی شہر لیونگ کے درمیان پائپ لائن بچھائی جاری ہے جس سے ستوے سے تیل اور گیس چین کے صوبے یونان کو مہیا کیا جائی گی ستوے کی بندرگاہ پر بھارت نئے تعمیراتی کاموں میں مصروف ھے بھارت چاہتا ہے کہ وہ اس راستے سے اپنے صوبے "میزورام"کو خلیج بنگال سے ملا دے رخاہن ریاست کی زرخیز زمین اور وافر مقدار میں پانی کی موجودگی نے سب عالمی طاقتوں کو طاقتوں کو اس طرف متوجہ کیا ھوا ھے تیل اور گیس کے وافر ذخائر اس ریاست رخاہن میں موجود ہیں جن کو دیکھ کر امریکہ اور چین کے منہ میں پانی بھر آتا ھے چین میانمار میں بھاری سرمایہ کاری کی ھوئی ھے جس کی وجہ سے چین برما میں کی موجود صورتحال پر خاموش ھے ایک اور انکشاف کے ساتھ چین اور امریکہ مل کر ڈیڈھ ارب کی لاگت ایک اور پائپ لائن برما میں تعمیر کر رھے ھیں جس میں چین کو تیل فراہم کیا جائے گا اس کے ساتھ ہی روسی ماہرین نے یہ انکشاف کیا ہیکہ برما میں مزہبی فسادات ایک امریکی سازش کے ذریعے کراے جائے رھے ہیں تاکہ چین کو برما میں بھاری سرمایہ کاری کے لئے روکا جا سکے اب آتے ہیں برما میں فوج کا کردار کی طرف دراصل برما میں فوج کا کردار بہت اہم ہے برما کے تمام سیاسی نظام پر فوج کا کنٹرول ھے آنگ آیان سوچی کی حیثیت وہاں کچھ بھی نہیں ھے آنگ سوچی ایک بہادر خاتون ہیں لیکن برما میں ان کی حثیت نہ ھونے کے برابر ہے یہاں تک کہ ان کو برمی جرنیل سلیوٹ تک نہیں کرتے۔
تحریر محمد محسن میر ایڈووکیٹ ڈڈیال ، آزاد کشمیر
واپس کریں