دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خلفا راشدین کے انتخاب کا مسئلہ اور جدید جمہوریت
محمد محسن میر ایڈووکیٹ    ڈڈیال
محمد محسن میر ایڈووکیٹ ڈڈیال
تحریر--محمد محسن میر ایڈووکیٹ ۔ ڈڈیال آزاد کشمیر
میں نے کئی بار سوچ کہ خلافت کا جو تصور ہمارے اسلام نے ساڈھے چودہ سو سال قبل دیا تھا وہ موجودہ جدید جہموریت کے بہت قریب ہے آج کل کے نام و نہاد مولوی حضرات اور علما کرام جو اب انتہاپسندی کے اعلی درجے پر فائز ہیں یہ نام و نہاد مولوی حضرات, علما کرام اور یہاں تک بعض صحافی حضرات بھی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ موجودہ جدید جہموریت مغربی ممالک کی ایجاد ھے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور پھر یہ کہتے ہیں کہ خلافت کا نظام ہونا چاہیے میں (راقم) گزشتہ دس برس سے یہ ریسرچ کر رہا ہوں کہ موجودہ جدید جہموریت اور خلافت ایک ہی چیز کا نام ھے قارئین کرام میں (راقم) یہاں یہ بات بتانا چاہتا ھوں کہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلی مودودی صاحب نے 1964 میں ایک کتاب لکھی جس کا نام خلافت و ملوکیت' ھے جس میں آپ نے نہایت مضبوط دلائل کے ساتھ یہ بات کرنا کی کوشش کی کہ پانچوں خلفا راشدین کا انتخاب جدید جہموریت کے تحت ھوا لکین پھر وہی مسئلہ پیدا ھوا جس کا ڈر تھا کہ مولانا ابوالاعلی مودودی صاحب کی اس کتاب کے خلافت و ملوکیت' کے خلاف متعدد کتابیں شائع ھونے لگی جس کا بیڑہ دیوبند علما کرام'بریلوی علما کرام اور خاص کر اہل حدیث علما کرام نے اٹھا لیا(میں خود بریلوی مسلک سے تعلق رکھتا ھوں) ان تینوں مکتبہ فکر کے طبقوں کی طرف سے اس کتاب (خلافت و ملوکیت) کے خلاف متعدد کتابیں' کتابچے اور پمفلٹس شائع ہونے لگے اب اس کتاب کے متعدد کتابیں شائع ہو رہی ہیں میں شروع ہی سے ان شائع ہونے والی کتابوں کا بالغور مطالعہ کر رہا ھوں لکین آج تک مولانا ابوالاعلی مودودی صاحب کی اس کتاب کا کوئی مدلل جواب نہیں دیا جا سکا اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے مولانا ابوالاعلی مودودی صاحب عصر حاضرہ کے جدید تقاضوں کا گہرا ادراک رکھتے تھے انہوں نے اپنی گہری فراست کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ آنے والے دور کا گہرا ادراک کر لیا تھا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب 'خلافت و ملوکیت' میں یہی بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پانچوں خلفا راشدین کا انتخاب جدید جہموریت کے تحت ھوا اب میں یہاں اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہ پانچوں خلفا راشدین کا چنا جدید جہموریت کے تحت عمل میں آیا ۔
اب آتے ہیں قارئین کرام اصل موضوع کی طرف، میں سب سے پہلے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہ عوام کی رائے (ووٹ) اہمیت کیا ھے جیسا کہ حضرت ماہی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ "حضور آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کی رائے (مشورے) کیبغیر کو فیصلہ نہیں کرتے تھے" دیکھا قارئین کرام آپ نے خود حضور آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم بھی جو تمام انبیا کرام علیہم السلام اور رسل علیہ السلام کے سپریم ہیڈ ہیں وہ خود بھی عوام کی رائے (مشورے) کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا انتخاب۔ اب آتے ہیں ابوبکر صدیق کا انتخاب کس طرح عمل میں آیا جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو بعد میں یہ مسلہ نہایت ہی شدت کے ساتھ پیدا ھونے لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کا خلیفہ یعنی وزیراعظم کون ھو گا ابھی حضور آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین بھی نہ ھوئی تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کو خبر ھوئی کہ" ثقیفہ بنی ساعدہ" میں جو انصار مدینہ کا ایک سیاسی ہال تھا کیونکہ "ثقیفہ بنی ساعدہ" میں انصار مدینہ اس سیاسی ہال میں اپنے صلاح و مشورے کے اجلاس منعقد کیا کرتے تھے اور ساتھ ہی اسی ہال میں انصار مدینہ جلسے بھی منقعد کیا کرتے تھے حب حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کو انصار مدینہ کے اس انتخابی جلسے کی اطلاع ھوئی تو آپ دونوں حضرات انصار مدینہ کے انتخابی جلسے میں پہنچے تو آپ دونوں حضرات نے دیکھا کہ انصار مدنیہ نے حضرت سعد بن عبادہ کو مسلمانوں کا خلیفہ یعنی وزیراعظم منتخب کر لیا ھے ھے تو دونوں حضرات نے جو اس وقت مسلمانوں کے بلند پایہ کے سیاستدان تھے ان دونوں حضرات کی سیاسی بصیرت کی معراج آسمان کی بلندیوں کو چھو چکی تھی آپ دونوں حضرات نے اس نازک موقع کا سیاسی بصیرت کے ساتھ جائزہ لیا اس کے انصار مدینہ نے یہ دلیل پیش کی کہ " انہوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دل و جان سے خدمت اور حفاظت کی ھے اس لئے یہ حق صرف انہی کو پہنچتا ھے کہ وہ حکومت بنائیں تو جواب میں یہ کہنا لازم آیا حضرت عمر فاروق اس کے جواب میں ایک تقریر کرنا چاہتے تھے مگر حضرت ابوبکر صدیق نے انہیں روک دیا اور خود تقریر فرمائی جس میں آپ نے انصار مدینہ اس انتخابی جلسے سے خطاب کیا آپ نے انصار مدینہ کے موقف کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی نے اپنے دین اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کے لیے تمھیں اختیار کیا اور اس کے لیے وہ تمہارے پاس ہجرت کرکے چلے آئے یہاں تک مہاجرین اولین کے بعد تمھارے مقابلے میں ہماری نظر میں کسی اور کی قدر و منزلت نہیں بہتر ھو گا کہ ہم وزیراعظم ھوں اور تم وزیر ہر معاملے میں تم سے مشورہ لیا جائے گا اور بغیر تمھاری متفقہ رائے کے ہم کوئی کام نہیں کرے گے یہ تھی حضرت ابوبکر صدیق کی محنتصر تقریر جو انہوں نے انصار مدینہ کے انتخابی جلسے سے کی اور اس کے بعد حضرت عمر فاروق تقریر کی اور اس دوران اس نازک موقع پر کچھ تلخی بھی ھوئی تاہم حضرت ابو عبیدہ بن الجراح جن کی سیاسی بصیرت کی معراج آسمان کی بلندیوں سے چھو چکی تھی ،نے سیاسی فہم اور تدبر سے کام کے کر اسے دور کر دیا اب چونکہ انصار مدینہ کے سیاسی جلسے میں حالات سنھبل چکے تھے حضرت عمر فاروق نے سیاسی بصیرت سے کام لیتے ھوئے حضرت ابوبکر صدیق سے کہا کہ اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں حضرت ابوبکر صدیق نے ہاتھ آگے بڑھایا حضرت عمر فاروق نے بعیت کی پھرحضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے ابوبکر صدیق کی بعیت کی (یعنی اپنا ووٹ دیا ) پھر انصار مدینہ میں سے بشیر بن سعد نے سبقت کی پھر قبیلہ اوس کے لوگ آگے بڑھے انہوں نے بعیت کی اس کے بعد تمام مسلمانوں نے بعیت(یعنی اپنا ووٹ دیا) کرلی حتی کہ سقیفہ بنی ساعدہ کا ہال کو آنے والے تمام راستے لوگوں سے پر تھے اور باکل وہی سماں پیدا ھو گیا جو آج کل کے زمانے میں پولنگ اسٹیشنوں پر دیکھنے میں آتا ہے جہاں رائے دگاہندن آتے ہیں اور اپنی رائے (ووٹ) دیتے ہیں یہ تھا حضرت ابوبکر صدیق کے انتخاب کا طریقہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں کے خلافت کے دو متفقہ امیدوار کے طور پر سامنے آئے ایک حضرت ابوبکر صدیق اور دوسرے حضرت سعد بن عبادہ جس طرح مہاجرین میں ابوبکر صدیق اور دوسرے حضرت عمر فاروق کو ممتاز مقام حاصل تھا اسی طرح انصار مدینہ میں سے سعد بن عبادہ اور دوسرے سعد بن معاذ کو ممتاز مقام حاصل تھا حضرت سعد بن عبادہ انصار مدینہ کی شاخ قبیلہ بنی خزرج کے سپریم ہیڈ تھے اور حضرت سعد بن معاذ قبیلہ اوس کے سردار تھے حضرت سعد بن معاذ غزوہ خندق میں شہید ہوئے تھے زمانہ جاہلیت میں ان دونوں قبائل کے درمیان جنگ و جدل کا بازار گرم تھا ان دونوں قبائل کے درمیان بعض و عناد عروج پر تھی یہی وجہ ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ کی الیکشن میں شکست کا سبب بنی کیونکہ قبیلہ اوس کی عوام نے حضرت سعد بن عبادہ کو الیکشن میں اپنے ووٹ نہ دیے جس کی وجہ سے حضرت سعد بن عبادہ کو بھاری اکثریت سے شکست ھوئی اور حضرت ابوبکر صدیق بھاری اکثریت سے مسلمانوں کے خلیفہ (وزیراعظم) منتخب ہوئے۔
اب آتے ہیں حضرت عمر فاروق کا انتخاب۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی وفات کے وقت حضرت عمر فاروق کے حق میں وصیت لکھوائی اور پھر مسجد نبوی میں ایک سیاسی جلسے منعقد ہوا جس میں عرب کے تمام قبائل کے مسلمان اس سیاسی جلسے میں شرکت کی تو پھر حضرت ابوبکر صدیق کی وصیت جو حضرت عمر فاروق کے حق میں لکھوائی گئی تھی اور پھر یہ وصیت اس انتخابی جلسے میں پڑھ کر سنائی گئی۔
" خدا کی قسم میں نے رائے قائم کرنے کے لیے اپنے ذہن پر زور ڈالنے میں کوئی کمی نہیں کی اور اپنے کسی رشتہ دار کو نہیں بلکہ عمر بن خطاب کو جانشین مقرر کیا ھے لہذا تم ان کو سنو اور اطاعت کرو "اس پر لوگوں نے کہا کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے اس طرح عوام نے بھاری اکثریت سے اپنے ووٹ کے ذریعے حضرت عمر فاروق کو کو اپنا خلیفہ (وزیراعظم) منتخب کرلیا ۔
اب آتے ہیں حضرت عثمان غنی کا انتخاب۔ حضرت عمر فاروق نے اپنی زندگی میں ہی مولا علی رضی تعالی عنہ'عثمان 'عبدالرحمن' سعد بن ابی وقاص, زبیر بن عوام اور ابو طلحہ بن عبداللہ کی ایک انتخابی کونسل ترتیب دی اور کہا کہ یہ لوگ اپنے میں سے کسی شخص کا انتخاب کر لیں اور جب کسی کو خلیفہ مقرر کیا جائے تو پھر اس کی پرزور حمایت کریں اور اس کے ساتھ مکمل تعاون کریں حضرت عمر فاروق نے اپنے بیٹے عبداللہ کو اس انتخابی کونسل کا مشیر بنایا اگرچہ انہیں گفتگو میں حصہ لینے اور مشورہ دنیے کی اجازت دی تاہم انہیں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دیا گیا حب حضرت عمر فاروق مدفن ھو گئے تو اس انتخابی کونسل کے پانچ ارکان حضرت طلحہ بن عبید اللہ کے سوا جو مدینے میں نہیں تھے ایک مقام میں اکھٹے ہوئے اور گفتگو شروع ھوئی حضرت عبدالراحمن بن عوف نے یہ تجویز پیش کی کہ جو شخص امیدواری سے دستبردار ہو جائے وہ اپنا ووٹ کسی دوسرے امیدوار کو دے سکتا ھے چنانچہ وہ خود ہی دستبردار ہو گئے اس طرح دوسرے امیدوار بھی ایک دوسرے کے حق میں دستبردار ہو گئے پھر دو سیاسی امیدوار میدان انتخاب میں رہ گئے حضرت عثمان غنی اور حضرت مولا علی پھر ان دونوں حضرات نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کو اختیار دیا کہ وہ ان کے درمیان عوام کی رائے لیں اس کے بعد حضرت عبدالراحمن بن عوف نے عوام کی رائے لینے کے لیے رابط عوام مہم شروع کرنے کا اعلان کیا اور راتوں کو گشت کیا محنتلف گروہوں اور قبیلوں کے عوام سے ملے پھر صحابہ کرام سے ملاقاتیں کیں اور یہاں تک کہ عبدالراحمن بن عوف نے عام لوگوں میں مل پھر کہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ عوام کا رحجان کس طرف ہے جب عبدالراحمن بن عوف نے انتخابی مہم مکمل کر لی تو حضرت عبدالراحمن بن عوف مسجد نبوی میں ایک بہت بڑے جسلے کا اعلان کیا جس میں عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت نے شرکت کی حضرت عبدالراحمن بن عوف مسجد نبوی منبر پر اللہ تعالی سے دعا کی اور حضرت علی کو مسجد نبوی کے جلسے کے سٹیج پر بلوایا اور فرمایا کیا تم اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور شخین (ابوبکر و عمر) کے طریقوں پر چلو گے حضرت علی نے جواب دیا ایسا نہیں ھو سکتا میں اپنی عقل و فہم کے مطابق عمل کروں گا پھر اس کے بعد عبد الرحمن بن عوف نے حضرت عثمان غنی کو جلسے کے سٹیج پر دعوت دی اور ان سے پوچھا کہ وہی الفاظ فہرست جو انہوں نے حضرت علی سے کہے تھے اور دریافت کیا حضرت عثمان غنی نے فرمایا ہم اسی طرح عمل کرے گے اس پر حضرت عبد الرحمن بن عوف نے اپنا ووٹ حضرت عثمان غنی کو دے دیا یعنی حضرت عمثان کے ہاتھ پر بیعت کر لی یہ دیکھ کر بعیت پر مجمع بھی ٹوٹ پڑا اور اس میں مسجد نبوی کے انتخابی جلسے میں شامل تمام عوام نے کی اکثریت نے حضرت عثمان غنی کے ہاتھ پر بیعت کر یعنی عوام کی اکثریت نے اپنے ووٹ حضرت عثمان غنی کو دے دیے یہاں میں ایک توجہ دلانہ چاہتا ہوں کہ جب حضرت عبدالراحمن بن عوف نے حضرت علی سے دریافت کیا تھا کہ کیا آپ اپنے سے پہلے خلفا راشدین کے بتائے ہوئے راستوں پر چلیں گے تو مولا علی نے جواب دیا کہ نہیں میں اپنی عقل فہم کے مطابق عمل کروں گا حضرت علی یہاں بقول ڈاکٹر طہ حسین یہ بتانا چاہتے تھے کہ ایسی بات کی پابندی عائد نہیں کر سکتے جس کی پابندی قرآن و سنت میں نہیں یہ ایک مسلمہ اصول سیاست ھے کہ ہر نئی پارلیمنٹ کو گزشتہ حکومت کے فصیلوں اور قوانین کو بدلنے کا مکمل اختیار ھوتا ھے اس لئے حضرت علی اپنے (نئی حکومت کے) اس استحقاق میں کسی قسم کی کمی کے حق میں نہ تھے وہ اپنے تجربات کرنے کا پروگرام رکھے ہوئے تھے اور شخین کے فیصلوں سے انحراف کرنے کا حق محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔
حضرت علی کا انتخاب۔ حضرت عثمان غنی کی شہادت کے بعد بلاشبہ عوام کا رجحان حضرت علی مکی جانب مائل تھا بہت سی روایات سے اس بارے میں موجود ہیں جب حضرت عثمان غنی کی شہادت کے بعد سب لوگوں نے حضرت علی کو خلیفہ (وزیراعظم) بنانا چاہا تو انہوں نے فرمایا کہ تمیں ایسا کرنے کا اختیار نہیں یہ تو اہل شوری اور اہل بدر جسے خلیفہ (وزیراعظم) بن جائے گا اور اس کے ساتھ مزید حضرت علی نے فرمایا میری بعیت خفیہ طریقے سے نہیں ھو سکتی یہ مسلمانوں کی مرضی (یعنی الیکشن کے زریعے ) سے ھونی چاہیے اور اس طرح جب حضرت عثمان غنی کو شہید کر دیے گیا تو مسلمانوں کی اکثریت نے حضرت علی سے بعیت کر لی اور حضرت علی دو تہائی اکثریت سے مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ بن گئے۔
بدقسمتی سے حضرت علی متشدد خارجی عبد الرحمن کے زہر آلود خنجر سے کام شہادت کر گئے کوفہ وہی شہر تھا جہاں اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علی نے حکومت منتقل کی تھی اور یہی وہ شہر تھا جہاں آپ نے شہادت پائی اہل کوفہ نے یہ سمجھتے ھوئے کہ جس طرح مدنیے میں چاروں خلفا کی بعیت (یعنی ووٹ کی طاقت)کو عوام نے تسلیم کرلیا تھا اسی طرح کوفہ کی بعیت عام (ووٹ) کو بھی تسلیم کر لیا جائے گا امام حسن کے ہاتھ پر بعیت کر لی گئی ان کا خیال تھا کہ اہل کوفہ کو بھی دارالحکومت ھونے کی وجہ سے وہی اہمیت و حیثیت حاصل ھو جائے گی جو اس سے پہلے مدینہ النبی کو حاصل تھی مگر ایسا نہ ھوا کیونکہ کوفہ میں مولا علی اور امام حسن کا ایک بہت بڑا ووٹ بنک تھا تاہم دیگر مراکز پر ان کا وہ سیاسی اور دینی اثر نفوز غلبہ اور دبدبہ نہ تھا جو صحابہ کبار کے زمانے میں مدنیہ والوں کو حاصل تھا چنانچہ کوفہ کے حلقہ الیکشن کے بعد جب امام حسن بھاری اکثریت سے کامیاب ھوے تو چنانچہ کوفہ کے الیکشن کے بعد ابھی دوسرے مرکزوں یعنی الیکشن کے حلقوں سے کامیابی حاصل کرنی تھی لکین اسی دوران حضرت امیر معاویہ نے عراق پر چڑھائی کر دی جو الکیشن کوفہ میں ھوے اس کا وہ نتیجہ برآمڈہ نہ ھو سکا جو اس سے پہلے مدینہ کے چاروں خلفائے راشدین کے الیکشن کے نتائج سے برآمدہ ھو تھا جب امام حسن علیہ السلام نے یہ دیکھا کہ اگر جانبین میں کشیدگی اسی طرح سے قائم رہی تو سخت خون خرابہ ھوتا رھے گا پھر اس طرح حضرت امام حسن نے عوام کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے خلع خلافت کرلی اور اقتدار امیر معاویہ کے حوالے کر دیا اور حضرت امیر معاویہ امت مسلمہ کے پہلے فوجی آمر بن گئے۔

واپس کریں