دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
لبریشن لیگ کی لالٹین جلانے کی کوشش
ملک عبدالحکیم کشمیری
ملک عبدالحکیم کشمیری

پہلا نام جو سنایا کیا گیا وہ جموں کشمیر حریت پارٹی تھا ۔
انوار نے کمال جواب دیا ۔۔۔۔۔
بن جائے گی کچھ لوگ مجبوری کے تحت ساتھ شامل ہو جائیں گے۔۔
لیکن یہ نام چلے گا نہیں ۔۔۔
(اس لیے حب الوطنی کے تڑکے کے ساتھ سیاسی ڈش اب پسند نہیں کی جاتی)۔
دوسرا نام جو سامنے آیا وہ تھا مسلم کانفرنس کا ۔۔۔دیوان چغتائی اور کچھ دیگر ایم ایل اے جن کا سیاسی (مفاداتی) خمیر مسلم کانفرنس تھا ان کی خواہش تھی حلالے کے فرائض مسلم کانفرنس کے ساتھ سر انجام دیے جائیں ۔۔۔۔۔۔
انوار الحق نے دو ٹوک انکار کردیا۔۔۔
جواب تھا ۔۔۔" ہماری طرف سے نہ ہی سمجھیں"
کیا ہو سکتا ہے نیا نام ؟؟؟
تب انوار کے منہ سے ایک نام نکلا ۔۔۔
لبریشن لیگ نام کی ایک جماعت ہوا کرتی تھی ۔۔
لبریشن لیگ کا نام آگے بھیجا گیا ۔۔۔
قبول ہوا ۔۔۔
اور اب لبریشن لیگ کی لالٹین میں مٹی کا تیل ڈال کر "روشنی" کی منصوبہ بندی ہے ۔
لبریشن لیگ کی قیادت سے ابتدائی مذاکرات ہو چکے ۔۔۔
مشروط نیم رضامندی کی اطلاعات ہیں ۔۔
اگر یہ ڈیل کامیاب ہوگئی تو ۔۔۔
آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی حالت مسلم کانفرنس کی طرح ہو جائے گی ۔۔۔
لبریشن لیگ کے سربراہ چوہدری انوار الحق ہوں گے ۔۔۔ دو درجن سے زائد اراکین اسمبلی پہلے مرحلے پر اس کا حصہ ہوں گے۔۔۔۔
اگر لبریشن لیگ کی قیادت سے معاملات نہ ہو سکے تو بھی ٹریڈ نام تبدیل ہوگا اراکین اسمبلی کی اکثریت انوار الحق کے ساتھ اس وقت تک رہے گی جب تک "وہ" انوار کے ساتھ ہیں ۔
دھند چھٹ رہی ہے ۔۔
ترتیب دیے گے پرت ایک ایک کر کے کھل رہے ہیں ۔۔۔
قانون ساز اسمبلی کا طویل ترین اجلاس ۔
تنویر الیاس کی فراغت۔
انوار الحق کا وزیراعظم بننے کے بعد آئینی ضرورت کے تحت اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد نہ کرنا
وزارتیں نہ دینا
سیاسی جماعتوں کو غیر فعال قرار دے کر اراکینِ اسمبلی کو پارٹی بندھن سے آزاد کرنے کا عدالتی فیصلہ ۔
لیکن یہ سب کیوں ۔۔۔
کچھ عرصہ قبل تو مقتدرہ والے صاف صاف کہتے تھے نیشنلسٹوں کی قبولیت تو ناممکن ہمیں اس خطے میں سب نیشنل (مسلم کانفرنس لبریش لیگ جموں کشمیر پیپلز پارٹی) جماعتیں بھی قبول نہیں ۔
اور اب ایک سب نیشنل (ریاستی) جماعت کا احیا کر کے اسے میدان میں وننگ ہارس کی شکل دے کر اتارا جارہا ہے ۔۔
کیا ریموٹ پر چلنے والی آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں اس کے خلاف مزاحمت کر سکیں گی۔۔۔
میرا خیال ہے نہیں ۔۔۔
اس لیے کہ آزاد کشمیر کے سیاسیوں کی اکثریت کارکن نہیں سیاسی نوکری باز ہے ۔بجلی اور آٹے کی حالیہ عوامی تحریک پر یہ سب کے سب اپنے لوگوں کے ساتھ نہیں مقتدرہ سے خوف زدہ ہو کر خاموش رپے۔۔۔
یہ سب کیا ہے اور یہ تجربہ کیوں کیا جا رہا ہے ؟
ایک پاکستانی سیاسی جماعتوں کے ذریعے یہاں کے لوگوں کو کنٹرول کرنے کی حکمت عملی توقع کے مطابق کامیاب نہیں ہو سکی۔لہذا یہاں کے پارلیمانی نظام کو پاکستانی سیاسی جماعتوں کے بندھن سے آزاد کر کے براہ راست کنٹرول میں رکھا جائے۔
دوم۔ 5 اگست 2019 کا بھارتی اقدام جسے پاکستان کے اس وقت کے ارباب اختیار کی غیر تحریری حمایت حاصل تھی کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اس خطے (پاکستان کے زیرِ انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان)کی رہی سہی شناخت کو "کے پی کے اور پنجاب" میں ضم کیا جائے اور یہ کام کسی ریاستی جماعت سے لیا جائے ۔
واپس کریں