دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فیڈرل یا آزاد کشمیر ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتب ۔ معاملہ ہے کیا ؟
ملک عبدالحکیم کشمیری
ملک عبدالحکیم کشمیری
8اپریل 2010 کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے اٹھارویں ترمیم منظور کی اور 19 اپریل 2010 کو یہ ائین کا حصہ بن گئی ۔18 ویں ترمیم میں 100 سے زائد امور صوبائی حکومتوں کو دیے گے ان میں سب سے اہم تعلیم کا شعبہ تھا ۔ غالباََ 2012 میں آزاد کشمیر حکومت نے 2009 کی پاکستان کی قومی تعلیمی پالیسی اڈاپٹ کی اس پالیسی کے تحت سلیبس کی کتب کی تیاری کے لیے اشتہار دیے گے ۔ آزاد کشمیر چونکہ پاکستان کے زیرِ انتظام ایک عارضی اکائی کی حیثیت سے کچھ امور میں انتظامی معاملات کے لیے بطور صوبہ ٹریٹ کیا جاتا ہے سو اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ آزاد کشمیر کے دائرہ اختیار میں آگیا تھا ۔
اسی تسلسل میں سال 2014 میں آزاد کشمیر میں ٹیکسٹ بک بورڈ قائم ہوا ۔
عبوری آئین میں اے جے کے ٹیکسٹ بک بورڈ کا مینڈیٹ یہ ہے ،
1: پیداوار(تیاری)اور اشاعت
ٹیکسٹ بکس جماعت اول سے بارھویں تک ,
2: ٹیکسٹ بکس کے متعلقہ ضمنی مواد ،
3: اساتذہ کے لیے رہنما کتب۔
نصاب چونکہ حکومت پاکستان کا چیپٹر ہے البتہ سلیبس کا اختیار مظفرآباد حکومت کو حاصل ہے،مظفرآباد حکومت نے سلیبس کے لیے جو ترجیحات طے کیں پہلے انھیں دیکھتے ہیں ۔
بنیادی معلومات (نقشہ جموں کشمیر ابادی ،انتظامی تقسیم ،پرفضا سیاحتی مقامات شہر اور قصبے)۔
ریاست جموں کشمیر کے مختلف ادوار (سلاطین کشمیر مغل افغان ڈوگرہ)۔
جموں کشمیر میں اشاعت اسلام۔
ڈوگرہ خاندان (معاہدہ امرتسر سے 1947 سے تک ،ڈوگرہ مظالم کا تذکرہ)۔
یوم تاسیس آزاد حکومت۔
آزاد کشمیر کا 70 سالہ سفر آزادی۔
بانی پاکستان کا دورہ جموں کشمیر۔
تحریک آزادی کشمیر پر ایک نظر (3 جون 1947 کے اعلان آزادی ہند سے 27 اکتوبر کو بھارتی افواج کے کشمیر پر قبضے تک کے واقعات)۔
ریاست جموں کشمیر کی شخصیات (تحریک آزادی کے مرکزی رہنماؤں کے علاؤہ ہر ضلع سے ایک ایک شخصیت کا تذکرہ جنھوں نے تحریک آزادی کشمیر میں نمایاں کردار ادا کیا ) ۔
تحریک آزادی کے حوالے سے کچھ پر تاثر کہانیاں ۔
حصہ نظم میں کشمیر کے شعراء کے کلام سے انتخاب ۔
5 اگست 2019 کے بعد پالیسی تبدیل ہوتی ہے ایک منظم حکمت عملی کے تحت میرپور تعلیمی بورڈ کو غیر قانونی طور اسلام آباد (فیڈرل) بورڈ کتب آزاد کشمیر بھر میں نافذ کرنے کے لیے آگے کیا جاتا ہے ۔بورڈ کا کام حکومت سے منظور شدہ نصاب (سلیبس) کے مطابق سوالیہ پرچے تیار کرنا امتحان لینا اور رزلٹ جاری کرنا ہے ۔یوں آزاد کشمیر میں گیارھویں اور بارھویں جماعت کے لیے "کے پی کے " اور پنجاب کی کتب لازمی قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔کیا پنجاب کی کتب سندھ اور بلوچستان میں پڑھائی جاتی ہیں ؟ کیا خیبرپختونخوا کی کتب پنجاب اور سندھ میں پڑھائی جاتی ہیں ؟
کیا یہی خطہ ہے جسے ہمیشہ چراگاہ سمجھا جاتا ہے؟ کیا حکومت آزاد کشمیر نے جموں کشمیر کے متعلقہ جو مواد کتب کا حصہ بنانے کی منظوری دی ہے وہ خیبرپختونخوا اور پنجاب کی کتب میں موجود ہے ؟ کیا اس خطے کے لوگوں سے اپنا ہی دیا ہوا بیانیہ چھیننے کا فیصلہ ہو چکا ہے ؟ کہ ہماری نئی نسل اپنا نقشہ جغرافیہ تاریخ سب کچھ بھول جائے ؟ کیا آزاد کشمیر اسمبلی کی واقعی کوئی حیثیت نہیں ؟ کیا وزیراعظم انوارالحق، وزرا یہ معقول حکومتی سیٹ اپ نامعلوم احکامات کے سامنے بے بس ہیں ؟ کیا ووٹ دینے کی جو پریکٹس کہ جاتی ہے وہ سب ایک مذاق ہے ؟
اب ہمارے بچے صوابی پنڈ دادن خان کی تاریخ پڑھیں گے،بھلے شاہ اور خوشحال خان خٹک کی شاعری سے لطف اندوز ہوں گے۔گیارہویں بارہویں کی کتب کے بزنس کا حجم 30 کروڑ ہے اس کا دس فیصد کمیشن تعلیمی بورڈ میرپور کے کچھ زمہ داروں نے اگر واقعی نہیں لیا تو اپنی پوزیشن کلیئر کریں۔ تین چار کروڑ کی اس ڈکیتی کے تمام کردار سب کے سامنے ہیں مگر سہما اور ڈرا ہوا ہمارا سپریم پارلیمنٹ یہ تو دیکھے کہ جو قانون سازی اور جن بنیادوں پر ان کی حکومت قائم ہے اگر اس کو نئی نسل سے اوجھل کر دیا گیا ہے تو ان کی اپنی شناخت مقام حیثیت کیا ہے ؟
واپس کریں