دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جنوں پریوں کا گانا
سرمد صہبائی
سرمد صہبائی
استاد حامد علی خاں کہتے ہیں ایک دفعہ امانت علی خان صاحب اپنے کمرے میں اکیلے بیٹھے گانا گا رہے تھے کہ انہیں محسوس ہوا کوئی اور بھی ان کے ساتھ گا رہا ہے۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے لیکن گانے کی آواز پھر بھی آتی رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ کوئی جن گا رہا تھا۔امانت علی خاں صاحب نے ایک ایسا ہی واقعہ مجھے لاہور ٹی وی میں میرے کمرے میں سنایا تھا۔ ان دنوں ان کی شدید خواہش تھی کہ ٹی وی پر راگ راگنیوں پر ڈرامے کیے جائیں، یعنی راگوں اور راگنیوں کو انسانوں کے روپ میں دکھایا جائے۔ اس گفتگو کے دوران انہوں نے کہا، ’ایک دفعہ میں اور فتح علی خاں ڈھاکہ میں ایک پروگرام کے لئے جیپ میں بیٹھے جا رہے تھے۔ راستے میں ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ ہم اس پروگرام میں راگ بھوپالی گائیں گے۔ سرمد صاحب ہم جب یہ بات کر رہے تھے تو مجھے لگا جیسے جیپ کے دروازے کے باہر ہمارے ساتھ کوئی ہوا میں چل رہا ہے۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ باگیشری تھی۔ میں بہت حیران ہوا لیکن وہم سمجھ کر اس بات کو ذہن سے جھٹک دیا اور وہ یک دم میری انکھوں سے اوجھل ہوگیٔ لیکن سرمد صاحب اس کا سراپا میرے دھیان میں نقش ہو گیا۔ ایسا حسن میں نے کسی انسان میں نہیں دیکھا تھا۔ اس کے بعد جب ہم سٹیج پر بیٹھ کر سر منڈل کو بھوپالی راگ پر ملا رہے تھے اور بھوپالی کے الاپ کا ارادہ باندھ رہے تھے میں نے دیکھا میرے سامنے وہی باگیشری بال کھولے ہوا میں معلق کھڑی ہے اور مجھ سے کہہ رہی ہے، ‘ امانت علی مجھے گاؤ۔ ’اچانک میرے ذہن سے بھوپالی کے سر غائب ہو گئے اور میرے مونہہ سے بے اختیار باگیشری کے سر نکلنے لگے۔ فتح علی خان نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا لیکن مجھے اس وقت کچھ ہوش نہیں تھا اور نہ ہی اپنے آپ پر میرا کوئی بس چل رہا تھا۔ سرمد صاحب اس کے بعد ہم ساری رات باگیشری ہی گاتے رہے۔ ‘

کہتے ہیں جنوں پریوں کا زمانہ انسان کی معصومیت کا زمانہ تھا، میں نے ایک دفعہ اپنی نوعمری کے زمانے میں اپنے تایا امین حزیں سے خدا کے وجود پر بحث کرتے ہوئے کہا،
’God is a supposition ”
( ’خدا تو ایک مفروضہ ہے‘ )
تایا جان نے ایک والہانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا،
’But what a beautiful supposition‘
( ’مگر کتنا خوبصورت مفروضہ ہے‘ )
انگریزی میں کہا جاتا ہے
’Seeing is believing‘
( ’دیکھنا ہی یقین کرنا ہے‘ ) مگر یہاں
یعنی Believing is seeing
’یقین کرنا ہی دیکھنا ہے‘

زاہد ڈار کہتا تھا ایک پری اس کا پیچھا کرتی رہتی ہے۔ غالب بھی اپنی کتاب گل رعنا کے اخر میں ایک ایسی ہی پری وش دوشیزہ کی واردات بیان کرتے ہیں اور میر اپنی اپ بیتی ’ذکر میر‘ میں ایک پری جمال کو یاد کرتے ہیں جو انہیں پورے چاند میں نظر آتی ہے۔ ’جدھر بھی میری آنکھ اٹھتی اسی رشک پری پر پڑتی۔ جس طرف بھی دیکھتا اسی غیرت حور کا تماشا کرتا۔ میرے گھر کے در و دیوار اور صحن گویا اوراق تصویر ہو گئے تھے۔ ‘ گویے پر بھی جب سنگیت کی پری اترتی ہے تو اس کے حواس سروں کی تصویر بن جاتے ہیں۔

ایک بار جب کریم خاں صاحب اور وحید خان صاحب مل کر گا رہے تھے۔ ایک مقام پر کریم خاں صاحب اوپر کے کھرج پر ایسے ٹھہرے کہ سازوں اور خان صاحب کی آواز ایک ہو گئی۔ سننے والوں نے سمجھا خاں صاحب کی آواز گم ہو گئی ہے۔ وحید خاں صاحب بالکل خاموش ہو گئے۔ ’اپ نے بیچ میں گانا کیوں چھوڑ دیا‘ ، کسی نے وحید خاں صاحب سے بعد میں پوچھا، انہوں نے کہا، ’میرے سامنے‘ قدرت’ گا رہی تھی، میں کیسے گاتا۔‘ کریم خان صاحب کی آواز اس وقت اسی پری کی ہم آغوشی میں گم ہو گئی تھی۔

ایک دن میں نے کالج کے زمانے میں اپنے استاد پروفیسر عزیز بٹ صاحب سے پوچھا، آپ نے کبھی کوئی پری دیکھی ہے، انہوں نے کہا، کیوں آپ نے کبھی نہیں دیکھی، میں نے کہا نہیں۔ اچھا؟ مجھے تو ہر وقت پریاں نظر آتی ہے۔ اپ بھی دیکھنا چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں۔ بات صرف چاہے جانے کی ہے۔یہ کیسی پریاں ہیں جو صرف خاص لوگوں کو نظر اتی ہیں۔ شاید یہ ’چاہے جانے‘ یعنی والہانہ عشق کا کرشمہ ہے۔ ایک ایسی طلب جو ہر لمحہ شدید سے شدید تر ہوتی جاتی ہے۔ شاید یہ باطن کی آنکھ سے ہی دکھاتی دیتی ہیں۔ لیکن باطن کی آنکھ کیسے وا ہو؟ ’ پتر ایہہ میرے نال بولدا نہیں سی۔ رسیا رہندا سی۔ (بیٹا یہ میرے ساتھ بولتا نہیں تھا۔ ہر وقت روٹھا رہتا تھا) ایک بزرگ طبلہ نواز نے مجھے طبلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، “میں اہدے نال دن راتیں گلاں کردا رہیا پر ایہ فیر وی نہیں بولیا۔ (میں اس کے ساتھ دن رات باتیں کرتا رہا لیکن یہ پھر بھی نہ بولا) ’فیر پتر میں اک جھگی لے لیٔ تے اٹھ سال اینوں مناؤندا رہیا۔ ( پھر بیٹا میں نے ایک جھگی لے لی اور اٹھ سال تک اسے مناتا رہا۔ ) ‘ اک دن فجراں ویلے اینے میرے نال گل کیتی’۔ ‘(ایک دن فجر کے وقت اس نے مجھ سے بات کی۔) بزرگ طبلہ نواز اپنے محبوب کو منانے کے لیے برسوں کی ریاضت کرتے رہے، بار بار اس کے دروازے پر دستک دیتے رہے اس امید پر کہ ایک دن ان کا محبوب ان سے ہم کلام ہو گا، یہ محبوب کون ہے، یہ وہی پری ہے جس کو دیکھنے کے لیے اس پر ایمان لانا پڑتا ہے، یعنی یہاں ’یقین کرنا ہی دیکھنا ہے۔ ‘

کہا جاتا ہے ہر سر پر ایک دیوتا یا دیوی بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ سر آکاش سے اترا ہے اور راگ دیوتاؤں کی دین ہیں۔ سنگیت دیوی دیوتاؤں، جنگلوں اور بیابانوں کی بازگشت ہے، انسان کے ازلی تجربات اور مشاہدات کا پرتو ہے۔ گمک کی تانوں، مینڈھوں اور بہلاوؤں، بلمپت، مدھ اور درت کی تالوں میں ہماری ماقبل تہذیب، انسان کا ماضی اور اس کے آبا و اجداد کی آوازیں رچی بسی ہیں۔سنگیت میں ایک الوہی حسن ہے جو انسان کو دیوانہ بنا دیتا ہے۔ میں بھی اس حسن کا دیوانہ ہوں۔ مجھ پر بھی اس پری کا سایہ ہے جو ہر لمحہ مجھے ایک نشاط انگیز اضطراب سے سرشار رکھتا ہے۔ کالج کے زمانے میں جب میں نے پہلی بار اپنے پرنسپل ڈاکٹر نذیر صاحب کی بیٹھک میں استاد امانت علی خان اور فتح علی خان صاحب کو سنا تو مجھ پراس حیرت کدے کا دروازہ کھل گیا، میں نے ایسی موسیقی پہلے کبھی نہیں سنی تھی جہاں میں سروں کو سن نہیں دیکھ رہا تھا۔ اس کے بعد میں نے اس زمانے کے سبھی بڑے گائیکوں کو ان کی صحبت میں سنا۔ میں جیسے جیسے ان کو سنتا موسیقی کے بارے میں میری طلب بڑھتی جاتی۔کہتے ہیں طلب کی شدت مطلوب کو کھینچ لاتی ہے۔

1981 میں مجھے لوک ورثے میں ڈیپوٹیشن پر بلایا گیا۔ جب میں نے وہاں ڈائریکڑ کا چارج سنبھالا تو پتہ چلا میرے ماتحت موسیقی کا محکمہ بھی ہے۔ میں پریشان سا ہوا، اس لئے کہ مجھے موسیقی سے لگاؤ تو بہت تھا لیکن میں اس کے اصولوں سے بالکل ناآشنا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں ڈائریکٹر کی کرسی پر بیٹھنے کا مستحق نہیں ہوں، چنانچہ میں نے دوسرے ہی دن لائبریری میں جتنی کتابیں موسیقی پر ملیں نکلوا لیں اور پڑھنا شروع کر دیں۔ دس بیس کتابوں کے پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ موسیقی پڑھنے سے نہیں، کرنے سے آتی ہے۔ میں گانا تو نہیں چاہتا تھا لیکن اپنے اپ کو موسیقی سننے کا اہل ضرور بنانا چاہتا تھا اور مجھے سننے کا ہنر بھی کتابوں سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا، اس کے لیے استادوں کی صحبت اور عملی تعلیم ضروری تھی۔

کلچرل منسٹری میں افسر شاہی بہت تھی، اصل افسر پی اے تھا جو خود ہی اپنے طور پر بہت سے فیصلے کر لیتا تھا، ماتحتوں کو افسر کے کمرے میں آنے کی اجازت نہیں تھی، میرے شعبہ میں چار پانچ موسیقی کے ریسرچر تھے اور دو تین سازندے۔ دفتر کے زیادہ تر لوگوں کا سلوک ان گانے بجانے والوں کے ساتھ اچھا نہیں تھا، خاص طور پر ایڈ من اور اکاؤنٹس والوں کا، ان کے نزدیک یہ سب کنجر میراثی تھے، جھوٹے، دغا باز اور مکار۔ میں نے دوسرے دن اپنے سارے سازندوں اور گانے بجانے والوں کو اپنے کمرے میں بلا لیا، ان کو چائے بسکٹ اور سموسے پیش کیے اور کہا، ’یہ دفتر آپ سب کے لئے ہر وقت کھلا ہے، جب مرضی آئیں، کھائیں پیئیں، موج کریں لیکن مجھے گانا سکھا دیں۔ ‘وہ اپنے نئے افسر کی فراخ دلی دیکھ کر اندر ہی اندر مسکرائے، ’کوئی بڑا ہی بیوقوف افسر ہے، بھلا اتائیوں کو کیا پتہ گانا کیا ہوتا ہے۔ یہ بھی ہم سے کافی کی ایک پیالی کے بدلے وہ چیز مانگ رہا ہے جس کے لئے ہم نے اپنی عمریں گنوا دیں ہیں۔‘ لیکن انہوں نے مجھ سے یہ نہیں کہا، انہوں نے کہا ’واہ حضور ہماری تو قسمت جاگ اٹھی ہے، پہلا افسر آیا ہے جس کو موسیقی سے پیار ہے ورنہ تو سارے افسر کوڑ ہوتے ہیں۔ سبحان اللہ‘ ، انہوں نے میرے ہاتھ چومے اور کہا۔ ’سرکار، آپ حکم کریں، ہم آپ کی خدمت کے لیے ہر وقت حاضر ہیں‘

دوسرے دن جب میں میوزک روم موسیقی سیکھنے گیا تو سا، رے گا ما پا دھا نی سا، کی گردان سے میری تعلیم کا آغاز ہوا۔ گانا کیا تھا، پہاڑے تھے، ایک دو تین چار، دھا دھن دھن نا، نہایت ہی بے مزہ اور بے رس۔ میرے تصور میں تو موسیقی بہت لطیف اور خوبصورت چیز تھی اور میں یہ کیا سیکھ رہا تھا۔ وہ بھی مجھے ایسی مشکل میں ڈالتے کہ آدمی کہے بھاڑ میں جائے یہ گانا بجانا۔ تال آگے پیچھے کر دینا۔ جب سر میں آنے لگوں تو مشکل جگہیں لینا، ایسی تانیں لگانا کہ آپ ہکا بکا ہو کر ان کا منہ دیکھتے رہ جایں اور سوچیں کہ میں تو ساری عمر بھی لگا رہوں تو یہ سب کچھ نہیں سیکھ سکتا۔ کیوں اپنا وقت ضائع کرنے پر تلا ہوا ہوں۔ چند ہفتوں میں ہی مجھے پکا یقین ہو چکا تھا کہ میرے یہ استاد مجھے کبھی گانا نہیں سکھائیں گے، لیکن میرا ان سے ویسا ہی حسن سلوک رہا اور میں نے ان پر کبھی ظاہر نہ ہونے دیا کہ میں جانتے بوجھتے ہوئے دھوکہ کھانے کو تیار ہوں۔

کہتے ہیں اورنگ زیب نے درباری گویوں کو دربار سے برخاست کر دیا تھا۔ انہیں دربار آنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب گویوں نے موسیقی کا جنازہ نکالا تو شہنشاہ نے کہا، اسے بہت گہرا دفن کرو۔ انگریز آیا تو اس نے جو ذات پات کے نقشے بنائے اس میں گانے والوں کو نچلی ذات کے خانے میں رکھا۔ قدیم ہندوستان میں آرٹ اور کلچر کا ورثہ دیو داسیوں کے پاس تھا۔ انگریز نے دیو داسیوں کو بد کار عورتیں کہہ کر خود آرٹس کونسلیں کھول لیں اور کہا ان سے ان کا آرٹ لے کر اشرافیہ کو دے دیا جائے اور انہیں طوائفوں کا خطاب دے کر ذلت میں دھکیل دیا جائے۔ آرٹس کونسل میں رقص سیکھنے والی ایک متمول بیگم نے مجھے ایک دن کسی پرانی رقاصہ کی تصویر دکھائی، پھر مسکرا کر کہا ’لیکن تھی یہ طوائف‘ ۔ میں نے اس بیگم سے پوچھا، ’بیگم صاحبہ یہ اس تصویر میں کیا کر رہی ہے۔ رقص؟ یا کسی کے ساتھ سو رہی ہے؟ ‘ ۔ھم نے بھی انگریزوں کے دیکھا دیکھی گانے والیوں کو طوائفیں سمجھا اور گانے والوں کو مراثی اور کنجر۔ لیکن آج تک کسی آرٹس کونسل سے نہ تو کوئی نور جہاں پیدا ہوئی اور نہ کوئی نصرت فتح علی خان۔

ایک ایسے ہی وقت میں جب میں گانا سیکھنے اور سمجھنے سے بالکل مایوس ہو چکا تھا اپنے دفتر کے کمرے سے باہر نکلا تو دیکھا میرے پی اے کے پاس استاد نزاکت علی خان صاحب بیٹھے ہیں، (اس نام پر میرے ہاتھ میرے کانوں کو چھو رہے ہیں۔) میں خاں صاحب سے کبھی نہیں ملا تھا اور نہ وہ مجھے جانتے تھے لیکن میں ان کو ریڈیو پاکستان کی کلاسیکی موسیقی کی محفل میں استاد سلامت علی خاں صاحب کے ساتھ گاتے ہوئے سن چکا تھا اور میرے دل میں ان کے لیے بے حد احترام تھا۔ میں سیدھا ان کے پاس گیا، اور اپنے پی اے کو ڈانٹا کہ تم نے خان صاحب کو باہر کیوں بٹھا رکھا ہے۔ میں خاں صاحب کو لے کر اپنے کمرے میں آ گیا، یہ سخت گرمیوں کے دن تھے اور وہ سر سے پاؤں تک پسینے میں شرابور تھے۔ (اے سی صرف افسروں کے کمروں میں ہوتے تھے ) میں نے پانی منگوایا اور ان کو چائے وغیرہ پیش کرنے کے بعد ان سے ان کا حال احوال پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی اپنے بھائی استاد سلامت علی خان صاحب سے کسی بات پر علیحدگی ہو گئی ہے اور اب وہ اب بالکل تن تنہا ہیں، ان کے پاس رہنے کی بھی کوئی جگہ نہیں۔ مجھے یہ سن کر بہت افسوس ہوا۔ میرے اختیار میں اس وقت جو کچھ تھا وہ کیا اور ان کی خدمت میں ایک چیک پیش کیا۔ کہنے لگے مجھے کیا کرنا ہے’۔ میں نے کہا‘ خان صاحب کچھ نہیں۔’ وہ تھوڑے سے حیران ہوئے اور چلے گئے۔ دس پندرہ دن بعد پھر آئے تو میں نے ان کو ایک اور چیک دے دیا اور کہا کچھ نہیں کرنا۔ خان صاحب نے سوچا ہو گا کہ یہ عجیب افسر ہے جو مجھے چیک دے کر کہتا ہے کچھ نہیں کرنا۔

میں ایک دن اپنے گھر شام کو بیٹھا پنڈت بھیم سین جی کی کیسٹ سن رہا تھا۔ اس زمانے میں بھارت نے انڈیا ٹو ڈے کے نام سے کلاسیکی موسیقی کی ایک نہایت اعلی آڈیو سیریز بنائی تھی جو میری ایک دوست چند دن پہلے ہندوستان سے لے کر آئی تھی۔ پنڈت جوشی جی کا گانا بہت مختلف تھا، اس میں ایک عجیب سی پراسراریت تھی جو میں محسوس تو کر سکتا تھا لیکن سمجھ نہیں سکتا تھا، میرے اندر کئی سوال جنم لے رہے تھے۔ میں ان کے سنگیت میں ڈوبا ہوا تھا کہ گھنٹی بجی، میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا خان صاحب کھڑے تھے۔ ’خان صاحب اپ؟‘ میں نے حیران ہو کر کہا۔ ’میں اپ کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں‘ ۔ ، میرا شکریہ؟ اپ کیوں مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ اندر تشریف لائیے، میں ان کو اپنے کمرے میں لے آیا جہاں بھیم سین جوشی جی کا کیسٹ چل رہا تھا۔ میں نے گانا بند کرنا چاہا تو خاں صاحب نے کہا، لگا رہنے دیں۔ ہم دونوں خاموشی سے بھیم سین جی کا پوریا دھناسری سنتے رہے، الاپ میں انسان کی ازلی پکار، عبادت کا رنگ، پھر بلمپت کی لے میں سروں کا ٹھہراؤ۔ مدھ لے میں تین تال کا رچاؤ مجھ پر ایک عجیب سحر طاری کر رہا تھا، گانا ختم ہوا تو میں نے خان صاحب سے کہا، ‘ خاں صاحب، واہ کیسا عجب گانا ہے۔ ’ خاں صاحب نے مسکرا کر کہا، ’سرمد صاحب یہ جنوں پریوں کا گانا ہے‘ یک دم مجھے استاد امانت علی خان صاحب یاد آئے، ان کا باگیشری کو اپنے ساتھ چلتے دیکھنا اور ان کا یہ کہنا کہ گاتے وقت ان کو یوں محسوس ہوا جیسے ان کے ساتھ کوئی اور بھی گا رہا ہے۔

اتنے میں خاں صاحب کی نظر کونے میں رکھے ہوئے ہارمونیم پر پڑی، ’سرمد صاحب اپ کو میوزک سے دلچسپی ہے؟‘ ’ نہیں خان صاحب بس ایسے ہی تھوڑی بہت۔ ‘ ’اچھا! ‘ انہوں نے مسکرا کر کہا، ’سرمد صاحب میں اپ کو میوزک سکھاؤں گا۔ ‘ان کی یہ بات سن کر میرے حواس گم ہو گئے، میں بالکل خاموش ہو گیا۔ خاں صاحب صوفے سے اتر کر نیچے فرش پر بیٹھ گئے۔ میں ان کے احترام میں فوراً نیچے ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ خاں صاحب نے ہارمونیم کو کھینچ کر میرے سامنے رکھ دیا اور کہا، ’آپ مجھے کچھ سنائیں۔ ‘ اس بات پر میرے گلے سے آواز گم ہوگئی۔ اتنے بڑے استاد کے سامنے میں کیسے گا سکتا تھا۔ لیکن انہوں نے جب نہایت پیار سے دوبارہ اصرار کیا تو میں نے گھبراہٹ میں مالکونس کی استھائی شروع کی۔ یہ وہی پہاڑہ تھا جو مجھے سکھایا گیا تھا۔ خان صاحب نے بے حد پیار کے ساتھ استھائی کو سنوارنا شروع کیا۔ ’سرمد صاحب نکھاد کو یوں چھیڑیں، دھیوت کو یوں لگائیں، مدھم پر یوں ٹھہریں۔ ‘ یوں لگا جیسے وہ سروں کی خوش خطی کر رہے ہوں۔ ان کی رہ نمائی میں ایک ایک سر مجھ پر آہستہ آہستہ کھل رہا تھا، ۔ خاں صاحب مجھے گانا نہیں سکھا رہے تھے وہ مجھ پر موسیقی کے اسرار کھول رہے تھے۔ راگ کی لذت کو میرے حواس میں رچا رہے تھے۔ میں جوں جوں استھائی دوہراتا، مالکونس کسی دیوتا کی طرح مجھ پر اپنا آپ ظاہر کرتا چلا جاتا۔ مجھے یاد نہیں مگر اسی محویت کے عالم میں ایک ایسا مقام آیا جہاں میرے گھر کے درو دیوار کہیں ہوا میں اڑ گئے تھے۔ میں کسی اور دنیا میں جا چکا تھا۔ میرے اندر مالکونس اپنے پورے جمال کے ساتھ طلوع ہو رہا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جہاں مجھے لگا جیسے میں نہیں گا رہا یرے ساتھ کویٔی اور بھی گا رہا ہے۔

بشکریہ ہم سب
واپس کریں