دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یا استاد ، ایم اے کالج لاہور کی یادیں
سرمد صہبائی
سرمد صہبائی
مشکل وقت میں انسان یا تو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور یا پھر اپنے استاد کو. لیکن مجھے اپنے استاد کو یاد کرنے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ وہ میری زندگی کی سرگزشت کا حصہ ہے, میری ہڈ بیتی ہے. میں اسے نہ بھی یاد کروں تو وہ مجھے یاد رہتا ہے. یہ ان استادوں میں سے نہیں جو ہمیں کلاس روم میں درسی کتابیں پڑھاتے ہیں, یہ وہ استاد ہے جو ہمیں زندگی کرنا سکھاتا ہے. میری اس عظیم استاد سے پہلی ملاقات کالج کی کنٹین میں ہوئی۔گورنمٹ کالج لاہور میں پہلے ہی دن مجھے خبردار کر دیا گیا تھا کہ میں سینئر لڑکوں سے ہشیار رہوں کیونکہ یہ فرسٹ ائر کے لڑکوں کو خوب بے وقوف بناتے ہیں. ان سے پوچھو کہ فیس کہاں جمع کروانی ہے تو یہ تمہیں کالج کی لیٹرین میں بھیج دیں گے. اگر پوچھو انفارمیشن کاونٹر کہاں ہے تو یہ تمہیں گرلز روم کا رستہ دکھائیں گے جہاں لڑکیاں مل کرتمہاری اچھی خاصی درگت بنائیں گی. اتفاق سے اسی دن کالج کی یونین کی طرف سے تین بجے ایک سیمینار ہو رہا تھا. میں نے اوول گراونڈ میں بیٹھ کرایک تقریر لکھی ڈالی لیکن جب ہال میں اپنا نام لکھوانے گیا تو پتہ چلا یونین کے فنکشن میں فرسٹ ائر کے طالب علموں کو حصہ لینے کی اجازت نہیں. سخت مایوسی ہوئی لیکن پھر پتہ چلا کہ یونین کا سکرٹری ہارون کیانی ہے, ہارون جسٹس ایم آر کیانی کا بیٹا تھا اور کیانی صاحب میرے والد کے بہت اچھے دوستوں میں سے تھے. میں نے فورا ہارون کو والد صاحب کا نام بتایا. اس نے کہا اگر وقت بچا تو تمہیں پانچ منٹ دے دیے جائیں گے. پانچ منٹ بچ گئے اور میں نے جو لکھا تھا دھڑلے سے پڑھ دیا. اس سیمنار میں بڑے سینئر مقرر شامل تھے, علی کاظم, امتیاز جاوید, طارق علی, ارشاد کاظمی اور خالد جاوید. پتہ نہیں منصفین کو میری کیا بات پسند آئی کہ انہوں نے مجھے پہلا انعام دے دیا. اب ایک طرف تو مجھے اس انہونیانعام پر خوشی ہو رہی تھی لیکن دوسری طرف یہ دھڑکا بھی لگا ہوا تھا کہ یہ سینئر لوگ اب پتہ نہیں مجھ سے کیسا سلوک کریں گے. میں ڈرتے ڈرتے ہال سے باہر نکلا تو سامنے یہی سینئر کھڑے تھے. اس سے پہلے کہ میں واپس مڑ جاتا انہوں نے مجھے دیکھتے ہی مبارک مبارککے نعرے لگائے اور بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا, چلو اب تم ہمیں کینٹین میں چائے اور سموسے کھلاو.پہلے تو میں نے سمجھا یہ مجھے فرسٹ ائر فول بنانے کی کوئی چال ہے لیکن جب چائے کا دور شروع ہوا تو ان سے کچھ ایسی بے تکلفی ہوئی کہ لگا وہ سب برسوں سے میرے دوست ہیں۔

گورنمنٹ کالج میں داخلہ ملنے کا مطلب ایک مہذب دنیا میں داخل ہونا تھا اور مہذب دنیا کا مطلب انگریزی تہذیب تھا. تقریبا سبھی لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے انگریزی بولتے اور انگریزوں کے سٹائل میں آٹھتے بیٹھتے. لڑکیوں میں کوئی ایوا گارڈنر تھی تو کوئی سوزن ہیورڈ, لڑکوں میں ایلوس پرسلے, گریگری پیک اور راک ہڈسن. دوسرے دن جب میں اپنے انہیں سینئر دوستوں کے ساتھ کینٹین میں بیٹھا گورنمنٹ کالج کی کلونیل گلوریcolonial glory سے مسحور ہو رہا تھا تو دیکھا یک دم میرے گرد بیٹھے سب سینیئرز ایک ایک کر کے کھسک گئے ہیں اور ایک لمبے بالوں والا شخص نیکرپہنے میرے سامنے کھڑا ہے۔اوئے کاکا تیری تے اندرے کلاس ہو رہی اے تے توں ایتھے بیٹھا چا پی رہیا ایں؟. (بیٹا تیری تو اندر کلاس ہو رہی ہے اور تو یہاں بیٹھا چائے پی رہا ہے؟)یہ کون ہے جو مجھ سے اتنی بے تکلفی سے بات کر رہا ہے اور وہ بھی پنجابی میں. میری سمجھ میں نہ آیا کہ میں اس سے کیا کہوں لیکن اس کی شخصیت میں اس قدر دلکشی اور اپنائیت تھی کہ میں کچھ کہے بغیر خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑا. اس نے میرا بازو پکڑا اور مجھے کلاس میں لے گیا. وہاں بھی اسی بے تکلفی سے اس نے پروفیسر سے کہا۔ لو بھئی تسی تے ایتھے کلاس پڑھا رہئے او تے تہاڈا منڈا باہر چا پی رہیا اے. (لو جی آپ تو ادھر کلاس پڑھا رہے ہیں اور آپ کا شاگرد باہر بیٹھا چائے پی رہا ہے ) میں حیران پریشان, انگریزوں کے کالج میں انگریزی کے پروفیسر کے ساتھ بھی علی الاعلان پنجابی اور ایسی ہی بے تکلفی۔یار یہ بندہ کون تھا؟میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے لڑکے سے پوچھا ۔یہ ڈاکٹر نذیر ہیں کالج کے پرنسپل، پرنسپل؟ ہاں۔

دوسرے دن میں نے یہ واقعہ اپنے سینئر دوستوں کو سنایا تو انہوں نے کہا ڈاکٹر صاحب جب راونڈ پر آتے ہیں تو بھاگ جایا کرو۔ چنانچہ میں نے جونہی ڈاکٹر صاحب کو آتے دیکھا تو جلدی سے کھسکنے کی کوشش کی لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ مجھے بھاگنا کس طرف ہے۔اوئے کاکا ٹھہر جا. مجھے یک دم ڈاکٹر صاحب کی آواز آئی. وہ میرے پیچھے بھاگ رہے تھے, میں شرمندگی سے رک گیا۔چل یار اج میں تینوں چا پیانا آں. ( چل یار آج میں تمہیں چائے پلاتا ہوں ) ڈاکٹر صاحب مجھے اپنے گھر لے گئے جو کالج کی بلڈنگ کے اندر ہی تھا. ان کے ڈرائینگ روم میں کوئی کرسی یا صوفہ سیٹ نہیں تھا, بس چند پیڑھیاں پڑی تھیں. ڈاکٹر صاحب دوسرے کمرے سے ایک بڑا چائے کا گول ڈبا لے کر آئے. ایہ, چا مینوں بلراج ساہنی نے بمبئے توں بھیجی اے'(یہ چائے بلراج ساہنی نے مجھے بمبئی سے بھیجی ہے) یہ کہہ کر باورچی خانے میں غائب ہو گئے. بلراج ساہنی بھارت کا مشہور اداکار تھا. میں نے اس کی دو فلمیں دیکھ رکھی تھیں, کابلی والا اور ہم لوگ. تھوڑی دیر بعد خود ہی چائے لے کر آئے اور میرے ساتھ پیڑھی پر بیٹھ گئے. چائے واقعی بہت مزے کی تھی. ہم دونوں ان پیڑھیوں پر بیٹھ کر دیر تک باتیں کرتے رہے, شاعری پر, موسیقی پر. اسی دوران کہیں ڈاکٹر صاحب کی باتوں میں گورنمنٹ کالج کی کلونیل گلوریچائے کی بھاپ میں بھک سے اڑ گئی تھی۔

ڈاکٹر صاحب کی دوستی نے مجھ پرادب اور کلچر کے ہزار دروازے کھول دیے تھے. اب ہم ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں بغیر اجازت چلے جاتے, وہ کبھی ہمیں صوفی تبسم سے ملواتے تو کبھی استاد دامن سے. ڈاکٹر صاحب کی بیٹھک میں اور پھر گورنمنٹ کالج کی میوزک سوسائٹی کی محفلوں میں ہم نے بڑے بڑے مو سیقاروں کو سنا, استاد فتح علی خان, امانت علی خان, استاد سلامت علی خان, نزاکت علی خان, روشن آرا بیگم اور استاد شریف خان پونچھ والے. ڈاکٹر صاحب کبھی ہمارے ساتھ کالج کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر گپ لگاتے اور کبھی کالج کی کنٹین میں. وہ سارا دن ایک درویش کی طرح کالج کے چاروں طرف پھرتے رہتے. ہم لاہور میں رہتے تھے, لیکن ہمیں اس بات کی بالکل کوئی خبر نہیں تھی کہ ہم شاہ حسین کے شہر میں رہتے ہیں اور شاہ حسین روز ہمیں ڈاکٹر نذیر کے روپ میں ملنے آتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب سوائے کسی سرکاری تقریب کے کبھی سوٹ ٹائی نہ پہنتے, ہمیشہ اپنے سفید کرتے شلوار میں نظر آتے یا کبھی فلیٹ بوٹ, نیکر اور بنیان میں اوول گراونڈ میں لڑکو ں کے ساتھ ریس لگاتے دکھائی دیتے, کبھی کسی مالی کے ساتھ لان میں گھاس پر بیٹھے پھولوں کی کیاریوں کے بارے میں گفتگو کر رہے ہوتے اور کبھی کالج کے پچھواڑے میں چنگڑ محلے کے بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے. وہ زیادہ پیدل ہی چلتے اور کبھی کہیں دور جانا ہوتا تو سائیکل پر جاتے. انہیں کسی طالب علم کی بیماری کی خبر ملتی تو سائیکل پکڑ کر اس کے گھر اس کی عیادت کو پہنچ جاتے. ان کی دوستیاں ملک کے سبھی بڑے شاعروں, ادیبوں, دانشوروں اور موسیقاروں سے تھیں. انہیں کسی نے کبھی بھی اپنی کسی بات پر کسی قسم کی سفید پوشی کا بھرم رکھتے نہیں دیکھا تھا. میں ایک دن ان کے کمرے میں گیا تو وہاں ایک بڑا بارعب آدمی سرخی مائل کھدر کا دھوتی کرتا پہنے سر پر پگڑی باندھے بیٹھا تھا. کھدر کا یہ رنگ میں نے اکثر فیشن ایبل اور متمول مارکسسٹوں کو پہنے ہوئے دیکھا تھا. اس کا لباس دھول سے اٹا ہوا تھا. اس کے چہرے کا رنگ سانولا, ڈاڑھی مونچھ گھنی اور آنکھوں میں ایک صوفیانہ خمار تھا۔ایہ میرا بھرا اے موتی شاہ,'( یہ میرا بھائی ہے موتی شاہ ) ڈاکٹر صاحب نے بڑے پیار سے کہا, روڑی کٹدا اے. (روڑی کوٹتا ہے) گاوندا بہت اچھا اے. (گاتا بہت اچھا ہے ) ڈاکٹر صاحب نے بغیر کسی ہچکچاھٹ کے اپنے مزدور بھائی کو بڑے فخر سے مجھ سے ملوایا. موتی شاہ نے وہیں میز پر ٹھیکہ لگایا اور نہیات سریلی آواز میں ایک پنجابی گیت سنایا. موتی شاہ کی شخصیت میں بڑی ائتھنٹسٹی تھی, ایک سچائی جو میں نے شاید ہی کسی سوشلسٹ میں دیکھی ہو۔

ایک دن مال روڈ پر ڈاکٹر صاحب کو ایک پولیس والے نے کسی بات پر روک لیا. پوچھا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ وہ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل ہیں. اس پر پولیس والے سمجھا وہ اس سے مذاق کر رہے ہیں لیکن چند ہی منٹوں کے بعد وہاں ڈاکٹر صاحب کے مداحوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا اور وہیں مال پر محفل جم گئی۔فرسٹ ائر میں جب میں اردو کی کلاس میں گیا تو دیکھا ہمارے استاد ایک بلندی پر بیٹھے حقہ پی رہے ہیں, یہ بشیرالرحمان تھے جن کا بڑا رعب تھا. انہوں نے کتاب سے کچھ پڑھنا شروع کیا. جوانی میں استادوں کو چھیڑنے میں مزہ آتا تھا چنانچہ ایک جگہ انہوں نے پڑھا, اس نے رسی کا سرا پکڑا, میں نے ہاتھ کھڑا کر دیا. بشیر صاحب نے غصہ سے مجھے گھورا اور گرجدار آواز میں بولے. کیا بات ہے؟میں نے کہا, سر لفظ سرا نہیں سرا ہے. سر کا مطلب راز ہے اور سر کا مطلب جہاں سے کسی چیز کی ابتدا ہوتی ہے, جیسے سرورق, اس لئے یہ رسی کا سرا ہو گا, سرا نہیں۔کیا رول نمبر ہے؟204 ۔نکل جاو میری کلاس سے, انہوں نے غصے کہا اور حقے کی ناڑی کو مونہہ سے لگا لیا۔

اب مجھے ایک اور کلاس میں بھیج دیا گیا, وہاں بھی یہی سلوک ہوا کہ استاد مکرو زورکو مکر وزورپڑھ رہے تھے, ایک دو کلاسوں کے بعد مجھے ایک ایسے استاد کے پاس بھیجا گیا جن سے غلطی کا ہونا ناممکن تھا. مرزا منور صاحب عربی فارسی کے عالم تھے. میں روز اس انتظار میں رہتا کہ مرزا صاحب کوئی غلطی کریں لیکن میری آرزو پوری نہ ہو تی, آخر ایک دن ان سے غلطی ہو ہی گئی, کہنے لگے میر نے کیا خوب کہا ہے. قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو, کاش کہ تم مرے لئے ہوتے۔میں نے ہاتھ کھڑا کر دیا. کلاس سہم گئی۔ہاں کیا بات ہے؟ سر یہ شعر غالب کا ہے میر کا نہیں۔خاموش. بیٹھ جائو ! تحقیق کر لیجیے گا.میں نے بیٹھتے ہوئے کہا۔مرزا صاحب نے ایک لمحہ سوچا اور کہا، ٹھیک ہے, یہ شعر غالب کا ہی ہے اور پھر طنزا مجھ سے کہا. بندہ پروری کا شکریہ۔بندہ کس قابل؟میں نے بھی ذرا طنزا کہہ دیا۔مرزا صاحب کو تھوڑی دیر میں جب پتہ چلا کہ میں بندہان کو کہہ رہا ہوں تو غصے سے بولے،کیا رول نمبر ہے؟ نکل جاو میری کلاس سے۔

مرزا صاحب کی کلاس سے بھی چھٹی ہو گئی تو مجھے قیوم نظر کی کلاس میں بھیج دیا گیا جو دوپہر دو بجے ہوتی تھی. اس کلاس میں بہت سے طالب علم ہوتے تھے. میں کلاس میں پچھلے بنچ پر سو جایا کرتا تھا. قیوم صاحب کو میں وہاں سے نظر نہیں آتا تھا. ایک دن انہوں نے مجھے سوتے ہوئے دیکھ لیا. قیوم صاحب اذیت رسائی کے ماہر تھے, چنانچہ خوش ہوئے کہ آج ایک شکار ہاتھ آیا ہے. مجھے حکم دیا کہ میں ساری کلاس کے سامنے آ کر کھڑا ہو جاوں. وہ چاہتے تھے کہ مجھے ساری کلاس کے سامنے عبرت کا نمونہ بنایا جائے۔نظم اور نثر میں فرق بتائوقیوم صاحب نے پوچھا۔سر نظم میں بحر ہوتی ہے اور نثر میں بحر نہیں ہوتی۔جو فرق میں نے بتایا ہے وہ بتاوقیوم صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ میں ان کے لیکچر کے دوران سویا ہوا تھا۔میں نے کہا, سر آپ نے کیا فرق بتایا ہے؟کہنے لگے میں نے جو بتایا ہے وہ تم اس لئے نہیں بتا سکتے کہ تم سوئے ہوئے تھے۔میں کہا سر آخر آپ نے کیا بتایا ہے کیونکہ میرے خیال میں تو اس کے علاوہ کوئی اور فرق نہیں۔میں نے بتایا تھا کہ نثر میں ہم کہتے ہیں "وہ آتا ہے جبکہ نظم ہم "آتا ہے وہ بھی کہہ سکتے ہیں۔لیکن سر میرامن کی باغ وبہار میں تو یہ ہے, "آنا اس کا, جانا اس کا. قیوم صاحب ایک فرسٹ ائر کے لڑکے سے یہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ اس نے کچھ پڑھا لکھا ہو گا.۔میں نے بتایا ہے تھا کہ نظم میں قافیہ ردیف ہوتا ہے اور نثرمیں نہیں۔مگر سر اپ غالب کے خطوط پڑھ لیں اس میں مقفع عبارات بھی ہیں یعنی قافیہ ردیف موجود ہے. سر آپ مان لیں نظم اور نثر کا بنیادی فرق یہی ہے کہ نظم میں وزن ہوتا ہے اور نثر میں وزن نہیں ہوتا۔کیا رول نمبر ہے؟قیوم صاحب نے بے بس ہو کر کہا. نکل جائو میری کلاس سے۔

اب میر ی قیوم صاحب کی کلاس سے بھی چھٹی ہو گئی, اس دن کے بعد میں کسی اردو کی کلاس میں نہیں گیا. جب داخلے کا وقت آیا تو میرا داخلہ روک لیا گیا اس لئے کہ دو برس میں میرے صرف چودہ لیکچر تھے. میں بہت پریشان ہوا, ڈاکٹر صاحب کو پتہ چلا تو ڈاکٹر صاحب نے اپنے پی اے کو بلا کر کہا, اوئے کوئی بے ایمانی کرو تے سرمد دا داخلہ بھجواو! اینوں اردو زبان پڑھن دی کی لوڑ اے'( بھئی کوئی بے ایمانی کرو اور سرمد کا داخلہ بھجواو اسے اردو زبان پڑھنے کی کیا ضرورت ہے) میرا داخلہ چلا گیا اور میں اردو میں فیل بھی نہیں ہوا بلکہ بہت اچھے نمبروں سے پاس بھی ہو گیا. ڈاکٹر صاحب اگر وہ بے ایمانینہ کرتے تو میرے دو سال ضائع ہو جانے تھے. ہمارا ایک دوست کالج کی ایک ادبی تنظیم کا سکرٹری تھا, وہ کوئی بل اپروو کروانے ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا. اس نے حساب کتاب میں گڑبڑ کی ہوئی تھی. یعنی بے ایمانی, ڈاکٹر صاحب نے اس سے صرف اتنا کہا. بیٹا ربر تو کوئی اچھا سا استعمال کر لینا تھا. جاو اور بل ٹھیک بنوا کر لائو ! ھم جب کینٹین میں ڈاکٹر صاحب سے گپ شپ لگاتے تو اس میں کبھی کبھار پروفیسر بھی شامل ہو جاتے. ایک دن ایک پروفیسر نے جو باہر سے نیا نیا پڑھ کر آیا تھا ڈاکٹر صاحب کو مرعوب کرنے کے جتن میں انگریزی زبان میں بڑی بڑی جناتی اصطحلات استعمال کرتے ہوئے مارکسزم پر لیکچر سا دینا شروع کر دیا. ڈاکٹر صاحب خاموشی سے سنتے رہے اور جب اس نے اپنا لیکچر ختم کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھا تو انہوں نے کنٹین کے بیرے کو آواز دیتے ہوئے کہا, او یار ایہ دودھ تے ذرا گرم کر کے لیا'( او یار ذرا یہ دودھ تو گرم کر کے لاو) ڈاکٹر صاحب نے ایک ہی فقرے میں اس پروفیسر کی ساری گفتگو کا جواب دے دیا تھا. یعنی انگریزی کے مقابلے میں پنجابی, (ثقافتی مزاحمت / مداخلت / یاد دھانی ) بیرے کو یارکہہ کر بلانا (انسانی برابری) اور دودھ گرم کرنے کی بات کرنا نمائشی اور کتابی علم کے تکبر کو عام زندگی کی حقیقت سے دوچار کرنا تھا۔

اس زمانے میں ٹی وی نیا نیا آیا تھا, لوگ نشریات سے پہلے ہی ٹی وی لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور بلینک سکرین دیکھتے رہتے تھے. کوئی ٹی وی پر آتا تو محلے والے کیا سارا شہر اس کو جان جاتا تھا, پان والا بھی کہتا سر رات کو میں نے آپ کو ٹی وی پر دیکھا تھا.ہمارے ایک دوست جو اس زمانے میں ٹی وی کراچی سے ایک کوئز پروگرام کرتے تھے لاہور تشریف لائے, وہ بہت رکھ رکھاو اور نستعلیق قسم کے دانشور تھے جو اپنی شہرت کو بڑی سنجیدگی سے لیتے تھے. ان کا خیال تھا کہ انہیں سب لوگ جانتے ہیں اور ان کی دانشوری کی دھاک سب پربیٹھ چکی ہے. انہوں نے مجھ سے سے کہا, ہمیں یہاں کے دانشوروں سے ملوائیے گا.میں انہیں ڈاکٹر صاحب کی طرف لے گیا. ڈاکٹر صاحب اس زمانے میں ایک ادبی انسٹی ٹیوٹ کے ہیڈ تھے. وہ اپنے آفس میں سٹول پر بیٹھتے تھے اور ان کی گھومنے والی افسرانہ کرسی ایک کونے میں پڑی رہتی تھی. اس دفتر میں ایک سکرین بھی تھی جو کمرے میں پردے کا کام دیتی تھی. جب ہم وہاں پہنچے تو میں نے آہستہ سے دروازہ کھولا, میرے پیچھے اچکن میں جس کے بٹن گردن تک بند تھے وہ نستعلیق شخصیت اس امید کے ساتھ کھڑی تھی کہ ڈاکٹر صاحب ابھی اچھل کر اس کا استقبال کریں گے۔

اوئے سرمد؟ آ جا آ جا, (ہمارے دانشور دوست کو دیکھتے ہوئے ) اوئے کاکا توں وی لنگھ آ.'( بیٹا تو بھی آجا) ڈاکٹر صاحب کے اس استقبال سے ہمارے شہرت زدہ دوست کو یک دم گمنامی کا ایسا دھچکا لگا کہ ایک لمحہ کے لئے ان کا اپنے ہونے پر سے بھی اعتبار اٹھ گیا۔ڈاکٹر صاحب کو ظاھری شو شا, خوامخواہ کی نمایئش اور خود پسندی بالکل نہیں بھاتی تھی. وہ ایسے مردم شناس تھے کہ ایک نظر میں انسان کی شخصیت کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے لیکن اس کا اظہار بڑی خوبصورتی سے کرتے تھے. ہمارے دوست جب ڈاکٹر صاحب کی ان کی شہرت سے بے خبری کی رمز کو نہ سمجھ سکے تو میں نے ذرا کھنکارکر کہا, ڈاکٹر صاحب یہ ٹی وی پر آتے ہیں۔اوہو بھئی معاف کرنا میں تو ٹی وی نہیں دیکھتا. او بھئی چائے لاو.انہوں نے اپنے چپراسی کو آواز دی۔اب ٹی وی کے دانشور صاحب کا مسئلہ بن گیا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو اپنی شہرت اور دانشوری کا کیسے یقین دلائیں. چنانچہ انہوں نے علی گڑھ کا ذکر چھیڑا اور لمبی چوڑی تمہیدیں باندھ کر یہ جتایا کہ وہ علی گڑھ کے کتنا قریب رہے ہیں, ڈاکٹر صاحب نے اپنے میز کی دراز سے ایک کتاب نکالی جو کسی انگریز نے لکھی تھی, کہنے لگے دیکھو یہ علی گڑھ یونیورسٹی پر تازہ کتاب آئی ہے. کتاب کھولی تو پہلے صفحے پر کتا ب کا انتساب تھا, ڈاکٹر نذیر کے نام جس کا مقام میرے لئے اپنے باپ جیسا ہے.ٹی وی دانشور حیران ہوئے اور علی گڑھ کی نیمز ڈراپنگ یعنی تمہیدی جاہ و جلال اور سکہ بند ناموں کی منادی احتتام کو پہنچی. اب دانشور نے فیض صاحب سے اپنی دوستی کا ذکر چھیڑا, چنانچہ بولے فیض آئے, کہا, جان مناور فیض کے چند شعر سنا دیے. اس پر ڈاکٹر صاحب نے پھر دراز کھولی اور اس میں سے فیض صاحب کا ایک خط نکالا اور ہمارے سامنے رکھتے ہوئے کہا, بھئی فیض کی تازہ نظم دیکھو. یہ آج ہی ان کا خط آیا ہے۔دانشور نے پھٹی آنکھوں سے خط پڑھا. پیارے نذیر یہ میں نے ایک نظم لکھی ہے, تم اسے دیکھو اور بتاو کیسی ہے؟دانشور اپنا جان من بھول گئے اور فیض کی نیم ڈراپنگ بھی ختم ہو گئی. اب استاد دامن آ گئے, استاد کا جسہ یعنی ڈیل ڈول پہلوانوں جیسا تھا, وہ خود بتاتے تھے کہ جب وہ کسی مشاعرے میں بلائے گئے تو منتظمین نے کہا, ہم نے تمہیں شاعر لانے کو کہا تھا,،تم پہلوان لے آئے ہو۔چل نذیر آٹھ تندوری پراٹھے کھائیے'(چل نذیر اٹھ تندوری پراٹھے کھائیں ) استاد نے کھڑے کھڑے کہا۔نہیں استاد کراچی توں مہمان آئے ہوئے نیں.'(نہیں استاد کراچی سے مہمان آئے ہوئے ہیں.) استاد نے مہمان دانشور کو ایک نظر دیکھا اور باہر نکل گئے۔یہ کون صاحب تھے؟ دانشور نے مجھ سے سرگوشی کی۔استاد دامن ہیں, پنجابی کے بہت بڑے شاعر اور فیض صاحب کے قریبی دوست میں نے آہستہ سے کہا۔اس سے پہلے کہ ہمارے دانشور دوست یہاں سے اجازت لے کر کسی پان والے کی دکان پر جاتے, دس بارہ ننگ منگے بچے شور مچانے بڑی بے تکلفی سے کمرے میں داخل ہوئے۔اوئے بھئی ذرا ٹھہر کے آنا, ایس ویلے مہمان آئے ہوئے نہیں ( بھئی ذرا ٹھہر کے آنا اس وقت مہمان آئے ہوئے ہیں. ) ڈاکٹر صاحب نے بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا. بچوں نے مہمانکی طرف ذرا مایوسی سے دیکھا اور خاموشی سے واپس پلٹ گئے۔یہ بچے کیسے یہاں تشریف لائے؟ حیرت زدہ دانشور نے پوچھا،کچھ نہیں یہ یہاں ( گھومنے والی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) جھونٹے (جھولے) لینے آتے ہیں. یہ پیچھے چنگڑ محلہ ہے, وہاں رہتے ہیں. میں ان کی کرکٹ ٹیم کا بھی مینجر ہوں. ڈاکٹر صاحب نے کہا اور سکرین کے پیچھے گم ہو گئے جہاں انہوں نے اپنے نہانے کے لئے پانی کی بالٹی رکھی ہوئی تھی, نہانے کی آواز آئی تو ہکا بکا دانشور نے استفسار کیا۔سرمد صاحب یہ فرمایئے کہ انہوں نے ڈاکٹریٹ کس میں کی ہوئی ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے چونکہ زوالوجی میں پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی اس لئے میں نے اس کا سلیس ترجمہ کرتے ہوئے کہا۔علم الحیوانات میں۔ڈاکٹر صاحب کے درویش صفت چال چلن سے کچھ پروفیسر نالاں بھی تھے. وہ کہتے کہ ڈاکٹر صاحب نے کالج کا ڈسپلن خراب کر دیا ہے. ان کے ذہن میں ابھی تک گورنمٹ کالج کے پرنسپل کا امیج اسی کلونیل انگریز کا تھا. گورنمنٹ کالج اور دوسرے تعلیمی ادارے انگریز نے میکالے کی تعلیمی پالیسی پر بنائے تھے اور ان کا مقصد بابو پیدا کرنا تھا لیکن اسی کالج سے اقبال اور پھر راشد اور فیض بھی پیدا ہوئے جنہوں نے اس کالج کی کلونیل وراثت کی مزاحمت کی, ڈاکٹر صاحب اسی روایت کو زندہ رکھنا چاہتے تھے. میں نے ایک دن اس کا ذکر ڈاکٹر صاحب سے کیا تو انہوں نے کہا, بھئی ایک ڈسپلن ملٹری ڈسپلن ہوتا ہے جہاں ڈسپلن اوپر سے مسلط کیا جاتا ہے اور ایک ڈسپلن ایوالو evolve ہوتا ہے یعنی گرانڈ سے شروع ہوتا ہے. نوجوان طالب علم ایک پودے کی طرح ہے, ہمیں اس کی نشوونما کرنی چاہیے. اسے پھلنے پھولنے دینا چاہیے۔

ایم اے میں مجھے کالج کے رسالے راویکا ایڈیڑ بنایا گیا. راوی کے نگران قیوم نظر ہوا کرتے تھے, وہ تھے تو بڑے پیارے آدمی لیکن انہیں طالب علموں کو ذہنی اذیت دینے میں بہت مزہ آتا تھا. میری ان سے شروع سے ہی کچھ ان بن تھی, پہلے تو انہوں نے مجھے اردو کی کلاس سے نکالا تھا اور بعد میں جب میں نے فرسٹ یئر میں ان کو ایک غزل راویکے لئے دی تو انہوں نے سب کے سامنے میرا خوب مذاق اڑایا اور ایک سفاکانہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولے دیکھو ذرا اس فرسٹ ایر کے لڑکے کو, یہ اپنے آپ کو شاعر سمجھتا ہے. سوچو بھلا اس کو راوی کے لیے غزل دینے کی جرات کیسے ہوئی. اب چونکہ میں اسی راویکا ایڈیٹر تھا اور قیوم صاحب نگران تو ہمارا کوئی نہ کوئی تو جھگڑا ہونا ہونا تھا, چنانچہ ایک دن ایڈ یٹوریل پر ان سے بدتمیزی کی حد تک جدل ہو گیا. قیوم صا حب کو میرا لکھا ہوا اداریہ سخت ناپسند تھا لہذا انہیں نے اسے چھاپنے سے انکار کر دیا اور مجھے ان کی مرضی کے مطابق اداریہ لکھنے کو کہا جس کے لیے میں ہرگز تیار نہیں تھا. چنانچہ قیوم صاحب نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے مجھے راویکی ایڈیڑی سے نکال دیا. معاملہ پرنسپل تک پہنچ گیا. ڈاکٹرصاحب نے بورڈ کی میٹنگ بلائی جس میں مجھے بھی بلایا۔قیوم صاحب آپ نے سرمد کو کیوںراوی سے نکال دیا؟سر یہ بڑا بدتمیز ہے, گستاح اور ضدی ہے, آگے سے جواب دیتا ہے۔قیوم صاحب اگر میں سرمد کو کہوں کہ تم راوی کے ایڈیڑ بن جاو اور یہ آگے سے نخرے کرے اور کہے مجھے ایڈیٹر نہیں بننا, تو میں کیا کروں گا؟ میں اس کے نخرے سہوں گا. اس کے ناز آٹھاوں گا. آپ بھی اس کے ناز اٹھائیں. قیوم صاحب اس بات پر بہت پریشان ہوئے. میٹنگ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹر اجمل صاحب کو راوی کا نگران بنا دیا اور میرا اداریہ جوں کا توں چھپ گیا. عجیب اتفاق ہے کہ کچھ سالوں بعد قیوم صاحب ریٹائر ہو کر اورئنٹل کالج چلے گئے تو میری ان سے ایک نہایت خوبصودرت دوستی شروع ہو گئی. اب وہ ہر ہفتے خاص طور پر مجھے ملنے آتے اور دیر تک مجھ سے باتیں کرتے. میں بھی ان کو اورئنٹل کالج ملنے جاتا. ہماری بحث بھی بہت چلتی اور وہ قہقہے لگا لگا کر میری باتوں سے خوش بھی ہوتے. ہمارے وہی قیوم صاحب جنہوں نے مجھے پہلے کلاس سے اور پھر راویسے نکالا تھا مجھے ایم اے کے امتحان کے ایک پرچے کا ایکسٹرنل ایگزامینر بنا دیا. شاید یہ بھی ڈاکٹر صاحب کا کرشمہ تھا جنہوں نے کہا تھا, قیوم صاحب میری طرح آپ بھی سرمد کے ناز اٹھائیں۔

30 نومبر 1964 میں گورنمنٹ کالج کی کانوکیشن پر فیلڈ مارشل صدر ایوب خان کو چیف گیسٹ کے طور پر بلایا گیا. ڈاکٹر صاحب کے پرنسپل ہوتے ہوئے ہم نے کبھی کالج کے اندر پولیس نہیں دیکھی تھی, اس لئے کہ پولیس کو اندر آنے کی اجازت ہی نہیں تھی. چنانچہ صرف ایوب خان کی گاڑی اندر آئی. ایوب کے ساتھ پنجاب کے گورنر نواب کالا باغ بھی تھے. تقریب شروع ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے ایوب خان کو مخاطب کرتے ہوئے تقریر کا آغاز یوئر ایکسلینسی مسٹر پریذڈنٹسے کیا. اس پر سٹوڈنس میں ایک غصے کی لہر دوڑ گئی, ان کے خیال میں ان کے پرنسپل کو ایک ڈکٹیٹر کو یوئر اکسلینسینہیں کہنا چاہیے تھا. ان کا خیال تھا کہ ان کا پرنسپل کسی بھی سیاسی اقتدار رکھنے والے شخص سے زیادہ عظیم ہے. چنانچہ جب ایوب خان نواب کالا باغ کے ساتھ بخاری آڈیٹوریم کا افتتاح کر کے واپس جا رہا تھا تو کالج کے کونے کھدروں سے ان دونوں کے خلاف نعروں کی اونچی اونچی آوازیں سنائی دیں. ایوب اور گورنر دونوں جلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے۔

اسی ہفتے راوی کا نیا شمارہ آیا جس کے انگریزی کے حصے کا ادریہ اسی تقریر کے حوالے سے لکھا گیا تھا. ایڈیٹڑ (غالبنا مظفر عباس) نے ڈاکٹر صاحب پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ پرنسپل کو یور ایکسلنسیکی بجائے صرف مسٹر پریزیڈنٹکہنا چاہیے تھا. اوپر سے حکم آیا کہ یہ شمارہ بین کر دیا جائے لیکن ڈاکٹر صاحب نے رسالہ بین کرنے سے معذرت کر لی۔کچھ دنوں بعد جب میں حسب معمول کنٹین میں بیٹھا چائے پی رہا تھا تو ڈاکٹر صاحب آئے, وہ بہت جلدی میں نظر آرہے تھے۔اوے سرمد توں چرس پینی شروع کردتی اے. ؟'(اوئے سرمد تونے چرس پینا شروع کر دی ہے؟) میں حیران کہ ڈاکٹر صاحب مجھے کیا کہہ رہے ہیں۔نہیں سر, میں نے تو آج تک چرس کی شکل تک نہیں دیکھی۔اوئے نہیں توں اج چرس پیندا رہیا ایں'(نہیں تم آج چرس پیتے رہے ہو) وہ یہ کہتے ہوئے کنٹین سے باہر نکل گئے. مجھے ان کی اس بات سے کچھ شبہ ہوا, میں آٹھ کر کینٹین سے باہر نکلا تو دیکھا بہت سے لڑکے ایک بلیک بورڈ کے گرد جمع ہو رہے ہیں, قریب آیا تو دیکھا اس پر ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ سے لکھا ہوا ایک پیغام تھا. انہیں گورنمنٹ کالج سے ٹرانسفرکر دیا گیا تھا اور وہ طالب علموں کو پرامن رہنے کا پیغام چھوڑ کر کالج سے باہر جا چکے تھے. یک دم مجھے ان کی چرس والی بات یاد آئی. ہم نے فورا کلاسوں میں جا جا کر ڈاکٹر صاحب کی ٹرانسفر کی خبر پہنچانا شروع کردی اور لڑکے لڑکیوں کو کلاسوں سے باہر آنے کو کہا. دیکھتے دیکھتے سارا کالج اوپن ایر میں اکٹھا ہو گیا, حکومت کے خلاف زور دار تقریریں ہوئیں اور سٹرایئک کا اعلان کیا گیا. ہر روز کالج کے سارے لڑکے لڑکیاں اکٹھے ہو کر احتجاج کرتے اور نعرہ لگاتے. ہمارا باپ ہمیں واپس کرو. میں نے بھی ایک نعروں سے بھرپور نظم لکھی جو ہرروز اس جلسے میں پڑھی جاتی. اس کے دو شعر مجھے اب بھی یاد ہیں،
کیوں علم کے رستے میں ہے دیوار, حکومت؟
کیوں علم کی گردن پہ ہے تلوار، حکومت؟
قاتل کا نہیں چور کا ڈاکو کا نہیں ہے
یہ ملک ہمارا ہے ہلاکو کا نہیں ہے.
(یاد رہے اس وقت کے ڈی ایس پی کا نام ہلاکو تھا. )

یہ گورنمنٹ کالج کی تاریخ کی سب سے بڑی سٹرایئک تھی جو چارروز تک جاری رہی اور آخر نواب کالا باغ کو گورنمنٹ کالج کے طالب علموں کو ان کا باپ واپس کرنا پڑا۔بہت برس بعد میں جب گورنمنٹ کالج کی ایک کانوکیشن پر گیا تو اپنے سامنے ایک انتہائی بدشکل کالا آھنی گیٹ دیکھ کر سکتے میں آ گیا. ہمارے زمانے میں یہاں ایک خوبصورت سلور رنگ کا نازک سا گیٹ ہوتا تھا جو زیادہ تر کھلا رہتا تھا. اندر گیا تو سٹوڈنٹس سے زیادہ پولیس نظر آئی. پولیس؟ گورنمنٹ کالج میں؟ پرنسپل صاحب سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا وزیر اعلی تشریف لا رہے ہیں۔تو پھر کیا ہوا.میں نے کہا. اس پر وہ تھوڑے کنفیوز ہوئے اور کھسیانی سی مسکراہٹ کے ساتھ چپ ہو گئے. اس پر میں نے انہیں ایوب خان اور ڈاکٹر نذیرصاحب کا واقعہ سنایا اور کہا, ہمارے زمانے میں کالج کے اندر پولیس نہیں آ سکتی تھی اور ہم یہ بھی نہیں برداشت کر سکتے تھے کہ ہمارا پرنسپل کسی ڈیکٹیٹر کویورایکسلینسی کہے. کیوں سر؟ اس لئے کہ ہمارے نذدیک کسی بھی اعلی تعلیمی ادارے کے پرنسپل کا مرتبہ حکمران وقت سے برتر ہوتا ہے. لیکن سر مشکل یہ ہے کہ اس کے لئے ڈاکٹر نذیر بننا پڑتا ہے۔

بشکریہ ' ہم سب '
واپس کریں