دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پرانی فائلوں میں کیا لکھا ہے؟
وجاہت مسعود
وجاہت مسعود
غالب نے ’مقطع میں سخن گسترانہ بات‘ چلی آنے پر معذرت کی تھی۔ یہاں مشکل یہ ہے کہ کلام امروزہ کے لئے روئے سخن طے پا چکا تھا لیکن چرخ فلک نے مطلع ہی میں آن لیا۔ سو، پہلے اس سے نمٹ لیں۔ ٹھیک پانچ برس پہلے اگست کی 18 تاریخ تھی۔ صاحبان ذی قدر کے من بھاو¿نے عمران خان کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانا تھا۔ یہ ذمہ داری صدر ممنون حسین کے سپرد تھی۔ حلف کی عبارت دستور میں لفظ بلفظ لکھی ہے۔ ممنون حسین مرحوم اہل زبان ہی نہیں، علم و ادب سے بھی علاقہ رکھتے تھے۔ حلف کی عبارت رسان سے پڑھتے چلے گئے۔ عمران خان یورپ بلکہ پوری دنیا کو سب سے بہتر جانتے ہیں البتہ قومی زبان کے ضمن میں ان کا ہاتھ تنگ ہے۔ یوں بھی ایسے شائستہ صحبت رہے ہیں کہ ابتذال دہنی و معنوی کے بغیر ایک جملہ مکمل نہیں کر پاتے۔ حلف برداری کے موقع پر بھاڑے کے وہ دانشور بھی میسر نہیں تھے جو عمران خان کے دہن مبارک میں رومی اور اقبال کے ارشادات سے تیار کردہ ذود ہضم لقمہ دیتے۔ ہانپتے کانپتے کچھ عبارت تو صدر صاحب کے اتباع میں دہرائی لیکن ریاست مدینہ (جدید) کا موعودہ معمار ’خاتم النبیین‘ کی دو لفظی ترکیب میں الجھ گیا۔ ظالم کی چرب زبانی نے کہاں ساتھ چھوڑا۔

ممنون مرحوم نے بطریق احسن مدد کرنا چاہی مگر صاحب! کوئی لمحہ غضب کا ہوتا ہے۔ آنے والی ساعتوں کی وعید دیتا ہے۔ گزشتہ روز نگران وزیر اعظم انوار الحق کو حلف اٹھانا تھا۔ اب بوٹ دوسرے پاو¿ں میں تھا یعنی صدر عارف علوی کو حلف اٹھوانا تھا۔ ثم العجب کہ بلوچ سیاست دان تو حلف کی عبارت سے بے خراش گزر گیا اور صدر محترم اپنی مادری زبان میں ’مقتضیات‘ کے تلفظ میں الجھ گئے۔ کیوں نہ ہو۔ آخر کو منصب کی ذمہ داریوں کا ذکر تھا، الفت کے تقاضے تو تھے نہیں۔عارف علوی نے تو خیر جہاں تک ممکن ہوا، تعلق نبھایا۔ ان دنوں تو وفا شعاروں کا غول بیابانی منہ پھیر گیا ہے۔ اس پیغمبری وقت میں عمران صاحب کو چھوڑنے والوں سے شکوہ عبث ہے۔ وہ اپنے اجداد کی روایت نبھا رہے ہیں۔ سرکار انگلشیہ کے نمک خوار تھے۔ کمشنر صاحب نے اشارہ کیا تو یونینسٹ سے مسلم لیگی ہو گئے۔ سکندر مرزا کی چتون بھانپ کر راتوں رات ریپبلکن ہو گئے۔ ایوب خان کی چھڑی دیکھ کر کنونشن میں چلے آئے۔ ماندگی کا ایک وقفہ گزرا تو بھٹو صاحب کی کشتی میں آن بیٹھے۔ ضیاالحق کے عشرہ زیاں میں اسلام کا پرچم اٹھا لیا۔ پھر آئی جے آئی کے جہاد میں شریک ہوئے۔ مشرف صاحب کی روشن خیالی کے منڈپ کی رونق بڑھائی۔

عمراں خان جس تبدیلی کا الاپ کرتے تھے، اس کا ہراول دستہ اب تلواریں نیام کئے نو مئی کے پڑائو پر جمع ہو رہا ہے۔ بے شک تبدیلی کا مفہوم بدل جانا ہے۔ سیاست دانوں کو انتخاب اور وزارت کی منزلیں مارنا ہے۔ ’حلقے کی سیاست‘ کرنے والوں کو حلقہ زنجیر زیب گلو کرنا خوش آتا ہے۔ لیکن صحافی تو سیاسی منصب کا جویا نہیں۔ اس کے کھیت میں تملق کا سیم و تھور کیسے نمودار ہوا۔ کس کی نمک خواری کے طفیل قلم شور زدہ ہو گئے۔ ہرگز باور نہیں ہوتا کہ برسوں سے تحریک انصاف کے حدی خواں عمرانی سیاست کی حقیقت سے بے خبر تھے۔ سیاسی شعور سے بہرہ ور شہری کے لئے سیاسی عمل اور سیاست دان پر تنقید گوشت سے ناخن جدا کرنے جیسی اذیت ہے۔ ہم نے اہل سیاست پر نشتر زنی میں کسر نہیں چھوڑی تو اپنے قبیلے پر انگلی اٹھانے میں کیسی جھجھک؟

پنجابی زبان کے زندہ شعرا میں نجم حسین سید اور مشتاق صوفی کا مقام بہت بلند ہے۔ نجم صاحب کی ایک نظم کا متکلم کردار کہتا ہے، ’اپنا ذکر ہے فائلاں اندر! (نوٹ پرانی فائلاں اندر)‘۔ مفہوم یہ کہ ہم سرکار دربار کے پشتینی حاشیہ بردار رہے ہیں۔ ٹھیک جس طور آج کل کچھ ادارے ریاست کا ضمیر بردار سمجھے جاتے ہیں کسی زمانے میں یہ درجہ سی آئی ڈی کو حاصل تھا۔ سی آئی ڈی کی فائل میں نام آنے سے نشان زد فرد اور اس کے متعلقین کی دنیا خراب اور عاقبت تاریک ہو جاتی تھی۔ فروری 1959 میں دادا فیروزالدین منصور کا انتقال ہوا تو فیض صاحب جنازے میں شرکت کے لیے شیخوپورہ گئے۔ کسی نے مرحوم منصور کی طویل سیاسی صعوبتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’آج ایک فائل تو بند ہو گئی‘۔ فیض صاحب نے آہستہ سے کہا۔ ’اور آج کئی نئی فائلیں کھل جائیں گی‘۔

امیر حیدر اور فیروز منصور جیسے ثابت قدم کل بھی مٹھی بھر تھے اور آج بھی معدودے چند ہیں۔ ہماری صحافت میں سرکاری مخبری کی روایت پرانی ہے۔ حسن نظامی، مولانا اختر علی خان اور میر نور احمد کی حقیقت کون نہیں جانتا۔ قیام پاکستان کے بعد صحافت میں زیڈ اے سلہری، الطاف حسین،حمید نظامی، عبدالمجید سالک اور میم ش کے قصے راز نہیں۔ ایک اخباری مالک آزادی اظہار نہیں، اشتہار مانگتا تھا۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ کے خلاف سولہ اخبارات نے ایک ہی اداریہ لکھا۔ ضیاالحق کی آنکھ اور کان سمجھے جانے والے بہت سے صحافی رخصت ہو گئے۔ کچھ ابھی باقی ہیں۔ نواز شریف کے قصیدے لکھنے والی راج ہنس کی طرح اٹھلا رہے ہیں۔ عمران خان کی حمایت میں کف دردہان ہونے والوں میں سے کچھ نے حالیہ برسوں میں آنکھ کھولی لیکن بیشتر حرم سرا کے پرانے خدمت گار ہیں۔

ہمیں پاکستان کی اس نوجوان نسل سے کوئی گلہ نہیں جسے درس گاہ، ذرائع ابلاغ اور سیاسی اجتماع میں ایک ہی راگ سننے کو ملا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی نمود سے بہت پہلے ہم وہ ذہن تیار کر چکے تھے جو گروہی عصبیت اور شخصی عقیدت میں دلیل کو زحمت نہیں دیتا۔ یہ نوجوان نسل سچی ہے کہ انہوں نے عمران خان ہی کو دیانت دار دیوتا کے روپ میں دیکھا اور عشروں تک ریاستی استبداد کی چکی پیسنے والوں کو چور اور لٹیرے جیسے القاب سے متصف پڑھا اور سنا۔ آج کی بے یقینی میں آئندہ کا راستہ پردہ راز میں ہے۔ اس تاریک سفر میں یہ جاننا ضروری ہے کہ پرانی فائلوں میں کیا لکھا ہے۔

بشکریہ ہم سب
واپس کریں