دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پھٹے ہوئے جوتے اور بے داغ دستار
وجاہت مسعود
وجاہت مسعود
یاسر پیرزادہ ایسے دوست ہیں جنہیں جاننا عمر رواں کا تشکر ٹھہرتا ہے۔ تخلیقی تحریر تیز رو دریا میں خالی ہاتھوں مچھلی پکڑنے جیسا مشکل کام ہے۔ یاسر پیرزادہ پورے انہماک سے یہ کار گراں انجام دیتے ہیں۔ متعین لفظ اور مکمل ابلاغ سرگراں سنگی دیوتا ہیں مگر یاسر کی انگلیوں میں مٹی کا لوندا بن جاتے ہیں۔ اعلیٰ سرکاری افسر ہیں مگر منصب کو نخوت کی پوستین سمجھ کر اوڑھ نہیں رکھا۔ یہ تو رہی حبیب لبیب کی تشبیب۔ اب کچھ ہجو کا حق ادا ہو جائے۔ مجھ درویش سے امرتسری اسلوب میں محبت کرتے ہیں یعنی فقرے بازی کے پردے میں شرارت آمیز نیش زنی۔ عارف وقار ہمارے مشترکہ استاد ہیں۔ سکول کے دنوں میں آپ کو بھی کسی ایسے فتنہ پرور ہم جماعت سے واسطہ رہا ہو گا جو ساتھیوں کی کوتاہیاں استاد محترم کے گوش گزار کرنا گویا اپنی سعادت مندی کی سند جانتا ہو۔ تسلیم کہ درویش کے علم اور ہنر پر نارسائی کے نشان ہیں۔ مستزاد یہ کہ قسام ازل سے طبیعت گٹھل پائی ہے۔ یاسر صاحب لندن نشین استاد محترم کے کان بھرتے ہیں کہ دیکھئے، آپ کا کند ذہن بالکا ایہام اور ابہام کے کھنڈروں میں پوچ گوئی کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں بھی یہی مشق فرمائی۔ خیر گزری کہ استاد گرامی کی شفقت بے کراں ہے۔ فرمایا کہ معیشت کی پیوند کاری اضافی تھی ورنہ ابلاغ کا مسئلہ نہیں تھا۔ درویش کو استاد کی کفش برداری پر فخر ہے مگر یاسر صاحب؟ حالا نثر من بشنو۔ نیاز مند کو لاہور میں تھڑوں کی بے تکلف ثقافت سے تعلق نہیں رہا اگر یار عزیز کو یہی رنگ مرغوب ہے تو ایسا ہی سہی۔

اپنے حالیہ کالم میں حضرت یاسر نے پریم چند کے پھٹے جوتوں کا ذکر کیا۔ منشی پریم چند واقعی دیش بھگت تھے۔ اردو ادب میں بدیسی حکمرانی کی مزاحمت حسرت موہانی اور پریم چند سے شروع ہوئی۔ مگر جوتے میں سوراخ صرف منشی جی ہی سے کیوں منسوب کیا جائے۔ برطانوی راک بینڈ کا”Hole in My Shoe” والا شہرہ آفاق گیت تو کہیں 1967 میں آیا۔ امریکا میں ایک صاحب ایڈلائی سٹیونسن (Adlai Stevenson) گزرے ہیں۔ امریکہ کی دولت مند سیاسی اشرافیہ سے تعلق تھا۔ انیسویں صدی میں سٹیونسن کا دادا امریکا کا نائب صدر رہا تھا۔ ایڈلائی سٹیونسن نے پرنسٹن یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ 49 برس کی عمر میں الی نوائے ریاست کا گورنر بنا۔ 1952 اور 1956ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کا صدارتی امیدوار تھا مگر دونوں مرتبہ دوسری عالمی جنگ کے اساطیری کردار آئزن آور سے شکست کھائی۔ صدر جان کینیڈی نے سٹیونسن کو اقوام متحدہ میں امریکی مندوب مقرر کیا تھا۔ سٹیونسن کی وجہ مقبولیت ایک چھوٹا سا واقعہ بنی۔ یکم ستمبر 1952 کو صدارتی مہم کے دوران سٹیونسن ریاست مشی گن کی ایک تقریب میں اپنی تقریر سے کچھ پہلے ٹانگ پر ٹانگ رکھے انہماک سے اپنے نوٹس دیکھ رہا تھا۔ ولیم گلاگر نام کا ایک فوٹوگرافر ہجوم کے باعث سٹیج پر نہیں چڑھ سکا اور کونے پر اپنا کیمرہ رکھے تصویر کے لیے مناسب زاویے کی تلاش میں تھا۔ اچانک اس نے دیکھا کہ سٹیونسن کے دائیں جوتے کے تلوے میں ایک سوراخ نظر آرہا تھا۔ ولیم گلاگر نے صدارتی امیدوار کے خستہ حال جوتے کی تصویر اتار لی۔ دنیا بھر کے اخبارات میں چھپنے والی اس تصویر سے بات پھیل گئی کہ سٹیونسن کے سیاسی استغراق کا یہ عالم ہے کہ اسے اپنے جوتوں میں سوراخ کی کوئی پرواہ نہیں۔ امریکہ بھر سے سٹیونسن کو سینکڑوں جوتے تحفے میں ارسال کئے گئے۔

2008 کی کساد بازاری میں رومانیہ کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت بیٹھ گئی۔ حتیٰ کہ اسے آئی ایم ایف سے مدد مانگنا پڑی۔ حسب معمول آئی ایم ایف کا وفد کچھ معاشی تجاویز لے کر رومانیہ پہنچا۔ مذاکرات کے دوران سادہ لباس اور سستی گھڑی پہنے ہوئے آئی ایم ایف کے نمائندے جیفری فرینکس کی ایک تصویر کو بہت شہرت ملی۔ رومانیہ کو کفایت شعاری کا سبق دینے والے جیفری فرینکس کے بوٹ میں بڑا سا سوراخ نظر آرہا تھا۔ مائیکل بلوم برگ نامی امریکی بزنس مین اور سیاست دان نے 1981 میں بلوم برگ ایل پی کے نام سے ایک کمپنی قائم کی تھی جو دنیا بھر کی معیشتوں کے بارے میں وقیع جائزہ پیش کرتی ہے۔ بلوم برگ کی ذاتی دولت کا تخمینہ 94.5 ارب ڈالر ہے اور اس نے فلاحی کاموں پر آٹھ ارب ڈالر خرچ کئے ہیں۔ بلوم برگ کے پاس بغیر فیتوں کے لوفر شوز کے صرف دو جوڑے ہیں۔

ہرینٹ ڈنک (Hrant Dink) ترکی کا آرمینیائی نژاد صحافی تھا۔ پندرہ روزہ آگوس کا مدیر ہرینٹ ڈنک اقلیتوں کے حقوق کی آواز اٹھانے کی پاداش میں انتہا پسند ترک قوم پرستوں کے نشانے پر تھا جنہیں ریاست کی پشت پناہی حاصل تھی۔ 19 جنوری 2007ء کو ڈنک استنبول میں پیدل اپنے دفتر جا رہا تھا کہ ایک نوجوان نے اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ اپنے دفتر کے دروازے سے باہر اوندھے منہ پڑے مقتول ڈنک کی تصویر میں پولیس اہلکاروں نے لاش پر ایک کپڑا ڈال دیا تھا لیکن لاکھوں کی تعداد میں شائع ہونے والے جریدے کے مدیر ڈنک کے پاؤں نظر آرہے تھے۔ دونوں جوتوں کے تلوے بری طرح پھٹے ہوئے تھے۔ ہرینٹ ڈنک کے جنازے میں دس لاکھ شہری شریک ہوئے۔ دیانت دار صحافی کے لیے لازم نہیں کہ اس کے جوتوں میں سوراخ ہوں لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کی تحریر پر مفاد کے دھبے نہ ہوں۔ اس کے موقف میں سمجھوتوں کے سوراخ نہ ہوں۔ ہرینٹ ڈنک کی یہ تصویر درویش نے برسوں یونیورسٹی میں اپنے کمرے میں آویزاں رکھی۔ جو طالب علم داخلہ لینے آتا، میں اسے یہ تصویر دکھا کر بتاتا تھا کہ صحافت شہرت، اختیار اور رسوخ کا دروازہ نہیں۔ اس شعبے میں ایک گلی ہرینٹ ڈنک کے دفتر کی طرف بھی کھلتی ہے۔ ویو پوائنٹ کے مدیر مظہر علی خان فرمایا کرتے تھے۔ ’دولت کمانے کے بہت سے طریقے ہیں۔ صحافت دولت کمانے کا ذریعہ نہیں ہے‘۔ اہل پاکستان کو فخر ہے کہ ہماری سیاست، صحافت اور دوسرے شعبوں نے ایسے بہت سے کردار پیدا کئے جن کے جوتوں میں سوراخ تھے مگر ان کی دستار بے داغ تھی۔


بشکریہ ہم سب
واپس کریں