دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
موجودہ ملکی صورتحال کا ذمہ دار کون ؟
یونس خان، پیرس
یونس خان، پیرس
ملک کے موجودہ صورتحال پر اس وقت سب پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ چاہے وہ عوام ہو۔ حکومت، اپوزیشن یا اسٹیبلشمنٹ۔ کوئی بھی موجودہ صورتحال سے خوش دکھائی نہیں دیتا۔ یہ صورتحال کوئی ایک دن، مہینے یا سال کی وجہ سے نہیں بنے بلکہ اس کے پیچھے ہمارے اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے سالوں کی غلطیوں کی وجہ سے ہے۔ ملک سرکس بنا ہوا ہے۔ اور اس سرکس میں تمام لوگوں کے اصل چہرے سامنے آ رہے ہیں۔ جبکہ اعلی عدلیہ اور میڈیا کے کردار کو بھی اس میں نظر انداز کرنا زیادتی ہو گی۔

ہمارے ہاں چاہے حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو طاقت، اختیار اور اقتدار صرف اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہوتا ہے۔ وہ حکومتوں سے اپنے مرضی کے قوانین پاس کرواتی ہے۔ حکومت میں رہتے ہوئے تمام سیاستدان یا حکومتی پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلتی ہے اور جب حکومت کسی ایشو پر راضی نہ ہو تو اسٹبلشمنٹ کے پاس ہمیشہ سے تین ہتھیار رہے ہیں جس کو وہ استعمال کرتی ہے۔ میڈیا جس کے ذریعے وہ عوام کو بتاتی ہے کہ یہ لوگ کتنے غلط اور کرپٹ ہیں۔ دوسرا راستہ اعلی عدلیہ کا استعمال جو ہم پچھلے کئی دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ سکیورٹی حلقے اور اب عدلیہ بھی یہ سمجھتی ہے کہ سیاسی اخلاقی نظم قائم کرنا اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ان میں کوئی ایک دوسرے کو چیلنج نہیں کرتا بلکہ انہوں نے ایک دوسرے کے اخلاقی اصولوں سے مطابقت پیدا کر لی ہے۔

تیسرا اپوزیشن پارٹی کو اپنی بھر پور حمایت کی یقین دہانی کروانا اور حکومت کے خلاف احتجاج کروانا۔ ہمیں یاد ہے جب پیپلز پارٹی مقبول تھی تو اس کے توڑ کے لئے عوامی اتحاد موجودہ مسلم لیگ بنائی گئی کراچی میں پیپلز پارٹی کے ووٹ توڑنے کے لیے ایم کیو ایم بنائی گئی۔ اس ایم کیو ایم نے بعد میں کراچی کا جو حال کیا وہ الگ کہانی ہے۔ نواز شریف کو جب سیاست کی سمجھ آئی تو اس کو دو دفعہ غیر آئینی طریقے سے حکومت سے نکال دیا گیا۔عمران خان پر بڑی محنت کی گئی۔ نواز حکومت کو کمزور کرنے کے لئے اس سے 126 دن کا دھرنا کروایا گیا۔ جس کی وجہ سے ملکی معیشت جو ٹریک پر تھی دباو کا شکار ہوئی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ملکی معیشت میں تنزلی دکھائی دیتی رہی۔ اور ایسے حالات نظر آنے لگے کہ کہیں پاکستان دیوالیہ نہ ہو جائے۔ جس کے بعد عمران خان کی حکومت کو اپوزیشن کے عدم اعتماد کے ذریعے ختم کر دی گئی۔ پی ٹی آئی کو جو مقتدر حلقے لائے تھے انہوں نے ان کو نکالا۔

اپوزیشن کی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اور مقتدر حلقوں کے بات پر دوبارہ یقین کر گئے۔ جو کل اسٹیبلشمنٹ کے گن گاتے تھے، آج گالیاں دے رہے ہیں۔ جو کل اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دیتے تھے آج گن گا رہے ہیں۔ سیاستدانوں کی اپس کی لڑائی سے فائدہ صرف اسٹیبلشمنٹ کا اور نقصان ملک اور عوام کا ہوتا ہے۔ اسی طرح سیاسی اختلافات کو اتنی ہوا دی گئی کہ بات سیاست میں بات گالی گلوچ تک پہنچ گئی سیاسی اختلاف رائے جب کردار کشی میں بدلتی ہے تو جمہوری و سیاسی نظام گالی بن جاتا ہے اور یہی اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ سیاستدان ایک گالی بن جائے تاکہ یہ اپنا کھیل جاری رکھ سکے۔

ماضی میں بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایشوز پر اختلاف رائے ہوتا تھا۔ تحریکیں بھی چلتی تھیں محاذ آرائی اور عدم اعتماد تک نوبت آجاتی تھی مگر سماجی اقدار کا پاس ضرور رکھا جاتا ہے ایک دوسرے سے راہ رسم برقرار رکھی جاتی تھیں۔ الزامات زیادہ تر انتخابی مہم کا حصہ ہوا کرتے تھے تاکہ ووٹرز کی رائے پر اثر انداز ہوا جا سکے مگر پچھلے کچھ سالوں سے حالات سنگین سے سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں۔ پچھلے دو تین دہائیوں کا اگر بغور جائزہ لیں تو یہ چیز سامنے آتی ہے کہ حکومتوں کو گرانے میں جتنا قصور اسٹیبلشمنٹ کا ہے اتنا ہی قصور خود سیاستدانوں کا اپنا بھی ہے۔ کیوں کہ یہی سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کو کندھا فراہم کرتے ہیں۔

اس کے بعد اعلی عدلیہ کے جج ہیں جو ان کے آلہ کار بنتے ہیں اور ہمارا میڈیا جو اپنے غلط پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کو گمراہ کرتا ہے۔ ہم نے پچھلے کئی دہائیوں میں نہیں دیکھا کہ سیاستدانوں نے اپنے اپ کو یا پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کے لئے کوئی عملی کام کیا ہو۔ ہمارے ہاں کہنے کو پارلیمنٹ ہی بالادست ہے مگر عملی طور پر دیکھا جائے تو سیاسی جماعتیں اسے اپنی قوت کا منبع بنانے سے گریز کرتی ہے۔ پارلیمنٹ بیانیے کی تشکیل اور تنازعات کو سلجھانے میں اپنا قائدانہ کردار ادا نہیں کرتی تو پھر ایسا خلا جنم لیتا ہے جس سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

موجودہ صورتحال نے کچھ بنیادی سوال ضرور پیدا کیے ہیں۔ کہ آخر یہ سب کچھ کب تک چلتا رہے گا؟ کیا سیاستدان اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھیں گے؟ اسٹیبلشمنٹ کب تک یہ کچھ کرتی رہے گی اور کس قیمت پر؟ اور ایک سوال یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے نسبت اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ طاقتور کیوں ہو؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیاستدانوں نے پارلیمنٹ کو بااختیار نہیں بنایا۔ پارلیمنٹ میں اپنے حقوق کے لئے کوئی قانون سازی پر توجہ نہیں دی۔سیاستدان دہائیوں سے میوزک چیئر کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ حکومت میں ہوں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کیسے حکومت کو قائم رکھا جا سکے۔ اگر اپوزیشن میں ہو تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کیسے حکومت کو گرایا جائے اور خود حکومت کی باگ ڈور سنبھالیں۔ جبکہ اس کے برعکس اداروں کی پالیسی کے پیچھے منظم دماغ کام کرتے ہیں ان کے تھنک ٹینک ہوتے ہیں جو اگے بیس اور تیس برسوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں جن کے پاس A، B، C، D کئی متبادل پلان ہوتے ہیں ادھر سیاسی رہنما خود کو عقل کل سمجھ کر چلتے ہیں۔

لیکن ان کی سیاسی جماعت منظم نہیں ہوتے ان کے پاس مستقبل کے لئے کوئی پلان نہیں ہوتے۔ ان کے ساتھ ایسے دماغ نہیں ہوتے جو ان اداروں کے منظم پلان اور ارادوں سے ان کو با خبر رکھ سکے یا ان کا مقابلہ کرے۔ اسٹیبلشمنٹ کی ہمیشہ سے یہ کوشش ہوتی ہے کہ حکومت کو اپوزیشن سے اور اپوزیشن کو حکومت سے ڈرایا جائے۔ ان کے درمیان فاصلے رکھیں جائیں اور اس کا فائدہ اسٹیبلشمنٹ اٹھائے۔ سیاستدانوں کو یہ بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ ان کے سیاسی رول کو کم کرنے کے لئے کیا کھیل کھیلا گیا ہے۔ موجودہ جمہوری حکومت ہو یا سابقہ دونوں ہی سیاسی انتشار اور مسائل میں الجھی رہیں کہ عوامی مسائل کی فکر ہی نہ رہی ساتھ ہی احتجاج دھرنوں جلسوں کا ایک نیا کلچر پیدا کر دیا گیا ایک دوسرے کو برداشت کرنا ایک دوسرے کی بات سننا مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا یہی سیاست ہے اور جمہوریت کا حسن بھی، لیکن ہمارے ہاں جمہوریت کی شکل ہی بگڑتی جا رہی ہے۔ آج پاکستان معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ ملک میں مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے جبکہ روپیہ اپنی قدر کھو رہا ہے ان مشکل حالات میں بھی حکومت کو فکر ہے کہ کیسے اپوزیشن کو تنگ کیا جائے۔ کیسے اظہار رائے پر پابندی مزید سخت کی جائے۔ کیسے مخالف چینلز کو بند کر کے اختلاف رائے کا گلا گھونٹا جائے۔ یہ اقدامات ایک خودکش طرز عمل کی جانب اشارہ کر رہے ہیں اور لگتا ہے حکومت اپوزیشن کی مدد کے بغیر اپنے آپ کو خود گرانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ عمران خان اس وقت اپوزیشن کر رہے ہیں لیکن انہوں نے بھی ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔کبھی مذہبی کارڈ کبھی ریاست مدینہ کبھی جھوٹا پروپیگنڈا کر کے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سچ انہوں نے بھی کبھی نہیں بولا۔ ہمدردی حاصل کرنے کے لیے کبھی مذہب کارڈ کبھی جھوٹا پروپیگنڈا حتی کہ اپنے خواتین کارکنوں کے ساتھ جیل میں زیادتی کا جھوٹا الزام تک سے باز نہیں آیا۔ اس کے لیے عزیز صرف اقتدار ہے چاہے وہ کسی بھی قیمت پر ہو۔

اسٹیبلشمنٹ جو ماضی میں دبائو کا شکار تھی اب اپوزیشن اور حکومت دونوں اس کو خوش رکھنے کے لئے جتن کر رہی ہے۔جبکہ عوام بھی بہت حد تک اس کی ذمہ دار ہے۔ عوام نے سیاست کو اپنے اوپر اتنا حاوی کر دیا ہے کہ بھائی بھائی کے ساتھ اور دوست اپنے دوست کے ساتھ سیاسی اختلافات کی وجہ سے تعلقات خراب کیے بیٹھے ہیں۔ موجودہ جو حالات بنے ہیں اس میں تمام سیاسی جماعتیں اپنے ورکروں میں نفرت بیچنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ جس سے پورے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ نو اور دس مئی کے واقعات سے جتنا فائدہ اسٹیبلشمنٹ کو ہوا کوئی سیاستدان اس بارے سوچ بھی نہیں سکتا۔اور یہ سب کچھ سیاستدانوں کی نالائقی کی وجہ سے ہوا۔ بحیثیت قوم ہمیں ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا پڑے گا۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے نہیں ان کے ازالہ سے قومیں آگے بڑھتی ہیں۔ ملک اندرونی طور پر کسی بھی قسم کے انتشار و افتراق اور تصادم و محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن بدقسمتی سے زمینی صورت حال ایسی نہیں جسے مثالی قرار دیا جا سکے۔
واپس کریں