دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انڈین فلم ویلکم اور ہماری ملکی سیاست
یونس خان، پیرس
یونس خان، پیرس
پچھلے دنوں میں میرے دانت میں شدید تکلیف تھی جس کی وجہ سے دو تین دن گھر سے باہر نہیں نکلا۔ دانت کی تکلیف بہت تنگ کرتی ہے اور گھر پر بیٹھنا میرے لیے مشکل ترین کام تھا زیادہ وقت کتابیں پڑھنے یا ٹیلی ویژن دیکھنے میں گزارہ۔ اس دوران ایک انڈین مزاحیہ فلم بھی دیکھی۔ اس فلم کا نام ”ویلکم“ تھا اس میں دو اہم کردار نانا پاٹیکر اور انیل کپور نے ادا کیا۔ فلم میں ان دونوں نے مافیا ڈان کا کردار ادا کیا۔ عموماً مافیا ٹائپ فلم میں فائٹنگ ہوتی ہے لیکن اس فلم میں فائٹنگ سے زیادہ کامیڈی تھی۔

اس فلم میں دو افراد کے بھی رول تھے جن کے کام لوگوں کو جھوٹے قصے سنا کر ڈرانا ہوتا تھا۔ فلم میں اس کے فیملی کے کچھ افراد نانا پاٹیکر کو غلط کام سے روکنے کے لئے نانا پاٹیکر کو کسی طرح سے اعتبار کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کے اندر ایک بہت اچھے اور بڑے فنکار چھپے ہوئے ہیں۔ اور وہ سٹار ہیں۔ اداکاری تو ان کو آتی نہیں تھی لیکن سب واہ واہ کرتے کہ کیا اداکاری کی ہے۔ فلم میں دوسرا کیریکٹر انیل کپور جو نانا پاٹیکر کے چھوٹے بھائی کا رول ادا کرتا ہے اس کو بھی یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ بہت اچھے پینٹر ہیں۔ وہ ایک پینٹنگ بناتے ہیں جس میں گھوڑے پر گدھا سوار ہوتا ہے اور اس کو نیلامی میں پیش کر دیتا ہے بولی میں سب لوگ بٹھائے جاتے ہیں اور مہنگے دام پر ایک خوبصورت خاتون اس پینٹنگ کو خرید لیتی ہے جس کے ساتھ بعد میں انیل کپور کو اس لڑکی کے ساتھ عشق ہو جاتا ہے۔ نہ ہی نانا پاٹیکر اچھا اداکار ہوتا ہے اور نہ ہی انیل کپور اچھا پینٹر ہوتا ہے لیکن دونوں کو اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ دنیا میں اس سے اچھا فنکار یا آرٹسٹ اور کوئی نہیں۔

فلم دیکھنے کے بعد مجھے اس فلم کے کرداروں اور ملکی سیاست کے کچھ سیاسی لیڈروں کے کیریکٹر ایک جیسے لگے۔ فواد حسین، شیخ رشید اور شہباز گل کا کیریکٹر مجھے بالکل ایسا لگا جسے فلم میں دو افراد لوگوں کو ڈان سے ڈرانے کے لئے جھوٹے موٹے باتیں کرتے ہیں۔ جو اپنی جھوٹ الفاظ سے لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ڈان سے خطرناک اور کوئی نہیں۔ وہ سب کچھ کر لیتا ہے۔ فلم میں ڈان کا کردار ادا کرنے والے نانا پاٹیکر فلم میں یہ یقین کر بیٹھتا ہے کہ وہ بہت اچھا اداکار ہے۔جس طرح نانا پاٹیکر یہ سمجھتا ہے کہ وہ اچھا اداکار ہے بالکل اسی طرح ایک اچھے کرکٹ کھلاڑی جو قومی ہیرو تھا جس نے ملک کو ورلڈ کپ جتایا تھا اس کھلاڑی کو سیاست میں لا کر اس کو یہ یقین دلوایا گیا کہ وہ کھلاڑی سے زیادہ ایک اچھے سیاستدان ہے ملک کو اس کی ضرورت ہے۔ فلم میں تو کچھ محدود افراد ہی نانا پاٹیکر یا انیل کپور کی اپنی مجبوری کی وجہ سے واہ واہ کرتے اور ان کو فنکار مانتے تھے لیکن ہمارے ہاں لوگوں نے کھلاڑی کی سیاستدان سمجھ بیٹھا۔

بونا قد آوری کا دعوی کرے یہ کامیڈی ہے۔ لوگ یہ دعوی مان لیں یہ ٹریجڈی ہے۔ اور اس ٹریجڈی کے بعد ملک کی سیاست میں سیاست کم اور کامیڈی زیادہ ہو گئی۔ اس کے بیانات لوگوں کو تفریح فراہم کرنے کا مواقع فراہم کرتے رہے اس کھلاڑی نے ملکی سیاست کو بھی کرکٹ کا میدان بنا دیا۔ جو ایمپائر اس کھلاڑی کو گراؤنڈ سے لے کر اقتدار میں لائے انہوں نے اس کو کرکٹ کے میدان سے اقتدار میں لانے کے لئے بہت سی غلطیاں بھی کی۔ انہوں نے کئی سال کی انتھک محنت سے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ذہن میں ایک بات بٹھا دی کہ باقی سب چور اور یہ ایک کھلاڑی ایماندار، صادق اور امین ہے۔ایمپائر اس کھلاڑی کو گراؤنڈ کے میدان سے اقتدار کے ایوانوں تک لے تو آیا لیکن کھلاڑی کھلاڑی تھا وہ سیاست کو بھی گراؤنڈ کے میدان کی طرح کھیل رہا تھا۔ پونے چار سال میں کار کردگی کچھ نہیں تھی بس وزرا کی وزارتیں تبدیل کرتے ہوئے پونے چار سال گزارے۔ خارجہ پالیسی سے دوست ممالک بھی ناراض ہوئے ملکی معیشت روز بہ روز زوال پذیر ہو رہی تھی۔ عوام میں پسندیدگی کا یہ حال تھا کہ ضمنی الیکشن میں پنجاب تو چھوڑیں کے پی کے میں بھی ہار رہے تھے۔

عوام نے ایمپائر کے لانچ کیے ہوئے ناکام پراجیکٹ پر آوازیں اٹھانی شروع کی جس کے بعد امپائروں کے اپنے ہاں سے بھی اس کی کار کردگی پر سوالات اٹھنے شروع ہوئے۔ جس کے بعد امپائروں اور کھلاڑی کے درمیان معاملات خراب ہونے شروع ہو گئے اور نتیجے میں کھلاڑی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بالکل ویسے ہی جیسے فلم ”ویل کم“ میں فلم ڈائریکٹر خراب ایکٹنگ کی وجہ سے فلم بند کرنا پڑا۔ کھلاڑی کو جب اقتدار سے فارغ کر دیا گیا تو اس نے پارلیمنٹ کے بجائے ملک کے سڑکوں کو گراؤنڈ کا میدان بنا دیا۔کرکٹ میچ کے تماشائیوں اور عمران نیازی میں ایک بات مشترک ہے۔ جب پاکستانی ٹیم ہار رہی ہوتی ہو تو ہمارے تماشائی بارش کی دعا کر رہے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح عمران خان سیاسی بحران میں نیوٹرل سے مدد کی امید لگائے بیٹھا ہوتا ہے۔ اور نیوٹرل کی طرف سے مدد نہ ملنے پر نیوٹرل کو ہی گالیاں دی جا رہی ہے۔ عوام اس لیے کھلاڑی کی ہر بات پر یقین کر رہی ہے کہ نیوٹرل نے عوام کے ذہنوں میں سالہ سال کی جدوجہد سے یہ بات بٹھا دی ہے کہ یہ ایک سچا اور ایماندار بندہ ہے باقی سب چور ہیں۔

اب عوام یہ کہتی ہے کہ چاہے یہ کھلاڑی ٹھیک بھی نہ ہو لیکن کم از کم چور تو نہیں ہے۔ ان چوروں سے تو یہ بہتر ہے۔ نیوٹرل یا ایمپائر کو بھی ابھی تک یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ اپنے لائے ہوئے گند کو کیسے صاف کریں؟ کھلاڑی کے لیے ہر چیز ”کھیل“ ہے۔ چاہے وہ ملک ہو، سیاست ہو بس کھیلنا ہے۔ اہمیت چونکہ کھیل کی ہے اس لیے ملک کا نقصان ہو یا سیاست گالی بن جائے اس کی پروا نہیں بس کھیلنا ہے۔ چاہے یہ کھیل ملکی سالمیت کے ساتھ ہو۔ یہ کھیل یا فلم ابھی حتم نہیں ہوئی یہ کھیل یا فلم جاری ہے تب تک جاری رہی گی جب تک ایک محکمے کا سیاسی کردار رہے گا۔ جب تک ملک کے فیصلے پارلیمنٹ کے بجائے ”ملک کے فیصلے ڈی چوک یا جی ایچ کیو میں ہوں گے، ایسی فلمیں ایسی کہانیاں دیکھنی کو ملی گی۔
واپس کریں