دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مکتب عشق اور تصور وحدت الوجود
اکرم سہیل
اکرم سہیل
( یہ مضمون سید شبیر احمد کی کتاب مکتب عشق کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا)

محترم سید شبیر شاہ نے مکتب عشق کے عنوان سے پنجابی صوفی شعرا اور ان کی شاعری پر جو خوبصورت کتاب لکھی ہے، تمام شرکا تقریب اس پر انھیں مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ عظیم صوفی شعرا جو پنجاب اور آزاد کشمیر کی دھرتی سے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے صوفیانہ شاعری ہی نہیں کی بلکہ اپنے فکر و عمل میں عشق عقیقی کے انتہائی اہم گوشوں کو بھی منظر عام پر لایا۔ اس کتاب میں جہاں بابا فرید گنج شکر، شاہ حسین، بلھے شاہ، وارث شاہ، خواجہ غلام فرید سمیت سرزمین کشمیر کے عظیم صوفی شاعر میاں محمد بخش کے حالات زندگی اور ان کے کلام اور پیغام کو موضوع بنایا ہے، وہیں آج کے دور کے پنجابی شعرا جوگی جہلمی، احمد راہی استاد دامن، دائم اقبال دائم، شریف کنجاہی، شوکمار بٹالوی جیسے پنجابی شاعری کے درخشاں ستاروں کو بھی شامل کیا ہے۔ان تمام شعرا کا کلام لوگوں کے دل و دماغ کے بند کواڑوں کو کھول کر ان میں شعور و آگہی کا وہ پیغام پہنچاتا ہے جو اللہ تعالی نے اپنی ہدایت کے لیے کتاب مبین کے ذریعے انبیا اکرام علیہ اسلام کے ذریعہ انسانوں کے لیے اتارا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ خدا تک پہنچنے کا راستہ مخلوق خدا کے دلوں سے ہو کر گزرتا ہے۔

معزز حاضرین! اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ ہم نے نبی آدم کو نفیس واحدہ سے پیدا کیا اور انسان کو تمام مخلوق کے مقابلے میں بہترین انداز میں تخلیق کیا ہے۔ پھر اس میں اپنی روح پھونکی۔ یہ وہ خدائی پیغام ہے جو کل انسانیت کو عزت و احترام کی ایک لڑی میں پرو دیتا ہے۔ اسی لیے نبی پاک ۖ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالی کی فطرت کا انتباہ کرو جس نے انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا۔ اور پھر فرمایا کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا گویا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔معزز حاضرین! اپنے من کی سچائی اور پاکیزگی وہ بنیادیں ہیں جو انسان کو احسن تقویم کے درجہ پر فائز کرتی ہیں۔ نبی پاک نے انسانی من کو میلے رجحانات، کذب، انتقام اور ہر قسم کے تعصبات سے پاک کرنے کو جہاد اکبر قرار دیا ہے۔ اسی پیغام کو سلطان باہو نے ایسے بیان کیا ہے کہ

اے تن رب سچے دا حجرہ، وچ پا فقیرا چہاتی ہو
نا کر منت خواج خضر دی، تیرے اندر آب حیاتی ہو

معزز سامعین! دوسرا پیغام جو ان صوفی شعرا نے برصغیر میں پھیلایا اور اس کتاب کا بنیادی موضوع ہے، جو اسلام پھیلنے کا سبب بنا وہ احترام انسانیت اور مساوات انسانی ہے۔ برصغیر جہاں پر معاشرتی تفریق و تقسیم نے مذہب کا درجہ حاصل کیا ہوا تھا وہاں پر ان صوفیا کا مساوات انسانی، تکریم آدمیت، عدل و اخوت کا پیغام انسانی آزادیوں کے لیے ہوا کا خوشگوار جھونکا تھا۔ جو کروڑوں انسانوں کے ساتھ نفرت نہیں بلکہ پیار و محبت کے ساتھ امن و سلامتی کے دین کو پہچانے کا وہ طریقہ تھا جو قرآن پاک میں نبی پاک کے لیے مقرر کیا گیا تھا کہ اے نبی! اگر آپ تلخ مزاج ہوتے تو لوگ آپ سے بھاگ جاتے۔ آپ کو دروغہ بنا کر نہیں بھیجا گیا ۔ صوفیا کا مشن اسی پیغمبری مشن کی روایت کا تسلسل ہے کہ جس میں لوگوں کے کردار و عمل کے ذریعہ فیصلہ ہو گا کہ کون ہدایت یافتہ ہیں اور کون اس ہدایت سے خالی ہیں۔ بلھے شاہ نے فکر و عمل کے اس تضاد کو ایسے بیان کیا ہے۔

حج وی کیتی جاندے او، لہو وی پیتی جاندے او
کھا کے مال یتیماں دا، بھج مسیتی جاندے او
پھٹ دلاں دے سیتے نہیں، ٹوپیاں سیتی جاندے او
چھری نہ پھیری نفساں تے، دنبے کیتی جاندے او
دل دے پاک پوتر حجرے، بھری پلیتی جاندے او
فرض بھلائی بیٹھے او، نفلاں نیتی جاندے او
دسو ناں کجھ حضرت جی، اے کی کیتی جاندے او

بلھے شاہ کا یہ پیغام کسی خاص زمانے یا کسی خاص طبقے کے لیے نہیں ہے بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے ہے جو سیاسی، معاشرتی، سماجی اور تجارتی دو نمبری بلکہ دس نمبری کرتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی کر کے ناجائز منافع خوری کرنے کے بعد ٹکٹ کٹوایا اور حج و عمرہ کے ذریعہ گناہ معاف کرانے نکل پڑتے ہیں۔معزز حاضرین! زیر بحث کتاب مکتب عشق نے بھولے ہوئے سبق بھی یاد کرا دیے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ عوامی شعور اور حقیقی تصوف کے نظریات کو پھیلانے میں یہ کتاب ایک درخشاں کردار ادا کرے گی۔ اس میں ان صوفی شعرا کے پیغام کو ایک نئے انداز سے پیش کیا گیا ہے، جس کے ذریعہ تمام قارئین اور خصوصی طور پر نئی نسل کو حقیقی تصوف بہتر انداز میں سمجھایا جا سکتا ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن کی بنیاد انسانی رویوں اور اعمال پر ہوتی ہے۔اگر انسانی جبلتوں اور انسانی ضمیر کی تعمیر سچائی، عدل و انصاف، احترام انسانیت کی بنیاد پر ہوگی، تو وہ لوگ جو معاشرہ تعمیر کریں گے وہ معاشرہ بھی عدل و انصاف، خوشحالی اور امن کا معاشرہ ہو گا۔ صوفیا اکرام اسی لیے بار بار انسانی کردار سازی کے لیے اپنے من کی صفائی پر زور دیتے ہیں، ورنہ اس کردار سے خالی انسان کے پاس جتنا بھی علم ہو یا جتنا بھی اپنے آپ کو عبادت گزار کہے وہ نتائج کے اعتبار سے تہی دامن ہو گا۔ بلھے شاہ اسی لئے کہتے ہیں۔

مندر مسجد وڑ وڑ تھکیا، کدی من اپنے وچ وڑیا ای نی
علم کتاباں پڑھ پڑھ رجیا، کدی اپنے آپ نو پڑھیا ای نی
شیطان نال روز لڑیندا، کدی نفس اپنے نال لڑیا ای نی
بلھے شاہ تو اڈیاں پھڑنا ایں، پر اپنے آپ نوں پھڑیا ای نی

مصنف سید شبیر احمد نے وحدت الوجود کے نظریہ کے حوالے سے سولی چڑھنے والے منصور حلاج اور سرمد کے مکتب فکر کو بھی زیر بحث لایا ہے۔ منصور حلاج اور سرمد اس عشق حقیقی کی تشریح کرتے ہوئے دار پر جھول گئے۔ ان پر الزام تھا کہ یہ انا الحق کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ لیکن ان کے انا الحق کہنے سے قطعا یہ مراد نہیں تھی کہ وہ کہتے تھے کہ ہم خدا ہیں بلکہ وہ کہتے تھے کہ ہم خدا نہیں لیکن خدا سے جدا بھی نہیں۔ ہمارے جسموں میں اللہ تعالی نے اپنی روح پھونکی ہوئی ہے اور اسلام کا پیغام مساوات انسانی ہے۔کسی انسان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ کسی مقتدر، کسی بادشاہ کسی ظالم جابر یا کسی بھی انسان کے آگے چاہے وہ کتنا ہی نیک و پرہیز گار کیوں نہ ہو، وہ ان کے آگے اپنا سر جھکائے۔ انسان کا سر صرف اپنے خالق حقیقی کے آگے جھک سکتا ہے۔ لیکن اس زمانے کی ملوکیت میں فرعونوں، قارونوں اور ہامانوں کا گٹھ جوڑ ہر اس آواز کو مذہب دشمن قرار دے کر سولی پر چڑھا دیتا تھا۔ جو ان زمینی خداوں کی خدائی کا انکار کرتا تھا۔ اسلام جو ہر انسان کے لیے سلامتی، امن، آزادی کا ضامن اور غلامی کی بیڑیاں کاٹنے کا اعلان ہے اس پر بھی ہر زمانے کے بادشاہوں اور مقتدر طبقات نے ہامانوں کے تعاون اور ان کے فتووں کے زور پر ہمیشہ قبضہ کیے رکھا۔ سلطان باہو نے اس پر کہا کہ۔

مذہباں دے دروازے اچے، حق دی اکو موری ہو
ملا پنڈت لگن نی دیندے، جو لنگیا سو چوری ہو
عارف کھڑی حضرت میاں محمد بخش نے اسی موضوع پر کہا تھا کہ۔
لکھاں بیر ی نو لگدے، کجھ رہندے کجھ ٹہندے
جہیڑے پکن محمد بخشا، وٹے اناں نو پیندے

محترم سید شبیر احمد نے اس کتاب کو صوفیانہ کلام سے خوبصورت پیرائے میں ڈھالا ہے۔ بلھے شاہ جو کہتے ہیں کہ مینوں نچ کے یار مناون دے اسی کیفیت کو حضرت عثمان ہارونی نے منصور حلاج کے حوالہ سے ان اشعار میں ڈھالا ہے۔

منم عثمان ہارونی کہ یارے شیخ منصورے
ملامت می کند خلقے سربازار می رقصم
تو آں قاتل کہ از بہر تماشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیر خنجر خونخوار می رقصم
( میں عثمان ہارونی ہوں۔ شیخ منصور کا دوست، خلقت ملامت کرتی رہے۔ میں سربازار رقص کروں گا۔ تو وہ قاتل ہے جو فقط تماشے کے لیے مجھے قتل کرتا ہے۔ لیکن میں وہ بسمل ہوں کہ خونخوار خنجر کے نیچے بھی رقص کرتا ہوں )

معزز سامعین! صوفیا کا یہ رقص انسانوں کے پاوں میں پڑی ظلم و جبر کی بیڑیوں کو توڑنے کے لیے تھا۔ اور رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے یہ پیغام بھی تھا کہ ہم نے کسی خود ساختہ خدا کو نہیں ماننا ہے، کسی جابر، ظالم حاکم یا زمینی استحصالی طبقات کے آگے سرنگوں نہیں ہونا ہے، چاہے اس کے لیے ہمیں دار پر جا جھولنا پڑے۔ ہم نے دیکھا کہ تاریخ کے سفر میں غلامی کے خاتمے اور انسانیت کی سرفرازی کے لیے اٹھنے والی حریت کی آوازوں کو ظلم و جبر کے ساتھ مصلوب تو کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی صدائیں خاموش نہیں کرائی جا سکتیں۔ ایسی آوازیں رہتی دنیا کے لیے امر ہو جاتی ہیں۔

کیا عجب بات ہے، اے کاتب تقدیر تیری
جام پیاروں کو انا الحق کا پلا دیتے ہو
اور بدل دیتے ہو پھر معنی موت و حیات
زندہ رکھنا ہو تو سولی پر چڑھا دیتے ہو

معزز حاضرین! تمام پیغمبران اکرام علیہ اسلام اپنے اپنے زمانے کے استحصالی طبقات اور نظاموں کے خلاف اور محکوم و مجبور لوگوں کی آزادی اور ظالم معاشروں کو بدلنے کے لیے آئے۔ قرآن پاک کی آیات بار بار اس کی گواہی دے رہی ہیں کہ انبیا اکرام کی مخالفت زمانے کے سرمایہ داروں اور وڈیروں نے کی اور غریب ہی ان انبیا کے قافلے میں ہم قدم بنے۔ دوسری بات کہ تمام مذاہب معاشرتی عدل و مساوات کے پرچم لے کر آئے اور صوفیا اکرام نے بھی یہ روایت خوب نبھائی کہ پرامن معاشرے ایک دوسرے سے تعصبات اور نفرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ہمہ گیریت جیو اور جینے دو کے اصولوں پر چلتے ہیں۔ جہاں انسان دوسرے انسانوں کے دین اور ایمان اور ان کی جنت و دوزخ کے فیصلے کرنا شروع کر دیں اور مذہب پر عمل کی بجائے اسے سیاسی کھیل میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہو تو وہاں کے معاشروں کا وہی حشر ہوتا ہے جو آج ہم اپنے ملک میں مختلف نتائج کی صورتوں میں دیکھ رہے ہیں اور بقول استاد دامن۔

پہہج پہہج کے وکھیاں چور ہویاں، مڑ ویکھیا تے کھوتی بوہڑ ہیٹھاں

معزز حاضرین! ہم نے علم، مکالمہ اور گفتگو کو بھی فتوی بنا دیا۔ اس فتوے کے خوف نے علم کی جستجو اور مکالمے کے دروازے بند کر دیے۔ مذہب آدمی کو انسان بننے کا طریقہ سکھاتا ہے تا کہ اولاد آدم احسن تقویم کا خدا کا مقرر کردہ معیار حاصل کر سکے اور ایسے انسانیت نواز لوگ ہی ایسی ریاست کی بنیاد رکھ سکتے ہیں، جہاں مساوات انسانی کا عدل اجتماعی اور معاشی و معاشرتی آزادیاں رکھنے والا وہ انعام یافتہ معاشرہ تشکیل پا سکے جس کا وعدہ اللہ پاک نے سورہ قریش میں کیا ہے کہ وہ معاشرہ بھوک کے خوف سے آزاد ہو گا اور وہاں امن قائم ہو گا۔ بلھے شاہ نے کہا تھا کہ

ویکھ تے سہی آسماناں اتے کی پنکھ پکھیرو کردے نے
نہ او کردے رزق ذخیرہ نہ او پکھے مردے نے
بندے ہی کردے رزق ذخیرہ تے بنے ہی پکھے مردے نے
اور حقیقی تصوف انسانوں کے آگے سجدہ ریزی نہیں بلکہ ظلم کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونے اور اس مقصد کے لیے دار و رسن پر بھی خوشی سے جھولنے کا نام ہے۔

اک تصوف جو کراتا ہے سب سے سجدے
اک تصوف ہے جو حجروں میں پڑا رہتا ہے
اک تصوف ہے جو ہے سرمد و منصور کی رسم
ظلم کے سامنے ڈٹ کر جو کھڑا رہتا ہے




واپس کریں