دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بھارت میں دوسرا کشمیر !
عمرفاروق۔آگہی
عمرفاروق۔آگہی
بھارت 'دنیا کی سب سے بڑی'جمہوری ریاست ہونے کا دعوے دار ہے ۔ اس کے دعوں کے برعکس تقسیم ہند سے لے کر اب تک اوربالخصوص 2014 سے بھارت کی جانب سے ایسے اقدامات کیے گئے ہیں کہ جن سے نہ صرف جمہوری اقدار کو تہہ و بالا کردیا بلکہ بنیادی انسانی حقوق، مذہبی، شخصی، سیاسی اور سماجی آزادی کو بھی نیست و نابود کر دیا گیاہے ۔ انہی اقدامات کے نتیجے میں بھارت کے اندراورباہربین الاقوامی حلقوں سے بارہا ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں جو کہ اس دعوے کی تائید کرتی ہیں کہ سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کی داغ بیل درحقیقت نظریہ ہندوتوا کی نمائندگی کرتے مسلح گروہ یعنی بھارتیہ جنتاپارٹی اور آر ایس ایس کے ہاتھوں میں ہے، جو سیاسی، مذہبی ، سماجی اور ہندو ازم کے پرچار کے ساتھ ایک فاشسٹ ریاست کے قیام کی راہ پر گامزن ہیں ، وہ دن دور نہیں کہ جب نام نہاد جمہوریہ بھارت فاشسٹ ریاستوں کی ماں کا درجہ حاصل کر لے گا۔

اس حوالے سے تازہ گواہی انڈیا کے اپوزیشن رہنما راہول گاندھی کی طرف سے آئی ہے انہوں نے گذشتہ دنوں لندن میں برطانیہ کی پارلیمنٹ اور بعض دیگر مقامات پر بات کرتے ہوئے کہاہے کہ انڈیا میں جمہوریت کے ہر تصور پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ ملک کے سبھی جمہوری اداروں پر بی جے پی اور آر ایس ایس نے قبضہ کر لیا ہے۔ ملک کی جمہوریت کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ اگر یہ ٹوٹ گئی تو اس کا عالمی سطح پر اثر ہو گا۔انھوں نے کہا کہ وہ بھارت جوڑو یاترا کے لیے مجبور ہو گئے تھے کیونکہ بی جے پی اور آر ایس ایس نے ان سبھی اداروں پر قبضہ کر لیا ہے جو آزادی اظہار کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔راہول گاندھی نے مزید کہا آر ایس ایس ایک خفیہ فسطائی تنظیم ہے۔ اس کا مقصد جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر اقتدار حاصل کرنا اور پھر اسی جمہوری انتخابی نظام کو سبوتاژ کرنا ہے۔ میں یہ دیکھ کر حیران ہوں کہ اس نے کس طرح ملک کے مختلف جمہوری اداروں پر کامیابی سے قبضہ کر لیا ہے۔راہول گاندھی کے اس بیان کے بعد آرایس ایس آگ بگولہ ہوگئی ہے اوراپوزیشن رہنمائوں پرجھوٹے مقدمات بناکرانہیں گرفتارکرناشروع کردیاہے ۔

مودی کی فسطائیت کے خلاف ایک اورگواہی نیویارک ٹائمزنے بھی دی ہے جس نے لکھا ہے کہ مودی کے زیر سایہ بھارت دوسرا کشمیر بن جائے گا۔ اخبار کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر انو رادھا بھاسن نے نیویارک ٹائمز میں اداریہ لکھ کر مودی کافاشست چہر ہ بے نقاب کیاہے۔ صرف 2023میں بھارت میں انسانی حقوق اور گرتے ہوئے صحافتی معیاروں پر نیو یارک ٹائمز کا یہ گیارہواں اداریہ ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ مودی نے بھارت میں عدم برداشت اور مسلمانوں کیخلاف تشدد کو عام کیا ہے اورمودی پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو انکم ٹیکس چھپانے، دہشتگردی یا علیحدگی پسندی کے الزامات کی آڑ میں دھمکایا جاتا ہے۔ اشتہارات اور فنڈز کی آڑ میں اخبارات کو من پسند خبریں شائع کرنے کیلئے بلیک میل کیا جاتا ہے۔2014میں اقتدار سنبھالنے کے بعد مودی منظم طریقے سے عدالتوں اور سرکار ی مشینری کو کنٹرول کر رہا ہے اورمودی کی آمریت کی راہ میں اب صرف بچا کچھا میڈیا کھڑا ہے۔مزیدکہاہے کہ مودی کے صحافت دشمن اقدامات سے بھارت میں معلوماتی خلا پیدا ہو گیا ہے۔ مودی نت نئے قوانین کے ذریعے آزادی اظہار کا گلا گھونٹ رہا ہے۔کشمیر کے بعد مودی اب اس ماڈل کو پورے بھارت میں نافذ کرنا چاہتا ہے۔مودی حکومت نے 20سے زائد تنقیدکرنے والے صحافیوں کا نام نو فلائی لسٹ میں ڈال دیاہے۔مودی کے دوبارہ حکومت میں آنے کے بعد صحافتی سانحہ جنم لے رہا ہے ۔ پابندیوں سے بچنے اور معاشی فوائد کی خاطر بھارتی میڈیا مودی کا ترجمان بنا ہوا ہے۔ بی بی سی کی مودی مخالف سیریز کی نشریات روکنا اور انکم ٹیکس کی آڑ میں دفاتر پر حملے صحافتی آوازوں کو دبانے کے ہتھکنڈے ہیں ۔

حقوق انسانی کی تنظیموں اور کارکنوں کے خلاف طرح طرح کے مقدمے بنائے جا رہے ہیں۔ متعدد صحافیوں اور جریدوں کے خلاف کیسز درج ہیں۔ یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں ایسے بحث ومباحثوں پر پابندی ہے جن میں حکومت پر تنقید ہو سکتی ہے۔ حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو کبھی انکم ٹیکس، کبھی سی بی آئی تو کبھی ای ڈی کی جانب سے طلب کرکے انہیں بلیک میل کیاجاتاہے ۔ بھارت جمہوری اقدار سے کوسوں دور فاشسٹ ریاست بننے کی ڈگر پر ہے۔ سیاسیات کی اصطلاحات و مفہوم کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت،ہندوتوا پالیسی اور حکمران جماعت کا منشور 'فاشزم 'او ر 'فاشسٹ طرز حکومت'کو نہ صرف اپنا چکی ہے بلکہ تیزی سے اپنے دہائیوں کے سیکولر ریاست ہونے کے نام نہاد دعوے اور عمومی تاثر کوبھی پس پشت ڈال چکی ہے۔

2014 سے لے کر اب تک کے غیر جمہوری اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت میں ماسوائے ہندوں کے کوئی مذہب، انسان یا معاملہ ایسا نہیں جو کہ فاشسٹ حکمران یعنی نریندرا مودی کے ہندوتوا اقدامات سے محفوظ رہا ہو۔ بھارت میں بدنام زمانہ سیٹیزن امینڈمنٹ ایکٹ 2019 کا اجرا کیا گیا جہاں اقلیتوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے دستاویزات فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی۔بھارت کے ہندو راج کے پیش نظر اس غیر جمہوری ایکٹ نے بنیادی شہری حقوق کی پامالی کی صور ت میں تمام اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہری کے طور پر لا کھڑاکیا ہے جو کہ 'ہندوستان صرف ہندوں' کے نعرے کی واضح توثیق ہے۔ ہندو ازم کی پرچار کے معاملے کو پرکھا جائے تو پولیس اور ہندوں کی جانب سے زبردستی مسلمانوں کو جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کرنے کی ویڈیوز وقتا فوقتا سامنے آتی رہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مسلمان ریڑھی بانوں کوبھی بارہا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ متعصبانہ ہندو راج کی عکس کشی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ 1947 سے لے کر اب تک کسی ایک ریاست کا وزیر اعلی بھی مسلمان نہیں۔

ایک برس قبل امریکہ کے ارب پتی اور جمہوریت کے علم بردار جارج سوروس نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا مجھے اپنی زندگی کے اس مرحلے میں سب سے بڑا ملال انڈین جمہوریت کے پھسلنے کا ہے۔ یہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انڈیا میں جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔بی بی سی کے مطابق دنیا بھر میں جمہوریت کی صورتحال کا جائزہ لینے والے سویڈن کے ادارے وی ڈیم انسٹی ٹیوٹ کی مارچ کے اوائل میں جاری کی گئی سالانہ رپورٹ میں لبرل جمہوریت کی فہرست میں انڈیا کو 108 ویں مقام پر رکھا ہے۔ گذشتہ برس یہ 100ویں مقام پر تھی۔ رپورٹ کے مطابق جمہوریت انڈیکس میں انڈیا میں جمہوریت کی صورتحال تنزانیہ، بولویا، سنگاپور، نائجیریا اور میکسکو جیسے ممالک سے بھی نیچے آ چکی ہے۔

جرمنی اور سویڈین کے پولیٹیکل سائنٹسٹ کے ایک گروپ نے اکیڈمک آزادی کی اپنی حالیہ عالمی رپورٹ میں کہا ہے کہ انڈیا میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد تعلیمی اور ثقافتی آزادی اور اداراجاتی خود مختاری کو بہت شدید نقصان پہنچا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2009 کے بعد ملک کی یونیورسٹیوں کی خود مختاری بری طرح متاثر ہوئی ہے۔اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے گزشتہ سال جمہوری انڈیکس کی اشاعت میں بھارت میں جمہوریت کو 'غلط جمہوریت' کے زمرے میں ڈالاتھا ۔ ایک اور فورم Institute V-Dem نے بھارتی جمہوریت کو روس کی انتخابی خود مختاری کی حد تک جمہوری درجے میں رکھا ہے۔مودی کے فاشزم کودیکھتے ہوئے بھارتی تجزیہ کاریہ سمجھ رہے ہیں اگلے سال بھارت میں ہونے والے انتخابات صرف حکومت کا فیصلہ نہیں کریں گے بلکہ وہ ملک کی جمہوریت کے مستقبل کا بھی فیصلہ کریں گے ۔


واپس کریں