دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سقوط مشرقی پاکستان کا ذمہ دار کون تھا؟
یاسر پیرزادہ
یاسر پیرزادہ
میرے ’سر‘ ایک با کمال شخصیت ہیں، پیشے کے اعتبار سے تو وہ سرکاری ملازم ہیں مگر اپنے پیشے کو وہ کچھ خاص لفٹ نہیں کرواتے، ان کی نظر ہمہ وقت بین الاقوامی امور اور ان سے جڑے پیچیدہ اور دقیق مسائل پر رہتی ہے، تاریخ عالم انہوں نے گھول کر پی رکھی ہے، اس کے علاوہ جغرافیہ، عمرانیات، سیاسیات اور ابلاغیات پر بھی سر کی گرفت خاصی مضبوط ہے۔ گزشتہ دنوں سر سے ایک ملاقات ہوئی تو بہت افسردہ نظر آئے، ملکی حالات نے انہیں ملول کر رکھا تھا، ان کا کہنا تھا کہ یہ بگاڑ چند دنوں یا چند برسوں کا نہیں بلکہ دہائیوں کا ہے، ہم نے نوجوانوں کو غلط تاریخ پڑھا کر بہت گمراہ کیا ہے اور افسوس کہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔چونکہ تاریخ سر کا خاص موضوع ہے اس لیے انہوں نے مشرقی پاکستان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ہماری شکست کی وجہ فوجی نہیں بلکہ سیاسی تھی لیکن بد قسمتی سے ہم نے اس پہلو پر کبھی توجہ ہی نہیں دی۔ عموماً میں سر کی تمام باتوں سے اتفاق ہی کرتا ہوں الا کہ سر مجھے اختلاف کی اجازت دیں اور اس اختلاف کا مقصد بھی سر کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے، مگر اس مرتبہ جب سر نے مشرقی پاکستان کی مثال دی تو مجھے حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ یاد آ گئی، آپ اسے میری خوش قسمتی سمجھیں یا بد قسمتی، یہ رپورٹ میں نے پڑھ رکھی ہے، اس لیے باوجود خواہش اور کوشش کے، اپنے محبوب سر کی بات سے اتفاق نہ کر سکا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس رپورٹ کی مستند کاپی شائع ہی نہیں ہوئی، ان کا خیال غلط ہے، حکومت پاکستان کی اجازت سے یہ رپورٹ ’ڈی کلاسیفائی‘ ہو چکی ہے اور لاہور کے ایک اشاعتی ادارے نے اسے سال دو سال پہلے شائع بھی کر دیا تھا۔

حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کے ایک باب کا عنوان ’فوجی پہلو‘ ہے، اس باب میں بتایا گیا ہے کہ اس زمانے میں فوج میں قومی سلامتی اور دفاع کا تصور کیا تھا، دفاعی منصوبے کیسے تشکیل دیے جاتے تھے، بھارت کے دھمکی آمیز رویے کا تجزیہ کیسے کیا جاتا تھا، مسلح افواج کی تیاری کیسی تھی، مشرقی پاکستان پر بھارتی حملے سے پہلے کیا حالات تھے، 21 نومبر اور 3 دسمبر 1971 کے درمیان کیا کچھ ہوا، 3 دسمبر اور 17 دسمبر 1971 کے دنوں میں جنگ کیسے لڑی گئی، مشرقی پاکستان میں ہتھیار کیوں کر ڈالے گئے، مغربی پاکستان میں جنگ بندی کب ہوئی وغیرہ۔سقوط مشرقی پاکستان کے فوجی پہلو کا احاطہ کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 14 دسمبر تک جنرل یحییٰ کا خیال تھا کہ مشرقی پاکستان میں جنگ جاری رہنی چاہیے حالانکہ یہ بات اس وقت تک روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی تھی کہ ہم ڈھاکہ پر اب مزید قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتے، ان دنوں واقعات جس تیزی کے ساتھ پیش آرہے تھے انہیں دیکھ کر جنرل یحییٰ جیسے تجربہ کار فوجی کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ڈھاکہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا، اگر ہم نے ایک ہفتے بعد بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ہی ڈالنے تھے تو یہ اندازہ ایک ہفتے پہلے بھی لگایا جا سکتا تھا اور ہتھیار ڈالنے کی ہزیمت سے بچا جا سکتا تھا۔

جنرل یحییٰ نے اس وقت بھی عوامی لیگ کے ساتھ سیاسی مصالحت اور امن کی پیشکش ٹھکرا دی جبکہ یہ پیشکش سوویت یونین جیسے ملک کی طرف سے کی گئی تھی جس کے پاس ویٹو کی طاقت تھی جو ہمارے حق میں ہونے والی کسی بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی تھی۔ رپورٹ میں یہ جملہ لکھا گیا ہے کہ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کس وجہ سے جنرل یحییٰ نے جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے کا اختیار یا مشورہ دیا، جنرل یحییٰ آخری وقت تک کسی بھی قسم کی سیاسی مصالحت کے لیے تیار نہیں تھے، انہیں اس بات کا اچھی طرح ادراک تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں مشرقی پاکستان پر اپنا ذاتی کنٹرول برقرار نہیں رکھ سکیں گے اس لیے انہوں نے آخر وقت تک مغربی پاکستان پر اپنا تسلط برقرار کھنے کی کوشش کی۔رپورٹ کا یہ باب اس جملے پر ختم ہوتا ہے کہ ہم اس ناگزیر نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جنرل یحییٰ نے ملک کو ایک ایسی جنگ میں جھونکنے کی اجازت دی جس سے کسی اچھے نتیجے کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی اور وہ اپنے ضدی طرز عمل کو محض اس لیے جاری رکھنا چاہتے تھے کہ وہ کسی بھی قیمت پر ملک کی مشکلات کا سیاسی حل تلاش کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے، آخر کار اس ہٹ دھرمی کا نتیجہ شرمناک شکست کی صورت میں نکلا اور قوم کو بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ذلت اٹھانی پڑی، ایسی ذلت جس کی اسلام کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

رپورٹ میں ایک اور جگہ اس دستور کا ذکر بھی ہے جس کا ڈرافٹ جنرل یحییٰ نے اس وقت تیار کروایا جب ملک دو ٹکڑے ہو رہا تھا، مقصد اس وقت بھی ملک کو نیا آئین دینا نہیں تھا بلکہ اپنے اقتدار کو بچانا تھا۔ اس آئین کی شق 16 یہ کہتی تھی ملک کے پہلے صدر جنرل یحییٰ خان ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ آئندہ پانچ برس کے لیے ملک کے کمانڈر ان چیف بھی ہوں گے۔ یہی نہیں بلکہ دستور میں شق 260 بھی شامل کی گئی جس میں کمانڈر ان چیف کو ملک بھر میں مارشل لگانے کا ’آئینی اختیار‘ بھی دیا گیا، دوسرے لفظوں میں آئین میں ہی آئین شکنی کا طریقہ کار لکھ دیا گیا جو ایک مضحکہ خیز بات تھی۔جس دن اس مجوزہ آئین کی کاپیاں پریس کو بھیجی گئیں وہ دن 16 دسمبر 1971 کا دن تھا، یہ وہی دن تھا جب جنرل نیازی (مبینہ ٹائیگر ) بھارتی فوج کے سامنے سرینڈر کی یاد داشت پر دستخط کر رہا تھا۔ حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ میں لکھا ہے کہ جنرل یحییٰ خان جس خیالی دنیا میں رہ رہا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 18 دسمبر کو مغربی محاذ پر جنگ بندی کے بعد جنرل صاحب نے اعلان کیا کہ ان کے ’آئینی منصوبوں‘ میں ذرا سی بھی رکاوٹ نہیں آئی اور وہ اپنے ’ٹائم ٹیبل‘ کے مطابق آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، موصوف نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ نیا دستور 20 دسمبر کو نافذ کیا جائے گا۔ باقی تاریخ ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان سیاسی شکست تھی تو یہ بات بھی سو فیصد جھوٹ نہیں، سیاسی طور پر یہ ناکامی تھی کہ ملک کی دو بڑی جماعتیں متفقہ آئین پر آمادہ نہ ہو سکیں اور یوں جنرل یحییٰ کے ہاتھ میں یہ عذر آ گیا کہ عوامی لیگ اپنی واضح اکثریت کی بنیاد پر مغربی پاکستان کے مفادات کا تحفظ نہیں کرے گی لیکن یہ محض ایک بہانہ تھا، انتخابات جیتنے والی سب سے بڑی جماعت کو اقتدار سے دور رکھنے کا۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے اس اعتراض کا جواب اسی وقت یہ کہہ کر دے دیا تھا کہ میں ایک جمہوری شخص ہوں اور پورے پاکستان کا لیڈر ہوں، میں مغربی پاکستان کے مفادات کو نظر انداز نہیں کر سکتا، میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام کے ساتھ ساتھ عالمی رائے عامہ کو بھی جوابدہ ہوں۔اکثریتی جماعت کے لیڈر کی حیثیت سے میں آپ (صدر یحییٰ ) کی جمہوریت بحال کرنے کی کاوشوں کا شکریہ ادا کروں گا اور پھر ہم پارلیمانی جمہوریت کے تمام عمل سے گزریں گے اور ہر معاملے پر مذاکرات کر کے (فریقین کے لیے ) اسمبلی کے اندر اور باہر قابل قبول حل تجویز کریں گے۔ یہ باتیں ملک ٹوٹنے سے فقط چند ماہ پہلے کی ہیں، گویا جس شیخ مجیب پر ہم ملک توڑنے کی سازش کا الزام لگا رہے تھے وہ شیخ مجیب اس وقت بھی ملک جوڑنے اور جمہوریت کی بحالی کی باتیں کر رہا تھا۔ لیکن اگر ’سر‘ کہتے ہیں کہ ملک ٹوٹنا سیاسی ناکامی تھی تو پھر ہمیں سر تسلیم خم کر کے یہ بات قبول کر لینی چاہیے، ہو سکتا ہے کہ اسی میں ہماری بہتری ہو، آخر ہم نا سمجھ بھی تو ہیں!

مشرقی پاکستان کے سانحے پر لکھنا بہت مشکل کام ہے، خاص طور سے پاکستان جیسے ملک میں جہاں اکیاون برس گزرنے کے بعد بھی اس سانحے سے جڑی تمام جماعتیں، طاقتیں اور گروہ آج بھی اتنے ہی متعلقہ ہیں جتنے 1971 میں تھے۔ امریکہ میں تو کچھ عرصے بعد خفیہ دستاویزات کو عوام تک رسائی دے دی جاتی ہے چاہے وہ دستاویزات سی آئی اے، ایف بی آئی، وہائٹ ہاؤس یا محکمہ خارجہ کے قبضے میں ہی کیوں نہ ہوں، مگر اپنے ہاں یہ کام ممکن نہیں اور ظاہر ہے کہ اس کی وجہ بچے بچے کو معلوم ہے اور اگر کسی بچے کو نہیں معلوم تو وہ بے شک اپنے والد صاحب سے پوچھ لے۔اس موضوع پر لکھنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ یہ تحقیق طلب کام ہے جس میں حقائق صرف اسی صورت میں تلاش کیے جا سکتے ہیں اگر ہم یہ بھول جائیں کہ ہمیں اسکولوں میں کیا پڑھایا گیا ہے اور سرکاری محکموں میں کیا رٹایا گیا ہے جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ جس محکمے میں نوکری مل جاتی ہے ہم اس محکمے کے بیانئے کی (خواہ مخواہ) مالا یوں جپنے لگتے ہیں جیسے وہی آفاقی سچ ہو۔ مدعا صرف اتنا ہے کہ ہمارے تعصبات، چاہے وہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کی وجہ سے ہوں یا کسی محکمے میں نوکری کی وجہ سے، ان سے جان چھڑائے بغیر اس قسم کے سانحات کی وجوہات کا درست تعین کرنا ممکن نہیں۔

سانحہ مشرقی پاکستان کی کئی وجوہات تلاش کی جا سکتی ہیں، ان پر بحث ہو سکتی ہے، حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ پر بھی سوال اٹھایا جا سکتا ہے، سیاسی ناکامی اور فوجی شکست کا تقابل بھی کیا جا سکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ ہم کھلے ذہن کے ساتھ اس واقعے کے تمام پہلوؤں کی پڑتال کریں اور دیکھیں کہ ہم سے کہاں غلطی ہوئی اور غلطی تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ تسلیم کیا جائے کہ غلطی کسی بھی فریق، گروہ، جماعت یا ادارے سے ہو سکتی ہے اور کوئی اس سے مبرا نہیں۔چلیے اسی سوال کو لے لیں کہ سقوط مشرقی پاکستان سیاسی ناکامی تھی یا فوجی؟ اس سوال کے جواب کے لیے تو کسی ابن خلدون کی ضرورت نہیں، تاریخ اٹھائیں اور دیکھیں کہ اس وقت اختیار کس کے پاس تھا، آپ کو پتا چلے گا کہ 27 اکتوبر 1958 سے 20 دسمبر 1971 تک سیاسی اور فوجی ٹوپیاں شخص واحد نے باری باری پہنیں اس لیے مشرقی پاکستان میں ہونے والی شکست کے سیاسی یا فوجی ہونے کی بحث بلکہ سوال ہی سرے سے غیر متعلق ہوجاتا ہے۔ 10 ستمبر تا 6 دسمبر 1971 کے دوران مشرقی پاکستان اندرونی شورش اور بھارتی حملوں کی زد میں آ چکا تھا لیکن اس کے باوجود سرکار نے عوامی لیگ کے 79 نو منتخب ارکان قومی اسمبلی اور 135 ارکان صوبائی اسمبلی نا اہل کروا دیے اور ان نشستوں پر من پسند افراد کے بلا مقابلہ انتخابات کا ڈھونگ رچا کر شیخ مجیب الرحمٰن کی قومی اسمبلی اور مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ کام جنرل یحیی ٰ نے کیا۔ البتہ بعد ازاں صدر ذوالفقار علی بھٹو نے مجیب الرحمٰن کو اسلام آباد ہوائی اڈے سے لندن کے لیے رخصت کرتے وقت عوامی لیگ کے 214 نا اہل ممبران کو اپنے چیف مارشل فرمان کے ذریعے بحال کر کے نوٹیفیکیشن مجیب کے حوالے کیا جس کے نتیجے میں تمام فرضی ضمنی انتخابات منسوخ ہو گئے۔ مجیب بھٹو مذاکرات کے نتیجے میں چھ میں سے ساڑھے پانچ نکات پر تقریباً سمجھوتہ ہو چکا تھا، صرف آدھا نکتہ ناقابل قبول تھا کیونکہ عوامی لیگ وفاق کو ٹیکس عائد کرنے یا وصولی کا اختیار دینے پر تیار نہ تھی بلکہ صوبوں کے چندے کے شور پر مرکزی حکومت بشمول دفاع چلانے پر مصر تھی جو کہ ظاہر کہ ناقابل فہم بات تھی۔

کچھ اعتراضات حمود الرحمٰن کمیشن پر بھی کیے جاتے ہیں، مثلاً یہ کہ کمیشن نے جنرل یحییٰ خان کی ناجائز فوجی حکومت کے تو خوب لتے لیے مگر جس وقت جنرل یحییٰ صاحب مارشل لا لگا رہے تھے اس وقت حمود الرحمٰن صاحب خاموش تماشائی بن کر کیوں بیٹھے رہے یا یہ کہ جسٹس حمود الرحمٰن نے جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کے خلاف فیصلہ کیوں نہ سنایا وغیرہ۔ یہ اعتراضات درست نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ 14 اگست 1973 سے پہلے پاکستان کی عدالت عظمی ٰ کے پاس آئین کی موجودہ شق 184 ( 3 ) کی طرح از خود نوٹس لینے کا اختیار نہیں تھا۔حمود الرحمٰن کمیشن میں جسٹس حمود الرحمٰن کے علاوہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس انوار الحق، چیف جسٹس سندھ بلوچستان جوائنٹ ہائی کورٹ جسٹس طفیل علی عبدالرحمٰن کے علاوہ دو جج صاحبان اور لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے کا ایک ریٹائرڈ افسر بطور عسکری مشیر بھی شامل تھا۔ 3 جولائی 1977، مارچ 1981، جنوری 2000 اور نومبر 2007 کے پی سی او کے برعکس اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی حاضر جج کو 1958 یا 1969 کے متعلقہ پی سی او کے تحت کبھی بھی سرسری طور پر نہیں ہٹایا گیا اور نہ ہی نیا حلف لینے کو کہا گیا۔چیف جسٹس حمود الرحمٰن نے پانچ ججوں کی فل کورٹ کی سربراہی کرتے ہوئے عاصمہ جیلانی کی درخواست کی سماعت کی اور جنرل یحییٰ کے مارشل لا کو غیر قانونی قرار دیا، یہی نہیں بلکہ عدالت عظمیٰ نے 25 مارچ 1969 اور اپریل 1972 کے دوران نافذ کیے گئے تمام قوانین کالعدم قرار دے دیے۔ جسٹس کیانی مرحوم سے بھی ایسا ہی ایک سوال ایوب خان کی مارشل لا حکومت کی قانونی حیثیت کے بارے میں کیا گیا تھا، ان کا سیدھا سادہ جواب انہی کی کتاب میں درج ہے کہ ’ہماری عدالت میں مارشل لا کو کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا۔‘

یہاں ایک ڈاکیومنٹری فلم کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو گزشتہ برس جاوید جبار نے بنائی، موصوف نے اس فلم میں ’اصل سچائی کو بے نقاب‘ کرنے کا دعویٰ کیا اور اصل سچائی ان کے نزدیک یہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں نوے ہزار فوجیوں نے نہیں بلکہ تیس ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے، تین لاکھ بنگالیوں کا قتل نہیں ہوا بلکہ فقط چند ہزار بنگالی مارے گئے اور اسی طرح چند سو بنگالی عورتوں کا ریپ ہوا ہو گا۔ بالفرض محال اگر ہم یہ اعداد و شمار درست بھی مان لیں تو کیا اس سے ہمارا جرم معاف ہو جائے گا؟ دراصل شیخ مجیب الرحمٰن نے بھی مشرقی پاکستان میں قتل و غارت کے جو دعوے کیے ان میں بے حد مبالغہ تھا، ان دعوؤں کو سرمیلا بوس نامی ایک تاریخ دان نے غلط قرار دیا، ہمارے مہربان اپنی ہر گفتگو میں جھٹ سے اسی کا حوالہ دیتے ہیں اور یہ بات نظر انداز کر دیتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا اس کا درست اندازہ لگانا کسی ایک شخص کے لیے ممکن ہی نہیں، اس کے لئے تو نیورمبرگ کی طرز پربین الاقوامی کمیشن قائم ہوتا جو تمام متاثرہ لوگوں کی گواہیاں ریکارڈ کرتا تو معلوم ہوتا کہ کتنے بنگالی قتل ہوئے اور کتنی عورتوں کا ریپ ہوا۔مگر سچ پوچھیں تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ نیورمبرگ ٹرائل کے باوجود آج بھی لوگ موجود ہیں جو ہولوکاسٹ کے انکاری ہیں یا جو یہ کہتے ہیں کہ اس وقت ستر لاکھ یہودی آبادی ہی نہیں تھی تو ہٹلر نے اتنے یہودی کیسے مار دیا! ظاہر ہے کہ یہ ایک لا حاصل بحث ہے۔ جو ڈاکیومنٹری جاوید جبار نے بنائی، اس میں بہت نایاب فوٹیج ہیں جن تک رسائی حاصل کرنا انہی کا کام تھا مگر جیسا کہ ہمارا المیہ ہے، اپنی تمام تر قابلیت اور انگریزی پر عبور ہونے کے باوجود جاوید جبار صاحب نے تاریخ کو درست کرنے کی بجائے اسے یہ کہہ کر مزید مسخ کر دیا کہ مشرقی پاکستان کا ٹوٹنا سیاسی ناکامی تھی۔

جاوید جبار صاحب ہمارے ہر دلعزیز جنرل مشرف کے ترجمان بھی رہے ہیں، اس زمانے میں وہ مشرف حکومت کی کامیابیاں گنوایا کرتے تھے، کیا اس وقت انہوں نے کبھی سوچا کہ یہ کامیابیاں دراصل سیاست دانوں کی مرہون منت ہیں جبکہ حکومت پرویز مشرف کی تھی؟ ظاہر ہے کہ یہ ایک ناقابل فہم بات ہوتی بالکل اسی طرح جیسے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ مشرقی پاکستان کا ٹوٹنا سیاسی ناکامی تھی۔ جس ملک کی اشرافیہ آمر کا دست و بازو بننے میں ندامت محسوس کرنے کی بجائے فخر محسوس کرے اس ملک کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ دسمبر 1971 میں ہوا، افسوس کہ ہم اب بھی دائروں میں سفر کر رہے ہیں۔

بشکریہ ہم سب
واپس کریں