دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یکم ستمبر ''یوم بابائے حریت'' شہید سید علی شاہ گیلانی۔ دوسری و آخری قسط
عزیر احمد غزالی
عزیر احمد غزالی
عزیر احمد غزالی ۔ چیئرمین پاسبان حریت جموں کشمیر

6 مارچ 2014 کو سید علی گیلانی سینے کے شدید انفیکشن میں مبتلاء ہو گئے۔ مئی 2015 میں انہوں نے سعودی عرب میں اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے پاسپورٹ کے لیے درخواست دی لیکن نریندرہ مودی کی قیادت والی فاشسٹ بھارتی حکومت نے ان کی درخواست قبول نہیں کی۔سید علی گیلانی نے جموں کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کی مخالفت کرنے اور آزادی مانگنے کی پاداش میں کئی سال بھارت کی مختلف جیلوں میں گزارے، دوران قید جسمانی اور ذہنی اذیتیں برداشت کیں۔ مختصر وقت کیلئے نظر بندی کے وقفے کے دوران انہوں نے 29 نومبر 2010 کو انسانی حقوق کی معروف کارکن ارون دھتی رائے کی دعوت پر دہلی میں ایک سیمینار میں تقریر کی، جس میں انہوں نے بھارتی دانشور، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاستدانوں کے سامنے مسئلہ کشمیر کی حقیقت، حساسیت اور انفرادیت کو پوری دلیل کے ساتھ پیش کرکے کشمیری عوام کی آزادی ، حق خودارادیت اور حقوق کی کھل کر اواز اٹھائی۔ انہوں نے کشمیر میں قتل عام، انسانی حقوق کی پامالیوں ، قتل عام، سیاس، سماجی اور مذہبی حقوق کی پامالیوں پر بھارتی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ جس پر تین دیگر افراد سمیت سید علی گیلانی پر بھارتی حکومت نے غداری کا الزام عائد کردیا۔
2014 میں جب نریندر مودی نے نئی دلی میں بی جے پی کی غالب اکثریت کے ساتھ اقتدار سنبھالا تو کشمیر کے تئیں نئی دلی کا رویہ سخت ترین ہو گیا۔ خدشات اور خوف کی فضا کے بیچ ''کل جماعتی حریت کانفرنس'' کے دیگر دھڑوں کو اس بات کا اندازہ ہونے لگا کہ بھارت بات چیت کے زریعے صرف وقت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ان کا لہجہ علی گیلانی کے ساتھ ملنے لگا اور کچھ کچھ اختلاف رائے کے باوجود میر واعظ عمر فاروق، سید علی گیلانی اور یاسین ملک کی آزادی کے حصول کی سمت ایک جیسی ہو گئی۔2015 میں مودی حکومت نے ان کی حیدر پورہ رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت، تقریر اور آزادء اظہار رائے پر مکمل پابندیاں عائد کر دی تھیں جو ان کی موت تک نافذ رہیں۔ 2016 میں معروف آزادی پسند کشمیری رہنماء کمانڈر حزب المجاہدین برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد برپا ہونے والی عوامی تحریک نے تمام کشمیری رہنماؤں کو ''مشترکہ مزاحمتی فورم '' کے بینر تلے اِکھٹا کر لیا اور عوام کی غالب اکثریت نے اس اتحاد پر اطمینان کا اظہار بھی کیا، متحدہ آزادی پسند فورم کی اپیلوں پر ہڑتالیں اور بھر پور عوامی مظاہرے ہوئے۔ اس فورم کی قیادت میں ہی ہند مخالف عوامی احتجاجی تحریک 2019 کے موسم گرما تک چلی۔ لیکن نریندر مودی کے دوبارہ برسراقتدار آتے ہی جماعت اسلامی اور لبریشن فرنٹ کو کالعدم قرار دیا گیا اور سینکڑوں رہنماؤں سمیت یاسین ملک کو بھی جیل بھیج دیا گیا۔2018 کے بعد ہی سے بھارت نے سید علی گیلانی سمیت آزادی کے حامی حریت رہنماؤں اور کارکنوں، مذہبی قائدین، وکلائ، تاجران، طلبہ، سیئول سوسائٹی، دانشوروں انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف سخت ترین انتقامی کارروائیاں شروع کردیں تھیں۔
بابائے حریت 2010 سے مسلسل نظر بند رہے جون 2020 کے آخر تک ''کل جماعتی حریت کانفرنس'' کے چیئرمین رہے۔ مسلسل نظر بندی علاج معالجے کی سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے اپنی بگڑتی ہوئی صحت کی وجہ سے انہوں نے فورم سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ بھارت کی نام نہاد جمہوریت کے چہرے پر یہ بات بد نما داغ ہے کہ متعدد دائمی اور جان لیوا بیماریوں کے مریض ہونے کے باوجود بھارتی حکام نے سید علی گیلانی کو اتنے سالوں تک گھر میں نظر بند رکھا جس سے ان کی صحت کو شدید نقصان پہنچا۔سید علی گیلانی نے مقبوضہ کشمیر میں ایک بے مثال سیاسی کردار ادا کیا۔ وہ ہمیشہ احترام آدمیت کا درس دیتے رہے، امت مسلمہ کی فکر انہیں ہمیشہ دامن گیر رہتی، فلسطین، افغانستان، چیچنیا، بوسنیا، جہاں کہیں مسلمانوں پر ظلم ہوتا علی گیلانی تڑپ اٹھتے تھے۔ عراق، شام، لیبیا کے اندر تباہی اور انسانی المیوں نے انہیں بہت فکر مند رکھا۔انہوں نے زندگی میں عالمی راہنماؤں، سربراہان مملکتوں اداروں اور شخصیات کو بے شمار خطوط لکھے؛ تاہم انکی زندگی کے دو آخری خط بہت تاریخی ہیں۔ ایک خط انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو لکھا تھا جس میں کشمیر کی آزادی کیلئے مؤثر ترین فریقانہ رول ادا کرنے اور اپنا حصہ ڈالنے کی تاکید کی تھی اور ساتھ ہی لکھا تھا کہ شاید وہ دوبارہ انہیں خط نہ لکھ سکیں۔ یہ بات انہوں نے اپنی گرتی ہوئی صحت کے باعث لکھی تھی۔ ابھی حال ہی میں جب افغانستان میں طالبان فتح یاب ہوئے تو انہوں نے انہیں بھی خط لکھا' جو یقیناً ان کی زندگی کا آخری خط تھا۔ اپنے خط میں انہوں نے افغان مجاہدین اور افغان عوام کو دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کی اور کہا: ''افغانستان میں ملی یہ فتح جہاں ایک طرف دنیا بھر میں اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے مصروفِ جدوجہد اقوام اور خاص طور پر مسلمانوں کیلئے یہ پیغام ہے کہ مخالف حالات سے مایوس اور بددل ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے صبر و استقامت کے ساتھ اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا چاہیے، وہیں دوسری طرف اس میں بھارت اور اسرائیل جیسی غاصب قوتوں کے لئے بھی ایک تنبیہ ہے کہ طاقت کے نشہ میں بدمست ہو کر وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ان کے ظلم و جبر نے مظلوموں کو ہمیشہ کیلئے دیا دیا ہے۔ لوگوں سے زبردستی ترانے گوا کر ان کے جذبہ? حریت کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ باطل چاہے جتنا بھی وقتی طور پر اچھل کود کر لے' انجام کار میں اسے شکست سے دوچار ہونا ہے کیونکہ غلبہ صرف حق کیلئے ہے''۔
بابائے حریت طویل العمری، شدید علالت کے باؤجود سرینگر حیدر پورہ اپنے گھر میں 11 سال کی مسلسل نظربندی کے دوران 92 سال کی عمر میں یکم ستمبر 2021 کو جام شہادت نوش کر گئے۔سید علی گیلانی کے انتقال کی خبر پھیلنے کے فوراً بعد سری نگر کی مساجد سے اعلانات کیے گئے، جس میں لوگوں سے کہا گیا کہ وہ ممتاز رہنما کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گھروں سے باہر نکلیں۔ تاہم، قابض حکام نے دسیوں ہزار بھارتی فوجی اور نیم فوجی اہلکاروں کو تعینات کرکے انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز کو معطل کرکے سخت ترین فوجی محاصرہ اور مواصلاتی بندش نافذ کردی۔جب میت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹا گیا اور سوگواروں نے آزادی کے حق میں اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے جیسے 'ہم آزادی چاہتے ہیں'، 'ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے'، بھارتی فورسز کے اہلکاروں کی بھاری نفری نے ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا۔ آدھی رات کو بابائے حریت کے خاندان کے افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا اور لاش کو زبردستی چھین لیا۔ مزاحمت کے دوران سید علی گیلانی کے بیٹے ڈاکٹر نعیم اور ان کی اہلیہ پولیس کے تشدد سے زخمی ہو گئے۔ فورسز اہلکاروں نے میت کو اٹھا کر حیدر پورہ قبرستان میں رات کی تاریکی میں سید علی گیلانی کی وصیت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سپرد خاک کر دیا، جو ان کے اہل خانہ کے مطابق سری نگر کے عیدگاہ شہداء قبرستان میں دفن ہونا چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ اہل خانہ کو بھی بزرگ رہنما کی آخری رسومات میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
بزرگ رہنما کی جبری تدفین کے بعد سری نگر کے علاقے نوا بازار میں کشمیری نوجوانوں اور بھارتی فورسز کے اہلکاروں کے درمیان زبردست جھڑپیں ہوئیں۔ مودی کی زیر قیادت فاشسٹ حکومت کی جانب سے اپنے محبوب رہنماء کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دینے اور بھارتی فوجیوں اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے بعد لوگ بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ بھارتی فورسز نے مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے داغے۔ تجزیہ کاروں نے کہا کہ اگر بھارت بندوق کی نوک پر لوگوں کو گھروں کے اندر رہنے پر مجبور نہ کرتا تو یہ جموں کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ہوتا۔ لوگوں کو سید علی گیلانی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے اور اپنے محبوب قائد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ''کل جماعتی حریت کانفرنس'' کی کال پر مارچ کرنے سے روکنے کے لیئے قابض حکام کی طرف سے نافذ کرفیو اور پابندیاں کئی دن تک جاری رہیں۔ کرفیو کے باوجود لوگوں نے 03 ستمبر کو سری نگر اور مقبوضہ علاقے کے دیگر علاقوں میں بزرگ رہنما کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ تاریخ میں سید علی گیلانی کی جدوجہد کو ایک عظیم علامت اور رہنماء کے طور پر دیکھا جاتا رہے گا۔ انکی قومی آزادی اور عوامی حقوق کیلئے زندگی بھر کی لازوال اور انتھک جدوجہد آنے والے وقتوں میں آزادی کی جدوجہد کرنے والے لوگوں کی رہنمائی کرتی رہے گی۔سید علی شاہ گیلانی کی مسلسل نظر بندی میں شہادت انکی جہد مسلسل اور دلیرانہ کشمکش کا نکتہ عروج ثابت ہوا۔۔۔۔ اناللہ واناالیہ راجعون 
(ختم شد)



واپس کریں