دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
''یوم بابائے حریت'' شہید سید علی شاہ گیلانی
عزیر احمد غزالی
عزیر احمد غزالی
تحریر:۔عزیر احمد غزالی ۔ ـ چیئرمین پاسبان حریت جموں کشمیر

''باطل چاہے جتنا بھی وقتی طور پر اچھل کود کر لے' انجام کار میں اسے شکست سے دوچار ہونا ہے کیونکہ غلبہ صرف حق کیلئے ہے، بابائے حریت''۔کشمیری عوام کے دلوں کی دھڑکن حریت اور حقوق کی آواز! کشمیری مزاحمتی تحریک کے سرخیل شہید سید علی شاہ گیلانی جنہوں نے کئی دہائیوں تک بھارت کے غیر قانونی زیر مقبوضہ جموں کشمیر پر بھارتی سامراجی قبضے کو ختم کرنے کی بے مثاک جدوجہد کی۔سید علی شاہ گیلانی 29 ستمبر 1929 کو بانڈی پور کے زرمنز گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بنیادی تعلیم سوپور میں حاصل کی اور تکمیل اورینٹل کالج، لاہور (پاکستان) سے کی۔ انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ جماعت اسلامی جموں کشمیر سے وابستہ رہ کر گزارا، بعض ناگزیر وجوہات اور تحریکی ضرورتوں کے پیش نظر انہوں نے اپنی جماعت تحریک حریت جموں کشمیر کی بنیاد رکھی۔سید علی گیلانی جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں 1972، 1977 اور 1987میں ممبر منتخب ہوئے۔ جہاں انہوں نے بڑی دلیری، بے باقی اور جرات کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے سیاسی، منصفانہ حل اور عوام حقوق کیلئے آواز اٹھائی۔سید علی گیلی تحریک نے شاعر مشرق علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے ترجمے پر مشتمل تین کتابوں اور خود نوشت سوانح عمری سمیت بہت ساری کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ جن میں رودادقفس، قصہ درد، صدائے درد، مقتل سے واپسی، روح دین کا شناسا اول و دوم، پیام آخری، نوائے حریت، بھارت کے استعماری حربے، عیدین، سفر محمود میں ذکر مظلوم، ملت مظلوم، تو باقی نہیں، پسِ چہ باید کرد، پیام آخرین، اقبال اپنے پیغام کی روشنی میں، ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا، ہجرت اور شہادت، تحریک حریت کے تین اہداف، معراج کا پیغام، نوجوانانِ ملت کے نام، دستور تحریکِ حریت اور وولر کنارے اول دوم، وغیرہ قابلِ ذکر تصانیف ہیں۔
انہوں نے بھارت کے سفاک ترین سامراجی قبضے کو قوت ایمانی سے للکارا وہیں بھارتی حکمرانوں کی تمام تر سازشوں اور مکاریوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔ بھارت نے تمام استعماری ہتھکنڈوں کے زریعے بابائے حریت اور آزادی پسند کشمیری قیادت کو جھکانے اور حق خودارادیت کے مطالبے سے دستبردار کرنے کی کوششیں کیں۔ بھارت نے کشمیری قیادت کے عزم اور حوصلے کو توڑنے کیلئے انہیں جیلوں، عقوبت خانوں، ازیت خانوں اور ٹارچر سیلوں میں درد ناک تکالیف میں مبتلاء کیا لیکن صبر و استقلال کے یہ پہاڑ بھارتی ظالموں کے سامنے ڈٹے رہے۔مقبوضہ ریاست میں بابائے حریت ایثار و قربانی کا مظہر سمجھے جاتے تھے جنہوں نے کشمیری عوام کی دینی اور اخلاقی تربیت کا خاص اہتمام کیئے رکھا۔ کشمیری سماج میں ریاست کے تمام باشندگان جن میں غیر مذاہب کے تعلق رکھنے والے سکھ، ہندو اور دیگر اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق، مذہبی آزادی کی مکمل پاسداری اور حفاظت پر زور دیتے رہے۔ سید علی گیلانی نے بھارتی حکومت کے ان تمام منفی پروپیگنڈوں کو یکسر مسترد کیا جن سے کشمیری شہریوں میں باہم نفرت اور قدورتیں پھیلنے کا اندیشہ تھا۔ وہ ریاست کے شہریوں کو بھارتی سازشوں سے وقتاً فوقتاً آگاہ بھی کرتے رہے۔سید علی شاہ گیلانی پوری زندگی مملکت پاکستان کے پرجوش حامی، محب اور وفاء کے پیکر کے طور پر کھڑے رہے انہوں نے منصفانہ طور حق خودارادیت کی بنیاد پر پاکستان سے الحاق کی بات کی، وہ مسلسل یہ کہتے رہے اسلام کی بنیاد پر ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے۔
وہ اس بات کیلئے خود کو تکلیف میں محسوس کرتے تھے جب بھی پاکستان میں صوبائیت، لسانیت اور قومیت یا مسلک کی بنیاد پر معاشرے کو بکھرتا ہوا دیکھتے۔ انہوں نے کشمیر کو پاکستان کا قدرتی حصہ قرار دے کر مسئلہ کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا۔سید علی گیلانی نے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں پرامن اور سیاسی جدوجہد کی بظاہر ناکامی کے بعد مسلح تحریک مزاحمت کی کھل کر حمایت کی اور اسے کشمیریوں کی طرف سے 'تنگ آمد بہ جنگ آمد' کے مصداق ایک ردعمل قرار دیا۔ وہ بھارتی قابضین کیخلاف جہاد میں شہید ہونے والے نوجوانوں کے جنازے پڑھاتے ان کے اہل کانہ کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہتے۔ وہ ریاست جموں کشمیر کے ہر کونے میں بھارتی دہشتگردی سے متاثرہ خاندانوں کے غم بانٹتے داد رسی کرتے نظر آتے۔ سید علی گیلانی نے زنداں کی سختیوں اور نظر بندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے جس بات کو حق سمجھا' برسرعام کہ ڈالی اور کسی دبائو' لالچ اور کسی ترغیب کو خاطر میں لائے بغیر حق گوئی کا تسلسل قائم رکھا۔ وہ اگر غیروں کے سامنے ڈٹ کر بات کرتے تھے تو اپنوں کے دام ہم رنگِ زمین میں بھی پھنسنے سے انکار کر دیتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کشمیر کی آزادی کیلئے وقف کر رکھی تھی اور آزادی سے کم کسی آپشن کو کبھی درخورِاعتنا نہیں سمجھا۔ وہ ریاست جموں کشمیر کے عوام کی تقدیر کا فیصلہ انکی غالب اکثریتی رائے سے چاہتے تھے، انہوں نے اس بات کا برملا اظہار کیا تھا کہ ریاست کی غالب اکثریت جو فیصلہ کریگی وہ گیلانی کو بھی تسلیم ہوگا۔سید علی شاہ گیلانی کے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے ریاست جموں کشمیر کے طول وعرض میں نوجوانوں نے انکی حمایت میں کئی نعرے بھی اختراع کیے مثلاً 'کون کرے گا ترجمانی، سید علی شاہ گیلانی' اور 'نہ جُھکنے والا، گیلانی، نہ رُکنے والا گیلانی '' بہ بکنے والا گیلانی ''.
آزادی پسند کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے کئی مرتبہ یہ دعویٰ کیا کہ نئی دلی کے کئی مصالحت کاروں نے اُن سے رابطہ کر کے اُن سے مؤقف میں لچک لانے کی فرمائش کی لیکن علی گیلانی اس بات کا مسلسل اعادہ کرتے رہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہونا ہے اور انہوں نے ایک اہم اور بہترین راستہ بھارت کے لیے تلاش کیا تھا کہ 'اگر اس میں ''اقوام متحدہ کی قراردادوں کو عملانے ''دلی کو دِقت ہے تو پاکستان، انڈیا اور کشمیری قیادت کے درمیان بیک وقت سہ فریقی با معنی بات چیت بھی ایک متبادل ہے۔'بابائے حریت نے ریاست جموں کشمیر میں آزادی کی تحریک میں جدت اور شدت لانے کیلئے صوبہ جموں، ڈوڈہ، راجوری، پونچھ، کٹھوعہ، کشتواڑ، ریاسی، بھدروہ، سمیت دیگر علاقوں اور وادیِ کشمیر کے اوڑی، کرناہ، کپواڑہ، بارہمولہ، بانڈی پوری، ہندواڑہ، لولاب، سوپور، پٹن، بڈگام، ترال، کلگال، اننت ناگ، بانہال، شوپیان، پلوامہ، سرینگر سمیت وادی کے کونے کونے کا کئی کئی بار دورہ کیا، جہاں بھارتی ظلم اور تشدد کے شکار شہریوں سے اظہار ہمدردی اور انہیں ہند مخالف آزادی کی تحریک میں صف بستہ کرنے کی سعی کرتیرہے۔
سید علی شاہ گیلانی  یہ سمجھتے تھے کے دنیا کے کسی ملک کی عملی مدد کشمیر میں مزاحمت کار آزادی پسند کشمیری نوجوانوں کو میسر نہیں، لہذا عوامی سطح پر مزاحمت کو اتنا مضبوط اور مؤثر بنا دیا جائے کہ بھارت کشمیری عوام کی جدوجہد کے سامنے ہاتھ کھڑے کر دے، عوامی تحریک کے زریعے دنیا کو اس بات کیلئے آمادہ کیا جائے کہ جموں کشمیر ایک متنازعہ ریاست ہے جو بھارت کے فوجی قبضے کو کسی صورت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مؤثر ترین احتجاجوں، ریلیوں، ہڑتالوں، مظاہروں، دھرنوں کے زریعے اقوامِ متحدہ، سلامتی کونسل، او آئی سی سمیت مہذب ممالک اور اقوام کو یہ باور کرایا جا سکے کے ریاست جموں کشمیر کے عوام اپنے سیاسی مستقبل کیلئے آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ حق خودارادیت کا بنیادی انسانی حق مناگ رہے ہیں۔اس عوام جدوجہد میں کشمیری عوام نے بابائے حریت کی ہر اپیل، کال کو سر آنکھوں پر لیا مہینوں مہینوں کے احتجاج، ہڑتالیں، ریلیاں اور بھارت مخالف مظاہرے کیئے۔ ان ریلیوں کے پرامن مظاہرین کو بھارتی سفاکوں نے طاقت کے وحشیانہ استعمال سے کچلا، شہریوں پر گولیاں، پیلٹ، آنسوں گیس اور بے رحمانہ لاٹھی چارج ہوتا رہا۔
 بابائے حریت نے بھارت کے تمام ملکی وسائل، لا محدود فوجی طاقت، ظالمانہ کالے قوانین بدترین ریاستی دہشتگردی اور قید و بند کی صعوبتوں کا مقابلہ اپنی نہتی قوم کے ساتھ اللہ پر توکل اور کامل ایمان سے کیا۔جموں کشمیر میں آزادی اور حق خودارادیت کی مسلسل جدوجہد بھارت مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے سید علی گیلانی کا پاسپورٹ بھارتی حکام نے 1981 میں ہی ضبط کر لیا تھا۔ انہیں 2006 میں حج کے علاوہ کبھی بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔2006 میں انہیں گردوں کے کینسر کی بیماری لاحق ہوئی تھی۔ ڈاکٹروں نے بیرون ملک سے ان کے علاج کا مشورہ دیا تو بھارتی حکام نے سید علی گیلانی کا پاسپورٹ ان کے بیٹے کو واپس کر دیا۔ 2007 میں ان کی حالت زیادہ خراب ہوگئی، ڈاکٹرز نے سرجری کا مشورہ دیا جو برطانیہ یا امریکہ میں ہی ممکن تھی تاہم امریکی حکومت نے ان کے ویزا کی درخواست کو مسترد کر دیا۔سید علی گیلانی کو بھارتی حکومت نے 2010 میں ایک بار پھر گھر میں نظر بند کردیا۔
(جاری ہے )

واپس کریں