دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سردار سکندر حیات خان کی آزاد کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر کے لئے تاریخ ساز خدمات
سردار علی شان
سردار علی شان
سردار سکندر حیات خان کی آزاد کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر کے لئے تاریخ ساز خدمات
تحریر : سردار علی شان

آزاد جموں وکشمیر کے سابق صدر او رسابق وزیراعظم جناب سردار سکندر حیا ت خان( مرحوم )کا شمار ہماری تحریک آزادی کشمیر کے ان کارکنوں اور راہنماؤں میںہوتا ہے جنہوں نے 1960کے عشرے میں تحریک آزادی کشمیر کے بزرگوں کی راہنمائی اور سرپرستی میں مقبوضہ جموںوکشمیر کی آزادی اور ساری ریاست کی وحدت اور اکائی کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے اپنی جوانی کے دور میں ہی اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تھا ۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی (جو نصف صدی سے زائد کے کئی عشروں کے طویل عرصے پر محیط ہے)جموںوکشمیرکی آزادی اور پاکستان کی تکمیل اور استحکام کے لئے اپنی فکری ،نظریاتی اور عملی جدوجہد جاری رکھی۔ سردار سکندرحیات خان مرحوم نے ابتدائی دور طالب علمی اوران کی وکالت کے دور سے لیکر اسمبلی اور حکومت کے ایوانوں تک پہنچ کر کیا عملی اور اصولی جدوجہد جاری رکھی اور انہوں نے تحریک آزادی ، ملکی ترقی اور استحکام کے لئے اپنے اس سارے دور میں کیا کیا کوشیش اور عملی اقدامات کیے اور اس کے تحریک آزادی کی جدوجہد پر اندرون اور بیرون ملک کیا کیا اثرات مرتب ہوئے اس کی تفصیلات درج ذیل ہیں ۔
جناب سردار سکندر حیات خان مرحوم سابق صدر/وزیر اعظم آزاد کشمیر یکم جون 1932کو آبائی گائوں کریلہ منجھان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا نام غازی کشمیر سردار فتح محمد خان کریلوی تھا۔سردار سکندر حیات خان نے اپنی ابتدائی تعلیم متحدہ پونچھ شہر کے ایک سکول سے حاصل کی اور اس وقت کے مشہور گارڈن کالج راولپنڈی سے گریجویشن اور لا ء کالج لاہور سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کر کے1957-58میں اپنے آبائی علاقے کوٹلی جو اس وقت ضلع میرپور کی تحصیل تھی میں اپنی وکالت شروع کی۔انہوں نے سب سے پہلے اپنے علاقے نکیال( جو بعد میں ان کے والد گرامی غازی کشمیر سردار فتح محمدخان کریلوی کے نام گرامی سے موسوم کر کے فتح پور تھکیالہ کہلاتا ہے )سے بنیادی جمہوریتوں کے جنرل ایوب خان کی حکومت کے دور کے بی ڈی نظام کے تحت الیکشن میںحصہ لیکرپہلے1961ء میں اپنی یونین کونسل سے بی ڈی ممبر اور پھر دوسری مرتبہ1964ء میں بی ڈی ممبر اور چیئرمین یونین کونسل کے انتخاب میں کامیابی حاصل کی اور بعد ازاںاپنے والد گرامی کی آزاد کشمیر سٹیٹ کونسل کی الیکشن مہم میں ان کے شانہ بشانہ اپنی سیاسی اور عوامی جدوجہد کا آغاز کیا۔سردار سکندر حیات خان کے والد گرامی غازمی کشمیر سردار فتح محمد خان کریلوی (جو 1934ء سے 1946ء تک متحدہ کشمیر اسمبلی "پرجا سبھا "کے ممبر اور 1968ء سے1970ء تک آزاد کشمیر سٹیٹ کونسل کے رکن کی حیثیت سے تحریک آزادی کشمیر اور ریاستی ترقی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے اہم گرانقدر اور طویل خدمات انجام دے چکے تھے )نے 1970ء میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر آزاد کشمیراسمبلی کے انتخابات کے موقع پر عملی جدوجہد سے دستبردار ہو کر اپنے علاقے اور حلقے سے اپنے فرزند ارجمند سردار سکندر حیات خان کوآزاد کشمیر اسمبلی کے الیکشن میں کامیاب کرایا اور اپنی نمائندگی ان کو منتقل کر دی۔
سردار سکندر حیات خان نے 1970ء کے جنرل الیکشن میں اپنے حلقے سے رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد رکن اسمبلی ۔سینئر وزیر(قائد ایوان) کی حیثیت سے آزاد کشمیر اسمبلی اورسردار عبد القیوم خان کی حکومت میں کئی وزارتوں کے انچارج وزیر کی حیثیت سے ایک اہم اور تاریخ ساز رول ادا کیا اور اسی دور میںان کی سربراہی میں آزاد کشمیر اسمبلی نے عبوری ایکٹ1974ء بھی منظور کیا جس کا بل وزیر قانون کی حیثیت نے انہوں نے ہی اسمبلی میں پیش کیا تھا اور پہلی مرتبہ آزاد کشمیر میں مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیتے کی تاریخی قرارداد بھی ان کی سربراہی میں ہی آزاد کشمیر اسمبلی نے اپنے میرپور کے اجلاس میں منظور کی جو باغ سے رکن اسمبلی سابق سپیکر میجر (ر) سردار محمد ایوب خان نے پیش کی تھی۔اسی دور میں انہوں نے کوٹلی کو ضلع اور نکیال اور سہنسہ کو سب ڈویژن ہا کا درجہ دلایا جو ان کا ضلع کوٹلی کے عوام پر ایک عظیم احسان ہے۔
سردار سکندر حیات خان نے 1975ء سے 1985ء تک کے شخصی اور مارشلاء حکومتوں کے مشکل ترین انتقامی کارروائیوں کے غیر جمہوری اورانتہائی آزمائشوں کے دور میں بھی سردار عبد القیوم خان کی موجودگی اور عدم موجودگی میں تحریک آزاد ی کشمیر کے ایک سینئر راہنمااور پاکستان قومی اتحاد (پی ۔ این ۔ اے )کے صف اوّل کے ایک راہنما کی حیثیت سے اپنی ایک طویل ،کٹھن اورکامیاب جدوجہد کی ۔اپنی طویل جدوجہد اور خدمات کے پیش نظر صدر جماعت کی حیثیت سے 1985ء کے الیکشن میں آزاد کشمیر کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سردار سکندر حیات خان نے اپنی حکومت کی ترجیحات میں تحریک آزادی کشمیر،گڈ گورننس اور ملکی تعمیر و ترقی کو سرفہرست رکھا اور پہلی مرتبہ مئی1987ء میں آزاد کشمیر میں وزیر اعظم کی سربراہی میں جموں و کشمیر لبریشن سیل کے قومی ادارے کا قیام عمل میں لایا اور صدر ریاست کو اس کے سرپرست اعلیٰ کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔
ریاستی سطح پر تحریک آزادی کشمیر اور تعمیر و ترقی کے اہم اور مثالی اقدامات کے ساتھ ساتھ سردار سکندر حیات خان نے بیرونی محاذ پر جدوجہد آزادی کو تیز کرنے کے لیے سب سے پہلے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کا تفصیلی دورہ کیا۔ حجاز مقدس میں حج وفد کے سربراہ کی حیثیت سے حج کی عظیم سعادت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے جدّہ میں او ۔آئی۔سی کے سیکرٹری جنرل،سعودی حکومت اور دیگر اسلامی ممالک کے نمائندوں ،اعلیٰ حکام اور ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر سے آئے ہوئے کشمیری نمائندوں (جن میں ہندوستانی وفد کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبد اللہ بھی شامل تھے )سے مسئلہ کشمیر کی صورتحال کے بارے میں اہم بات چیت کی اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوںکے مطابق حل کرنے کے سلسلے میں اپنا اپنا مثبت اور موثر رول ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
سردار سکندر حیات خان کی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی بدلتی ہوئی صورتحال خاص کر مقبوضہ علاقے کے عوام کی جدوجہد آزادی کو اجاگر کرنے اور وہاں کی تحریک کے حالات میں ایک نئی لہر پیدا ہونے کے بعد 1988/89ء میں کشمیر لبریشن سیل کے زیر اہتمام حکومتی اور سیاسی سطح پر تمام جماعتوں کی باہمی مشاورت اور تعاون سے ایک کل جماعتی کشمیر لبریشن الائونس بھی قائم کرایا اورحکومت آزاد کشمیر اور لبریشن سیل کے زیر اہتمام11فروری1990ء کو پی سی ہوٹل راولپنڈی میں ایک بڑی اور کامیاب کل جماعتی قومی کشمیر کانفرنس کا بھی انعقاد کیا۔اس کل جماعتی قومی کشمیر کانفرنس( جس میں آزاد کشمیر،مقبوضہ کشمیراور پاکستان کی تمام جماعتوں، تنظیموں اور اداروںکے نمائندوں نے بھرپور شرکت کی )نے متفقہ طور پر مقبوضہ ریاست میں تحریک آزادی کی تازہ ترین صورتحال اور کشمیر کے دیرنہ مسئلے کے حل کے لیے متعدد قراردادیں بھی منظور کیں اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق استصواب رائے کے مسلّمہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق حل کرنے کا بھی متفقہ طور پر پوری قوم کی طرف سے مطالبہ کیا۔ اسی دور میں پاکستان کے ممتاز صحافی مجیب الرحمن شامی نے دورہ لاہور کے دوران سردار سکندرحیات خان کا ایک تاریخی انٹرویوبھی کیا اور اپنی قومی ڈائجسٹ کا خصوصی نمبر"آزاد کشمیر کا لیاقت علی خان" سکندر حیات کے عنوان سے شائع کیا اور اپنی اس خصوصی اشاعت میں پاکستان قومی اتحادکے ایک راہنما سیکرٹری جنرل اور وزیر اعظم آزاد کشمیرکی حیثیت سے ملک بھر میں سردارسکندر حیات خان کی تاریخی شخصیت اور رول کے بارے میںمنفر ریمارکس دئیے۔وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان اور ان کی حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں/وزراء اورممبران اسمبلی کے مشترکہ وفود نے 1985ء سے 1990ء کے ان کی حکومت کے پانچ سالہ دور میں برطانیہ امریکہ اور دیگر اہم ممالک کے دورے کر کے کشمیر کی بدلتی ہوئی صورتحال کو موثر طور پر پیش کیا اور پہلی مرتبہ اس حکومت نے اپنے اپوزیشن لیڈر کی قیادت میں ایک نمائندہ وفد( جس میں ایک سینئر حکومتی وزیر بھی شامل تھا)کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پرنیویارک (امریکہ ) بھیجا۔
اپنے اس دور حکومت میں سردارسکندر حیات خان نے تعمیر و ترقی کے دیگر مثالی اقدامات کے ساتھ ساتھ پونچھ کے عوام کو بہترانتظامی سہولیات کی فراہمی کے لیے باغ کے نئے ضلع کا قیام بھی عمل میں لایا۔دھیرکوٹ اور دیگر مقامات کی اہم انتظامی اصلاحات بھی کیں۔ آزاد کشمیر میں جولائی1991میں ہونے والے نئے عام انتخابات میںبھی ایک مرتبہ پھر اپنی جماعت کی کامیابی کے بعد ان کو صدر آزاد کشمیر کے بڑے آئینی منصب کی ذمہ داریاں تفویض کرنے کا فیصلہ کر کے ان کا متفقہ طور پر صدر ریاست کی حیثیت سے ان کا انتخاب کیا گیا جو ان کے لیے ایک اور بڑا اعزاز تھا۔12اگست1991ء کے تاریخی دن صدر آزاد کشمیر کی حیثیت سے اہم ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد سردار سکندر حیات خان نے اگست1996ء تک پورے پانچ سال تک نہ صرف سربراہ ریاست اورجموں و کشمیر کونسل کے وائس چیئرمین کی حیثیت سے اپنا ایک شاندار اور مدبرانہ آئینی رول ادا کیا بلکہ اندرون و بیرون ملک کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کے لیے ان کے اہم اور تاریخی دورہ جات، اقدامات اور کوششیں ان کی سیاسی زندگی اور ہماری تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہیں ۔اگست1996ء میں جماعتی فیصلے کے مطابق ان کو صدر ریاست کی حیثیت سے دوبارہ انتخاب کا اعزاز بھی حاصل ہوا جس کی آئینی مدت انہوں نے پوری نہ کی اور رضاکارانہ طور پر صدر ریاست کے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔
جولائی 2001ء کے عام انتخابات میں ان کو دوسری مرتبہ متفقہ طور پرآزاد کشمیر کا وزیر اعظم چُنا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے فوجی دور میں بھی ان کا انتخاب ان کے سابقہ 1985ء کے دور حکومت کی مثالی کارکردگی کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا تھا۔اپنے دوسرے دورے حکومت میںبھی نہ صرف اپنی حکومت کی تحریک آزادی کشمیر، ملکی ترقی اورگڈ گورننس کے لیے مثالی کارکردگی دکھائی او ر اندرون و بیرون ملک کشمیر کاز کو موثر طور پر اجاگر کرنے کی کوششیں اور اقدامات کیے اور نیلم کے نئے ضلع اور متعدد دیگر علاقوں میںمتعدد نئے انتظامی یونٹس کا قیام عمل میں لایا بلکہ جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے اس دور میں بھی کامیابی سے 5سال کامیابی سے اپنی حکومت کی آئینی مدت پوری کی۔ ان کی حکومت کے آخری سال میں آزاد کشمیر میں 8اکتوبر2005ء کے انتہائی خوفناک اور تباہ کن زلزلے کے باعث ان کے لیے وزارت عظمیٰ اور سربراہ حکومت کی ذمہ داریوں کی انجام دہی اور بحالی و تعمیر نو کے اہم اور بڑے چیلنجوں کے باعث شدید مشکلات بھی پیدا ہو گئی تھیںلیکن انہوں نے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے اپنے اس پانچ سالہ دور میں جس طرح حکومتی انتظامی مشنری کواحسن بنیادوں پر چلا کر اپنی آئینی اور قانونی مدت پوری کرتے ہوئے آئین و قانون اور میرٹ کی بالادستی کو قائم رکھا۔ اس کا اندازہ ان کے سابق پرنسپل سیکرٹری محمد اکرم سہیل صاحب کی"قانون کی حکمرانی"کے عنوان سے تحریر کردہ کتاب کے مندرجات کے مطالعہ سے بھی ہوتا ہے۔
2006ء میں 40سال سے زائد کے طویل عرصے پر مشتمل عوامی اور قومی جدوجہد اور حکمرانی کی بڑی منفرد اور حیران کن ریکارڈ کامیابیاں حاصل کرنے کے بعدوہ اس عملی جدوجہدسے الگ ہو گئے۔ تا ہم اہم قومی عوامی اہمیت کے امور میں ان کا ایک مثبت،سنجید ہ اور قائدانہ رول اسکے بعد بھی ان کی زندگی کے آخری دور تک برقرار رہا وہ 9اکتوبر2021ء کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ان کو فتح پور تھکیالہ میں اپنے والد گرامی غازی کشمیر سردار فتح محمد کریلوی کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ان کے انتقال سے کشمیری عوام ایک بڑے قومی راہنما جو کشمیر کاز ملکی ترقی اور الحاق پاکستان کے ساتھ ساتھ آئین و قانون کی حکمرانی کے ایک عظیم آزمودہ کاعلمبردار کامیاب سیاستدان او ر پارلیمنٹرین سے محروم ہو گئے۔جن کو ہماری ملکی و قومی سیاست اور کاروبار حکومت خاص کرگڈ گورننس اور تعمیر و ترقی کے ایک منفرد علمبردار راہنماء اور حکمران کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا۔جدوجہد آزادی کشمیر اور تحریک الحاق پاکستان اور استحکام پاکستان کے علمبردار وںکے لیے قابل تقلید ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے اس دور کو ایک مثالی دستور العمل کی حیثیت کا حامل دوربھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان کے خاندان کے نمائندوں اور سیاسی جانیشنوں (جن میں ان کے بھائی اور صاحبزادے سرفہرست ہیں )کے لیے غیر معمولی روایات اور خدمات کے اس تسلسل کو آگے بڑھانا بہت ہی اہم اور مشکل ترین چلیج کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ آپ کے حقیقی بھائیوں سردار محمد سرفراز خان سابق ڈی پی آئی ایجوکیشن اور نامور ماہر تعلیم،معروف سیاسی و سماجی راہنما سردار محمد نواز خان،سردار آفتاب احمد خان ،سابق وزیر حکومت و ممبر کشمیر کونسل سردار محمد نعیم خان اوران کے صاحبزادوں میںسابق وزیر حکومت و سابق مشیر وزیر اعظم پاکستان سردار فاروق سکندر ایڈوکیٹ اور سردار طارق سکندر ایڈوکیٹ شامل ہیں۔ جو ہر روز خاص کر ان (سردار سکندر حیات خان مرحوم)کے انتقال کے بعد کشمیری عوام کی توجہ کا ایک مرکز بنے رہتے ہیں کہ وہ اپنے والدگرامی او ردادا کے تحریک آزادی اور ملکی تعمیر و ترقی کے طویل تاریخی روایات خدمات اور جدوجہد کی راہوں پر عمل پیرا رہ کر اس جدوجہد کو کیسے اور کن خطوط پر آگے بڑھاتے ہیں؟ مورخہ 10اکتوبر 2022کو سردار سکندر حیات خان مرحوم کو ان کے آبائی گاؤں نکیال جس کو فتح پور تھکیالہ بھی کہا جاتا ہے میں سردار سکندر حیات خان مرحوم کے مزار کے احاطے میں اور مظفرآباد میں نیشنل خورشید لائبریری جلال آباد کے ہال میں حیدر خان میموریل ایسوسی ایشن اور کشمیر لبریشن سیل لبریشن کمیشن کے تعاون سے ان کی پہلی برسی کی دو الگ تقریبات کا انعقاد کیا جائے گاجس میں شرکت کر کے مرحوم راہنما کے تحریک آزادی کے ساتھی اور دیگر راہنما اور کارکنان ان کی تحریک جدوجہد اور کوششوں و اقدامات پر ان کو خراج عقیدت پیش کریں گے اور ان کی اس قومی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا جائے گا۔


واپس کریں