دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فرانز کافکا کی حکایت اور گرینڈ ڈائیلاگ
وجاہت مسعود
وجاہت مسعود
اوسط درجے کے ذہن کا ایک نشان یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اکثریت کی رائے کو سچ کی دلیل سمجھتا ہے، ایسا شخص اختلاف رائے کی ممکنہ تنہائی سے خوفزدہ ہوتا ہے اور بے چہرہ ہجوم کے جذباتی ردعمل سے نفسیاتی اعتماد کا حصول چاہتا ہے۔ ہجوم کی اطاعت محض وضع قطع تک محدود نہیں رہتی بلکہ سیاسی خیالات اور علمی رجحانات تک سرایت کر جاتی ہے۔ اس ہاﺅہو کا انجام بہرحال تاریخ کے دھارے میں گمنامی ٹھہرتا ہے۔ انسانی علم، تخلیقی سرگرمی، ذرائع پیداوار اور معاشرتی بندوبست کے ارتقا کی تصویر انحراف کی لکیر سے متشکل ہوتی ہے، تقلید تو جنگل کی تاریکی میں مراجعت کا سفر ہے۔ اگلے روز گھر میں مدت سے بند پڑی ایک الماری میں رکھا ایک ہفت روزہ نظر آیا۔ غالباً 1991 کے کسی ابتدائی مہینے کی اشاعت تھی۔ یونہی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک صاحب تقویٰ کی تحریر نظر آئی۔ نواز شریف کی مدح میں متعدد اوراق سیاہ کر رکھے تھے۔ اللہ اللہ! عقیدت میں غلو کی انتہا تھی اور زور بیان میں دریاﺅں کی روانی۔ یہ وہی صاحب قلم ہیں جنہوں نے 18 اکتوبر 1999 کو ’کیا اللہ اپنے بندوں کے لئے کافی نہیں‘ ، کے عنوان سے مشرف آمریت کا استقبال کیا تھا۔ اس کے بعد جادہ شوق کا رخ جاتی عمرا سے زمان پارک کی طرف موڑ دیا۔ 2018 کے اواخر میں کچھ عرصے کے لئے جنون کے آثار سرد ہوئے تھے، ان دنوں پھر سے مدحت آرائی کا شوق فراواں ہے۔ اس باد پیمائی میں ہمارے ممدوح تنہا نہیں ہیں۔ صحافت کی گلی میں ایسے موقع شناس اصحاب نظر کی کمی نہیں جو گوجر خان کے نواح میں ہوا کا رخ بدلتے ہی قبلہ درست کر لیتے ہیں۔

بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں یورپ نے متعدد ایسے لکھنے والے پیدا کیے جو ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بے نیاز ہو کر گوشہ گمنامی میں لوح و قلم کی پرورش کرتے رہے۔ مارسل پراﺅست، ایذرا پاﺅنڈ اور فرانز کافکا ایسے ہی نابغوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بالآخر وقت کے امتحان میں اپنے زمان و مکاں کا نشان ٹھہرے۔ ان ادیبوں میں بھی فرانز کافکا فنا کا ایسا جویا تھا کہ بعد از مرگ اپنی تحریریں جلائے جانے کی آرزو رکھتا تھا۔ کافکا کی تحریریں پہلی عالمی جنگ کے واقعاتی تناظر میں انسانی تقدیر کی کائناتی تفسیر بیان کرتی ہیں۔ ایک مختصر حکایت ملاحظہ کیجئے۔ اگر آپ اس کا تعلق ہمارے صحافتی تجزیہ کاروں کی ’سمت غیب سے چلنے والی ہوا‘ سے جوڑنا چاہیں تو آپ کی رضا، درویش ایسا ارادہ نہیں رکھتا۔تاریک بھول بھلیوں میں دوڑتا ہوا ایک چوہا شکوہ کناں تھا کہ دنیا ہر گزرتے دن کے ساتھ تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ گزرے دنوں میں میں جدھر چاہتا تھا دوڑتا پھرتا تھا مگر اب دیواریں اس قدر سکڑ گئی ہیں کہ میں اپنے بل کے آخری حصے تک آپہنچا ہوں۔ اس کے بعد میں کہاں جاﺅں گا۔ چوہے کے عقب میں آنے والی بلی نے کہا کہ تمہیں صرف واپس مڑنے کی ضرورت ہے۔ چوہے نے سمت تبدیل کی اور سیدھا بلی کے منہ میں جا پہنچا‘۔ کافکا کی حکایت ختم ہوئی لیکن انسانی ارتقا کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔

کل 15اگست تھی۔ مشرق بعید میں دوسری عالمی جنگ ختم ہو ئے 77 برس مکمل ہو گئے۔ اس موقع پر جنگ میں مرنے والے جاپانیوں کی یاد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم کشیدا نے یہ عزم دہرایا کہ جاپان کبھی کسی ملک کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لے گا۔ جاپان نے اپنی سمت تبدیل کرلی ہے اور آج دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ دسمبر1941 میں پرل ہاربر پر حملے کے وقت جاپان کی آبادی سات کروڑ تیس لاکھ تھی۔ اس لڑائی میں جاپان کے 21 لاکھ 20 ہزار فوجی مارے گئے جبکہ کل مرنے والے جاپانیوں کی تعداد 31 لاکھ تھی۔ دوسری عالمی جنگ میں کل چھ کروڑ افراد مارے گئے۔ جن میں فوجی اموات ڈیڑھ کروڑ تھیں۔ جنگ وسائل پر قبضے کی مجرمانہ معیشت کا نام ہے۔ ذہن انسانی نے اس کا متبادل پرامن مکالمے کی صورت میں دریافت کر رکھا ہے لیکن مکالمے کی بنیادی شرط دوسروں کے لیے جینے کا حق تسلیم کرنا ہے۔

آج کل ہمارے ہاں سیاست میں گرینڈ ڈائیلاگ ، میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت کا تذکرہ ہے۔ میثاق جمہوریت کی آواز 2006 میں محترمہ بینظیر بھٹو نے اٹھائی تھی۔ 14 مئی 2006 کو لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے تو اس معاہدے کا بنیادی نکتہ یہ مفاہمت تھی کہ سیاسی قوتیں کسی ماورائے دستور مداخلت کی حمایت نہیں کریں گی۔ ایسی مفاہمت کا مفہوم سیاسی جماعتوں کے اپنے منفرد تشخص کی نفی نہیں ہوتا بلکہ دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے پالیسی کے متبادلات پیش کرنا ہوتا ہے۔ سیاسی مفاہمت اپنی بنیاد میں معاشی مفاہمت سے الگ نہیں کی جا سکتی۔ سیاست نام ہی مختلف معاشی و معاشرتی ترجیحات پر عوام سے استصواب کا ہے۔ بینظیر بھٹو کی شہادت سے میثاق جمہوریت کی بنیاد بیٹھ گئی۔ کئی برس تک نادیدہ مداخلت اور سازشوں کا سامنا کرنے کے بعد 8 اگست 2017 کو میاں رضا ربانی نے کوئٹہ کے ایک اجتماع میں گرینڈ ڈائیلاگ کا تصور پیش کیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ سیاسی اختلافا ت کے قطع نظر وسیع تر سیاسی بندوبست اور عوام کے معیار زندگی سے متعلق معاشی ترجیحات پر تمام فیصلہ ساز قوتوں میں ایسا مکالمہ مرتب کیا جائے جس سے متفقہ اجتماعی نصب العین متعین ہو سکے۔

افسوس کہ اس مدبرانہ تجویز کو خود رضاربانی کی جماعت میں بھی پذیرائی نہ مل سکی۔ آج نصف دہائی کے بعد معاشی اور سیاسی بحران کی پیچیدگی نے ایک بار پھر سے گرینڈ ڈائیلاگ کا سوال اٹھا دیا ہے۔ شہباز شریف گرینڈ ڈائیلاگ کو ضروری قرار دیتے ہیں جبکہ فواد چودھری میثاق معیشت کو احمقانہ خیال سمجھتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ فرانز کافکا کے چوہے کے عقب میں بلی موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ کمزور فریق کو اپنی سمت تبدیل کرتے ہوئے بلی سے گرینڈ ڈائیلاگ کرنا ہے یا متبادلات کی وسیع تر دنیا میں مکالمے کی طرف قدم بڑھانا ہے۔

(بشکریہ: ہم سب لاہور)


واپس کریں