دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد جموں وکشمیر کا 77واں یوم تاسیس
غلام اللہ کیانی
غلام اللہ کیانی
آج آزادکشمیر کایوم تاسیس منایا جا رہا ہے۔ آج ہی اقوام متحدہ کا بھی یوم تاسیس ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اسمبلی انتخابات میں نیشنل کانفرنس کی وادی کشمیر اور بی جے پی کی جموں سے کامیابی اور عمر عبد اللہ کی حکومت کے باوجود تقریباً ایک کروڑ آبادی عملاً قیدی اور غلام ہے۔ریاست پر اب بھی عملاً گورنر راج ہے۔اب بھی قابض انتظامیہ مسلمان سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کر کے ان کی جگہ ہندو انتہا پسندوں کو بھرتی کررہی ہے۔مسلمانوں کی زمین و جائیداد قرق کی جا رہی ہیں۔1947ء میں کشمیریوں نے ڈوگرہ شاہی سے بغاوت کے بعدآزاد کرائے گئے13ہزار297مربع کلو میٹر علاقے پرپہلی انقلابی حکومت قائم کی۔ عبوری حکومت نے اپنے پہلے اعلامیہ میں کہا کہ یہ حکومت اس امر کا انتظام کرے گی کہ یہاں دنیا سے غیر جانبدار مبصرین آئیں، جن کی نگرانی میں پورے جموں و کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے۔آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کو مقبوضہ ریاست کو آزاد کرانے کے ایک بیس کیمپ کا کام کرنا ہے۔
پوری ریاست کی آزادی اور یک جہتی و اتحاد کے بجائے کراچی معاہدہ کے تحت گلگت بلتستان کو الگ کر دیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ترجیحات بدل گئیں۔فروعی اور برادری ازم، علاقہ پرستی نے فروغ پایا۔میرٹ اورعدل و انصاف کے بجائے آج200سے زیادہ یونین کونسلو ں اور تقریباً 1700دیہات پر مشتمل آزاد ریاست میں اقتدار اور مراعات کی جنگ جاری ہے۔آزاد کشمیر آبادی کے لحاظ سے ضلع راوالپنڈی سے بھی چھوٹا ہے۔راولپنڈی کی آبادی 44لاکھ جبکہ آزاد کشمیر کی آبادی 34لاکھ ہے۔ 10لاکھ سے زیادہ کشمیری بیرون ملک ہیں۔ضلع راولپنڈی سے آزاد کشمیر کا بجٹ پانچ سو گنا زیادہ ہے۔راولپنڈی کو ایک ڈی سی او(ڈی سی) چلاتا ہے۔آزاد کشمیر میں صدر،وزیر اعظم،ایک محکمے پر کئی وزیر، مشیربیٹھے ہیں۔سیکریٹریوں،کمشنروں اور افسران کی فوج ہے۔صدر، وزیراعظم، سیکریٹریوں،سپریم کورٹ، ہائی کورٹ ججزکا استحقاق 1600سی سی تک گاڑیاں استعمال کرنا ہے۔ یہاں 4200سی سی تک گاڑیاں استعمال ہو رہی ہیں۔ آزاد کشمیر کو کشمیر کونسل کی جانب سے ٹیکسوں کی وصول کردہ رقم کا80فی صد ملتا تھا۔کونسل والے اپنے تمام اخراجات نکال کر اضافی 20فی صد بھی لے جاتے تھے۔ آئینی ترمیم کے بعد سو فیصد ٹیکسوں کے مد میں آمدن ہو رہی ہے۔ کشمیر کونسل کو قانون ساز کونسل بنانے پر توجہ نہیں دی گئی۔ کونسل کی تشکیل کی جانب توجہ نہ دی گئی۔کوئی متوجہ نہ ہوا تا کہ آزاد کشمیر اسمبلی کا بھی ایوان بالا وجود میں آ سکے۔
حکومت پاکستان یونیورسل فنڈز کی واجب الادا رقم بھی دے گی۔ بلوچستان کی طرز پر فیڈرل ٹیکسوں کی مد میں آبادی کی بنیاد پر آزاد کشمیر کو 3.64فی صد کے حساب سے رقم دی جاتی ہے۔یہ آزاد خطے کی آمدن ہے۔ آزاد خطے کامالی سال2024-25کا بجٹ 264.033ارب روپے ہے۔اس میں 220.033 ارب روپے اخراجات اور 44ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص ہے۔سال2022-23کا بجٹ ایک کھرب 64ارب تھا جس میں سے تجارتی بجٹ 28.5ارب تھا۔ 2021-22 کا بجٹ141.4 ارب روپے تھا۔جس میں سے پاکستان حکومت نے آزاد کشمیر کو ساڑھے 28ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگرام کی مد میں دیئے جن میں دو ارب روپے کی غیر ملکی امداد بھی شامل تھی۔ 1947ء سے1950ء تک آزاد کشمیر کا بجٹ جنگلات کی آمدن کا مرہون منت تھا۔1947ء میں وادی نیلم کے جنگلات کی آمدن 49لاکھ روپے جبکہ کل بجٹ 48لاکھ روپے تھا۔ایک لاکھ روپے سر پلس تھے۔
اب بھی واٹر یوز چارجزکی مد میں واپڈا کے ذمہ کروڑوں روپے واجب الادا ہیں۔جو ایک سال میں 70کروڑ روپے بنتے ہیں۔واٹر یوز چارجز 15پیسے سے بڑھا کر ایک روپے 10پیسہ کی گئی اس پر من و عن عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اضافے پر عمل در آمد کو بجلی ٹیرف بڑھا نے کے کسی جواز یا بہانے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔ آزاد کشمیر میں موبائل ٹاورز لگانے کے سلسلے میں کشمیر کونسل نے موبائل کمپنیوں سے کروڑوں روپے سیکورٹی فیس وصول کی۔یہ رقم کونسل کے اکاؤنٹ میں جمع رہی۔اس میں سے بھی آزاد کشمیر کو ادائیگی ہونی چاہیئے۔اس کے علاوہ ایک سال کا مارک اپ6فی صد کے حساب سے 6.1ملین بنتا ہے۔
کشمیر کونسل ایک آئینی ادارہ تھا جو آزاد کشمیر کے عبوری آئین کی دفعہ 21کے تحت قائم کیا گیا۔کشمیر کے معاملات اور مسلہ کشمیر کے سلسلے میں بھی یہ ادارہ غیر معمولی کردار ادا کر سکتا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ تیرہویں ترمیم کو اسلام آباد نے تسلیم کرنے سے گریز کیا۔آزاد کشمیرکی زراعت،جنگلات،سیاحت،فلوری کلچر کے حوالے سے اہمیت ہے۔بل کھاتی ندیاں،جہلم،نیلم اور پونچھ جیسے دریا نہ صرف خطے کی حسن کو مالا مال کرتے ہیں، بلکہ یہ انمول آبی وسیلہ ہیں۔ان پر20ہزار میگاواٹ تک پن بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ دریائے نیلم کا رخ موڑ دیا گیا اربوں روپے خرچ ہوئے پھر بھی یہ پروجیکٹ خرابی کا شکار ہو رہا ہے۔ جہلم کا رخ موڑنے پر عوام نے اختلاف کیا ہے۔بڑے ڈیم کے بجائے چھوٹے ڈیم تعمیر کر کے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ماحولیات اور لاکھوں کی آبادی کا مفاد نظر انداز نہ کیا جائے۔
آزاد کشمیر میں معدنیات کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ یاقوت روبی کے پہاڑ ہیں،ان قدرتی وسائل کا استعمال کیا جائے تو یہ سرزمین سونا اگل سکتی ہے۔عوام اپنی دھرتی کی ترقی میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کھیت لہلہا سکتے ہیں۔اناج، پھل، سبزیاں، پالتو جانوروں کی افزائش،ڈیری فارمنگ،فش فارمنگ سے معیشت میں انقلاب آسکتا ہے۔ قیمتی روبی، جنگلات اور دیگر قدرتی خزانہ کی چوری پر سخت روک لگانے کی ضرورت ہے۔ 2005ء کے زلزلہ میں بستیاں کھنڈرات میں تبدیل ہوئیں۔ پاکستان نے کھنڈرات کو بارونق بستیوں میں تبدیل کرنے کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ پوری دنیا کو بھی یہاں ترقی کی دوڑ مین شامل ہونے پر آمادہ کیا۔ آزاد کشمیرکی تعمیر نو کے 55ارب روپے اب بھی معلوم نہیں کہ کہاں منتقل کر دیئے گئے۔
کشمیر میں زرخیز زمین دستیاب ہونے کے باوجود اناج،سبزیاں اور پھل درآمد ہوتے ہیں۔یہ خطہ آبی وسائل سے مالا مال ہے لیکن آبپاشی کے زرائع موجود نہیں۔ آزاد کشمیر کا زیر کاشت رقبہ صرف 13فی صد ہے جو ایک لاکھ 71ہزار ہیکٹر بنتا ہے۔ ایک زرخیز ترین علاقہ بنجر بن رہا ہے۔ آزاد کشمیر کے لاکھوں لوگ سمندر پاررہائش پذیر ہیں۔جن سے اربوں روپے زرمبادلہ کمائی ہوتی ہے۔آزاد کشمیرحکومت کی حیثیت مسلہ کشمیر کے حل تک عبوری ہے۔اس کا آئین بھی عبوری ہے۔ اس کا بنیادی مشن اور وژن پورے کشمیر کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔ہمیں عبوری حکومت کا پہلا اعلانیہ فراموش ہر گز نہیں کرنا چاہیئے جس میں عہد کیا گیا کہ حکومت اس امر کا انتظام کرے گی کہ یہاں غیر جانبدار مبصرین آئیں، جن کی نگرانی میں پورے جموں و کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے۔اب بھی امید ہی کی جا سکتی ہے کہ آزاد کشمیر کے بنیادی مقصد کی جانب توجہ دی جائے گی۔
واپس کریں