نعیمہ مہجور
یوں تو ہر کسی کو اپنے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حقوق کی بحالی یا پاسداری کے لیے عدالتوں کا رخ کرنا پڑتا ہے مگر جہاں عدالتیں انصاف فراہم نہ کریں اور کئی برسوں تک بغیر فرد جرم، سزا یا رہائی پر خاموش تماشائی کی طرح رہیں وہاں انصاف حاصل کرنے کا دوسرا راستہ کیا ہے؟ یاد رہے جموں و کشمیر کے طول و عرض میں اُن ہزاروں قیدیوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بعض وکیلوں کے مطابق اُن کو اسیران کی رہائی کے معاملات عدالتوں میں لینے سے منع کیا جاتا ہے جو اندرونی خود مختاری ختم کرنے کے فیصلے سے چند گھنٹے پہلے رات کے اندھیرے میں حراست میں لے کر انڈیا کی جیلوں میں پہنچا دیے گئے تھے۔ ایسے حالات میں بعض خاندانوں نے انتخابات کا سہارا لے کر ایک طرف سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کی کوشش کی تو دوسری جانب انڈین آئین کے تحت چلنے والے رول آف لا پر سوالیہ نشان بھی لگا دیا۔
دنیا میں اگر اس وقت کوئی زوال پذیر ہے تو وہ جمہوری مملکتیں ہیں، جہاں انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی کوئی وقعت نہیں، عالمی سیاسی فورمز کی بات نہیں سُنی جاتی اور عالمی میڈیا کارپوریٹ سیکٹر کی غلامی میں پھنس گیا ہے۔پھر جب ہر مسلمان پر حصول حقوق کے بدلے میں دہشت گردی کا لیبل چسپاں کردیا جاتا ہے تو وہ بڑی جمہوریتوں میں رہ کر انصاف کے لیے تڑپتے رہتے ہیں۔برصغیر میں سامراجی طاقت کے خلاف آزادی کی لڑائی میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جب کانگریس اور مسلم لیگ نے ریاستوں اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جمہوریت کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرنے کی داغ بیل ڈالی۔مقصد صرف حق رائے دہی سے کرسی حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ سامراج کو اُس کی ہی زبان میں ظلم و بر بریت کا جواب دینا تھا۔ شاید اسی تحریک نے وادی میں کئی خاندانوں کو متحرک کردیا۔
جموں و کشمیر میں ایسے ہزاروں والدین ہیں جو اپنے اسیر بچوں سے کئی برس نہیں ملے۔ ایک وجہ یہ کہ ان کو جموں و کشمیر سے باہر کی جیلوں میں قید رکھا گیا ہے اور دوسرا عدالتوں میں ان کو پیش نہیں کیا جاتا۔ ایسے نو عمر اولادیں بھی ہیں جن کے والدین کو برسوں سے جیلوں میں دہشت گردی یا تحریک آزادی چلانے کی پاداش میں بند رکھا گیا ہے۔ایسی ہی ایک اولاد صغرا برکاتی ہے جو اپنے اسیر والدین کی رہائی کے لیے انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔صغرا نے دو حلقوں میں اپنے والد کے کاغذات نامزدگی داخل کیے اور عوام کے پاس جا کر ووٹ ڈالنے کی درخواست کر رہی ہیں۔اس سے قبل پارلیمانی رُکن انجینیئر رشید کے بیٹے ابرار احمد نے اس تحریک کی بنیاد ڈالی جب وہ اپنی تعلیم چھوڑ کر گھر گھر والد کی رہائی کے لیے ووٹ مانگتے رہے۔شمالی کشمیر میں لاکھوں لوگوں نے ابرار کی حمایت میں ووٹ ڈال کر تاریخ رقم کر ڈالی جب سابق وزیراعلیٰ، سابق مرکزی وزیر اور پُرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے سربراہ عمر عبداللہ کو لاکھوں ووٹوں سے ہرا کر انجینیئر رشید کے ساتھ جذباتی ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ بعض معروف آزادی پسند اسیر رہنماؤں کی اولادوں کو اخباروں میں لکھ کے دینا پڑا کہ وہ اپنے والد کے سیاسی نظریے سے مطابقت نہیں رکھتے تاکہ اُن کی تعلیم اور روزگار میں جو رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی تھیں وہ دور ہوجائیں۔ان میں ضمیر کا قیدی کہلانے والے شبیر شاہ کی بیٹی شامل ہیں۔جب بیٹوں اور بیٹیوں کو اُن عدالتوں نے انصاف نہیں دیا جو خود کو آئین و قانون کی بالادستی کی علم بردار سمجھتی ہیں تو اُن کے پاس اپنے لوگوں سے ووٹ حاصل کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہا۔وہ چاہے آزادی چاچا کی 16 برس کی بیٹی صغرا برکاتی ہو، یا انجینیئر رشید کا طالب علم بیٹا ابرار احمد۔
ڈاؤن ٹاؤن کے میر غلام احمد کہتے ہیں کہ اُن کے بیٹے کو تقریباً 12 برس پہلے گرفتار کر کے پہلے جموں کے کورٹ بلوال میں رکھا گیا پھر وہاں سے جودھ پور لے گئے۔’اب مجھے نہیں معلوم وہ کس جیل میں ہیں۔ نہ تو اُنہیں عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے اور نہ پولیس بتا رہی ہے کہ اُن کو کس جرم میں گرفتار کیا گیا، یہ کہانی ہے جمہوری قانون کی جو کشمیر کے لیے بالکل اندھا ہو گیا ہے۔’جہاں مرکزی سرکار نے ہمارے حقوق چھین کر ہمارے بچوں کو ہم سے الگ کردیا وہیں ہمارے مقامی مین سٹریم جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے منہ بند کررکھے ہیں تاکہ بی جے پی ناراض نہ ہو جائے جس کو ہمارے گھروں پر مسلط کرکے اور ہم پر ثقافتی یلغار کروانے میں ان کے اتحادی بنے بیٹھے تھے۔‘
انڈین پارلیمنٹ میں نوٹنکی۔ اُس وقت عالمی میڈیا کی توجہ پھر کشمیر کی جانب مبذول ہوئی جب کالعدم مذہبی تنظیم جماعت اسلامی کے رُکن مسٹر ملک کے پیر میں جی پی ایس ٹریکر باندھا گیا تھا جو اسیری کے بعد رہا کردیے گئے تھے اور اب انصاف کی خاطر انتخابی اُمیدوار بن گئے ہیں۔میڈیا نے اُنہیں انتخابی مہم کے دوران جب ٹریکر کے بارے میں پوچھا تو وہ اس ظلم کو بیان بھی نہیں کر پائے۔اسمبلی انتخابات کے دوسرے عمل کے دوران دو درجن ملکوں کے سفیروں کو وادی کشمیر لایا گیا اور اُنہیں باور کرایا گیا کہ عوام نے سب کچھ تیاگ کرکے جمہوریت کو گلے لگایا ہے۔بعض سفیروں نے پُرامن انتخابی عمل کی تعریف بھی کی مگر اُنہیں یہ کون بتا سکتا تھا کہ اس امن میں درد و کرب کی ایک داستان پنہاں ہے اور عوام کے بڑے طبقے نے اپنے پیاروں کی رہائی کے لیے ہی ووٹ ڈالا ہے۔یہ بات عالمی میڈیا کے کچھ ادارے بتا سکتے تھے مگر اُنہیں کشمیر آنے کی ابھی اجازت نہیں۔
ایسے میں اگر صغرا برکاتی کی مہم کامیاب بھی ہوتی ہے تو شاید یہ اُمید کرنا کہ اس معصوم بچی کے والدین رہا ہو کر گھر آئیں گے قبل از وقت ہے۔انجینیئر رشید کو ضمانت پر رہا کردیا گیا ہے اور انتخابی عمل ختم ہونے کے فوراً بعد جلد ہی تہاڑ جیل میں واپس جانا ہے۔ہزاروں محبوس نوجوانوں کے والدین آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کامیاب اُمیدوار مقامی اسمبلی بننے کے بعد شاید پہلا کام اُن کی بچوں کی رہائی کے لیے کریں گے۔اب یہ انتخابی نتائج پر منحصر ہے کہ جموں و کشمیر کی 10 سال سے جاری صورت حال برقرار رہے گی یا انتخابات واقعی کوئی نئے حالات پیدا کریں گے لیکن یہ بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ اپنے عزیزوں کی رہائی کے لیے انتخابات میں کودنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا جو شاید دنیا کی انتخابی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
واپس کریں