دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نیلم کا نوحہ ۔ مجھے اور مت نوچو
مقصود منتظر
مقصود منتظر
دوستو۔۔ آپ نےنیلم ویلی کی سیر ضرورکی ہوگی۔ اگر نہیں کی تو،آپ کشمیر بنےگا پاکستان، کا نعرہ لگانے کا حق جتا نہیں سکتے۔ یعنی صلح یہ ہے کہ آپ کو اپنی زندگی میں ایک بار نیلم پری کی مست رنگوں اور کھلی بانہوں میں کھوجانا چاہیے۔کسی شام اس کی گھنی زلفوں تلے ایک بار سررکھ کررومانوی ماحول کا لمس حاصل کرلینا چاہیے۔ اس کے شفاف بدن کو بے باکی سے کچھ ہی پل سہی، ایک نظردیکھ لینا چاہیے۔ نیلم کے تن بدن سے پھوٹنے والی مشک ادفر کو سونگھ لینا چاہیے۔ اس کی آنکھوں میں خمار کو کسی دن محسوس کرلینا چاہیے۔ اس کے گیلے لبوں کا لمس حاصل کرکے اس کے رخصارکی گلابی کو چورا لینا چاہیے۔نیلم سر تا پا پیار اور حسن کی دیوی ہے۔ یہ امن کا گہوارہ ہے اور محبت کا مسکن۔ یہاں قلب کو سکون اور روح کو راحت ملتی ہے۔نیلم ویلی کی تعریف بہت زیادہ ہے البتہ مشورہ ہے قدرت کے اس شاہکار کو، حسن کے ماسٹر پیس کو، دلکشی کے لاجواب پرزنٹیشن کو قبر میں جانے سے پہلے دیکھ لو۔۔ ورنہ اصلی جنت والے وہاں کہیں گے دنیا میں جنت نہیں دیکھی کیا۔

وادی نیلم گریز ویلی کے اس حصے کو کہتے ہیں جو پاکستان زیر انتظام کشمیر میں واقع ہے۔ یہ دریا نیلم پرانا نام کشن گنگا کے دونوں کناروں پر مشتمل پہاڑی مگر دلکش علاقہ ہے جو بہت طویل ہے۔ اس کا ماتھا اپر نیلم یعنی گریز کا علاقہ ہے جس کا ایک حصہ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں ہے۔۔دوسری طرف کا علاقہ رقبے میں کم تو ضرورہے مگر زیادہ سنبھالا اور سنوارا ہوا ہے۔وادی نیلم یعنی پاکستانی سائیڈ والا حصہ اگرچہ زیادہ خوبصورت اور کشادہ تھا مگر اب کمرشلائز ہونے سے اپنا اصل کھوتے ہوئے سکڑ سا رہا ہے۔ یہاں پلین ایریا بہت ہی کم تھا جو انسان کی دست درازی کی وجہ سے سکڑ کر انتہائی محدود رہ گیا۔ یہاں جتنا بھی ہموار حصہ تھا اس پر کنکریٹ کے ریسٹ ہاوسز بن چکے ہیں۔ باقی پر مقامی آبادی یا فوجی کیمپس آباد ہیں۔آپ جب وادی نیلم جاتے ہیں تو یہ طویل سفر ہے۔ راستہ پہاڑی ہے اور پر خطر بھی۔ یہاں نیلم کی پازیب یعنی نیلے پانی کےدریا کی چھنکار پورے سفر میں سنائی دیتی ہے۔ اسی چھنکار اور گنے درختوں اور دلفریب موسم کی موسیقی کی بدولت کھٹن سفر بآسانی کٹ جاتاہے۔

اس خوبصورت کی وادی کا بدقسمتی سے ایک منفی پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ یہاں راستے میں مین پکنک اسپارٹس کے علاوہ ایسے مقامات بہت ہی کم ہیں جہاں آپ گاڑی یا موٹر سائیکل کو کھڑی کرکے خود دراز ہوسکتے ہیں۔ بعض مقامات آپ کو کشش ثقل کی طرح اپنی طرف کھینچتے ہیں اور آپ کا جی بھی اس مقام کے نظاروں سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے مگر سڑک کی تنگی کے باعث دل کی یہ فرمائش کم ہی پوری ہوجاتی ہے۔پہاڑی اور پتھریلے راستے کے ایک جانب دریا ہے دوسری جانب آسمان سے باتیں کرنے والا پہاڑ۔اب جہاں کوئی ہموار مقام ان دونوں سے آزاد ہوتا نظرآتا ہے تواس پر بے ڈھنگ ریسٹ ہاوسز، بے ترتیب ہوٹلز اور دیگر سرکاری و نیم سرکاری بلڈنگز قائم ہیں۔ یوں یہ فطری علاقہ آزاد ہوکر بھی کنکریٹ یا لکڑ کے عمارتوں کے باعث مقبوضہ لگتا ہے۔ اوراسی سبب نیلم کی فطری خوبصورتی دن بہ دن مانند پڑتی جارہی ہے۔

کیرن یہاں کا استقبالی علاقہ ہے دلکش تو ہے مگر اب یہاں سیاحوں کیلئے مفت میں محض چار بنچز کی جگہ موجود ہے باقی پر ریسٹ ہاوسز کا جنگل آباد ہوچکا ہے۔ اسی کے محلقہ اپرنیلم گاوں میں مفت میں پاوں رکھنے کی جگہ موجود نہیں ۔ سرمایہ دار یہاں بھی اپنی جاگیر بن چکے ہیں ۔ شاردہ پہلے ہی مقامی ہوٹل مالکان اور فوجی کیمپ آباد ہے اب باہر والے بھی یہاں آکر آباد ہوچکے ہیں ، دودھنیال اور کیل کا بھی یہی حال ہے ۔ یہاں اڑن کیل پرستان کا منظر پیش کرتا تھا لیکن اسے بھی سرمایہ داروں نے نوچ لیا ۔ آگے میں وادی گریز میں جائیں تو وہاں بھی بچا کچھا ہموار حصہ عمارتوں تلے مدفن ہوچکا ہے ۔ تاوبٹ ہو یا ہلمت یہاں بھی کھڑے کھڑے ہی نظارے دیکھ سکتے ہیں ۔ باقی سب ریسٹ ہاوسز ۔ الغرض یہاں رتہ گلی جیسے مشکل اور دور دراز علاقے ہی اب بچے ہوئے ہیں ۔

دوسری طرف وادی گریز بھارت زیر قبضہ علاقہ ابھی کما حقا ہو ریسٹ ہاوسز مافیا سے بچا ہوا ہے۔ اس کی بڑی وجہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی ہے۔چونکہ یہ سرحدی علاقہ ہے اورعین ایل اوسی پر واقع ہے اس لیے پچھلے پینتیس سال سے یہاں زیادہ تعمیراتی کام نہیں ہوسکا۔ سیاحت بھی یہاں ایک دوسال سے شروع ہوچکی ہے۔ کشمیرمیں مسلح تحریک کے بعد یہاں سے مقامی لوگوں نے بھی وادی کے دوسرے علاقوں کا رخ کیا تھا۔ باہر سے آنے والوں کیلئے یہاں ٹھہرنے کی اجازت نہیں تھی یا لوگ خود احتیاط برتتے تھے۔ ان وجوہات کی وجہ سے وادی گریز انسان کی آلودگی سےفی الحال سلامت ہے۔ اور یہ علاقہ اب بھی فطرت کے گیت گاتا نظر آرہا ہے۔ یہاں کی ہموار جگہیں اب بھی موجود ہیں اور اپنی بے مثال خوبصورتی کی تصویر پیش کرتی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سیر و تفریحی اور ایڈوینچر کیلئے یہاں کا رخ کرنے والے سیاح مقامی لوگوں کے گھروں میں ٹھہرتے ہیں۔ بعض مقامی لوگوں نے سیاحوں کی رہائش کے غرض کیلئے الگ مکان بنارکھے ہیں جن میں وہ سیاحوں کو ٹھہراتے ہیں۔ یہ مقایی لوگوں کا بہترین روز گار ہے۔ ایک اور دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ باہر سے آنے والے کسی ریسٹ ہاوس یا ہوٹل میں ٹھہرنےکے بجائے مقامی لوگوں کے اضافی گھروں میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں۔یوں گریز میں فی الحال فطرت کی رعنائی اور خوبصورتی رقص کرتی گنگناتی رہی ہے۔

بدقسمتی سے آزاد کشمیر میں سیاحت اور روزگار کے نام پر خوبصورت اور دلکش وادی میں جو بربادی ہورہی ہے اس کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیتا ۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہاں سیاحوں کا رش بھی بڑھتا جارہا ہے اور مقامی اور غیر مقامی ریسٹ ہاوسز مالک لکڑی کو بطور ایندھن بھی خوب استعمال کررہے ہیں ۔ یوں یہاں کے سبز سونے کی لوٹ مار بھی جاری ہے۔ہم اپنے ہاتھوں قدرت کے اس بے مثال تحفے کا ضیاع کررہے ہیں ۔ علوم نہیں کب ہم دماغ استعمال کرکے رہی سہی تباہی سے باز آجائیں ۔ اپنا دماغ استعمال نہ بھی کرتے تو کم سے کم یورپ والوں سے ہی سیکھ لیتے جو ایسے مقامات پر بے ہنگم تعمیرات پر پابندی لگاتے ہیں
واپس کریں