دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کارل پوپر ، غریب الدیار فلسفی
ڈاکٹر ساجد علی
ڈاکٹر ساجد علی
سال تھا 1936ء کا ۔ اپریل کے مہینے کی 6 تاریخ اور لندن میں شام 8 بجے کا وقت تھا۔ اس روز مشہور زمانہ ارسطاطالیسی سوسائٹی کی میٹنگ میں برٹرینڈ رسل نے اپنا مضمون پڑھا۔ اس مضمون میں رسل نے ڈیوڈ ہیوم کے اعتراضات کے جواب میں کانٹ کے انداز میں استقرا کا دفاع کرنے کی کوشش کی تھی۔ میٹنگ میں وی آنا سے آیا ہوا ایک نوجوان سکول ٹیچر بھی موجود تھا۔ اس کو وہاں ایک نوجوان برطانوی فلسفی اپنے ساتھ لے کر گیا تھا جو بعد میں اے جے ائر کے نام سے معروف ہوا۔ائر کی ترغیب پر اس نوجوان سکول ٹیچر نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی کو بروئے کار لاتے ہوئے کہا، میں استقرا کو تسلیم نہیں کرتا اگرچہ میں اس بات کا قائل ہوں کہ ہم تجربے سے سیکھ سکتے ہیں۔ حاضرین نے اس بات کو مذاق پر محمول کیا اور ہنسنے لگے۔ اس نے اپنی بات کو واضح کرنے کی ایک اور سعی کی اور کہا، تمام مسئلہ اس بات سے پیدا ہوتا ہے کہ ہم سائنس کو ایک یقینی اور مبنی بر صداقت علم تصور کرتے ہیں حالانکہ سائنس کے تمام نظریات قیاسی اور ظنی ہوتے ہیں۔لیکن اس بار بھی وہی نتیجہ نکلا اور حاضرین نے اس لطیفے پر بھی تالیاں بجا کر داد دی۔ وہ سکول ٹیچر حاضرین کے ردعمل پر حیران و پریشان تھا کیونکہ وہ کامل سنجیدگی کے ساتھ اپنا موقف بیان کر رہا تھا۔ بہرحال اس وقت سکول ٹیچر کی جن باتوں کو لطیفہ گردانا گیا چند دہائیاں گزرنے کے بعد وہ فلسفہ سائنس کی پیش پا افتادہ حقیقتیں بن چکی تھیں۔ اس سکول ٹیچر کا نام کارل پوپر تھا اور ایک برس پہلے اس کی جرمن زبان میں کتاب شائع ہوئی تھی جسے بعد میں فلسفہ سائنس میں ایک کلاسیک کا درجہ دیا گیا۔

سنہ ( 1902 ) میں وی آنا کے ایک یہودی الاصل وکیل، عالم اور شاعر کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام کارل ریمنڈ پوپر رکھا گیا۔ وہ ایک اپر مڈل کلاس گھرانا تھا۔ پوپر کا بچپن آسودگی میں بسر ہوا لیکن پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر اس کا خاندان معاشی مشکلات کا شکار ہو گیا۔ان حالات میں پوپر نے تعلیم چھوڑ کر کوئی چار برس تک آوارہ گردی میں بسر کیے۔ اس دوران میں اس نے ایک کیبنٹ میکر کی شاگردی بھی اختیار کی اور کچھ سوشل ورک بھی کیا۔ اس نے کچھ عرصہ کے لیے کمیونسٹ پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کی۔ لیکن وہ بہت جلد ان سے بدظن ہو گیا۔ اس کا سبب یہ بنا کہ کمیونسٹوں نے کچھ نوجوانوں کو پولیس سٹیشن پر حملے کے لیے تیار کیا تاکہ وہاں سے کچھ قیدیوں کو چھڑایا جا سکے۔ پولیس کی فائرنگ سے کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔معصوم جانوں کے ضیاع نے پوپر کو بہت متاثر کیا لیکن اس کے لیے کمیونسٹوں کا رد عمل زیادہ تکلیف دہ تھا۔ وہ ان جانوں کے ضیاع پر خوش تھے کہ اب انقلاب کی رفتار مزید تیز ہو جائے گی۔ وہ اپنے انقلاب کی خاطر دوسروں کی جانیں قربان کرنے کو روا جانتے تھے۔ اس سانحہ کے بعد اس نے کمیونسٹوں سے قطع تعلق کر لیا۔ اس نے بعد میں کہا تھا کہ۔ ”یہ میری خوش بختی تھی کہ مجھ پر بہت جلد یہ حقیقت واضح ہو گئی تھی کہ اپنے آدرشوں کی خاطر کسی شخص کو اپنی جان قربان کرنی چاہیے نہ کہ دوسروں کی“ ۔

کمیونزم سے برگشتہ ہونے کے باوجود اس کے سوشلسٹ میلانات کافی عرصہ تک برقرار رہے۔ بڑھاپے کے زمانے میں اس کا کہنا تھا کہ اگر سوشلزم اور آزادی ایک جگہ جمع ہو سکتے تو شاید وہ آج بھی سوشلسٹ ہوتا۔چند برسوں کی اس آوارہ گردی کے بعد اس نے دوبارہ تعلیم کی طرف رجوع کیا اور وی آنا یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ یونیورسٹی میں ریاضی، فزکس، نفسیات اور فلسفہ کے مضامین۔ پی ایچ ڈی نفسیات میں کارل بوہلر کی زیر نگرانی سنہ 1928 میں نفسیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔پوپر کو سکول میں جونیر سائنس ٹیچر کے طور پر ملازمت ملی۔ سکول میں ہی اس کی ملاقات جوزفین آنا ہیننگر سے ہوئی جو اسی سکول میں پڑھاتی تھی۔ 1930ء میں دونوں نے شادی کر لی۔ اس کی بیوی کو عام طور پر ہینی کہا جاتا تھا۔ ہینی کا تعلق رومن کیتھولک خاندان سے تھا۔ دونوں کی رفاقت پچپن برس تک جاری رہی جس کا خاتمہ بالآخر 1985 ء میں ہینی کی وفات پر ہوا۔

اس زمانے میں منطقی اثباتیت کا بڑا شہرہ تھا۔ یونیورسٹی کے نامور سائنس دان، ریاضی دان اور فلسفی مورٹز شلک کے سیمینار میں جمع ہوتے تھے۔ اسے وی آنا سرکل کا نام دیا گیا۔ پوپر کبھی اس کا رکن نہیں رہا لیکن اس کی ہربرٹ فائگل اور کارل ہیمپل سے دوستی تھی۔ وہ ان کے ساتھ ان موضوعات پر بحث مباحثہ کرتا رہتا ہے جو وی آنا سرکل کی شہرت کا باعث تھے۔ پوپر منطقی اثباتیت کے بنیادی اصولوں سے اختلاف رکھتا تھا۔ فائگل نے اسے ترغیب دی کہ وہ اپنے خیالات کو تحریر کی شکل میں بیان کرے۔ چنانچہ پوپر نے کتاب لکھنا شروع کر دی۔سنہ 1932ء میں پوپر فائگل اور کارنپ کے ہمراہ ایک مقام پر گرمیوں کی تعطیلات ایک مقام پر موجود تھا۔ وہاں کارنپ اور فائگل نے اس مسودے کو پڑھا۔ کارنپ کو پوپر کے خیالات نے متاثر کیا۔ اس نے بعد میں شلک کو کتاب کی اشاعت پر آمادہ کیا۔ پبلشر اتنی ضخیم کتاب چھاپنے پر تیار نہیں تھا۔ پوپر کو مسودے کی تلخیص کرنے کو کہا گیا۔ پوپر کو تلخیص کرتے ہوئے اصلاً ایک نئی کتاب لکھنا پڑ گئی۔ یہ کتاب جنوری 1935ء میں شائع ہو گئی۔کتاب پر کا رنپ نے بہت ہمدردانہ تبصرہ تحریر کیا لیکن منطقی اثباتیوں کا ایک اور گرو اوٹو نیوراتھ پوپر کو سخت ناپسند کرتا تھا۔ اس کا تبصرہ بہت جارحانہ اور مخالفانہ تھا۔ ایک بات پر البتہ سبھی متفق تھے کہ پوپر کے خیالات بہت اوریجنل ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ پوپر کی کتاب چونکہ منطقی اثباتیت کی سیریز میں شائع ہوئی تھی اس لیے آئندہ کئی دہائیوں تک بہت سے لوگ پوپر کو منطقی اثباتیت کا حامی سمجھتے رہے۔

کتاب کی شہرت انگلستان تک پہنچ گئی تو مشہور برطانوی فلسفی پروفیسر سوزن سٹیبنگ نے پوپر کو بیڈفورڈ کالج میں لیکچر دینے کی دعوت دی۔ اس وقت وی آنا کے حالات ایسے تھے کہ پوپر کو یونیورسٹی میں نوکری ملنے کا کوئی امکان نہیں تھا اور اسے جلد یا بدیر ترک وطن کرنا پڑے گا۔ آسٹریا میں جرمنی کی نازی پارٹی سے ہمدردی بڑھتی جا رہی تھی اور پوپر کو یقین تھا کہ ہٹلر کسی بھی وقت آسٹریا پر قبضہ کر لے گا۔ پوپر کے اس دورہ انگلستان کا مقصد وہاں ملازمت کا حصول بھی تھا۔ اس نے چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ وہاں بسر کیا لیکن ملازمت حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔پوپر طبیت کے اعتبار تنک مزاج، اشتعال پذیر، جدال پرور، جارح اور اکھڑ شخص تھا۔ وی آنا سرکل کے اراکین اس کی ذہانت کے مداح لیکن غیر ضروری تنقید سے نالاں تھے۔

پیرس (ستمبر 1935 ) اور کوپن ہیگن ( 1936 ) میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں وہ نیوراتھ سے الجھ پڑا۔ کارنپ کی اہلیہ نے کارل ہیمپل کی اہلیہ کو خط میں لکھا کہ کوئی بھی پوپر کو اپنے اردگرد دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ آسٹریلوی فلسفی جان پاسمور کا کہنا تھا کہ پوپر اکیڈیمک آداب سے ناآشنا تھا۔ اس سے گفتگو کرتے ہوئے آپ کو ایک لفظ بھی بولنا مشکل ہو گا، بات درمیان میں کاٹ دی جائے گی، وہ اپنی ہی کہے چلا جائے گا۔ پوپر کے اسی رویے کی بنا پر لندن سکول آف اکنامکس میں اسے ( the totalitarian liberal) کہا جاتا تھا۔ذاتی زندگی میں وہ زاہد خشک تھا۔ اس نے ساری زندگی نہ سگرٹ پیا، نہ کبھی شراب کو ہاتھ لگایا۔ مطالعہ کرنے اور لکھنے کے علاوہ اس کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کے گھر میں نہ ریڈیو ہوتا تھا، نہ ٹیلی ویژن۔ اس کی واحد تفریح کبھی کبھار پیانو بجانا تھا۔ ایک ڈنر پارٹی میں اس کی شمولیت کا احوال خاصا دلچسپ ہے۔

لندن سکول آف اکنامکس میں مشہور ماہر اقتصادیات لائنل رابنس بہت اثر و رسوخ کا حامل تھا۔ وہ ان معدودے چند افراد سے تھا جن کا پوپر دل سے احترام کرتا تھا۔ رابنس اکثر ڈنر پارٹیوں کا انعقاد کرتا رہتا تھا۔ ایک بار اس نے پوپر کو بھی مدعو کیا۔ پارٹی میں شرکت کے لیے ڈنر جیکٹ لازمی تھی۔ اب ڈنر جیکٹ کا اہتمام کرنا مسئلہ بن گیا۔ کئی دوستوں سے درخواست کی گئی۔ ڈنر والی رات پوپر اپنے دوست گومبرخ کے گھر گیا جہاں اس نے پارٹی ڈریس پہنا، بو درست طور لگائی گئی۔ سب تیاری مکمل ہو گئی لیکن ابھی ایک کسر رہتی تھی۔ اس کے بعد پوپر نے کانوں میں روئی ٹھونسنا شروع کر دی کیونکہ وہاں جس موسیقار نے اپنے فن کا مظاہرہ کرنا تھا وہ پوپر کے لیے ناقابل سماعت و برداشت تھا۔چونکہ وہ عزلت نشین شخص تھا اس لیے سماجی آداب و معاملات سے بڑی حد تک بے خبر ہوتا تھا۔ اس سادگی میں بعض اوقات اس کی کوئی حرکت کافی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن جاتی تھی۔

امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی نے پوپر کو 1956۔ 57ء میں ایک سال کے لیے پڑھانے کی دعوت دی۔ پوپر نے ویزا کی درخواست میں چند پرانے دوستوں کے نام لکھ دیے اور ان کے بارے میں یہ بھی لکھ دیا کہ وہ بعد میں کمیونسٹ ہو گئے تھے۔ وہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ چنانچہ پوپر کے متعلق یہ تحقیقات شروع ہو گئیں کہ یہ خود تو کمیونسٹ نہیں یا اس سے ہمدردی تو نہیں رکھتا۔ پوپر کو بیس نامور لوگوں کے سرٹیفکیٹ جمع کروانے کو کہا گیا۔ بالآخر ایک ریٹائرڈ امریکی ڈپلومیٹ کی مداخلت سے مسئلہ حل ہوا۔ اس کے نزدیک یہ انتہائی احمقانہ بات تھی کہ اوپن سوسائٹی کے مصنف پر کمیونزم سے ہمدردی رکھنے کا شبہ کیا جائے۔
اپنے چڑچڑے مزاج کی وجہ سے اس کے اپنے شاگردوں سے بھی اختلافات پیدا ہو جاتے تھے بلکہ ناراضگی تک بات پہنچ جاتی تھی۔ مشہور فلسفی پال فیرابینڈ سے اختلاف بہت بڑھ گیا تھا۔ جوزف اگاسی سے بھی بول چال بند ہو گئی تھی۔

پیٹر منز نیوزی لینڈ کی وکٹوریہ یونیورسٹی میں تاریخ کا پروفیسر تھا۔ وہ دنیا میں واحد شخص تھا جو پوپر اور وٹگنسٹائن دونوں کا شاگرد رہا تھا۔ نیوزی لینڈ میں اس نے پوپر سے فلسفہ پڑھا پھر کیمبرج میں وہ وٹگنسٹائن کے سیمیناروں میں شرکت کرتا رہا۔ میرا پروفیسر منز سے چند ای میلز کا تبادلہ ہوا تھا۔ ایک بار میں نے استفسار کیا کہ پوپر اور فیرابینڈ کے اختلاف کا کیا سبب تھا۔ میرا خیال تھا کہ شاید اوپن سوسائٹی کا جرمن زبان میں ترجمہ اس کا سبب بنا تھا جو فیرابینڈ نے کیا تھا اور پوپر کو پسند نہیں آیا تھا۔ پروفیسر منز نے جواب دیا، فیرابینڈ مسخرہ تھا اور پوپر میں حس مزاح کی سخت کمی تھی۔

ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ماڈرن ماسٹرز کے عنوان سے ایک کتابی سلسلہ شروع ہوا جس کا ایڈیٹر فرینک کر موڈ تھا۔ کر موڈ نے برائن میگی سے کسی فلسفی پر کتاب لکھنے کو کہا۔ کافی سوچ بچار کے بعد میگی نے کہا کہ وہ پوپر پر کتاب لکھے گا۔ کر موڈ نے زبانی وعدہ کر لیا۔ اس سیریز کے برطانوی اور امریکی ناشروں نے جب اپنے طور پر مارکیٹ سروے کروایا تو پتہ چلا کہ پوپر کو تو کوئی جانتا ہی نہیں۔ اب وہ کتاب چھاپنے سے انکاری تھے لیکن کر موڈ کے اصرار پر مان گئے۔ یہ پوپر پر اولین تعارفی کتاب تھی۔ جب کتاب چھپی تو وہ بہت جلد بیسٹ سیلر بن گئی۔ اس کا دس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوا اور کمیونسٹ ممالک میں اس کی سامزڈاٹ کاپیاں گردش کرتی رہیں۔ستر اور اسی کی دہائی میں پوپر کی اوپن سوسائٹی کے سامزڈاٹ ترجمے مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک میں بہت مقبول تھے اور نوجوان اس کے اثرات قبول کر رہے تھے۔ پولینڈ کے ایک طالب علم نے سن 1982 ء میں پوپر سے کہا تھا، سر میرے ملک میں جو چھوٹا سا انقلاب آیا ہے اس کے اولین نظریہ ساز آپ تھے۔

مغربی جمہوریتوں کے برعکس کمیونسٹ ممالک میں پوپر کے خیالات زیادہ تیزی سے مقبول ہو رہے تھے۔ پوپر کا نوجوانی کا زمانہ اضطراب آگیں، ادھیڑ عمر کسی حد تک ناکامی اور مایوسی کا ، لیکن آخری زمانہ شہرت اور ناموری کا تھا۔زندگی کے آخری برسوں میں اس کی صحت کے معاملات کسی قدر دگرگوں رہے لیکن آخری وقت تک وہ ذہنی طور پر بیدار اور مستعد تھا۔ اپنے شاگرد ڈیوڈ ملر کے ساتھ مل کر کئی منطقی مسائل پر کام کر رہا تھا۔ دس ستمبر 1994 کو اسے ہسپتال میں داخل کیا گیا، اس کی سرجری ہوئی جو ٹھیک ٹھاک ہو گئی لیکن اس دوران میں کینسر کی تشخیص ہوئی۔ جب ملر ہسپتال میں اسے ملنے گیا تو پوپر نے کہا، لگتا ہے اب مضمون تمھیں تنہا ہی مکمل کرنا پڑے گا۔ہسپتال میں قیام کے دوران میں زیادہ وقت شدید تکلیف میں مبتلا رہا لیکن جب کبھی تکلیف سے سکون ہوتا تو اس کا ذہن ہمیشہ کی طرح الرٹ ہوتا۔ سترہ ستمبر کی اولین ساعتوں میں اس کا انتقال ہوا؛ لاش کو نذر آتش کیا گیا۔ ازل کے غریب الدیار کے لیے شاید یہی سزاوار تھا کیونکہ اس کا کسی ارضی وطن سے کوئی ناتہ نہ تھا۔ اس کی راکھ کو اسی کی خواہش کے مطابق وی آنا میں اس کی بیوی کی قبر میں دفن کیا گیا۔ غریب الدیار فلسفی کو بالآخر اپنی سرزمین میں مستقل ٹھکانہ میسر آ گیا تھا۔

بشکریہ ہم سب
واپس کریں