دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہم سچ کب بولیں گے؟
عاصمہ شیرازی
عاصمہ شیرازی
ہم بحرانوں کے عادی ہیں یا بحران ہمارے تعاقب میں۔ بحران طوفان میں بدل رہے ہیں اور ہم آدھے ادھورے خوابوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ خود سے آنکھیں چار کرنا ہم نے سیکھا نہیں اور غلطیاں دہرانے کا عہد باندھ کر اس مقام پر آ کھڑے ہوئے ہیں جہاں آگے سمندر ہے اور پیچھے کھائی۔ اب وقت کہاں کہ یہ سوچا جائے کہ یہ سب کیا، کب اور کیسے ہوا؟ اب تو انتظار ہے کہ یہ سب ایسے، کیسے، یوں کیوں ہوا؟

چلیں مان لیا کہ ہم چاند پر نہیں پہنچ سکتے مگر چاند ہی زمین پر پٹخ ڈالنے کا زعم کیسا۔ ستاروں پر کمند نہیں ڈال سکتے مگر مملکت ستارہ شناسوں کے ہاتھ دینے کی ادا کیسی۔ تاروں سے اٹھکیلیاں نہیں کر سکتے مگر تارے گم کرنے کے گر کیسے۔ آخر ہم ایسے کیوں ہیں؟ نہ ہم آزاد نہ ہماری معیشت آزاد اور نہ ہی ریاست آزاد۔ تینوں کا آپس میں جڑا گہرا تعلق ہمیں جتنا آج محسوس ہو رہا ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ خالی خولی حقیقی آزادی کے نعرے اور غلامی نامنظور کے دعوے نہ تو ہمیں عالمی معاشی سامراج سے نجات دلا سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں آزاد مملکت بنا سکتے ہیں۔

انڈیا اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے اور عالمی اداروں کے اندازوں کے مطابق آئندہ پانچ برسوں میں امریکہ اور چین کے بعد دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔انڈیا کا سالانہ جی ڈی پی سات فیصد کے قریب ہے۔ یاد نہیں پڑتا کہ آخری بار انڈیا نے آئی ایم ایف کا دروازہ کب کھٹکھٹایا مگر تاریخ بتا رہی ہے کہ انڈیا نے 32 برس پہلے آئی ایم ایف کو خیر باد کہا اور پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ایک سیاسی حکومت نے معاشی منصوبہ بنایا جس کے روح رواں سابق وزیراعظم من موہن سنگھ تھے۔ بی جے پی کی سرکار میں کانگریس کے بنائے منصوبے چلتے رہے اور کانگرس کی سرکار میں بی جے پی کی معاشی پالیسی رواں رکھی گئی۔ سیاست بدلتی رہی، انداز بدلتے رہے مگر ترقی کا راستہ نہ بدلا۔1991 میں انڈیا نے پہلی بار اقتصادی لبرلائزیشن کی جو پالیسی اختیار کی وہ آج بھی جاری ہے۔ آزاد بینکاری، آزاد ٹیلی کام سیکٹر، آزاد مواصلاتی پالیسی کے تحت ریاست نے اپنا کنٹرول کم اور محدود کیا جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کو بڑھاوا دیا۔

ان تین سیکٹرز کی آزادانہ پالیسیوں نے انڈیا کو انڈیا بنایا۔ اگلے چند برسوں میں انڈیا امریکہ کے ساتھ خلائی پروگراموں کا آغاز کرے گا اور کم لاگت میں خلائی مشن کامیاب کرنے کے گر سیکھے گا۔دنیا بھر کی آئی ٹی سیکٹر کی تقریبا تمام بڑی کمپنیوں کے سربراہوں کا تعلق انڈیا سے ہے۔برطانیہ کی ٹین ڈاننگ سٹریٹ پر باہر برطانوی جھنڈا جبکہ اندر جن گن من ادھینا یک جے ہے کا ترانہ گایا جا رہا ہے۔30 سال پہلے شروع ہونے والا انڈیا کا سفر منزل کی جانب رواں دواں ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس سب کے پیچھے نہ صادق اور امین راہنما ہیں، نہ ہی کرپشن نمبر ون مسئلہ، ہاں مگر آئین کی پاسداری ضمانت اور جمہوریت کے تسلسل کا ایک نہ ٹوٹنے والا سلسلہ۔ گذشتہ 76 برسوں میں صرف ایک بار آئین معطل ہوا جس کا خمیازہ کانگریس آج بھی بھگت رہی ہے۔

معاشی بحران میں گھرے پاکستان کو نہ تو کسی میثاق کی ضرورت ہے نہ کسی کمیشن کی، ضرورت ہے تو صرف سچائی کی۔ سچ تلاش کرنے کے لیے صرف یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم نے وطن عزیز کے ساتھ کیا کیا؟ کتنی بار آئین توڑا؟ کتنی بار پاکستان کے مفادات کا سودا کیا؟ کتنی بار عدل کو گروی رکھا؟ اور کتنی بار عوام کے مینڈیٹ کو پیروں تلے روندا؟ اب سب تجربے ناکام ہو چکے ہیں اور اب تجربوں کا وقت بھی کہاں، آئیں سچ بولیں اور گناہگاروں کو سزاوار نا سہی فقط نشاندہی کر دیں تو سامنے راستہ صاف دکھائی دینے لگے گا۔

بشکریہ '' بی بی سی '' اردو
واپس کریں