دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
چاند پر اترنے والے کا صحیح تعارف!
محمد فاروق رحمانی
محمد فاروق رحمانی
حکیم الامت علامہ اقبال ر ح نے آج سے ایک صدی پہلے انسان کی سائنسی ترقی کی آرزو اور زمین پر اس کی خونخوار ی کو دیکھتے ہوئے اس سے خطاب کیا تھا۔ آج ان کے وہ اشعار ہندوستان پر صادق آتے ہیں۔ انسان کی سائنسی ترقی اور جستجو پر کوئی فرد بشر اظہار مسرت کیے بنا نہیں رہ سکتا ہے۔ لیکن کیا اچھا ہوتا کہ اگر انسان خلا میں ستاروں اور سیاروں کو مسخر کرنے سے پہلے اپنی دنیا کو رشک جناں بناتا۔ ہندوستان نے اگست میں چاند کے قطب جنوبی پر اپنے قدم رکھے اور اپنے خلائی تسخیر کا جھنڈا گاڑا، اب وہ آفتاب جیسے آگ کے گولےکے اردگرد اپنی کمندیں پھینکنے کے لئے تیار ہے۔ لیکن کیاان خلائی فتوحات سے زمین پر انسانوں کے ساتھ اس کے انتقامی سلوک میں کمی واقع ہوگی؟ اور کیا وہ اپنی زمین کو بھوک، بیماری اور افلاس اور تنگ نظری سے چھڑانے کا کبھی ارادہ بھی رکھتا ہے؟

ہندوستان ایک ارب 30 کروڑ انسانوں کی ایک وسیع و عریض بستی ہے۔ جس میں مختلف مذاہب، نسلوں، قبیلوں، زبانوں اور ذاتوں کے لوگ بستے ہیں۔لیکن یہاں خود کو اعلی ا نسل کے ہندوؤں سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ مسلمانوں کو ملیچھ سمجھتے ہیں اور انہیں ہندو دھرم اپنانے پر دباؤ ڈالاگیا ہے۔ نچلی ذات کو اچھوت قرار دیا گیا ہے۔ دلت ذات کے 25 کروڑ ہندوؤں کے لئے مندر اور اعلی ا سوسائٹی میں داخلہ پلید ہونے کی وجہ سے بند ہے۔ عیسائی ، مسلمانوں کی طرح غیر ہندوستانی مذہب کے پیروکار کار ہونے کی وجہ سے قابل گردن زدنی ہیں۔ سکھ باغی مذہب کی وجہ اپنے حقوق کو کھو بیٹھے ہیں ۔

کھرب پتی اور ارب پتی یا کروڈ پتی سرمایہ دار وں کی دولت کی گردش کے حقدار صرف مین اسٹریم ہندو ہیں اور غربت اور بیماری غیر ہندو عوام یعنی مسلمانوں، عیسائیوں، اور دلتیو ں کا حق ہے۔ سرمایہ داری اور جاگیرداری بھی ہندو اکثریت کی میراث ہے۔ بچے کھچے بودھ اور جین مت ماننے والی اقلیت کو ہندو حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی تابعداری لازمی ہے۔ اس طرح سے ہندوستان بدترین معاشی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کا ملک ہے۔ اور ملک کی بھاری اکثریت افلاس اور تنگدستی کی وجہ سے قعر مزلت میں گر گئی ہے۔ ان کے پاس چھت نہیں ہے اس لئے وہ فٹ پاتھوں یا ریلوے اسٹیشنوں پر سوتے ہیں اور عورتیں اسی حال میں بچے جنتی ہیں۔ یہ ہمہ گیر غربت بھیانک ہے، جس کو مٹانے کے لئے دستور ہند کو برائے نام رکھا گیا ہے۔

مسلمانوں کو وطن بدر کرنے کے لئے شہر و دیہات میں قتل و غارت گری اور شدھی کی مہم عروج پر ہے۔ بی جے پی کی حکومت میں اسلامو فوبیا اور مسلم لنچنگ کی مہم بے قابو ہوگئی ہے۔ کشمیر تک اس کا دائرہ وسیع کیا گیا ہے۔ مساجد اور مسلم ادارے مسمار کیے جارہے ہیں۔ عیسائی آبادی پر آسام کے حالیہ فسادات میں جو قیامت ڈھائی گئی اور شرم و حیا کا جس طرح جنازہ نکالا گیا، وہ چنگیز خان سے بھی نہ بن پایا تھا۔ ان حالات میں مودی اور امیت شا کو اپنا سر گریبان میں ڈالنا چاہئے اور جو سطح بین حضرات ہندوستان کو چاند پر دیکھ کر اپنی آنکھوں کو چکا چوند کر بیٹھے، انہیں نادم ہونا چاہئے۔ کہ ہندوستان اپنے ایک ارب عوام کا افلاس دور نہیں کرسکا اور ہندووں میں تعصب اور تنگ نظری ختم نہیں کرسکا، وہ خلائی دعووں کے ذریعے دنیا کو غلام بنانا چاہتا ہے۔ کیا خلائی دعوے جتلا کر ہندوستان کی حکومت مسجدوں کو مسمار اور گھر گھر مورتیاں نصب کرنے کا پلان نافذ کرنے کا ارادہ کر چکی ہے؟

اقبال کے اشعار۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعا عوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا!
واپس کریں