دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سویڈن کے انتخابی نتائج اور ان کے اثرات
 ڈاکٹر عارف محمود کسانہ
ڈاکٹر عارف محمود کسانہ
گیارہ ستمبر کو سویڈن کے انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات سے ایک روز قبل حکمران سوشل ڈیموکریٹس کی سربراہ اور وزیراعظم مگدالینا اندرشون اور قائد حزب اختلاف اولف کرسٹرسن جو ماڈریٹ پارٹی کے سربراہ بھی ہیں، ان کے مابین ہونے والے ٹی وی مباحثہ میں شرکت کا موقع ملا۔ اس موقع پر سویڈش وزیراعظم متانت اور سنجیدگی سے بات کررہی تھیں جبکہ قائد حزب اختلاف بہت خوش اور پرجوش نظر آرہے تھے۔ شاید انہیں وزارت عظمی کی کرسی تک رسائی کا یقین تھا۔ سویڈن کے انتخابی نتائج اولف کرسٹرسن کی امیدوں کو پورا کرتے نظر آرہے ہیں کیونکہ ان کے چارجماعتی اتحاد کو سویڈش پارلیمان میں ایک نشست کی برتری حاصل ہے۔ ان کو 175 نشستیں ملی ہیں جبکہ حکمران سوشل ڈیموکریٹس اور ان کے اتحادیوں کو 174 نشستیں مل سکی ہیں۔ اگر حتمی نتائج یہی رہے تو وزارت عظمی کی دوڑ میں وہ سب آگے ہوں گے لیکن یہ اتنا سادہ نہیں ہے۔صرف ایک نشست کی برتری اور وہ بھی چار مختلف نظریات کی جماعتوں کے اتحاد صورت حال کو مشکل بھی بنا سکتا ہے۔ ان چار جماعتی اتحاد کی سب سے بڑی جماعت سویڈش ڈیموکریٹس پارٹی ہے جس نے ملک بھر میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی نسل پرست جماعت ہے جس کے ساتھ ماضی میں کوئی سیاسی جماعت بھی بات کرنے کی روادار نہیں تھی۔ اس جماعت کی مقبولیت ہر انتخابات کے بعد بڑھتی گئی اور موجودہ انتخابات میں بیس فی صد ووٹ لے کر یہ ملک کی دوسری بڑی جماعت بن گئی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس کی اس فتح نے دائیں بازو کی دیگر جماعتوں کو تعاون پر مجبور کردیا ہے۔

ماڈریٹ پارٹی کے سربراہ اولف کرسٹرسن جو ماضی میں اس جماعت کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ رکھنے کے بھی مخالف تھے، اب انہوں نے یو ٹرن لیتے ہوئے ان کی حمایت سے حکومت بنانے کا اعلان کیا ہے۔ دائیں بازو ایک اور جماعت کرسچین ڈیموکریٹ پارٹی نے بھی یو ٹرن لیا ہے اور اقتدار میں شریک ہونے کے لئے سویڈش ڈیموکریٹس کی حمایت لینے کا فیصلہ سنایا ہے۔ اس چار جماعتی اتحاد کی ایک اور جماعت لبرل پارٹی ابھی تک سویڈش ڈیموکریٹس کی حمایت کی مخالف ہے اور اسے حکومت سازی میں بادشاہ گر کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ اگر لبرل پارٹی اپنے موقف پر قائم رہی تو دائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد کی جانب سے اولف کرسٹرسن وزیراعظم نہیں بن سکیں گے۔ دوسری جانب اگر لبرل پارٹی بائیں بازو کے چار جماعتی اتحاد کی حمایت کرے تو سوشل ڈیموکریٹس کی مگدالینا اندرشون دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوجائیں گی اگرچہ اس کا امکان کم ہی ہے۔ اس صورت حال میں حکومت سازی کافی مشکل ہے اور پھر چار سال اسے برقرار رکھنا بھی سہل نہیں ہوگا۔

سویڈن کے حالیہ انتخابات کے نتائج نے یورپ میں دائیں بازو کی بڑھتی ہوئی لہر کو ظاہر کیا ہے اگرچہ یہ لہرسویڈن میں کافی دیر بعد پہنچی ہے۔ بارہ سال میں نسل پرست جماعت جماعت سویڈش ڈیموکریٹس نے جس طرح کامیابی اور مقبولیت حاصل کی ہے، اس نے پریشانی اور تفکرات پیدا کردیئے ہیں۔ سویڈن جو مساوات، انسان دوستی اور تعصبات سے مبرا معاشرہ تھا، اب اپنی سمت بدل رہا ہے۔ مستقبل کا منظر نامہ اس سے زیادہ پریشان کن ہوگا کیونکہ دائیں بازو کی جماعتیں نوجوانوں میں زیادہ مقبولیت حاصل کررہی ہیں۔ 18 سے 21 سال کے نوجوانوں نے سب زیادہ ماڈریٹ پارٹی اور دوسرے نمبر پر سویڈش ڈیموکریٹس کو ووٹ دیے ہیں۔ اسی طرح سویڈن کے سکولوں اور کالجوں میں اٹھارہ سال سے کم عمرچار لاکھ طلبہ نے بھی دائیں بازو کی انہی دونوں جماعتوں کے حق میں رائے دی ہے۔ ان نتائج نے بائیں بازو کی جماعتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دائیں بازو کی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اس کے ردعمل میں ایک نئی جماعت نیانس پارٹی نے پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا۔ انہوں نے اسلام فوبیا، قرآن سوزی، مسلمانوں اور اقلیتوں کے حقوق اور سوشل سروس کی جانب سے بچوں کو اپنی تحویل میں لینے کے قانون کی مخالفت کو اپنا منشور بنایا۔ اس جماعت کے سربراہ ترک نڑاد ہیں۔ کچھ پاکستانی نژاد امیدوار بھی اس جماعت کے پلیٹ فارم پر انتخابات میں اترے جن سویڈن کے تیسرے بڑے شہر سے صحافی اور کالم نگار زبیر حسین بھی شامل تھے۔ لیکن یہ جماعت قومی، ریجنز اور مقامی کونسلوں کی ایک نشست بھی نہ جیت سکی۔ نیانس پارٹی کو صرف ڈیڑھ فی صد ووٹ ملے جبکہ پارلیمنٹ میں رسائی کے لئے کم از کم چار فی صد ووٹ لینا ضروری ہیں۔

سویڈش مسلمانوں کی اکثریت نے نیانس پارٹی کو ووٹ دینے کہ بجائے قومی دھارے میں رہنا پسند کیا۔ پاکستانی پس منظر کے حامل امیدواروں نے بھی سوشل ڈیموکریٹس، ماڈریٹ پارٹی، سینٹر پارٹی، لیفٹ پارٹی اور کرسچین ڈیموکریٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا۔ بعض مبصرین دائیں بازو کی جماعتوں کی کامیابی کا نیانس پارٹی کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں کیونکہ سوشل ڈیموکریٹس اور اس کے اتحادیوں کے ووٹ ڈائیں بازو کے اتحاد سے محض صفر اعشاریہ سات فی صد کم ہیں جبکہ نیانس پارٹی نے ایک اعشاریہ پانچ فیصد ووٹ لئے جو روایتی طور پر بائیں کی جماعتوں کو ووٹ دیتے رہے ہیں۔ موجودہ حکمران جماعت سوشل ڈیموکریٹس اگرچہ واضح کامیابی حاصل نہیں کرسکی لیکن پھر بھی 2018 کے انتخابات کی نسبت اس کے ووٹوں میں دو فی صد اضافہ ہوا ہے۔ مزید برآں دارالحکومت سٹاک ہوم میونسپل کونسل، سٹاک ہوم ریجن اور گوتھن برگ ریجن سے ماڈریٹ پارٹی کو شکست سے دوچار کیا ہے اور سولہ سال بعد پھر سے اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ ماڈریٹ پارٹی اگرچہ قومی سطح پر اقتدار میں آجائے گی لیکن مقامی کونسلوں اور ریجنز میں اسے زیادہ تر ناکامی ملی ہے۔

سویڈن میں ماڈریٹ پارٹی کی حکومت سویڈن ڈیموکریٹس کی مددکے بغیر نہیں بن سکتی اور اگر یہ حکومت بن گئی تو تارکین وقت کے لئے سخت قوانین نافذ کرے گی ۔ سویڈش ڈیموکریٹس نے اعلان کررکھا ہے کہ وہ غیر ملکیوں کا سویڈن میں داخلہ بند کردیں گے، سویڈش حکومت کی جانب سے دنیا کے پس ماندہ ممالک کو دی جانی والی امداد بہت کم کریں گے، امیگریشن کے قوانین سخت کریں گے، جرائم کرنے والے تارکین وطن کو ملک بدر کریں گے اور سویڈن کی روایات کا تحفظ کریں گے۔ مستقبل میں ان اقدامات کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ سویڈن میں بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، بڑھتے ہوئے جرائم، شرح سود اور مہنگائی میں اضافہ نئی حکومت کے لئے بہت بڑے چیلنج ہیں۔
واپس کریں