دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فدا حسین کیانی مرحوم
شازیہ کیانی ایڈووکیٹ
شازیہ کیانی ایڈووکیٹ
شازیہ کیانی ایڈووکیٹ

”کہہ رہی ہیں درد میں ڈوبی فضائیں الوداع چارسو چھائی ہیں اشکوں کی گھٹائیں الوداع یہ درودیوار،یہ صحنِ چمن، یہ رونقیں کِس طرح الودع''۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ اس دنیا میں موجود ہر انسان، ہر ذی روح نے ایک نا ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس فانی دنیا میں ہر چیز کی بنیاد ہے ماسوائے انسان کے۔۔۔ انسان جہاں تمام مخلوقات میں سے اشرف ہے وہیں زندگی کے معاملے میں سب سے بڑھ کر عدم یقینی کا بھی شکار ہے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کب کہاں کس حالت میں ساتھ چھوڑ جائے۔ ایک سانس کے بعد اگلا سانس لینا نصیب میں ہے یا نہیں اس کی کوئی گارنٹی نہیں، کوئی ضمانت نہیں۔قدم قدم پر موت کو ساتھ لیے چلنے والا انسان بڑی دور رس پالیسیاں بناتا ہے۔ اپنے مستقبل کو سنوارنے کے جتن کرتا ہے۔ لیکن کون جانے یہ مستقبل دیکھنے کا موقع بھی ملے گا یا نہیں۔۔۔ سامان سو برس کا پل بھر کی خبر نہیں۔

دیکھا جائے تو انسان کی زندگی چند پل کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کے بعد مادی وجود خاک میں مل جانا ہے۔ پیچھے رہ جاتی ہے تو صرف گزاری ہوئی زندگی یعنی طرز حیات۔ یہی وہ طرز حیات ہے جو طے کرتا ہے کہ آپ کے بعد لوگ آپ کو کن الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ اگر آپ نے اچھے اخلاق اور اعلی میعار کے ساتھ ایک بہترین طرز حیات پر مبنی زندگی گزار لی تو یقین کیجیے اس دنیا سے جا کر بھی زندہ رہیں گے۔ کیونکہ وہ تمام اشخاص جن سے آپ کا کبھی نا کبھی واسطہ رہا ہو گا وہ آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کریں گے۔ اور یہی الفاظ آپ کا سرمایہ حیات ہیں۔جانا تو ایک نا ایک دن ہے ہی۔۔۔ تو کیوں نا ایسی زندگی گزاری جائے جو دوسروں کے لیے مثال بن جائے۔دنیا میں بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو کامل طرز حیات رکھتی ہیں۔ جن کا رہن سہن، ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا، بات چیت، لب و لہجہ، اخلاق و تمیز۔۔۔ الغرض شخصیت کا ہر زاویہ کامل اور بے مثال ہوتا ہے۔
اس دنیا میں جو بھی ایا ہے اس نے اپنا کردار نبھانا ہے اور چلے جانا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو معاشرے اور سوسائٹی کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے وہ نہ صرف ایک جاندار کردار نبھا جاتے بلکہ انکی زندگی آنے والی نسلوں کے لیے بھی مشعل راہ ہوا کرتی ہے اور ایسے لوگوں کی خدمات کا اعتراف کرنا لکھاریوں پر فرض کفایہ ہوا کرتا ہے فدا حسین کیانی بھی انہی قدآور شخصیات میں سے ایک تھے شدید بیماری کے عالم میں بھی اپنے ساتھیوں دوستوں اور سیاسی عمائدین کیساتھ میل جول رکھا مہمان نوازی کی اور اخری سانس تک بہادری کیساتھ کینسر جیسے موزی مرض کیساتھ پنجہ ازماء میں رہے اور خود کو ایک مسکراہٹیں بکھیرنے والا، محبت کرنے والا، مہمان نواز اور ملنسار شخص ثابت کیا اخری سانس تک، آزادکشمیر کے شائد ان چند لوگوں میں جو اپنی ذات میں خود ایک سیاسی تاریخ تھییہ شخص تو دنیا سے چلا گیا لیکن سیاست، سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں کے لیے بہت کچھ چھوڑ گیا۔ اور ایک طویل سیاسی عہد، جد و جہد اختتام پذیر ھوگء مجاہد اول کے تربیت یافتہ سیاسی رہنما، اپنی ذات میں ایک انجمن، بھمبر سے تاؤ بٹ،جموں سے سرینگر چلتی پھرتی تاریخ کا ایک اہم باب بند ہوگیا۔

سابق پولیٹیکل ایڈوائزر وزیر اعظم آزاد کشمیر، سابق صدر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن آزادکشمیر فدا حسین کیانی کی زندگی انتہائی مصروف گزری انہوں نے 1985سے مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے آپنی سیاسی زندگی اور عوامی خدمات انجام دینے کے سفر کا آغاز کیا۔مجاہد اول سردار محمد عبد القیوم رحمتہ اللّٰہ علیہ جب 1992ـ91مین وزیراعظم منتخب ہونے تو فدا حسین کیانی گریڈ 19 کی ایک آسامی پر وزیراعظم کے خصوصی عملے کا حصہ تھے۔ سپریم کورٹ ازاد کشمیر نے سردار عتیق صاحب کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی تو متنازعہ بیان کی ذمے داریاں فدا حسین کیانی اور ان کے ساتھی حفیظ الرحمن مرحوم نے قبول کی جس باعث فدا حسین کیانی اور ان کے ساتھی حفیظ الرحمن مرحوم کو توہین عدالت کے جرم میں 6 ماہ قید کی سزا سنائی گئی جو بعد میں حکومت نے معاف کر دی۔یہ مشہور مقدمہ سپریم کورٹ ریکارڈر 1994 کے صفحات 176 تا188 پر شائع ہوا۔
فدا حسین کیانی نے اپنی قیادت کی عزت و وقار کی خاطر بہت کچھ قربان کیا فدا حسین کیانی بلا شبہ ایک بہادر،نڈر اور بلند پایہ خصوصیات کی حامل شخصیت کا مالک تھا۔ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ نواز کے قیام پر مسلم لیگ میں شامل ہوے اور آزادکشمیر کی سیاست میں متحرک ہو کر وزیراعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان کے مشیر مقرر ہوئے۔

فدا حسین کیانی کی سیاسی جدوجہد طویل ہے۔فدا حسین کیانی صاحب کو غذائی نالی اور معدے کے درمیان ٹیومر (کینسر کی ایک قسم) کی تشخیص ہوئی جس کا آپریشن ہوگیا تھا اس دوران بھی کشمیر ہاؤس میں قیام رہا اور تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنما ہو یا جوڈیشنل افسران غرض یہ کہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد انکی عیادت کو پہنچتے رہے فدا حسین کیانی ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر و وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان کے ساتھ1976 سے کام شروع کیا۔فدا حسین کیانی 1976 میں سیکرٹری جنرل جموں و کشمیر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن بنے۔ 1978 سے 1980 تک وہ جموں و کشمیر مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے چیف آرگنائزر رہے۔ 1981 سے 1982 تک صدر جموں و کشمیر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن رہے۔ 1982 سے 1983 تک وہ پاکستان مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سیکرٹری اطلاعات رہے۔ 1983ء سے 1985ء تک آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے۔ 9 سال اپوزیشن کے دور کے بعد جب 1985 میں آزاد کشمیر میں اُن کی قیادت میں مسلم کانفرنس کی حکومت بنی تو 1986 سے 1990 تک فدا حسین کیانی نے جناب سردار سکندر حیات خان کے ساتھ بطورپرائیویٹ سیکرٹری (پریس)، پولیٹیکل سیکرٹری اور بعد عزہ پریس سیکرٹری کام کیا۔ 1992 سے 1996 تک وہ وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر کے سیاسی مشیر رہے
1996 سے 1999 تک آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل رہے۔ 1999 سے 2002 تک وہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل رہے۔ وہ 2002 سے 2005 تک آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے سیکرٹری اطلاعات رہے۔ 2005 سے 2008 تک وہ آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل رہے۔وہ جموں کشمیر لبریشن سیل کے ڈائریکٹر جنرل بھی تھے۔

فدا حسین کیانی نے کشمیر کی سیاست میں کئی سال کے عروج زوال دیکھے یہی وجہ تھی کہ گزشتہ چند مہینوں سے کشمیر ہائوس میں ججز وکلاء سیاست دان غرضیکہ کہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے کہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہو گی کہ وہ اپنے اپ میں ایک انسٹیٹیوٹ ایک ادارہ تھے جنکی سیاسی تربیت مجاہد اول نے کی تھی فدا حسین کیانی ایک عہد ساز شخصیت ہیں، سیاست میں ظرف کا جہاں جہاں نام آتا ہے وہاں فدا صاحب کا بھی ذکر ضرور ہوتا ہے. 77 کی دہائی سے آج تک کئی حکومتی عہدوں پہ فائز رہے. آخری دفعہ سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کے سیاسی مشیر کا فریضہ سر انجام دیا جوڑ توڑ کے بازی گر...سیاست میں کئی دفعہ جیلوں کی ہوا کھا کر بھی اپنے موقف پہ ڈٹے رہنے والے زندگی کے پیچ و خم میں اس قدر مصروف رہے کہ بیماری نے آن لیا فدا حسین کیانی بھٹو دور میں بھی ڈکٹیٹر کی مخالفت میں کھڑے ہوئے، پی این اے کی تحریک میں سردار عبدالقیوم خان کے ولی خان، نواب نثر اللہ خان، مولوی محمود الحق، اور تحریک کے دیگر رہنماؤں کو بھٹو سے ملاقات کے لئیے جمع کرنے میں انکا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ریا اور انہوں نے بڑا جاندار کردار ادا کیا ایسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں بو معاشرے میں اتنا جاندار کردار ادا کرتے ہوئے خوبصورت یادیں چھوڑ جاتی ہیں۔

واپس کریں