دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نیا برطانوی پناہ گزین بل غیر اخلاقی ہے
پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)
پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)
طانوی سرکار ان دنوں دنیا کے دیگر ممالک سے نقل مکانی کر کے آنے والوں، بالخصوص پناہ، یا سیاسی پناہ کے متلاشی غیرملکی باشندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے اور پناہ کے لیے آنے والوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ کنزرویٹیو پارٹی، جسے عرف عام میں ٹوری پارٹی بھی کہا جاتا ہے، برطانیہ کے دائیں بازوکی جماعت ہے، اور ملک کے مراعات یافتہ، اور دولت مند طبقات کی نمائندہ ہے۔ سرکار نے ایک ایسا بل تیار کیا ہے، جسے اینٹی ریفیوجی بل کہا جاتا ہے، اور اسے ان دنوں برطانوی ہاؤس آف لارڈز میں بحث و منظوری کے لیے پیش کر رکھا ہے۔ برطانیہ میں حزب اختلاف کی جماعتیں کے ارکان کی اکثریت اس بل کو نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ غیر قانونی قرار دیتی ہیں۔ اس طرح متنازع اور قانون سے ماورا مائیگریشن بل کو ہاؤس آف لارڈز میں پہلی آزمائش کا سامنا ہے۔

مجوزہ مائیگریشن بل جب ہاؤس آف لارڈز میں بحث کے لیے پیش ہوا تو اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے لیبر پارٹی کے ایک لارڈ نے کہا کہ حکومت برطانیہ پناہ کے نظام میں اصلاحات کے نام پر مزید گند ڈال رہی ہے، اور پناہ کے نظام سے نمٹنے کے لیے عملی طور پر کچھ کرنے کی بجائے اس نظام کو غیر اخلاقی ہی نہیں بلکہ غیر قانونی راہوں کی جانب دھکیل رہی ہے۔ یہ غیر قانونی مائیگریشن بل، جو حکومت کے لیے غیر سرکاری راستوں سے برطانیہ میں داخل ہونے والے تارکین وطن کو حراست میں لے کر ملک بدر کرنا آسان بنائے گا، اس ہفتے ہاؤس آف لارڈز میں اپنے پہلے امتحان کا سامنا کر رہا ہے۔ اس بل میں ایسی دفعات بھی شامل ہیں جو پناہ کے متلاشیوں کی ملک بدری کو روکنے کے لیے انسانی حقوق کی یورپی عدالت کی اہلیت و مداخلت کو محدود کر دیں گی۔

بدھ، 10 مئی کو ہاؤس آف لارڈز میں اس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہو گئی جب ہوم آفس کے وزیر لارڈ مرے کو لارڈز میں طنزیہ فقروں اور شرم کرو جیسے نعروں کا سامنا کرنا پڑا، جب اس نے ہاؤس آف لارڈز میں یہ دلیل دی کہ یہ بل چھوٹی کشتیوں کے ذریعے کراسنگ کرنے والوں کے لیے ایک ہمدردانہ ردعمل ہو گا۔ سابق چائلڈ ریفیوجی لارڈ ڈبس نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ یہ اس ملک کی ساکھ کے لیے بنیادی بات ہے کہ ہم انسانی حقوق کے بارے میں واضح موقف اختیار کرتے ہیں، اور ہم دوسرے ممالک کے لیے معیارات اور روایات طے کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک طویل عرصے سے انسانی حقوق کے معاملوں میں دنیا نے ہماری پیروی کی ہے۔ برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے ممبر لارڈ ڈبس چیکوسلواکیہ کے ان سینکڑوں یہودی بچوں میں سے ایک تھے، جنہیں 1939 ء میں نازی کنٹرولڈ ایریا سے کنڈر ٹرانسپورٹ پر برطانیہ لایا گیا تھا۔

ہوم آفس کے وزیر لارڈ مرے کا کہنا ہے کہ ہم بچوں کو 18 سال کی عمر تک پہنچنے تک یہاں رکھیں گے اور پھر ہم انہیں ملک سے نکال دیں گے۔ اس کے برعکس پچھلی حکومتوں نے کہا تھا کہ نہیں، بچوں کے ساتھ زیادہ انسانی سلوک کیا جائے گا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب ایسا نہیں ہے۔ ایسے بہت سے اہم پہلو ہیں جن میں ہمارا مہاجرین کا نظام کمزوریوں سے بھرا پڑا ہے اور اس بل میں بھی ان کمزوریوں میں سے کسی سے بھی نمٹنے کے لیے واضح لائحہ عمل نہیں بنایا گیا۔ ادھر کینٹربری کے آرچ بشپ، جسٹن ویلبی نے اس بل کو ”اخلاقی طور پر ناقابل قبول اور سیاسی طور پر ناقابل عمل“ قرار دیا ہے اور اس پر دوبارہ غور کرنے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل بین الاقوامی امداد پر برطانیہ کے اخراجات میں کمی تو کرے گا لیکن مہاجرین کے دباؤ سے نمٹنے کے بہانے غریب ترین ممالک کے مجبور اور بے سہارا لوگوں کو بے آسرا چھوڑ دے گا۔ البتہ حسب معمول مارگریٹ تھیچر کے سابق مشیر لارڈ ڈوبز اور ٹوری کیبنٹ کے سابق وزیر لارڈ فورسیتھ نے بحث کے دوران ان کے موقف کو مسترد کر دیا۔

ہاؤس آف لارڈز میں اس بل پر بحث سے پہلے ہوم سکریٹری سویلا بریورمین اور جسٹس سکریٹری الیکس چاک نے غیر منتخب عہدیداروں پر زور دیا کہ وہ ان کے منصوبوں کی حمایت کریں۔ اس کے برعکس کیئر فار کیلیس کے چیف ایگزیکٹو افسر سٹیو سمتھ نے کہا کہ اگر لارڈز ایک منصفانہ سیاسی پناہ کا نظام بنانے میں سنجیدہ ہیں تو وہ پناہ گزینوں کے لیے محفوظ راستے کی حمایت کریں گے، کیونکہ خطرناک کراسنگ کو ختم کرنے اور اسمگلروں کے کاروبار کو ختم کرنے کا یہی واحد ذریعہ ہے۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ حکومتی اراکین پارلیمنٹ نے اس غیر انسانی اور ناقابل عمل بل کو ہاؤس آف کامنز کے ذریعے پیش کیا ہو، لیکن لارڈز کو راستہ بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ محفوظ راستوں کی کمی ہی ہے جو افغانستان اور سوڈان جیسے ممالک کے انتہائی کمزور پناہ گزینوں کو برطانیہ آنے کے لیے خطرناک چھوٹی کشتیوں سے گزرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

برطانوی سرکار اس غیر اخلاقی، غیر قانونی بل کو عوام کی منشا کے طور پر پیش کر رہی ہے، لیکن برطانوی عوام کی بھاری اکثریت اسے کمزور ممالک پر مسلط کردہ سامراجی جنگوں اور حکمران طبقات کے ظلم و ستم سے بھاگنے والے لوگوں کے تحفظ کے حق میں ہیں۔ برطانوی عوام تو چاہتے ہیں کہ ملک میں سیاسی پناہ کے دعوؤں کا اندازہ لگانے کے لیے ایک منصفانہ اور موثر نظام ہو، جو ان کی اقدار کے مطابق ہو، اور عوامی ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کا مناسب استعمال ہو۔

برطانیہ کو سیاسی پناہ کی درخواستوں کی موثر کارروائی سمیت پناہ گزینوں کے مسائل سے متعلق ایک طویل مدتی حل کی ضرورت ہے، تاکہ ایسے لوگ اپنی زندگیوں کی تعمیر نو شروع کر سکیں اور کمیونٹی سپورٹ میں سرمایہ کاری سے اپنی اور دوسروں کی مدد کر سکیں۔ ٹوری سرکار کا پیش کردہ مجوزہ بل چینل کی اموات کی تعداد کو کم کرنے کے لیے کچھ نہیں کرے گا، بلکہ یہ مزید تشدد سے بچ جانے والوں کو غیر منصفانہ طور پر تحفظ سے محروم کر دے گا۔

آئیے ہم سب مل کر آواز اٹھائیں تاکہ برطانیہ میں مہاجرین کو قربانی کا بکرا بنانے اور ثقافتی جنگوں کو بھڑکانے کے بجائے برطانوی سرکار کو مجبور کریں کہ وہ پناہ گزینوں کو ایک منصفانہ سماعت دینے اور تحفظ کے لیے محفوظ راستے کھولنے پر توجہ دے اور ملک میں ایک ایسا پناہ گزین نظام مرتب کرے، جس میں بے بس اور مجبور لوگ برطانیہ پہنچنے کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے پر مجبور نہ ہوں۔


( پرویز فتح برطانیہ کے شہر لیذز میں مقیم ہیں اور برٹش ایروسپیس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں ساوتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں کی تنظیم ساوتھ ایشین پیپلز فورم کورڈینیٹر ہیں اور برطابیہ میں اینٹی ریسزم اور سوشل جسٹس کے لئے سرگرم ہیں)
واپس کریں