دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
قائد اعظم کا ٹیکس گوشوارہ
جعفر حسین، لاہور
جعفر حسین، لاہور
قائداعظم اپنے کمرے کی بالکونی میں بیٹھ کے سگار پی رہے تھے۔ اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا اور قائداعظم کے سینئر ملٹری سیکرٹری اکبر خان اندر داخل ہوئے۔ اس سے پہلے کہ قائد کچھ پوچھتے اکبر خان نے حیرت سے قائد کو دیکھا اور پوچھا ’قائد آپ سگار نوشی کر رہے ہیں آپ کو تو ڈاکٹر نے منع کر رکھا ہے ’۔ قائد یہ سن کر مسکرائے اور جواب دیا‘ وہ تو ڈاکٹر نے فاطی کو کہہ رکھا ہے کہ وہ مجھے تمباکو نہ پینے دے۔ وہ آج بازار گئی ہوئی ہے تو میں نے سوچا اس کے آنے سے پہلے ایک سگار پی لوں تاکہ وہ واپس آ کر اپنی ڈیوٹی پوری کر سکے ’۔ قائد کے اس جواب پر ابھی اکبر خان پوری طرح حیران بھی نہ ہو پائے تھے کہ قائد نے پوچھا‘ اکبر تم کیسے آئے ہو۔ ’اکبر خان نے اپنے ہاتھ میں تھامے کاغذوں کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ یہ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے سے موصول ہوئے ہیں اور آپ کی آمدنی کے گوشوارے سے متعلق کچھ معلومات مانگی گئی ہیں۔

یہ سن کر قائد بہت خوش ہوئے کہ پاکستان میں ریاستی ادارے اپنا کام بخوبی انجام دے رہے ہیں ہیں اور اس سلسلے میں گورنر جنرل تک کے لیے کوئی استثنا نہیں ہے۔ قائد نے اکبر خان سے پوچھا ’اکبر تم کیوں یہ کاغذات لے کر آئے ہو، خورشید کہاں ہے۔‘ اکبر خان نے قائد کو یاد دلایا کہ ان کے سیکرٹری خورشید حسن کل ہی ان کے حکم کے مطابق کشمیر چلے گئے ہیں اور یہ کہ ابھی نئے سیکریٹری کی تعیناتی عمل میں نہیں آئی۔ قائد نے اکبر خان کو ہدایت کی کہ یہ نوٹس ان کے وکیل کو بھجوا دیا جائے۔

کچھ عرصے کے بعد قائد کے سٹاف نے انہیں بتایا کہ ان کے وکیل ٹیکس سے متعلقہ معاملات پر ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ پانچ بجے کا وقت دے دیا گیا۔ وقت مقررہ پر وکیل قائد سے ملنے آئے اور یوں گویا ہوئے ’قائد آپ کے ٹیکس گوشوارے کے سلسلے میں پچھلے دنوں ایک نوٹس موصول ہوا تھا میں نے اس سلسلے میں تمام مطلوبہ معلومات متعلقہ افسر کو فراہم کر دی ہیں۔ ‘ یہ کہہ کر وکیل صاحب خاموش ہو گئے۔ قائد نے پوچھا ’اچھا تو تم مجھے یہ بتانے کے لئے آئے ہو؟‘ وکیل نے قدرے توقف سے جواب دیا ’نہیں۔ قائد دراصل انکم ٹیکس افسر کہہ رہا ہے کہ وہ آپ کی ڈیکلیئرڈ آمدنی تسلیم نہیں کر سکتا۔‘ قائد نے حیرت سے پوچھا ’کیوں؟ میں نے تو ہمیشہ اپنی آمدنی کا مکمل حساب کتاب رکھا ہے اور اس کے مطابق ہی انکم ٹیکس گوشوارے میں اپنی آمدنی ظاہر کرتا ہوں۔ کیا اس مرتبہ حساب کتاب میں کوئی غلطی ہے۔ ‘ وکیل نے بتایا کہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ ’تو پھر؟‘ اب قائد کی آواز میں غصہ جھلکنا شروع ہو گیا تھا۔

وکیل نے کہا ’قائد اس نے نوٹس میں لکھا ہے کہ آپ کی ڈیکلیئرڈ آمدنی بہت کم ہے اور آپ کا معیار زندگی اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔‘ قائد جوش میں آ کر بولے ’کیا اسے نہیں معلوم کہ پاکستان آ کر ہم وکالت نہیں کر رہے اور ہم نے اپنی انڈیا کی تمام جائیداد بیچ دی ہے جس سے ہماری کرائے کی آمدنی بہت کم رہ گئی ہے؟ لیکن ہمارے پاس اتنی دولت ہے کہ میں اور فاطی نہ صرف اس میں اطمینان سے گزارا کر سکتے ہیں بلکہ ہم اس میں سے ایک خطیر رقم عطیات میں بھی دیتے ہیں۔

‘ وکیل نے کہا ’قائد یہ سب تو میں نے اسے بتایا ہے۔ وہ آپ کی بہت عزت کرتا ہے بلکہ آپ سے عقیدت بھی رکھتا ہے۔ ‘ ’تو پھر؟‘ قائد نے وکیل کی بات کاٹتے ہوئے ہوئے پوچھا۔ وکیل نے سراسیمگی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا ’قائد وہ کہتا ہے کہ اگر وہ آپ کی ڈیکلیئرڈ آمدنی کو تسلیم کر لے گا تو اس کے افسران بالا اس سے جواب طلب کریں گے۔‘ قائد نے حیرت سے پوچھا ’لیکن وہ تو ایسا مکمل جانچ پڑتال کے بعد کرے گا پھر کیسی جواب طلبی؟‘ وکیل ہچکچایا۔ اپنی سوکھی زبان ہونٹوں پر پھیری اور قائد سے نظریں چراتے ہوئے بولا ’قائد وہ کہتا ہے کہ محکمہ کا عام دستور یہی ہے کہ کسی کی بھی ڈیکلیئرڈ آمدنی تسلیم نہ کی جائے اور اگر کوئی افسر ایسا کرے تو اس کے عام معنی یہ لیے جاتے ہیں کہ اس نے رشوت لے کر ایسا کیا ہے۔ ‘

یہ سننا تھا کہ قائد اپنی کرسی سے اٹھے اور چنگھاڑتے ہوئے بولے ’کیا وہ محمد علی جناح کو نہیں جانتے، کیا انہیں نہیں معلوم کہ محمد علی جناح نے نہ کبھی رشوت دی ہے نہ لی ہے۔ جناح کو تو برطانوی وزیراعظم نے جب متحدہ ہندوستان کا وزیراعظم بننے کی پیشکش کی تو اس نے اسے رشوت جانا اور اس کے منہ پر کہہ دیا کہ آئندہ تمہیں ملنے کبھی نہیں آؤں گا۔‘ وکیل نے کہا ’قائد وہ یہ جانتا ہے۔ لیکن وہ یہ کہتا ہے کہ ٹیکس گزار کی شہرت اور اس کے کھاتوں کے صحیح ہونے سے زیادہ محکمانہ طور اطوار اہم ہیں اور ان کے اطلاق میں چھوٹے بڑے کی کوئی تخصیص نہیں کی جاتی۔‘ اب چپ ہونے کی باری قائد کی تھی۔

قائد نے میز پر رکھے پانی کے جگ سے اپنے لیے گلاس میں پانی بھرا اور وکیل کو بھی اشارے سے پانی پینے کی پیشکش کی۔ وکیل نے بے تابی سے اپنے لیے گلاس میں پانی بھرا اور ایک ہی گھونٹ میں آدھا گلاس خالی کر دیا۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد قائد نے وکیل سے پوچھا ’اچھا وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟ وکیل نے جواب دیا‘ قائد وہ آپ کی پاکستان بننے سے قبل کی آمدنی کو آپ کی ہسٹری قرار دیتے ہوئے اس سال بھی اتنی ہی آمدنی کی تخمین کرنا چاہتا ہے۔ ’قائد نے کہا‘ لیکن اس سے تو میری تذلیل ہوگی، لوگ سمجھیں گے میں نے غلط گوشوارہ داخل کیا۔ ’وکیل نے کہا‘ قائد ہمارے انکم ٹیکس کے محکمے میں سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہاں یہ کوئی انہونی نہیں۔ پچھلے سال لیاقت علی خان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ ’

قائد کچھ دیر سوچتے رہے اور پھر وکیل سے پوچھا ’کیا تم نے شریف الدین پیرزادہ صاحب سے مشورہ کیا۔ وہ ہمیشہ ہر معاملے کا کوئی نہ کوئی حل نکال لیتے ہیں۔‘ وکیل نے کہا ’جی قائد۔ میں ابھی ان ہی سے مل کر آ رہا ہوں۔ ‘ ’تو وہ کیا کہتے ہیں؟‘ قائد نے پوچھا۔ وکیل نے کہا ’شریف الدین پیرزادہ تو کہتے ہیں کہ ہمیں گوشوارہ جمع ہی نہیں کروانا چاہیے تھا۔ اگر گوشوارہ جمع نہ کروایا جاتا تو کوئی بھی نہ پوچھتا۔ ‘ قائد نے تلملا کر کہا ’لیکن یہ تو قانون کی سراسر خلاف ورزی ہوتی۔‘ وکیل نے کہا ’پیر زادہ صاحب کہتے ہیں جو کچھ انکم ٹیکس افسر کر رہا ہے وہ کون سے قانون کے مطابق ہے؟‘ قائد نے پوچھا ’لیکن اگر یہ بات ظاہر ہو جاتی تو؟‘ وکیل نے کہا کہ پیرزادہ صاحب کہتے ہیں اس صورت میں ہم افسر سے مل کر ای گریڈ اسیسمنٹ کروا لیتے۔ قائد نے حیرت سے پوچھا ’لیکن یہ کیسے ممکن ہوتا؟‘ وکیل نے جھجکتے ہوئے سرگوشی میں کہا ’قائد یہ اب بھی ممکن ہے۔ تین آپشنز ہیں ہمارے پاس، میرے قائد۔‘ ’وہ کیا؟‘ قائد نے پوچھا۔ وکیل صاحب بولے ایک۔ رشوت، دو۔ آپ کی سفارش سے اس افسر کی ترقی اور تین۔ ایوب خان کی سفارش۔

یہ سننا تھا کہ قائد کرسی سے کھڑے ہو گئے اور ایک اضطراری کیفیت میں کمرے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک کبھی تیز اور کبھی آہستہ چلتے رہے۔ کچھ دیر بعد جب طبیعت کچھ سنبھلی تو وکیل سے کہا ’یہ تین باتیں جو تم نے بتائیں ہیں ان میں سے دو پر تو عمل کرتے ہوئے میری پوری زندگی گزر گئی۔ میرا بدترین دشمن بھی مجھے ان باتوں کے مرتکب ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا۔ جہاں تک ایوب خان کی سفارش کا سوال ہے، جب سے پاکستان بنا ہے میں سرکاری افسران اور افواج پاکستان کو اپنے اپنے حلف کی پاسداری کی تلقین کر رہا ہوں۔‘ قائد نے اپنے سر پر سے جناح کیپ اتار کر میز پر رکھی اور وکیل سے مخاطب ہو کر پوچھا ’یہ عام پاکستانی اس سارے معاملے سے کیسے نبٹتا ہے؟‘ وکیل نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا ’قائد عام آدمی کی کسی بات پر پاکستان میں بھروسا نہیں کیا جاتا۔ وہ جو کہتا ہے اسے جھوٹ سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ میں سچ بول رہا ہوں یا میں جھوٹ نہیں بولتا تو لوگ اس پر ہنستے ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طرح یہاں اپنا گزارا کر رہا ہے۔ اور بس۔‘

قائد نے یہ سن کر نہایت رنجیدگی سے کہا ’لیکن میں نے پاکستان اس لیے تو نہیں بنایا تھا۔ اگر کسی نہ کسی طرح ہی رہنا ٹھیک ہوتا تو میں اپنی اکلوتی اولاد سے تو دور نہ ہوتا۔ اگر میرے پاکستان میں مجھے ہی جھوٹا سمجھا جانا تھا تو انگریز میرے لیے کیا برا تھا جو میری دیانت داری کا برملا اعتراف کرتا تھا۔ ‘ وکیل کے پاس قائد کی ان باتوں کا کوئی جواب نہ تھا لہذا وہ سر جھکا کر کرسی پر بیٹھے رہے۔ ادھر قائد اپنی کرسی پر کندھے جھکائے نہایت کرب کے عالم میں بیٹھے کسی گہری سوچ میں مستغرق تھے۔ وکیل صاحب چند منٹوں کے بعد اٹھے اور قائد کو اسی کیفیت میں چھوڑ کر کمرے سے باہر آ گئے۔ قائد سے الوداعی مصافحہ کی ان میں ہمت نہ تھی۔

بشکریہ ہم سب
واپس کریں