دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مذہب کے حوالے سے مختلف تصورات
عبدالستار (میاں چنوں)
عبدالستار (میاں چنوں)
23 مارچ کو ہر سال یوم الحاد جسے ایتھیسٹ یا الحاد و تشکیک کا دن بھی کہا جاتا ہے منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر انسان کسی نہ کسی فلسفے سے جڑا ہوتا ہے، جس کو جو فکر اچھی لگتی ہے یا اس کا ذہن تسلیم کر لیتا ہے اسے اپنی زندگی میں شامل کر لیتا ہے۔ جن معاشروں میں انسان کے انفرادی و نجی حق کو تسلیم کرلیا گیا ہے اور انسانی چارٹر کا حصہ بنا دیا گیا ہے وہاں ہر کوئی اپنے حساب سے کسی بھی مذہب یا طرز حیات کو اختیار کر سکتا ہے، ریاست کا اس کے نجی معاملات سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا بلکہ ہر کسی کے نجی حق یا رائے کو عزت دینا ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہو جاتا ہے۔

اتنا ظرف و حوصلہ یا ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا کلچر کوئی ایک دو دن کی کہانی نہیں ہوتی بلکہ صدیوں کے ارتقائی تسلسل اور خونی جنگ و جدل کے نتائج بھگتنے کے بعد معرض وجود میں آتا ہے۔ انہوں نے ماضی کے تلخ تجربات سے سیکھا ہوتا ہے کہ اگر انسانوں کا طرز زندگی بہتر بنانا ہے اور ریاستوں کو معاشی طور پر مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے تو ریاست کو لوگوں کے نجی معاملات میں مداخلت کرنے سے پیچھے ہٹنا ہوگا۔ ان کے بیڈروم میں گھسنے کی بجائے ریاستی قوانین کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ کوئی کسی کی انفرادیت کو پامال کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ ہر کوئی اپنے حساب سے جیے اور دوسروں کو جینے دے۔ ریاست تمام مذاہب سے بالاتر ہوگی اور اس کا کسی بھی مذہب سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ جب ریاست کا کسی مذہب سے تعلق نہیں رہا تو لوگ اپنے حساب سے کوئی بھی طرز حیات اپنا لیں، ریاست اسے تحفظ دینے کی ذمہ دار ہے۔ جہاں جہاں لوگوں کو فکری آزادیاں نصیب ہوئی ہیں وہاں امن و آشتی کا راج ہے اور لوگ بلا خوف اپنے اپنے طریقوں سے جی رہے ہیں اور جن معاشروں میں ابھی بھی قدغنیں ہیں وہاں ظلم و جبر اور چھینا چھپٹی عروج پر ہے۔

لوگ مذہب و فرقہ کے نام پر ایک دوسرے کو قتل تک کر دینے کو معیوب یا ظلم نہیں سمجھتے اور ان کی نظروں میں انسانی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ایسے معاشروں میں مختلف مذہبی گروہ اپنے اپنے فرقے کے پیرو کاروں کو مذہب کے نام پر لوٹتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیزی کرتے ہیں۔ سادہ لوح مسلمان ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں اور بانیان فرقہ کا “غلہ کلچر” چلتا رہتا ہے۔ فرقے بنانے کے پیچھے اپنے اپنے راشن پانی کا بندوبست ہوتا ہے اور لوگ اس مایا جال کو مذہبی فریضہ سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ یوم الحاد ان لوگوں سے اظہار یکجہتی یا ان کی فکر کو عزت دینے اور ان کے نجی حق کو تسلیم کرلینے کے طور پر منایا جاتا ہے جو تمام مذاہب سے اوپر اٹھ کر اپنے حساب سے جینا چاہتے ہیں۔

الحادی فکر کے مطابق انسانی فہم و فراست آج اس سطح تک آن پہنچی ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنے فیصلے خود لے سکے اور اپنا طرز حیات اپنی فہم کے مطابق تشکیل دے سکے۔ اسے اب کسی مذہبی ضابطوں کی حاجت نہیں رہی اور اسے اپنے اڑوس پڑوس کا خیال رکھنے کے لیے کسی بھی مذہبی اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ بطور انسان ایک دوسرے کا خیال رکھنا، ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہونا انسانی فریضہ ہے جسے نبھانا ہر ذی شعور کا خاصہ ہونا چاہیے۔ یوں کہہ لیں کہ الحادی فکر کسی بھی ڈکٹیٹینگ اتھارٹی پر یقین رکھنے کی بجائے انسانی فکر کو ترجیح دیتی ہے، جو سائنس کی بدولت بہت حد تک نکھر چکی ہے اور آنے والے وقتوں میں بہتر سے بہتر ہوتی چلی جائے گی۔ ان کے خیال میں مذہب انسان کا اس وقت کا ابتدائی ورثہ ہے جب سائنس کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا اور آج جب سائنس نے بہت سارے توہمات سے پردہ اٹھا دیا ہے تو مذہب کی حیثیت غیرمتعلقہ سی ہو کر رہ گئی ہے۔ اسی لیے وہ “لامذہب” رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اب کچھ لوگ تو مذہب اور خدا پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتے وہ ایتھیسٹ کہلاتے ہیں۔ اور جن لوگوں کا ذہنی سفر ابھی جاری ہے اور ان کے حساب سے لمحہ موجود کا سارا علم اور معلومات خدا کا اتا پتہ بتانے سے قاصر ہے، اور وہ اپنی فکر کے آگے فل سٹاپ لگانے کی بجائے کھوج کے سفر کو جاری رکھنے پر ترجیح دیتے ہیں انہیں اگناسٹک کہا جاتا ہے۔میرے خیال میں ہر ذی شعور یا زندگی کا کوئی معمولی سا طالب علم بھی ذہنی طور پر اگناسٹک ہی ہوتا ہے اور وہ اپنے ماحصل کے آ گے فل سٹاپ لگانا پسند نہیں کرتا۔اس پروسیس میں اس کا تکبر نہیں بلکہ بے بسی کا اظہار ہوتا ہے اور وہ عاجزی و انکساری سے اپنے سفر کو جاری رکھنے پر ترجیح دیتا ہے۔
ہماری مذہبی روایت میں معتزلہ فکر بھی تو تشکیک ہی کا شاخسانہ تھی، اسی لئے تو راندہ درگاہ ٹھہری اور آج تک بھی دربدر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم ہر نئی فکر سے سہم جاتے ہیں اور ہمیں اپنی فکری بقا کے لالے پڑ جاتے ہیں، اسی لئے تو مذہب آج تک خطرے سے دوچار ہے۔

حیرت کی بات ہے اگر مذہب مذہبی ممالک میں بھی خطرات کی زد میں ہے تو پھر محفوظ کہاں ہو گا؟ اور اگر آج تک خطرات میں گھرا ہوا ہے تو اس کے ذمہ داران کون ہیں؟ اب یہ انسانوں کے ذہنی پڑاؤ ہیں اور سب انسانوں کے ذہنی نتائج انسانوں کا مشترکہ ذہنی ورثہ ہوتے ہیں جن سے آ نے والی نسلیں استفادہ کرتی ہیں۔ ان تصورات سے بہرحال اختلاف ضرور کیا جا سکتا ہے مگر تشکیک کے وائرس کو پھیلنے سے کسی طور بھی روکا نہیں جاسکتا اور گلوبل ولیج کے دور میں تو ایسا کرنا محال ہے۔ کیونکہ علم چوغوں، دستاروں اور مذہبی سلسلوں کی دسترس سے نکل کر انٹرنیٹ، گوگل اور چیٹ “جی پی ٹی” کی بدولت لوگوں کی فنگر ٹپس پر منتقل ہو چکا ہے۔تمام واہمے،توہمات،تاویلیں اور لفظی فریب چھٹنے لگے ہیں اور وہ سب جس پر کچھ لوگوں کی اجارہ داری تھی، مٹھی میں بند ریت کی طرح کھسکنے لگا ہے۔بس ذرا سا بٹن دبانے اور اسکرین پر نظریں جما نے کا تکلف درکار ہوتا ہے۔

بہرحال مہذب معاشرے انسانوں کو ترجیح دیتے ہیں، وہ انسانوں کو سماج کا قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں اور انسانی جان کے تحفظ پر کسی بھی قسم کا سمجھوتا نہیں کرتے۔ اور ہم انسان کوصرف مذہبیت کے آئینے میں دیکھتے ہیں اور بطور مسلمان ہی قبول کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، باقی کسی بھی روپ میں ہمیں کوئی انسان گوارا ہی نہیں ہے۔ روایتی معاشروں میں زندگی کے معصوم سوالوں پر مذہبی گرفت اس قدر سخت ہوتی ہے کہ بہت کچھ ان کہا، ان سنا اور ان سمجھا رہ جاتا ہے۔ ذہنوں میں بہت کچھ ہوتا ہے مگر ہونٹوں پر نہیں لایا جا سکتا۔ ایسا معاشرہ بھی کیسا معاشرہ ہوگا جہاں بہت کچھ صرف خوف کی وجہ سے ذہن کے نہاں خانوں میں ہی دفن ہو جاتا ہو؟ جہاں ذہنی ابیوز کے تو ہزاروں طریقے ہوں مگر ذہنی نشونما کا کوئی بندوبست نہ ہو؟ ایسے معاشرے ذہنی طور پر بیمار ہوتے ہیں جہاں کوئی بھی کلٹ یا ہجومی لیڈر ایسے ہجوم کو اپنی طاقت بڑھانے کے لئے استعمال کرتا رہتا ہے۔ ابھی ہمارا معاشرہ نارمل سطح تک نہیں پہنچ پایا ہے، زندگی کے اکثر و بیشتر معاملات پر حساسیت کا شکار ہے۔ جہاں کچھ بھی کہنے کے لئے درجنوں بار سوچنا پڑے وہاں حقیقتیں زمین بوس اور ذہین لوگوں کے ذہنوں میں ہی دفن ہو جاتی ہیں۔

اسی لیے جہاں آج بھی انسانی زندگیوں پر جبر کا کٹھن پہرا ہے وہاں ذہنی امراض کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے، ذرا سی بات پر ہجوم بھڑک اٹھتا ہے اور کسی کو بھی حرمت مذہب اور جذبہ جنت سے سرشار ہو کر کے بے دردی سے مار ڈالتا ہے۔ ہجومی نفسیات ایک طرح کا ذہنی عارضہ ہوتا ہے، اس کیفیت میں ہر انسان خود کو کامل ترین سمجھنے کے واہمے کا شکار ہو جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم تو ابھی درجہ انسانیت سے ہی کوسوں دور ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے میں شاید صدیاں درکار ہوں کہ انسانی ذہنوں پر سے جبر کا تسلط چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو اور کتنا بھی مقدس ہو ختم ہو جانا چاہیئے۔انسان عقل رکھنے والا جانور ہے اور اس کی فہم اس حد تک کشادہ ہو چکی ہے کہ وہ بغیر کسی جبری بندوبست کے اپنا شعور اپلائی کر کے کسی بھی متبادل اور بہتر نتیجے پر پہنچ سکتا ہے، بس شرط آزاد ماحول کا دستیاب ہونا ہے جہاں سوچوں پر کسی بھی قسم کا کوئی جبری پہرہ نہ ہو۔

بشکریہ ہم سب
واپس کریں