دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جنرل قمر جاوید باجوہ کا ایک مشہور انٹرویو
شاہد میتلا
شاہد میتلا
یں دو فروری کو جنرل قمر جاوید باجوہ کے فرسٹ کزن اور اپنے قریبی دوست چوہدری نعیم گھمن کی تیمارداری کے لیے ان کے گھر گیاکچھ ہی دیر کے بعد سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی تشریف لے آئے۔ابتدائی گپ شپ کے بعد کہنے لگے کہ آپ کے سوالات مجھ تک پہنچتے رہےہیں۔آج روبرو پوچھ لیں اور پھر یہ ملاقات طویل انٹرویو میں تبدیل ہوگئی۔میڈیا پر گفتگو شروع ہوئی تو جنرل باجوہ کہتے ،آج کل حامد میر اور طلعت حسین میر ے خلاف ہیں۔حامد میر بہت جھوٹے ہیں۔ حامد میر نے نسیم زہرا کے حوالے سے بھی جو بات کی کہ اس نے مجھے این ڈی یو میں شٹ اپ کال دی ہے جھوٹ ہے۔وہ خاتون ہیں وہ مجھے کیا شٹ اپ کال دے سکتی ہیں۔پاکستان میں تین لوگ ” عمران خان ،شیخ رشید اور حامد میر "سب سے بڑے جھوٹے ہیں ۔ طلعت حسین کو لگتا ہے کہ میں نے اسے نوکری سے نکلوایا تھا۔طلعت حسین کو میں نے نہیں جنرل فیض نے نوکری سے نکلوایا تھا۔میں نے تو طلعت کو نوکری دلوائی تھی۔طلعت جب پہلی بار فارغ ہوا تو وہ میرے کزن انجم وڑائچ کو لے کر میرے پاس آیا تو میں نے جنرل فیض کو کہہ کر اس کی نوکری لگوائی۔

میں نے کہا مرتضیٰ سولنگی ، نصرت جاوید وغیرہ کو آپ نے چینل سے نکلوایا تھا؟ کہتے بالکل نہیں ،مرتضیٰ سولنگی کو پہلے نہیں جانتا تھا ڈیڑھ سال سے انہیں جاننا شروع ہوا ۔پھر میں نے سوال کیا آپ نے ابصارعالم کو گولی مروائی ؟ کہتے آپ ایک انسان کو قتل کرنا معمولی سمجھتے ہیں، میں نے قبر میں نہیں جانا ،میں نے آ ج تک کسی بے گناہ کو مارنے کا حکم نہیں دیا۔میں نے کہا وہ آپ پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے آپ کو آرمی چیف بنوانے میں مددبھی کی اور آپ نے ان پر پھر بھی گولی چلوائی؟ جنرل باجوہ نے جواب دیاابصار کو گولی میں نے نہیں مروائی۔میں نے فوٹیج دیکھی تھی حملہ آور کے ہاتھ میں چھوٹا سا ٹی ٹی پسٹل تھا،حملہ اناڑی پن سے کیا گیا تھا۔میں ایسا کیوں کرتا ۔ میں نے کہا پھر جنرل عرفان ملک نے یہ کروایا تھاکیونکہ ابصار عالم نے ان کی تصویر ٹویٹر پر لگائی تھی؟ کیاانہوں نے یہ کام غصے میں کیا ہوگا؟ کہا کہ میرے علم میں نہیں ہے ہو سکتا ہے نیچے کے لیول پر کسی کو غصے آگیا ہو اور اس نے یہ کام کیا ہو۔میں تو ا سد طور کو بھی نہیں جانتا تھامجھے اسد طور کے واقعہ کابھی اگلے دن پتہ چلا تھا ۔آرمی چیف کو ہرچیز کی خبر نہیں ہوتی، اس کے کرنے کے اوربہت کام ہوتے ہیں۔کہا کہ مطیع اللہ جان والا واقعہ ایجنسی نے بھونڈے طریقے سے کیا تھا،میں نے اس پر جنرل فیض کی کلاس لی ۔ پھر مطیع اللہ جان کو چھڑوایا۔

مجھ پر اعظم سواتی اور شہباز گل کو ننگا کرنے کا بھی الزام غلط لگایا گیا۔میں ساٹھ باسٹھ سال کا ہوں ۔ میں اس عمر میں کسی کو ننگا کرواؤں گا؟ ستر سال کے بزرگ اعظم سواتی کو ننگا کیسے کرسکتا ہوں یہ بھی بکواس ہے۔ مجھ پر شہباز گل کو ننگا کرنے کا الزام بھی غلط ہے۔میرا ان چیزوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔میں نے قبر میں بھی جانا ہے لیکن اعظم سواتی نے مجھے باسٹرڈ تک لکھ دیا۔پولیس اور ایف آئی اے بھی ایسے معاملات میں اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں۔میں نے پوچھا اعظم سواتی تو ایجنسیوں پر الزام لگاتے ہیں؟ جواب دیا، بعض اوقات ایجنسیوں میں شاہ سے زیادہ شاہ سے وفادار بننے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ نچلے لیول پر ہوتا ہے۔بہر حال میرا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ کہا کہ ایمان مزاری نے پوسٹر لگا یا جنرل باجوہ بے غیرت ہے تواس پر جوانوں کو غصہ آیا ۔ ایک میجرنے کہا کہ سر آپ بے غیرت ہیں۔ ہم اس کو فکس کریں گے تو میں نے منع کردیاکہ نہیں بس قانونی طریقے سے نمٹیں اوراس ایشو کو ختم کردیں۔میں ہر طرح کی تنقید برداشت کرتا تھا لیکن ادارے کی عزت کا بھی سوال ہوتا ہے۔ پھر ایمان مزاری کے خلاف جی ایچ کیو نے باقاعدہ ایف آئی آر درج کروائی۔

جسٹس اطہر من اللہ کی بیٹی ایمان مزاری کی دوست ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ایمان مزاری کو ضمانت دے دی۔اس کے بعد ہم نے جان بوجھ کر اس کیس کی پیروی نہیں کی تاکہ معاملہ وہیں ختم ہوجائے۔فوج اور فوجی افسروں کے خلاف جو مرضی کہہ دیں الزام لگا دیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔فوجی افسر جواب بھی نہیں دے سکتے ۔ججوں کے بارے میں بات کریں گے تو وہ جواب دے لیتے ہیں۔لیکن ہمارے پاس ایسا کوئی آپشن نہیں ہے۔پاکستان میں ہتک عزت کے قوانین کمزور ہیں۔

میں نے کہا آپ نے جنرل عرفان ملک کو آئی ایس آئی سے اس لیے ہٹایا کہ انہوں نے مریم نواز کو سمیش کرنے دھمکی دی تھی؟ کہتے ،میں نے نہیں ان کو جنرل فیض نے ہٹایا تھا۔جنرل فیض ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی سی دونوں کا کام خود کرنا چاہتے تھے۔میں نے پوچھا مریم نواز والا واقعہ کیسے ہواتھاکس نے دروازے توڑنے کا حکم دیا تھا؟ انہوں نے کہا یہ حکم میں نے نہیں دیا تھا، بریگیڈئیر حبیب اس وقت سیکٹر کمانڈر تھے۔کیپٹن صفدر نے مزارِ قائد پر نعرے بازی کی تو عوام ،فوجی جوانوں اور میڈیا کا دباؤ تھا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائےتو جنرل فیض نے مقدمہ درج کرنے کا کہا تھا مگر نچلے لیول پر کچھ زیادہ ہوگیا۔پولیس نے جب ریڈ کیا تو کیپٹن صفدر اور مریم نواز الگ الگ کمروں میں تھے وہ دونوں ایک کمرے میں نہیں تھے۔

میں نے کہا آپ کو اس پر نواز شریف نے فون کیایا کوئی شکایت کی ؟ کہتے نہیں، نواز شریف نے فون کیا نہ کوئی شکایت کی۔ہم نے ذمہ دار افسر کو ہٹا دیا تھا۔ میں نے سوال کیا آپ نے کہا تھا کہ شیو کرتے ہوئے آپ صدیق جان کو سنتے ہیں؟ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا تھا کہ پاکستان کے آرمی چیف کا انٹیلیکٹ لیول اتنا پست ہے؟ اس پر جنرل باجوہ ہنسے اور کہا کہ ہاں میں نے صدیق جان کو کہا تھا مجھے کسی نے اس کا وی لاگ بھیجا تھاتو شیو کرتے ہوئے سنااور یہی فارغ وقت ملا۔ویسے بھی جب آپ دباؤ میں ہوتے ہیں تو آپ وہی بات سننا چاہتے ہیں جو آپ کے حق میں ہواور آپ کے مخالف کے خلاف ہو۔بعض اوقات آپ کسی کی حوصلہ افزائی بھی کررہے ہوتے ہیں۔کچھ یوٹیوبرز میرے پاس آئے ہوئے تھے تو اس وقت صدیق جان کویہ کہا تھا۔

میں نے کہا اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے صحافی کیسے عمران خان کے کیمپ میں چلے گئے اور ایسے بھی جن کو بنایا ہی فوج نے تھا؟کہتے ،بالکل ہم نے کچھ صحافیوں کو بنایا ان کو ہم خبریں بھی دیتے تھے،ان سے پروگرام بھی کرواتے تھے۔ ہوا یہ کہ جب فوج کی ن لیگ کے ساتھ لڑائی شروع ہوئی تو ہمیں ایسے صحافیوں کی ضرورت تھی جو ان کے خلاف بات کریں یا ان کے مخالف ہوں۔اسی طرح اے آر وائی کی ہمیں اس لیے ضرورت تھی کہ وہ ہماری بات کرتا تھا۔چوہدری غلام حسین اور صابر شاکر کو تو میں فیلڈ میں بھی ساتھ لے گیا۔جب فوج نے اپنی پالیسی تبدیل کی تو ہمیں ایسے صحافیوں کو آہستہ آہستہ بتانا چاہیے تھا۔ آہستہ آہستہ ان کا بیانیہ بدلنا چاہیے تھا اور ان کو آہستہ آہستہ تبدیل کرتے لیکن ہم نے یہ نہیں کیااور ہم نے ایک دم اپنی سائیڈ بدل لی۔اس سے وہ وہیں پر رہ گئے۔دوسرا عمران خان جھوٹ بولنے میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔وہ بہت چالاک آدمی ہیں اور جھوٹ جھوٹ بار بار بولتے ہیں اور لوگ اس پر یقین کرلیتے ہیں۔

اوریا مقبول جان کا ذکر ہوا تو جنرل باجوہ ہنسے اور کہا کہ وہ بھی بہت جھوٹا آدمی ہے۔پہلے اس کو میرے بارے میں خواب میں بشارت ہوتی تھی اور اب میری مخالفت کرتا ہے۔ارشاد بھٹی سے شناسائی کے ذکر پر جنرل باجوہ کہتے اس کو میں نے جیو میں نہیں رکھوایا تھا۔ ہوا یوں کہ ایک دن میرے سسر جنرل اعجاز امجد کہتے تمہیں اپنے دوست کے ہاں ڈنر پر لے کر جانا ہے۔ جب ہم اسلام آباد ان کے دوست کے گھر پہنچے تویہ صدرالدین ہاشوانی کا گھر تھا۔میں اس وقت میجر جنرل تھا۔وہاں صدرالدین ہاشوانی نے ارشاد بھٹی کا تعارف کروایا کہ وہ ہمارا میڈیا کا سیٹ اپ دیکھتا ہے۔ پھر اس کے بعد ارشاد بھٹی میرے پاس آنا شروع ہوگئے۔جب میں کورکمانڈر بنا تب بھی میرے پاس باقاعدگی سے آتے رہے۔

میں نے پوچھا میر شکیل الرحمان کو جیل کس نے بھجوایا تھا؟ کہتے ،میر شکیل الرحمان کو عمران خان نے جیل میں ڈلوایا تھا۔میں نے میر شکیل الرحمان کو جیل سے نکلوایا۔ میں نے عمران خان سے کہا تھا کہ میر شکیل الرحمان کینسر کا مریض ہے وہ جیل میں ہی مر جائے گاتو پھر اس نے بات مانی۔میری جنرل باجوہ سے ملاقات کے وقت میڈیا پر شیخ رشید کی گرفتاری کی خبر چل رہی تھی ۔جنرل باجوہ کہتے شیخ رشید گرفتار ہوگیا ہے اس کو کیوں گرفتار کرلیا، وہ تو بالکل زیرو ہے۔میں نے کہا وہ تو جی ایچ کیو کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں اور خود بھی بتاتے ہیں۔ جواب دیا، وہ کوئی جی ایچ کیو کے قریب نہیں ، وہ ایسے ڈینگیں مارتا ہے۔جب میں گورڈن کالج گیا تو اس سے چھ سال پہلے شیخ رشید کالج سے جا چکا تھا۔میں تو اس کو زندگی میں صرف دو دفعہ ملا ہوں۔ایک دفعہ وہ فروری 2022میں میرے پاس آیا تھا اور کہتا کہ عمران خان سے حکومت نہیں چل رہی کچھ کریں۔شیخ رشید جیسے جھوٹے آدمی سے بھلا میں کیوں ملوں گا اس کا کوئی انٹلیکٹ لیول نہیں۔بالکل فارغ ہے اورمسلسل جھوٹ بولتا ہے اورایسے ہی نجومیوں کی طرح تاریخیں دیتا ہے۔ جنرل باجوہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ملاقات کے دوران جب میں جنرل باجوہ سے سوالات پہ سوالات کر رہا تھا تو انہوں نےہنستے ہوئے کہا آپ میری طرح بہت بے چین روح ہیں آپ صبر سے سنیں گے تو آپ کو سب سمجھ آجائے گا اور واقعی ایسا ہی ہواتو میں نے کہا آپ بہت اچھے سٹوری ٹیلر ہیں۔جنرل باجوہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا میں جب لمز یونیورسٹی گیا ۔لمز یونیورسٹی اینٹی اسٹبلشمنٹ سمجھی جاتی ہے لیکن میں نے وہاں چھ گھنٹے سے زائد گفتگو کی،طلباء کے سوالات کے جواب دئیے۔اس پر یونیورسٹی کے ریکٹر نے کہا سر آپ کو استاد ہونا چاہیے ، آپ بہت رواں گفتگو کرتے ہیں۔

میں نے جنرل باجوہ سے سوال پوچھا: کیا شہباز شریف نے وزرات عظمیٰ سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیا تھا؟ جنرل قمر باجوہ نےجواب دیا کہ جب 10 اپریل کوعمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تواس کے بعد شہباز شریف سے ملنے گیا۔ ان سے پوچھا کہ آپ کا حکومت کرنے کا کیاپلان ہے تو وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ دو تین قوانین بنا کر چار چھ ہفتوں میں الیکشن کا اعلان کردیں گے۔میں بھی یہی چاہتا تھاکہ انتخابات ہوں اور اگلی حکومت فریش مینڈیٹ کے ساتھ فیصلے کرے۔ لیکن آئی ایس آئی کے لوگوں کی بات ہوئی تو مولانا فضل رحمان اور آصف علی زرداری دونوں چاہتے تھے حکومت ڈیڑھ سال پورا کرے۔اس کے علاوہ 10 اپریل کے بعد جنرل فیض نے مجھے مسلسل دو چیزیں کہنا شروع کردی تھیں ایک یہ کہ آپ الیکشن کرواکر جائیں۔دوسرا عمران خان آپ سے ملنا چاہتے ہیں،ان سے ملاقات کرلیں۔9 مئی کو شہباز شریف اور ملک احمد خان میرے گھر آئے اورکہا کہ ہم نے الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ملک احمد کہنے لگے کہ میں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ بات کی ہے۔ الیکشن کمیشن مردم شماری اور حلقہ بندیاں پانچ اگست تک مکمل کرلے گا۔
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اگرہم بجٹ نہیں دیتے ہیں تو پانچ ستمبر کو الیکشن کروا دیے جائیں اور اگر بجٹ پیش کرنا پڑا تو ہم پانچ اکتوبرکو الیکشن کروانے کے لیے تیار ہیں۔

یوں الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ ہوگیا اور پی ٹی آئی کو بھی اس فیصلہ سے آگاہ کر دیا گیا۔پی ٹی آئی کو کہا گیا کہ آپ لانگ مارچ کا اعلان نہ کریں۔اس کے بعدشہباز شریف لندن چلے گئے۔ 19 مئی کو ملک احمد خان میرے گھر دوبارہ آئے انہوں نے بتایا کہ نواز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم الیکشن کروا رہے ہیں اور کل شہباز شریف استعفیٰ دے دیں گے۔شہباز شریف نے عرفان صدیقی سے اختتامی تقریر بھی لکھوا لی تھی۔شہباز شریف نے 20 مئی کو استعفیٰ دینا تھا ۔ابھی ملک احمد خان بیٹھے ہی تھے تو ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم بھی آ گئے. انہوں نے کہا کہ اگر کل شہباز شریف استعفیٰ دیتے ہیں 25 مئی کو قطر میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کون کر ے گا۔حکومت سے درخواست کریں کہ شہباز شریف 10 دن بعد مستعفیٰ ہوں تاکہ آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی ہو جائیں اور نگران سیٹ اپ بنانے کے لیے ہمیں دس دن کا وقت بھی مل جائے۔ملک احمد نے جواب دیا کہ میاں نواز شریف فیصلہ کرچکے ہیں کہ کل شہباز شریف مستعفی ہوں گے تو اس سلسلہ میں مَیں ان سے بات نہیں کرسکتا۔بہتر ہے کہ آپ بات کریں یا ڈی جی آئی ایس آئی بات کریں۔میں نے ڈی جی آئی ایس آئی کو کہا کہ نواز شریف سے درخواست کریں کہ وہ دس دن ہمیں دے دیں۔ڈی جی آئی ایس آئی نے نواز شریف سے بات کی اور ان کو دس دن بعد مستعفیٰ ہونے پر منا لیا۔

یہی بات ڈی جی آئی ایس آئی نے شاہ محمود قریشی ،پرویز خٹک اور اسد عمر کو بتادی۔اور کہا کہ آپ لانگ مارچ کا اعلان مت کریں لیکن ان تینوں احباب نے کہا کہ عمران خان نہیں مان رہے۔20 مئی کو ملتا ن میں عمران خان کا جلسہ تھابہر حال انہوں نے لانگ مارچ کا اعلان نہیں کیا۔ڈی جی آئی ایس آئی نے بڑی مشکل سے اعلان کر نے سے روکا۔عمران خان فوری الیکشن کا اعلان چاہتے تھے۔22 مئی کو عمران خان نے پشاور میں پریس کانفرنس رکھ لی ۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے پھر شاہ محمود ،اسد عمر اور پرویز خٹک سے بات کی کہ آپ صرف دس دن انتظار کرلیں آئی ایم ایف ساتھ مذاکرات اور نگران سیٹ اپ کے لیے ہمیں دس دن دے دیں۔انہوں نے کہا عمران خان نہیں مان رہے۔سہ پہر میں عمران خان کی پریس کانفرنس تھی ۔شاہ محمود قریشی بھی ساتھ بیٹھے تھے،میں نے شاہ محمود قریشی کو پیغام بھجوایاکہ آپ عمران خان کو لانگ مارچ کا اعلان کرنے سے روکیں۔شاہ محمودقریشی نے عمران خان کو بتایا کہ وہ بات کرنا چاہ رہے ہیں لیکن عمران خان نے بات کر نے سے انکار کردیا۔جس کے مناظر ٹی وی سکرین پر دیکھے گئے ۔ میری طرف سے لانگ مارچ رکوانے کی یہ آخری کوشش تھی۔عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔شام کو لیگی قیادت میرے پاس آئی تو انہوں نے کہا کہ اب ہم عمران خان کابھرپور مقابلہ کریں گے۔میں نے پھر بھی اگلے دن خود شاہ محمود قریشی سے بات کی کہ آپ حکومت کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں لیکن انہوں نے کہا کہ عمران خان نہیں مان رہے وہ فوری شہباز شریف کے استعفیٰ کا اعلان چاہتے ہیں۔

میں نے کہا آپ کے پاس اکثریت نہیں ہے حکومت تحلیل ہوگئی توآئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کون کرے گا؟جنرل باجوہ کے پاس اس گفتگو کی آڈیو بھی موجود ہے۔لانگ مارچ ناکام ہوگیا ۔ لانگ مارچ کے روز میں نے اپناہیلی کاپٹر بھیجا۔جس میں شاہ محمود قریشی ،اسد عمر اور دیگر کو اٹھا یا اور راجہ پرویز اشرف کے پاس لے آئےان کے راجہ پرویز اشرف ،ایاز صادق اور دیگر کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔پی ٹی آئی کا یک نکاتی نکتہ تھا کہ الیکشن کی تاریخ دیں۔راجہ پرویز اشرف نے کہا آپ پہلے اسمبلی میں آئیں پھر معاملات آگے بڑھاتے ہیں اس طرح یہ مذاکرات ناکام ہوگئے ۔لانگ مارچ روکنے کا ساراانتظام رانا ثناء اللہ کا تھا ،ہم مکمل نیوٹرل تھے۔ ہم نے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی تھی۔راناثناء اللہ لانگ مارچ روکنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔میں نے پوچھا 17 جولائی کے الیکشن آپ نے پی ٹی آئی کو جتوائے تھے ؟ انہوں نے کہا نہیں، بلکل کوئی مداخلت نہیں کی تھی فروری2021 کے بعد کسی ایک الیکشن میں بھی معمولی گڑ بڑ نہیں کی گئی۔آج کل ویسے بھی الیکشن کے دن گڑ بڑ نہیں ہوتی ،الیکشن سے پہلے مینجمنٹ ہوتی ہے۔عمران خان مقبولیت سے الیکشن جیتے۔ن لیگ کے ہارنے کی سب سے بڑی وجہ پی ٹی آئی کے منحرف لوگوں کو ٹکٹس دینا تھیں۔دوپہر کے کھانے کی میز پر میں نے سوال کیا کہ تریسٹھ اے والا فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال سے آپ نے کروایا تھا ؟ جنرل باجوہ نے کہا "یہ فیصلہ میں نے نہیں کروایا تھا. عمر عطا بندیال ایک کمزور شخص ہیں دباؤ برداشت نہیں کرسکتے۔جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب ،جسٹس عمر عطا بندیال پر غالب آگئے،یہ فیصلہ ان دونوں نے کروایا۔جسٹس منیب نے فیصلہ لکھا۔ یہ فیصلہ غلط ہے، خلاف آئین ہے. سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی وجہ سے بہت بربادی ہوئی اور ملک میں آج تک عدم استحکام ہے، خاص طور پر پنجاب میں۔ان ججوں کو بھی پتا ہے کہ یہ فیصلہ غلط ہے وہ فیصلہ ریورس بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو سمجھ نہیں آرہی کہ اس کوکس طرح ریورس کریں "۔

میں نے سوا ل کیا: سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے حامی جج بھی ہیں اور کیا سپریم کورٹ کے ججوں کے خاندان بھی تحریک انصاف کے حامی ہیں اور ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ؟ انہوں نے کہا بالکل ایسا ہے ۔کچھ ججز پی ٹی آئی کے حامی ہیں۔ججوں کی بیگمات اوران کے خاندان کے دیگر افراد تحریک انصاف کو پسند کرتے ہیں ۔یہ بھی ججوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ہمارے ملک میں جج بہت ڈرپوک ہیں بہت ڈر ڈرکے فیصلے کرتے ہیں، ٹک ٹاک سے ڈرکے فیصلے کرتے ہیں۔تحریک انصاف کے حق میں بھی جج ڈر کے فیصلے دیتے ہیں۔ٹک ٹاک پہ بے عزتی وائرل ہو تو دباؤبڑھ جا تا ہے۔ میں نے سوال کیا؟ عمران خان کو بنی گالہ کیس میں نااہلی سے آپ نے بچایا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن جنرل فیض میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ بنی گالہ کیس میں عمران خان کے کاغذات مکمل نہیں ہیں،وہ نااہل ہوجائیں گے۔تو کیا کِیا جائے؟ جسٹس ثاقب نثار بھی کہتے کہ اگر عمران خان کو نااہل کردیا تو باقی کون بچے گا، ملک بھی تو چلانا ہے۔ میں نے بھی کہا کہ عمران خان کو نااہل کرتے ہیں تو وزیراعظم کون بنے گا۔ عمران خان کی چالیس سال پرانی رسیدیں دستیاب نہیں تھیں،بینکس بند ہوگئے تھے۔عمران خان نااہلی سے بچ گئے۔اس کے بدلے جہانگیر ترین کو نااہل کردیا گیا۔

میرا سوال تھا کہ اسٹیبلشمنٹ حمزہ شہباز کے وزیر اعلیٰ بننے کے خلاف تھی ؟ جنرل باجوہ بولے،”جب حمزہ شہباز وزیراعلی بنے تو میں نے شہباز شریف سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا کہ آپ نے اپنے بیٹے کو ہی وزیراعلی بنادیا آپ کو پارٹی میں کوئی اور بندہ نہیں ملا۔میں نےشہباز شریف کی کافی کلاس لی۔وہ سر جھکا کرسنتے رہے اور کچھ نہیں بولے۔شہباز شریف سے جتنی مرضی سخت بات کرلیں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔کوئی جواب بھی نہیں دیتے”۔ جنرل باجوہ کہتےہیں‌کہ حمزہ شہباز انتہائی نکما ہے۔سلمان شہباز کافی تیز اور باصلاحیت ہے۔شہباز شریف کمزوروزیر اعظم ہیں ، ان سے حکومت نہیں چل رہی نہ وزراء ان کی بات سنتے ہیں،وزراء ان کو گھاس بھی نہیں ڈالتے۔بڑے میاں آئیں گے تو حالات بہتر ہوں گے ۔میں نے پوچھا سلمان شہباز کو آپ نے باہر بھیجا تھا؟ جنرل باجوہ نے کہا ،نہیں بلکہ میں نے جنرل فیض سے پوچھا تھا کہ سلمان شہباز باہر کیسے گیا تو اس نے کہا کہ مجھے بھی نہیں پتا چلا۔

جنرل باجوہ کہنے لگے:اس کے بعدشہباز شریف کو وزرات عظمیٰ میں مزہ آنے لگا تھا ۔کچھ عرصے بعد جنرل فیض پھر میرے پاس آئے اور کہا کہ عمران خان سے ایک دفعہ مل لیں۔میں نے جنرل فیض کو کہا اچھاانہیں کہیں میرے گھر آجائیں ۔جنرل فیض نے کہا نہیں آپ ایوان صدر میں مل لیں۔صدر عارف علوی بھی مجھے بار بار عمران خان سے ملنے کا کہہ رہے تھے۔میں ایوان صدر چلا گیا تو حیر ان رہ گیا کہ عمران خان مجھ سے بہت اچھے طریقے سے ملے جیسے ان کو مجھ سے کوئی شکائت نہیں اور جیسے کوئی غیر معمولی بات نہ ہوئی ہو۔ میر ا خیال تھا کہ وہ گلہ کریں گےلیکن وہ بالکل نارمل تھے۔میں ان کی منافقت پر حیران تھا کیونکہ وہ عوام میں مجھ پر بھرپور تنقید کرتے تھے۔میں نے کہا آپ مجھے میر جعفر اور میر صادق کہتے ہیں ۔عمران خان صاف مکر گیا کہتا میں نواز اور شہباز کو کہتا ہوں ۔پھر کہتا کہ آپ ان کی حکومت گرادیں ،ان کو گھر بھیج دیں اور الیکشن کر وادیں ۔میں نے کہا کہ آپ تو اسمبلی میں ہی نہیں ہیں۔ حکومت دو سیٹوں پر کھڑی ہے ۔آپ اسمبلی جائیں پھر آپ کو فائدہ ہوگا ۔تو عمران خان کہنے لگے کہ بس آپ حکومت گرادیں اور الیکشن کروائیں تو میں نے عارف علوی کو اندربلا لیا جو اس سے پہلے باہر بیٹھے تھے اور انہیں کہا کہ انہیں سمجھائیں کہ کیسے حکومت گرا سکتے ہیں اور حکومت ختم ہونے کا انکو کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک وہ اسمبلی نہیں جاتے ۔پھر عارف علوی نے بھی ان کو سمجھایا ۔ یہ ملاقات بے نتیجہ رہی۔ آپ نے عمران خان کو پلے بوائے کیوں کہا تھا ؟ میں نے سوال کیا۔

جنرل باجوہ نے بتایا : عمران خان سے جب دوسری ملاقات ہوئی تو میں بڑے غصے میں تھاکیونکہ وہ مسلسل میرے بارے میں جھوٹ بول رہے تھے۔ میں نے عمران خان کو کہاآپ اپنی زبان پر کنٹرول کریں اوراپنے جھوٹوں کو لگام دیں ورنہ میرے پاس بھی کہنے کو بہت کچھ ہے آپ جھوٹ بولنا بند کریں۔عمران خان نے کہا آپ کیا کریں گے؟ میں نے کہا کیا آپ پلے بوائے نہیں رہے؟ آپ کی ویڈیوز بھی موجود ہیں، اگر زبان بند نہ کی تو گلہ نہ کیجئے گا ۔ اس طرح یہ ملاقات بھی تلخی پر ختم ہوگئی۔ (جاری ہے)

یہ آرٹیکل پہلے نیا دور میں‌شائع ہوا.
واپس کریں