دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جنرل باجوہ اور غیر ریاستی کشمیری قیادت
 قیوم راجہ
قیوم راجہ
سابق پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بھارت کے ساتھ ناکام ہونے والی بیک ڈور ڈپلومیسی پر آج کل سیاسی حلقوں میں بحث کافی گرم ہے۔ پاکستان کی سیاست کے کیا کہنے کہ دفتر خارجہ اور سفارتکاروں کے بجائے فوجی سفارتکاری کر رہے ہیں اور وہ بھی مسلہ کشمیر پر۔اور سوچتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہو گی۔ اس سے بڑا حیران کن طرز عمل آزاد کشمیر میں غیر ریاستی جماعتوں کی قیادت کا ہے جو سوچتے ہیں کہ پہلے وہ آزاد کشمیر میں پاکستانی جماعتوں کو مضبوط کریں گے، پھر انہی کے ذریعے بھارت اور پاکستان سے جموں کشمیر آزاد کرائیں گے۔!

جرمنی کے ایڈلف ہٹلر کو اس کے امریکی اور یورپی مخالفین نے جب پاگل قرار دیا تو کچھ جرمنوں نے اسے منفی پروپیگنڈہ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ کوئی شک نہیں کہ مغربی سامراج کا وطیرہ رہا کہ جس کو بدنام کرنا ہو اسے وہ پاگل کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے شہریوں کو شادی تک کے اخراجات دینے والے کرنل قذافی کو بھی مغربی سیاستدان پاگل قرار دیتے تھے۔ لیکن ہٹلر کی سوچ و فکر میں واقعی کچھ فرق تھا جو سوچتا تھا کہ وہ ایک ہی وقت میں امریکہ، سوویت یونین اور مغربی اتحادیوں کو شکست دے سکتا ہے۔نفسیات کی زبان میں ایسے لوگوں کو سائیکوٹک کہتے ہیں جن کا طرز عمل غیر حقیقت پسندانہ ہوتا ہے۔ متعدد تجزیہ نگار جنرل باجوہ کے طرز عمل کو بھی غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہیں لیکن سوال ہے کہ جنرل باجوہ کے پیچھے کون تھا؟ یہ وہی قوتیں ہیں جنہوں نے مہاراجہ کے خلاف حقوق کی تحریک کو فرقہ واریت میں تبدیل کر دیا تھا۔

سوویت یونین کے قیام سے پہلے اس وقت کے جموں کشمیر کے مہاراجہ نے روس کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی۔ برطانیہ کو مہاراجہ کی یہ آزادانہ پالیسی پسند نہ تھی ۔ اس نے یہ بات زہن میں رکھی اور برصغیر چھوڑتے وقت جموں کشمیر کو تقسیم کرنے کی سازش کی جس کے تحت 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے قبائلی کشمیر میں داخل کروا کر 27 اکتوبر کو بھارتی فوج کی جموں کشمیر میں داخل ہونے کی راہ ہموار کی۔ اب وہی سامراجی قوتیں پاکستان میں جمہوریت کی مخالف اور فوجی حکمرانی کی حامی ہیں کیونکہ پارلیمنٹ کے بجائے فرد واحد سے اپنی سامراجی پالیسی پر عمل در آمد کروانا آسان ہے۔

میرے نزدیک الحاق پسند کشمیری جماعتوں کے ساتھ ساتھ خود مختار کشمیر کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد پر بھی سائیکوٹک کی اصطلاح صادق آتی ہے۔ الحاقیوں کی یہ عجیب منطق ہے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر وہ ریاست جموں کشمیر میں چالیس فی صد غیر مسلموں کو الحاق پاکستان پر راضی کرکے ریاست جموں کشمیر کی وحدت بحال کر دیں گے۔ جبکہ خود مختار کشمیر کے دعویدار سوچتے ہیں کہ وہ جنگ آپس میں کریں گے اور شکست ریاست جموں کشمیر پر قابض تین بڑی قوتوں ہندوستان، پاکستان اور چین کو دیں گے۔ وقت ہے کہ ہم سب اپنا اپنا محاسبہ کریں۔ اپنے رویے درست کریں ۔ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے اور اپنی اپنی ڈفلی بجانے کے بجائے آپسی تعاون پر توجہ دیں۔ جموں کشمیر ہندوستان اور پاکستان کا باہمی یا علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ اس کے چار فریقین ہیں۔ فریق اول ہم جموں کشمیر کی عوام اور پھر تین قابضین۔ یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے فریقین کو آپس میں نہیں بلکہ ہم فریق اول سے گفت و شنید کرنی ہو گی۔ مگر ایسا تب ہو گا جب ہم خود کو اس قابل بنائیں گے۔


واپس کریں