شمس مومند
یہ کالم نہ تو پی ٹی آئی کے عاشقان عمران کے لئے ہیں نہ مسلم لیگ کے متوالوں اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے جیالوں کے لئے کیونکہ ان میں سے ہر ایک بذات خود علم و دانش اور سمجھ بوجھ میں عقل کل ہیں۔ انہیں کسی کو سننے یا پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ کالم ان مورخین اور محققین کے لئے ہیں جو مستقبل قریب میں پاکستان کی تباہی کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں۔ میں اللہ تعالی کو حاضر و ناظر جان کر اس ملک کی تباہی کے جس جس کو جتنا ذمہ دار سمجھتا ہوں وہی لکھتا ہوں۔ اور یہ سب کچھ اپنے پچیس سالہ تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں سمجھتا ہوں اس کے لئے نہ طویل دلائل اور کتابوں کی ضرورت سمجھتا ہوں نہ ویڈیو اور آڈیو ثبوتوں کی۔ کیونکہ میرا مقصد کسی کو قائل کرنا نہیں، تاریخ میں اپنا نام سچ کے ساتھ کھڑا ہونے والوں میں شامل کرنا ہے۔پاکستان کی معلوم تاریخ سے لے کر مارچ دو ہزار بائیس تک اس ملک کے عوام کو پسماندہ رکھنے، آئین کو ردی کا ٹکڑا بنانے، قانون کی بجائے بندوق کو طاقتور سمجھنے اور سمجھانے کا ذمہ دار فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ہر دور میں ان میں سے دو چار ٹاپ رینک افسران نے جب چاہا اور جسے چاہا اسے لاکر وزارت عظمی کی کرسی پر بٹھا دیا، اپنے پسندیدہ لوگوں کو اقتدار دیا مگر اختیار نہیں دیا۔ کسی کو دو چار سال کے لئے تو کسی کو دو چار مہینے کے لئے یہ کرسی ٹھیکے پر دیتے رہے۔
یقین نہیں آتا ہے تو گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان کے وزراء اعظم کی فہرست پر ایک نظر ڈالیں۔ نواز شریف اور بے نظیر کے علاوہ غلام مصطفی جتوئی، بلخ شیر مزاری، معین قریشی، ملک معراج خالد، ظفر اللہ جمالی، شوکت عزیز، چوہدری شجاعت حسین، محمد میاں سومرو، میر ہزار خان کھوسہ، جسٹس ناصر الملک اور عمران خان۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ان لوگوں کو ایک محدود مدت کے لئے اس ملک کو ٹھیکے پر دیا گیا تھا۔ یہ انہی لوگوں کے منظور نظر تھے ورنہ کوئی مجھے بتائے کہ ان میں کون سے سرخاب کے پر لگے تھے وہ کون سی صلاحیت تھی۔ جس کے ذریعے انھوں نے ملک کو سنوارنا تھا مگر نہیں سنوار سکے۔ کیوں نہیں سنوار سکے وہی بات کہ ایک تو انہیں اقتدار ملا تھا اختیار نہیں ملا تھا دوسری بات یہ کہ وہ عوام نہیں لے کے آئے تھے اس لئے وہ خود کو عوام کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کو جوابدہ سمجھتے تھے۔ اور عوام کی بجائے انہی کی مرضی کے کام کیا کرتے تھے۔
جس طرح ٹھیکہ داری نظام میں کام کرنے اور اس کام میں سے اپنے لئے اور محکمے کے لئے کمانے کی ذمہ داری ٹھیکیدار کی ہوتی ہے مگر وہ حکومتی نمائندوں یعنی متعلقہ محکمے کو اپنا کمیشن بروقت ادا کرتے ہیں اور ٹھیکہ لیتے وقت ایڈوانس بھی دیتے ہیں۔ یہی حال پاکستان میں حکومتوں کا رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ میں نہیں کہتا ہوں پہلے صرف ریٹائرڈ افسران اس بات کا اعتراف کرتے تھے مگر جنرل باجوہ کو داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ انھوں نے فور سٹار جنرل رہ کر اپنے الوداعی خطاب میں یہ سب باتیں تسلیم کر کے ہمارا کام آسان کر دیا۔
دوسرے نمبر پر اس ملک کو تباہ کرنے کا سہرا عمران خان کے سر ہے۔ کہ جب دو ہزار چھ میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے فوجی آمروں کی من مانیوں سے تنگ آ کر ان کے ہاتھوں میں مزید کھیلنے سے انکار کیا۔ اور انیس سو تہتر کے آئین کی مکمل بحالی، سول سپر میسی کو یقینی بنانے کے لئے میثاق جمہوریت کے نام سے ایک ایسی دستاویز پر دستخط کیے جس میں دفاعی بجٹ کو پارلیمنٹ سے منظور کرنے، ججز اور جرنیلوں کو بھی پارلیمنٹیرین کی طرح اثاثے ظاہر کرنے، انٹیلی جنس ایجنسیوں کو عملاً وزارت دفاع کے ماتحت سمیت متعدد آئینی و قانونی معاملات پر مشترکہ موقف اپنانے کی بات کی گئی تھی۔ تو اسٹیبلشمنٹ کو ایک اور کھلونے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انھوں نے انیس چھیانوے میں لانچ ہونے والی ٹانگہ پارٹی تحریک انصاف کو گود لے کر دو ہزار گیارہ میں دوبارہ لانچ کیا۔ اس کے لئے مالی اور سیاسی سرپرستوں کا بندوبست کیا۔ مگر پہلی کوشش میں وہ نواز شریف کے جادو کا توڑ نہیں کر سکے۔ اس لئے دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں مسلم لیگ اقتدار میں آئی اور بد قسمتی یہ کہ نواز شریف نے پرویز مشرف سمیت اسٹیبلشمنٹ کا زور توڑنے کی کوشش شروع کی۔
کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ملک میں سول سپر میسی کے لئے میثاق جمہوریت کے تناظر میں پیپلز پارٹی ان کا ساتھ دے گی۔ مگر نواز شریف اس بات کا ادراک نہیں کر سکے کہ پرویز مشرف اسٹیبلشمنٹ کا ریڈ لائن تھا۔ اور اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی جگہ تحریک انصاف کو گود لے چکی تھی اس لئے انتخابات کے فوراً بعد عمران خان کے ذریعے نواز شریف حکومت پر دباؤ بڑھانا شروع کیا اور یہ سلسلہ دو ہزار چودہ میں ایک سو چھبیس دن خالی کرسیوں کے دھرنے اور مسلسل لائیو کوریج تک طویل ہو گیا۔اس دوران پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے کمال کر دکھایا اور مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے جمہوریت کے ساتھ اپنی مضبوط وابستگی ثابت کردی۔ دھرنا تو بظاہر ناکام ہو گیا مگر اس نے نواز حکومت کو کمزور کر کے اس کا بھرکس نکال دیا۔ چند دن بعد پانامہ لیکس کے چار سو سے زیادہ پاکستانیوں میں صرف نواز شریف کو نشانہ بناتے ہوئے ان کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا اور پانامہ سے شروع ہونے والا ڈرامہ اقامہ کے ذریعے نواز حکومت کے خاتمے اور ان کی نا اہلی پر منتج ہوا۔ اس سے بھی کام نہیں چلا تو نواز شریف کو عدلیہ کے ذریعے پارٹی صدارت تک سے ہٹا دیا۔ اور دو ہزار اٹھارہ میں عمران خان کو مسلط کرنے کے لئے بقول شاعر۔ جو نہ کرنا تھا وہ بھی کر ڈالا۔ ہم نے ظالم تیری خوشی کے لئے۔
عمران خان وزیر اعظم بننے کے بعد کی داستان سب کو معلوم ہے۔ پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے اپنی جگہ مگر سی پیک کو رول بیک کرنا، چین سعودی عرب، امریکہ اور ملائیشیا کو اپنی اناڑی پن سے ناراض کرنا اپنے چار سالہ دور میں چھبیس ہزار ارب روپے کا قرضہ لینا، کشمیر کو عملاً انڈیا کے حوالے کرنا اور آخر میں فوج میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش سمیت معیشت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا۔ یعنی جب انہیں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا یقین ہو گیا تو انھوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے ہی کیے گئے معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی بجائے کمی کردی۔سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے یہ ایک ایسا انتقام تھا جس کا خمیازہ آج تک قوم بھگت رہی ہے۔ جس غیر آئینی انداز سے عدم اعتماد کا مقابلہ کیا، جس طرح صدر مملکت اور گورنر پنجاب کے ذریعے حکومتی اقدامات کو ناکام بنانے کی کوششیں کی، جس طرح بذات خود قومی اسمبلی کے آٹھ حلقوں سے انتخاب لڑا، وہ بذات خود آئین کے ساتھ کھلواڑ سے کم نہیں۔
عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ضرورت اس بات کی تھی کہ عمران خان بحیثیت ایک محب وطن سیاسی رہنما اور اپوزیشن لیڈر پارلیمنٹ میں بہترین کردار ادا کرتے۔ پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کے چیئرمین بن جاتے حکومت کا احتساب کرتے، مہنگائی کے خلاف آواز اٹھاتے، نیب اور الیکشن قوانین کو متوازن بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے اور اپنی پارٹی اور کارکنوں کو منظم کر کے ڈیڑھ سال بعد انتخابات میں چلے جاتے۔ مگر اس کے برعکس عمران خان کی جانب سے پارلیمنٹ کے ساتھ دوسری مرتبہ کھلواڑ بھی سب کے سامنے ہیں۔آٹھ مہینے سے اپنے استعفوں کا نام نہاد اعلان کر کے ممبران قومی اسمبلی کو گھر بٹھا یا گیا ہے مگر تنخواہیں اور مراعات ابھی تک جاری ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام معاشی عدم استحکام کا ذریعہ بنتی ہے جس کا نتیجہ ملکی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ وہ کرسی سے اتارنے کے بعد مسلسل سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ کبھی جگہ جگہ جلسے مارچ اور روزانہ احتجاج، کبھی لانگ مارچ کے نام پر مہینہ بھر ڈرامہ اور اب اسمبلیوں کی تحلیل کے نام پر مزید غیر یقینی اور افراتفری۔یہ تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس کام سے وہ فوری اقتدار حاصل نہیں کر سکتا ہے وہ خود بھی جانتا ہے مگر ان کا مقصد دراصل معاشی استحکام کی راہ میں روڑے اٹکانا ہے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں تاکہ آئندہ انتخابات میں وہ خود کو موجودہ حکومت سے بہتر پالیسی ساز ثابت کرسکے خواہ اس مقصد کے حصول میں ملکی معیشت کا بیڑا غرق ہو جائے یا عوام بھوکے رہے انہیں اس کی کوئی فکر نہیں۔
جہاں تک پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت کا تعلق ہے۔ وہ بھی گزشتہ آٹھ مہینے میں خود کو موجودہ گمبھیر صورتحال سے نبرد آزما ہونے کا اہل ثابت نہیں کر سکی۔ حکومت کی ساری توجہ بھی عمران خان کو کمزور کرنے، حکومت کی بقاء اور آئندہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ سیٹ لینے پر مرکوز ہے۔ بجائے اس کے کہ وزیر اعظم شہباز شریف وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات سمیت دو چار افراد کو عمران خان سے نمٹنے کا ٹاسک سونپ کر باقی وزراء کو دن رات ایک کر کے معیشت سنبھالنے، گورننس بہتر کرنے، خارجہ محاذ پر کامیابیاں سمیٹنے مہنگائی کنٹرول کرنے اور عوامی مشکلات کا ازالہ کرنے پر لگاتے۔انھوں نے پوری حکومت کو عمران خان کی خامیاں ڈھونڈنے اور انہیں بدنام کرنے پر لگا دیا۔ اسحاق ڈار تمام تر دعووں کے باوجود ناکام نظر آتے ہیں۔ درجنوں وزیر مشیر صرف ان کو نوازنے کے لئے رکھے ہیں۔ مہنگائی کا جن ابھی تک بے قابو ہے ڈالر نیچے آنے کا نام نہیں لے رہا ہے، امن و امان کی صورتحال انتہائی خطرناک ہو چکی ہے تمام قربانیوں کے باوجود افغانستان کے ساتھ تعلقات سردمہری کا شکار ہے، وزیر خارجہ مسلسل بیرون ملک رہنے کے باوجود دوست ممالک کو مزید امداد یا تعاون پر راضی نہیں کر سکے۔
حکومت نہ ڈالر کی افغانستان سمگلنگ کنٹرول کر سکی نہ پرتعیش اشیاء کی درآمد روک سکی۔ نہ ہی اپنی شاہ خرچیاں اور سیاسی مفادات کے لئے نام نہاد ترقیاتی کاموں کو بند کر سکی۔ پہلے صرف سرمایہ باہر جا رہا تھا اب سرمایہ اور سرمایہ کار دونوں بھاگ رہے ہیں۔ پہلے ان پڑھ بے روزگار باہر جا رہے تھے اب ڈاکٹر انجینئر اور سائنس دان سرپٹ بھاگ رہے ہیں۔ ملک سے پیسہ، دماغ اور کارکن سب فرار ہو رہے ہیں اور کسی ذمہ دار کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت میں شامل پارٹیاں اپنے اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں مثلاً پیپلز پارٹی کی پوری توجہ صرف سندھ کی ترقی اور عالمی برادری میں تعلقات بنانے پر مرکوز ہے، مولا فضل الرحمن اپنے لوگوں کو کھپانے کے بعد وزیر اعظم سے جنوبی اضلاع کے لئے زیادہ منصوبوں کے اعلانات اور افتتاح کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ جبکہ ایم کیو ایم اور باپ جیسی پارٹیاں اپنے اپنے ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں کو قائم رکھنے میں مصروف ہیں۔
عوام کو انصاف کی فراہمی تو درکنار مگر سیاسی اور آئینی معاملات میں بھی عدلیہ کا کردار کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں۔ اب تو بچہ بچہ بعض ججز صاحبان کی پسند و ناپسند سے آگاہ ہے۔ اور تجزیہ کار تو عدالتی فیصلوں سے پہلے ہی پیش گوئی کر دیتے ہیں کہ فلاں بنچ فلاں کیس کا فیصلہ فلاں کے حق یا فلاں کے خلاف دے گا۔ اور عدلیہ بھی قانون کے مطابق فیصلے کرنے کی بجائے ثالثی کرنے یا نظریہ ضرورت کے مطابق فیصلوں کو ترجیح دے رہی ہے۔ جو لوگ ملک کے لئے فکر مند ہیں ان کے ہاتھ میں اختیار نہیں وہ بے بس ہے اور جن جن کو ملک کے لئے فکر مند ہونا چاہیے، وہ اپنے اپنے ذاتی گروہی اور ادارتی مفادات میں مصروف ہیں ان حالات میں ملک کو جس طرف جانا چاہیے اسی طرف تیزی کے ساتھ گامزن ہے۔ کیونکہ۔ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔ نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں
شمس مومند کے دیگرکالم اور مضامین