دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دیار غیر میں پاکستانی صحافی کا قتل
علی احمد جان
علی احمد جان
پاکستانی صحافی ارشد شریف کی کینیا کے شہر نیروبی کے مضافات میں پولیس کے ہاتھوں قتل کی خبر کے بعد پاکستان کے اندھی نفرت اور تعصب کے شکار معاشرے میں لوگ اس واقعہ کے پیچھے پوشیدہ حقائق اور شواہد کا انتظار کیے بغیر اپنی اپنی رائے اور فیصلے دیے جا رہے ہیں۔ نفرت کی لکیر کے ایک جانب کے لوگ انگلی ایک خاص سمت میں اٹھا کر اس قتل کو منظم سازش قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب کھڑے لوگ اس قتل کو محض ایک حادثہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ غیر جانب داری اور بغیر کسی خاص عینک کے اس واقعہ کو دیکھنے کی کوشش کرنے والوں کے لئے دونوں جانب کی آراء کو نظر انداز کرنا مشکل ہو رہا ہے۔جو لوگ ایک خاص سمت میں انگلی اٹھا رہے ہیں اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے جس کی وجہ سے الزام کے لئے کسی ثبوت کا تردد بھی نہیں کیا جاتا۔ صرف یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا اس سے پہلے پاکستان کے دارالحکومت اسلام اباد میں سلیم شہزاد نام کے صحافی کو قتل کیا جا چکا ہے، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں دن دھاڑے حامد میر پر گولیاں چلائی گئی ہیں جو اب تک اس کے جسم میں موجود ہیں۔ مطیع اللہ جان، اسد طور، عمر چیمہ جن کو سر عام اٹھا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا بطور گواہ پیش کیے جاتے ہیں۔

جب پوچھا جاتا ہے جائے وقوعہ پاکستان سے ہزاروں میل دور ایک الگ ملک ہے جس کی پولیس کے ہاتھوں ارشد شریف کا اندوہناک قتل ہوا ہے جوان کی دسترس میں بھی نہیں جن کی طرف انگلی اٹھائی جا رہی ہے تو کہا جاتا ہے کہ پوچھنے والے کینیا کو نہیں جانتے۔ واقعی یہاں کے لوگ کینیا تو کیا افغانستان کو بھی نہیں جانتے جہاں سے لاشیں لاکر کہہ دیا جاتا رہا ہے کہ سرحد پار سے دہشت گردی ہوئی ہے۔ کینیا کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے کہ وہاں کی پولیس سپاری لے کر قتل کرنے میں بہت زیادہ بدنام ہے جس کی وجہ سے ملک کے صدر نے خود اس سکواڈ پر پابندی لگانے کا عندیہ دے رکھا ہے۔اب تک یہاں پہنچنے والی اطلاعات کا انحصار کینیا کے اخبارات میں چھپنے والی خبروں، پولیس اور حکومت کے اعلامیہ پر ہے۔ پولیس کے اعلامیہ میں جائے وقوعہ اور وہ جگہ جہاں ارشد شریف کی لاش پائی گئی ہے دونوں مقامات کے درمیان ساٹھ ستر کلو میٹر کا فاصلہ بتایا گیا ہے جس کی وجہ سے پولیس کے بتائے حقائق مشکوک قرار دیے جاتے ہیں۔ پولیس کا اصرار ہے کہ گولیاں کسی مشکوک کار کے شبے میں چلائی گئی ہیں جس کو روکنے کے لئے ناکہ بندی کی گئی تھی مگر ارشد شریف کی کار نہ رکی تو پولیس نے یہ اقدام کیا جس کے پیچھے نہ کوئی منصوبہ تھا اور نہ ہی وہ گولیوں کا شکار ہونے والے بد قسمت شخص کو جانتے تھے۔

اندھی نفرت اور تعصب کی سرحد کی دوسری جانب کے لوگ پوچھتے ہیں کہ ارشد شریف کینیا میں کیا کر رہا تھا اور کن لوگوں کے ساتھ رہ رہا تھا ان کی گواہی کے بغیر کسی خاص سمت میں انگلی اٹھانا خود محض الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کینیا کی سینکڑوں سڑکوں میں صرف اسی جگہ پر ایسا واقعہ پیش آنا اگر منصوبہ بندی ہے تو پھر قریب کے لوگوں کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ بہتر ہے قیاس آرائیوں کے بجائے تفتیش اور تحقیقات کا انتظار کیا جائے تاکہ حقائق سے پردہ اٹھ جائے۔ارشد شریف پاکستان کی میڈیا کا مقبول نام رہا ہے جو اپنی تحقیقی صحافت کے لئے مشہور تھا۔ ان کی تحقیق کا دائرہ گزشتہ حکومتوں خاص طور پر نواز شریف اور آصف علی زرداری کی کرپشن کے راز افشا کرنے تک محدود رہا۔ ارشد شریف کی پہنچ کا اندازہ اس کی سرکاری تحقیقاتی اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے صیغہ راز کے کاغذات اور فائلوں تک رسائی سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ اپنی میز پر فائلوں اور کاغذات کا انبار لگائے ٹیلی ویژن سکرین پر مہارت سے بنائے بدعنوانیوں اور کرپشن کے گراف اور رنگین ڈبوں کی مدد سے لوگوں کو ’غضب کرپشن کی عجب کہانی‘ سنانے والوں نے آج تک پاکستان کی کسی عدالت میں کوئی الزام تو ثابت نہیں کیا البتہ برطانیہ کی عدالتوں میں لاکھوں پونڈ کے جرمانے ازالہ حیثیت عرفی میں ادا کر چکے ہیں۔

پاکستان میں المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں صحافت کی آزادی کی بھی کوئی حد نہیں۔ جس پر چاہے کوئی الزام لگا سکتا ہے اور میڈیا ٹرائل کر سکتا ہے۔ جب تک کسی عدالت میں کسی کی بے گناہی ثابت ہو ’آزاد صحافت‘ ملزم کا منہ اتنا کالا کر دیتی ہے کہ بقول سابق صدر آصف علی زرداری کے تین جنم لینے کے بعد بھی سیاہی نہیں مٹتی۔ پاکستان میں آزاد صحافت کا مطلب وہ شتر بے مہار ہے جس کو ہر خیمہ اکھاڑ کر مکینوں کو سر عام برہنہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس آزاد صحافت کے پیچھے ہمیشہ اہل اختیار کا مضبوط ہاتھ رہا ہے جس کی وجہ سے صحافت بھی دو واضح گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ایک گروہ جو صحافت کی تقدیس پر یقین رکھتا ہے وہ با اختیار اداروں سے کنی کتراتا ہے۔ اس گروہ سے وابستہ لوگ ہر دور میں زیر عتاب رہے ہیں اور مستقل بے روزگار نظر آتے ہیں۔ جنرل مشرف کے پر آشوب دور کے علاوہ گزشتہ دور حکومت میں بھی درجنوں صحافی نوکریوں سے نکالے گئے اور تشدد کا نشانہ بنے۔ مرد صحافیوں کے خلاف ہونے والی ریاستی اور غیر ریاستی تادیبی و انتقامی کارروائیوں کے علاوہ خواتین صحافیوں کے خلاف بھی منظم بدزبانی اور سب و شتم کی مہم چلائی جاتی رہی جو ہنوز جاری ہے۔پاکستان میں نہ صرف صحافی تقسیم ہیں بلکہ نجی صحافتی ادارے بھی منقسم نظر آتے ہیں۔ کچھ ادارے کسی خاص جماعت اور اداروں کے ہم خیال بن جاتے ہیں کچھ کسی اور کے۔ جن صحافیوں کے با اختیار ادارے پشت بان ہوتے ہیں ان کو بڑے صحافتی ادارے بھی کاروباری ضروریات کے پیش نظر اپنی صفوں میں شامل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے صحافی کی بقا بھی شاہ کی وفاداری سے مشروط ہو گئی ہے۔
پاکستان میں نجی شعبے کو ابلاغی ادارے خاص طور پر ٹیلی ویژن چینلز کھولنے کی اجازت دینے کے بعد نیو لبرل صحافیوں کی ایک ایسی نوع بھی میدان عمل میں آئی جس کی تربیت بطور پیشہ ور صحافی کے نہیں ہوئی تھی۔ ایسے لوگ صحافی کے بجائے میڈیا پرسن یا اینکر پرسن کہلانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ان کی تنخواہیں بھی کالم نگاروں یا رپورٹروں کی طرح نہیں بلکہ اشتہارات میں کام کرنے والے ماڈلز یا فلمی ستاروں کی ہم پلہ ہوتی ہیں۔ صحافیوں کی یہ نئی قسم سمجھتی ہے کہ ان کی مقبولیت کا انحصار ریٹنگ پر ہے جو صحافتی مواد سے زیادہ اپنے لباس، وضع قطع اور زبان کی شستگی سے زیادہ انداز گفتگو سے آتی ہے۔ اس نئی قسم کے میڈیا پرسنز زیادہ تر تیار شدہ مواد پر انحصار کرتے ہیں جو مخصوص اداروں کی طرف سے ان کو ملتا ہے۔

تزویراتی گہرائی کی پرانی تعریف کے نتیجے میں ملک میں پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کے نتیجے میں پنپنے والے طوفان کی شدت کا اندازہ لگا کر کرتے دھرتوں کی طرف سے بساط از سر نو بچھانے کی ترکیب ہوئی تو سب سے پہلے پیادوں کو ہاتھیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کتابوں کے صفحے پلٹ گئے تو نیا سبق کا پرانے اسباق سے ربط ٹوٹ گیا تو صحافیوں کے اس گروہ کو ایک دم ان حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے لئے وہ کبھی تیار نہ تھے، نہ ان کی تربیت ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کی ہوئی تھی۔ تزویراتی گہرائی کی پرانی ترکیب کے مطابق سیاست، سیاستدانوں اور سیاسی عمل کو ہر برائی کا ذمہ دار ثابت کر کے ہمیشہ کے لئے مات دینے کے لئے جو ابلاغی بساط بچھائی گئی تھی اس کے پیادوں کو اپنی کامیابی و کامرانی کا اتنا پختہ یقین تھا کہ وہ شکست کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے جو اب ان کے سامنے نظر آ رہی ہے۔دیار غیر میں ارشد شریف کا قتل حادثہ ہو یا منظم سازش، ایسی موت اور اس پر سوال اٹھنا ہی ایک مہذب معاشرے کے لئے زوال کی نشانی ہے۔ اگر کسی صحافی کو اپنی سچائی کا یقین ہے تو اس کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ حقائق سامنے لے کر آئے اور معاشرے میں اتنی سکت ہونی چاہیے کہ وہ سچائی کی تلخی کو چکھ سکے۔ اگر کوئی مورخ، صحافی یا قلمکار کسی اور یا خود اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے قلم کی حرمت کو بیچتا بھی ہے تو ہر دو صورتوں میں یہ اختیار کسی فرد یا ادارے کو نہیں کہ وہ کسی کو سزا یا جزا دے بلکہ یہ استحقاق ناظرین، سامعین اور قارئین کو حاصل ہے کہ وہ اس کو کس مقام پر رکھتے ہیں۔ارشد شریف خود اس دنیا میں نہیں مگر اس کا کام دستاویزی شکل میں موجود ہے جو یہ طے کرے گا کہ وہ تاریخ کے دھارے میں کس طرف کھڑا تھا۔ اس کی موت حادثاتی ہو یا منظم سازش کا نتیجہ اگر وہ حق بجانب ہوا تو تاریخ کے افق پر ایک روشن ستارے کی مانند درخشاں رہے گا اور یہی ایک حق پرست صحافی کی زندگی کا حاصل ہوتا ہے۔

بشکریہ ہم سب
واپس کریں