دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جنرل ایوب خان نے شیخ رشید کو ایوان صدر سے کیوں نکالا؟
بصیر نوید
بصیر نوید
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور 16 دفعہ کے سابق وزیر شیخ رشید کے دعووں اور طرز سیاست سے متعلق دلچسپ واقعات پر مشتمل باتیں ہیں اور جعل سازی کی بھی، بلکہ مخبری کی بھی۔ جس کے دوران بہت ساری باتوں اور فوجی آمر جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک کا بھی ذکر کیا جائے گا۔یوں تو یہ بات 1968 کی آخری سہ ماہی سے تعلق رکھتی ہے جس میں ان کا دعوٰی ہے کہ ایوب خان نے ان کے خلاف چلنے والی طلبہ تحریک کے دوران شیخ رشید کو ایوان صدر بلایا تھا اور وہ واحد لیڈر ہیں جنہیں ایوب خان نے مدعو کیا اور شاید کوئی بات پسند نہ آنے پر انہیں ایوان صدر سے نکالا گیا۔ شیخ رشید کی جانب سے یہ بات اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ جیسے شیخ رشید نے ایسا اصولی موقف اپنایا تھا جس سے ایوب خان خوش نہیں ہوئے اور انہیں چلتا کر دیا۔

اب اس بات کو 54 سال اور کچھ روز گزرے ہیں لیکن عوامی مسلم لیگ کے واحد عہدیدار گاہے بگاہے ٹی وی پروگراموں میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں۔ تواتر سے یہ قصہ دہرائے جانے کے باعث خود ان کو یقین ہو چلا ہے کہ کسی اصولی موقف کو اپنانے کے باعث جنرل ایوب خان ان سے ڈر گیا اور انہیں باہر نکال دیا۔ وہ قصہ سناتے ہوئے جنرل پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں جیسے کہ وہ جنرلز سے نہیں ڈرتے ہیں یا ڈرتے نہیں تھے۔شیخ صاحب یہ قصہ کچھ عرصے سے دہراتے رہتے ہیں شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جو اس تحریک کے نمایاں کردار تھے وہ دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ہیں یا اتنے بوڑھے ہو چکے ہیں کہ ان کی یادداشتیں کمزور پڑ چکی ہیں۔ لیکن ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس تحریک کے مجھ سمیت بہت سارے کردار زندہ ہیں اور وہ صاحب بھی کچھ عرصے پہلے کی اطلاع کے مطابق زندہ ہیں جن کا نام چرا کر عوامی مسلم لیگ والے شیخ رشید نے اپنا نام بنا لیا ہے۔

واقعہ یوں ہے کہ ایوب خان کے خلاف طلبہ تحریک کا آغاز 7 اکتوبر 1968 کو کراچی بورڈ آف ایجوکیشن سے ہوا۔ ایوب خان کے خوشامدی ٹولے نے جس کی قیادت الطاف گوہر کرتے تھےDecade of Reforms یعنی دس سالہ ترقی کا ہفتہ منانے کا اعلان کیا اور پہلا پروگرام بورڈ آفس پر رکھا تھا جس کے مہمان خصوصی احمد سعید کرمانی تھے جن کے صاحبزادے آج کل جمہوریت کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ ہم چھ سات طالبعلموں نے خفیہ طور پر اس جلسے کو ناکام بنانے کا پروگرام بنایا اور پھر ایسا ہی کیا، جب ہم نے جلسہ بگاڑ دیا تو ہمارے پیچھے پچاس ساٹھ لڑکے دوڑتے ہوئے آنے لگے پہلے تو ہم ڈر کر اور تیز بھاگنے لگے لیکن جیسے ہی ہم ان کے قابو آ گئے لڑکوں نے ہمیں کندھوں پر اٹھالیا یوں ایک جلوس بنا کر آس پاس کے کالجوں اور اسکولوں کی چھٹی کرا دی گئی ہمارا جلوس سات آٹھ کلومیٹر کا سفر کر کے ڈی جے کالج پر ختم ہوا یہ جلوس چار پانچ ہزار طلبہ پر مشتمل ہو گیا تھا۔

شام کو گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں ایسی ہی تقریب تھی جس کے مہمان خصوصی اس وقت کے وزیر قانون ایس ایم ظفر تھے جو اب بھی زندہ ہیں ہم سے کالج کی طلبہ یونین نے درخواست کی کہ گورنمنٹ کالج پہنچ کر ایوب خان حکومت کے لئے ہونے والے جلسے کو بگاڑا جائے، کیونکہ ہم سب این ایس ایف رشید گروپ کے سرگرم عہدیدار و کارکن تھے لہذا ہم نے اپنا طلبہ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ایس ایم ظفر کے جلسے کو بھی بگاڑ کر بھاگ گئے۔ دوسرے دن جب ہم اپنے کالج، جناح کالج پہنچے تو پہلے ہی سے وہاں پانچ سو سے زیادہ لڑکے موجود تھے انہوں نے پھر کندھوں پر اٹھا لایا اور اسی طرح پھر جلوس نکلا اور پھر یہ روزمرہ کا معمول بن گیا اور ہم لوگ ایوب شکن کے نام سے مشہور ہو گئے۔یہ تحریک لاہور پہنچی کیونکہ ہماری تنظیم کے لوگ وہاں بھی تھے۔ لاہور کے طلبہ کی شمولیت کے باعث این ایس ایف رشید گروپ کی ایوب آمریت کے خلاف تحریک نے ملک گیر شکل اختیار کرنا شروع کردی۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں تحریک کا ذکر بعد کے کسی مضمون میں کروں گا کیونکہ اس وقت خود ساختہ شیخ رشید کے بارے یہ تحریر ہے اس لئے اسے شیخ صاحب سے متعلق صاف گوئی تک ہی محدود رکھا جائے۔

شیخ رشید ایوب خان کے خلاف تحریک میں اس وقت شامل کیے گئے تھے جب تحریک کامیابی سے جاری تھی اور پھر ایک اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی بنائی گئی تھی۔ اس میں بھی یہ اس طرح شامل کیے گئے کہ ہر اسٹوڈنٹس یونین سے صدر اور جنرل سیکریٹری اس کا ممبر ہوتا تھا، جس طرح کراچی میں انٹر کالیجیٹ باڈی یعنی آئی سی بی تھی۔ چونکہ پولی ٹیکنک کالج کا صدر ایکشن کمیٹی میں شامل نہیں ہونا چاہتا تھا بلکہ خلاف تھا اس لیے ایکشن کمیٹی کا رکن شیخ رشید کو بنایا گیا جو اس وقت کالج یونین کے نائب صدر تھے اور اپنے اصلی نام رشید احمد کے نام سے متعارف تھے وہ بٹ بھی کم ہی کہلانا پسند کرتے تھے۔ راولپنڈی کے طلبہ میں کراچی کی طلبہ تحریک کے براہ راست اثرات پڑنے لگے تھے، ترقی پسند حلقے خاص کر پی ایف یو جے کے سینئر صحافیوں منو بھائی، احمد حسن، الیاس صاحبان سمیت دیگر افراد نے ایوب مخالف تحریک کے لئے اسٹوڈنٹس کو منظم کرنا شروع کر دیا۔

ایوب خان کے خلاف تحریک چلانے کی ساری مہم حسام الحق نامی ایک سنجیدہ نوعیت کے طالب علم کو جاتی تھی جو ترقی پسندانہ خیالات رکھتے تھے اور کتابیں پڑھنے کے شوقین تھے۔ حسام الحق پولی ٹیکنک کالج اسٹوڈنٹس یونین کے جوائنٹ سیکریٹری تھی۔ حسام الحق کو سابقہ طالب علم رہنماؤں اور ترقی پسند صحافیوں نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو 7 اپریل کو ڈیرہ اسماعیل خان سے بذریعہ سڑک راولپنڈی آرہے ہیں پولی ٹیکنک کالج جی ٹی روڈ پر ہے اسی راستے بھٹو راولپنڈی آئیں گے وہاں ان کا بھرپور استقبال ہونا چاہیے۔ حسام الحق نے بہترین استقبال کا اہتمام کی۔ بھٹو آئے اور انتہائی فقید المثال استقبال ہوا جس کے اختتام پر پولیس نے طلبہ کے بڑے مجمعے کو دیکھ کر آنسو گیس کے شیل پھینکے پھر طلبہ پر براہ راست فائرنگ کی جس میں ایک طالب علم عبدالحمید جان بحق ہو گیا۔اسی رات گورڈن کالج کے طلبہ لنڈی کوتل سے پنڈی آرہے تھے جنہیں لنڈی کوتل پر روک کر ان کے سامان کی تلاشی لی گئی اور سامان روک لیا گیا۔ جس پر طلبہ غصے میں بپھرے ہوئے تھے وہ اس عالم میں پنڈی آئے اور سیدھا ہوٹل کانٹی نینٹل جلوس کی صورت میں گئے جہاں بھٹو ٹھہرے ہوئے تھے، بھٹو نے اس موقعہ پر خطاب کیا اس دوران طلبہ کی پولیس سے جھڑپیں ہوئیں۔ بعد ازیں راولپنڈی میں طلبہ تحریک شروع ہو گئی اور پنڈی و مری اور اسلام آباد پورا طلبہ تحریک کی زد میں آ گئے اس طلبہ تحریک کے شعلے پورے ملک میں بھڑک اٹھے۔

اس کے بعد مختلف تعلیمی اداروں کی طلبہ یونینز نے اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی تشکیل دی ڈی جس میں ہر یونین سے صدر جنرل سیکریٹری کو رکن لیا گیا۔ اس پوری تحریک کی رہنمائی عبدالرشید شیخ کر رہے تھے جو گورنمنٹ کالج کے صدر تھے۔ وہاں کی طلبہ تحریک کی سرگرمیوں کا مرکز بھی گورنمنٹ کالج تھا۔ عبدالرشید شیخ بہت ہی پاپولر طالب علم لیڈر تھے اور ان ہی کا نام چرا کر لال حویلی والے شیخ رشید نے اپنی شہرت اور مفادات کے لئے رکھ لیا۔میں یہ بھی بتاؤں گا کہ مالی مفادات کیسے حاصل کیے گئے۔ عبدالرشید بالعموم شیخ رشید کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کی طالب علم لیڈر شپ کی پورے پاکستان میں دھاک تھی۔ بعد میں اصلی والے شیخ رشید این ایس ایف کے پورے پاکستان کے نائب صدر منتخب ہوئے پھر صدر بن گئے تھے۔ نقلی والے شیخ رشید اس عرصے میں اپنے نام سے رشید احمد بٹ کا نام ہٹا کر شیخ کہلانا شروع کر دیا کیونکہ حکومت اور فوج کے افسران اصلی شیخ رشید سے معاملات طے کرنے کی جستجو میں رہتے تھے

اس دوران جنرل ایوب خان اور حکومت نے اصلی والے شیخ رشید اور دیگر طلبہ لیڈر سے بات چیت کی خواہش کا اعلان کرتے ہوئے انہیں ایوان صدر میں مدعو کیا۔ اس وقت کے پنڈی کے کمشنر نے ایک میٹنگ بلائی اور ایکشن کمیٹی کے اراکین کو ایوب خان سے ملاقات کے لئے رضامند کرنا تھا اس میٹنگ میں وزیر قانون ایس ایم ظفر بھی موجود تھے۔ طلبہ لیڈرز نے واضح کیا ہے وہ اس وقت تک ایوب خان سے بات نہیں کریں گے جب تک ایوب خان استعفیٰ نہیں دے دیتا۔ اس موقعہ پر ایس ایم ظفر نے کہا کہ اگر ایوب خان نے استعفیٰ دیے دیا تو پھر ملاقات کیوں ہوگی۔ معاملہ تو ویسے ہی ختم ہو جائے گا۔ یہاں سے نقلی والے شیخ رشید کا کردار سامنے آتا ہے۔طلبہ کی ایکشن کمیٹی کے لیڈرز ہمیشہ نقلی شیخ رشید کے بارے شبہ رکھتے تھے کہ ہر خفیہ بات پولیس اور سی آئی اے سنٹر کو پتہ چل جاتی تھی، لہذا ایکشن کمیٹی کو دو اجلاس کرنے پڑتے تھے، ایک اجلاس میں لال حویلی والی جعلی شیخ رشید شرکت کرتے تھے جبکہ دوسرا اجلاس خفیہ طور پر کسی اور کے گھر پر رکھا جاتا تھا۔ سی آئی اے سنٹر اور اس کے سربراہ ایس ایس پی سردار وکیل خان جو نقلی شیخ رشید کے کفیل بھی تھے سخت پریشان تھے وہ اکثر انسپکٹر زماں خان کی سرزنش کرتے تھے کیونکہ نقلی شیخ دراصل انسپکٹر زمان کی دریافت تھے۔

ایوب خان اور بیوروکریسی کی طرف سے سردار وکیل اور پولیس پر سخت دباؤ تھا کہ شیخ رشید اور طلبہ رہنماؤں سے ملاقات کرائی جائے تاکہ ملک بھر میں ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں تقسیم کی جائے اور تحریک کا دباؤ ختم کیا جا سکے۔ ایس پی سردار وکیل اور انسپکٹر زمان نے پلاٹ بناتے ہوئے نقلی شیخ رشید کو اصلی شیخ رشید بنا کر ایوب خان کے سامنے پیش کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ایوب خان اور بیوروکریسی کی خوشی کی انتہا نہیں رہی کہ شیخ رشید ملاقات کے لئے تنہا آ رہا ہے۔
مگر ایوان صدر میں جعلی شیخ رشید کو دیکھ کر ایوب خان سخت طیش میں آ گیا اور اس نے نقلی شیخ رشید سے ہاتھ ملانے سے انکار کرتے ہوئے اسے ڈانٹ دیا، اور سردار وکیل پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جعلی شیخ رشید سمیت پولیس والوں کو فوری طور پر کمرے سے بے عزتی کر کے نکال دیا۔ اب 54 سال کے بعد نقلی شیخ رشید اس واقعہ کو اس طور پیش کرتے ہیں جیسے ان کی بڑی عزت افزائی ہوئی تھی۔اصلی شیخ رشید اپنی تعلیم ختم کرنے کے بعد پشاور چلے گئے تھے اور قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکالت کرتے ہیں۔ مجھے ابھی کا نہیں پتہ لیکن چند سال پہلے تک وہ بقید حیات تھے وہ انتہائی شریف النفس انسان تھے ان سے جب بھی کوئی نقلی شیخ کر بارے کہتا وہ ہنس کر ٹال دیا کرے تھے۔ اصلی شیخ رشید کے پنڈی چھوڑ جانے کے بعد پھر سارا میدان نقلی شیخ کے ہاتھ آ گیا اور اس نے شیخ رشید کے نام کا خوب فائدہ اٹھایا۔

بشکریہ ہم سب
واپس کریں