دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تحریک آزادی کشمیر اور نیلہ بٹ
سردار محمد پرویز خان
سردار محمد پرویز خان
تحریر : سردار محمد پرویز خان ۔ ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر ضلع باغ

یہ قانون قدرت ہے کہ جس طرح کسی اچھے کارنامے کے باعث کچھ لوگ حیات جاوداں حاصل کر لیتے ہیں اسی طرح کچھ واقعات کی بنا کچھ مقامات اور ایام بھی ہمیشہ یاد کیے جاتے ہیں اور ایسے ایام پر تقاریب کے انعقاد کے ذریعہ تجدید عہد کیا جاتا ہے اور منزل کیطرف تیزی سے قدم بڑھانے کا حوصلہ ملتا ہے ، دھیرکوٹ کے جنوب مشرق میں آٹھ کلو میٹر دور سطح سمندر سے سات ہزار فٹ کی بلندی پر واقعہ نیلہ بٹ کی چوٹی کو بھی ریاست جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کی تاریخ میں ایک اہم اور منفرد مقام حاصل ہے یہی وہ مقام ہے جہاں سے 23اگست 1947کو مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان نے ڈوگرہ حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور عوام کی ایک کثیر تعداد سے جہاد میں شامل ہونے کا حلف لیا ، اگر ہم اعلان نیلہ بٹ کے پس منظر کیطرف دیکھیں تو نیلہ بٹ میں جہاد کا اعلان ایک طرف 13جولائی 1931کے المناک واقعہ اور اس کے بعد تسلسل سے جاری جد و جہد آزاد کا عروج اور دوسری طرف آزادی کی مسلح جد و جہد کا آغاز تھا جو آج بھی جاری ہے ، 23اگست 1947کو نیلہ بٹ کے مقام سے اعلان جہاد اور اس کی مفصل رو داد سے قبل اس کے محرکات کا سر سری ذکر تحریک حریت کشمیر کے تاریخی تسلسل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے چار بڑے ممالک پاکستان ، بھارت ، چین اور افغانستان کے درمیان واقع ایشیاء کا دل کہلانے والی ریاست جموں و کشمیر کرہ ارضی پر ایک عجوبے سے کم نہیں یہ ریاست اپنے حسن بے مثال اور مخصوص جغرافیائی پوزیشن کے باعث اکثر غیروں کے تسلط میں رہی ہے ، انسانیت کی تاریخ کا سیاہ ترین معاہدہ جو بیعنامہ امرتسر کے نام سے مشہور ہے عمل میں لایا گیا جس کے تحت ریاست کشمیر اور اس کے مکینوں کو انگریزوں نے ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ 75لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض فروخت کر دیا اس کے ساتھ ہی اس ریاست پر غلامی کی سیاہ رات نے اپنے خوفناک پر اس طرح پھیلا دیئے کہ 1947میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر عمل میں آنے والی تقسیم بر صغیر کے وقت کی صبح کا ذب کا چند ثانیوں کا دورانیہ صبح صادق میں بدلنے کے بجائے ریاست کے بھارت کی غلامی میں چلے جانے پر منتج ہوا اور کئی برس کی طویل جد و جہد کے دوران اسلامیان ریاست کے تقریبا چار لاکھ نفوس کی قربانی دینے کے باوجود صبح صادق طلوع ہونے کے امکانات نظر آ رہے یہ گھمبیر صورتحال اصحاب فہم و ادراک کے لیے ایک چیلنج ہے جو بہر صورت توجہ اور عمل کی متقاضی ہے ، تقسیم بر صغیر کے فارمولے میں ریاستوں کو دیئے گئے حق کے مطابق تین جون 1947کے اعلان تقسیم ہند کی روشنی میں اہلیان کشمیر نے اپنی واحد نمائندہ سیاسی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے زیر اہتمام 19جولائی 1947کو سرینگر میں منعقدہ ایک اجلاس میں ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد منظور کی جس کی پاداش میں جموں کے اڑھائی لاکھ مسلمان ڈوگرہ فوج اور ہندووں کی معروف مسلح و دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے غنڈوں کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کٹ گئے اور چند لاکھ ہجرت کر کے پاکستان پہنچے جب کہ دوسری جانب مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کا نیلہ بٹ سے اعلان جہاد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل ریاست کے کئی مربع میل علاقے کی آزاد پر منتج ہوا جو آزادی کا بیس کیمپ اور پاکستان کا دفاعی حصار ہے یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ اگر مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کی سر پرستی میں ریاست کا یہ حصہ آزاد نہ ہوا ہوتا تو حیدر آباد کی طرح کشمیر کا بھی کوئی قصہ ہی باقی نہ ہوتا اس کے بر عکس شیخ محمد عبداللہ نے پنڈت جواہر لعل نہرو اور دوسرے کانگریسی لیڈروں کے جھانسے میں آ کر بقول ایلیسٹر لیمب کے مہاراجہ ہری سنگھ کیطرف سے بھارت کے ساتھ ریاست کے فرضی الحق کی تصدیق کر کے اہلیان کشمیر کو بھارت کی غلامی میں دے دیا کہتے ہیں کہ بڑے لوگوں کی غلطی بھی بڑی ہوتی ہے ، بقول شاعر لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ۔

23اگست 1947کے اعلان جہاد سے لیکر یکم جنوری 1949اقوام متحدہ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان تک رو داد بہت طولانی ہے اور اس کی داستان در داستان اور کہانی در کہانی انتہائی دلچسپ اور حیرت انگیز ہے ، یہاں نیلہ بٹ کے مقام پر اعلان جہاد اور اس کی کامیابیوں پر بات کر مطلوب ہے تا ہم اتنا ذکر کرنا ضروری ہے کہ فروری 1947میں مہاراجہ نے اپنی فوجیں سرحد کے ساتھ تعینات کرنا شروع کر دی تھیں تا کہ کسی بھی ممکنہ تحریک کو دبا یا جا سکے ، حالانکہ مہاراجہ نے جو سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کیا تھا وہ بھارت کے لیے وقت حاصل کرنے کے لیے تھا اس جہاد کے دوران رب العزت کی کیا کیا مہربانیاں اور غیبی مدد ہوئی ان سے خواص تواگاہیں لیکن یہاں عام قاری کی معلومات کے لیے محض نمونہ کے طور پر کچھ ذکر ضروری ہے ، فہم و فراست رکھنے والوں کو بخوبی معلوم ہے کہ تحریکیں بڑی تیاری ، منصوبہ بندی ، وسائل اور حکمت عملی سے چلائی جاتی ہیں اور اس کے لیے با ضابطہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اس تحریک میں بظاہر ان ضروریات میں سے کوئی ایک بھی موجود نہیں تھی ، اس تحریک کا آغاز اس طرح ہوا کہ مجاہد اول نے 1947کے اوئل یعنی فروری مارچ میں باغ میں کچھ معززین کے ساتھ ایک میٹنگ کی جس میں سید علی اصغر شاہ ، کھرل کے رہنے والے مولوی میر عالمی اور چند دوسرے لوگ شامل ہوئے اس میٹنگ میں مہاراجہ کی حکومت کے خلا ف تحریک چلانے اور اس کی حکمت عملی پر بات ہوئی در اصل مجاہد اول کی شروع کردہ اس تحریک جہاد کو اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل تھی ۔

نیلہ بٹ کے اجلاس میں طے پایا کہ ساتھ آٹھ ہزار کا یہ اجتماع جلوس کی صورت میں باغ جائے گا اور وہاں جلسہ کریں گے نیلہ بٹ سے جب یہ جلوس روانہ ہوا تو کچھ لوگ بھوک پیاس کی وجہ سے ادھر ادھر بکھر گئے مگر ایک بڑی تعداد ارجہ پہنچی اور جامع مسجد میں رات کو قیام کیا ، مہاراجہ کی حکومت کے خلاف سیاسی جد و جہد اس جلسے کا مقصد تھا اور نیلہ بٹ سے شروع ہونے والی یہ سیاسی جد و جہد کامیاب بھی ہوئی اور آج ایک بڑا خطہ آزاد ہے یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے اگر سازش کے ذریعے سیز فائر نہ ہوا ہوتا تو تھوڑے ہی عرصہ میں ریاست کا بقیہ حصہ بھی آزاد ہو جاتا مشرقی پاکستان الگ ہو جانے کے بعد آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی باتیں ہونے لگیں تو مسلم کانفرنس اور اسکی قیادت نے اس غلط سوچ کو ختم کرنے اور آزاد کشمیر کی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے وہ کردار ادا کیا جو تحریک آزادی کشمیر میں سنہری حروف سے لکھا جانے کے لائق ہے اور آنے والی نسلیں اس پر فخر کریں گی ،اسی کا تسلسل تھا کہ المجاہد فورس کے متعلق ایک قرار داد منظور کی گئی جس کا مقصد کشمیری عوام کو فوجی تربیت دے کر جنگ بندی لائن کو توڑنا اور مقبوضہ کشمیر کی آزاد ی کے لیے مسلح جد و جہد پھر سے شروع کرنا تھا اس تاریخی قرار داد کے ذریعے یکم جنوری 1949کو جنگ بندی مسترد کی گئی کیونکہ یہ جنگ بندی کشمیریوں کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی اور اس سے مسئلہ کشمیر کے حل میں کوئی مدد بھی نہیں مل سکتی المختصر 23اگست 1947کو مجاہد اول کی سر پرستی اور کمان میں جو جہاد شروع ہوا تھا اسی کی بدولت مسئلہ کشمیر زندہ رہا اور 1988کے وسط میں مسلح جد و جہد شروع ہوئی جو انشاء اللہ اپنے منطقی انجام یعینی کشمیر کی آزادی اور پاکستان سے الحاق پر ہی جا کر ختم ہو گی ۔ یوم نیلہ بٹ منانے کا مقصد یہ ہے کہ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان نے کی شروع کر جد و جہد کی تجدید ہے کشمیریوں کے لیے پاکستان ہی بہترین پناہ گاہ ہے پاکستان کے اندر کہیں پنجابی پٹھان کہیں سندھی بلوچ کا جھگڑا ہو سکتا ہے مگر کشمیری پورے پاکستان میں با وقار اور با عزت ہے ۔

واپس کریں