دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مجوزہ پندرہویں آئینی ترمیم اور آل پارٹیز کانفرنس ۔قسط1
چودھری طارق فاروق
چودھری طارق فاروق
قیام پاکستان کے بعد 24 اکتوبر 1947کو آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ کچھ عرصہ بعد حکومت پاکستان ، آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے درمیان معاہدہ کراچی تشکیل پایا ۔ اس دوران وزارات امور کشمیر اور اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے آزاد کشمیر میں حکومتیں تشکیل پاتی رھیں اور ختم ھوتی رھیں ۔ مسلم کانفرنس یہ حکومتیں بنانے کا ذریعہ بنتی رھی ۔ اس دوران بنیادی جمہوریت کا دور بھی آیا ۔ جنرل ایوب کا نظام بلواسطہ یہاں پر لایا گیا لیک 1970 میں عوام اور سیاسی جماعتوں کے مطالبہ پر آزاد جموں کشمیر میں عبوری ایکٹ 1970 لاگو کیا ۔ جس کے ذریعے صداراتی نظام حکومت براہ راست عام انتخابات کے ذریعے عمل پزیر ھوا۔ قانون ساز اسمبلی بھی ساتھ ھی وجود میں لائی گئی ۔ جناب سردار محمد عبدالقیوم خان مسلم کانفرنس کے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے پہلی بار براہ راست حق بالغ رائے دہی سے صدر منتخب ھوئے ۔ اس ایکٹ کے ذریعے صدر کو بہت بااختیار بنایا گیا ۔ کچھ بنیادی حقوق ملے اور عدل کے نظام کے لیے بھی راہ ھموار ھوئی ۔ ترقیات کا محکمہ بھی وجود میں آیا۔اعلی عدلیہ میں ججز کی تقرری کے اختیارات بھی صدر کو حاصل تھے ۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد جناب ذوالفقار علی بھٹو برسر اقتدار آئے تو انہوں نے آزاد جموں کشمیر اسمبلی کے چند اراکین کو توڑ کر یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی ۔ پیر علی جان شاہ ، راجہ ممتاز حسین راٹھور ، میاں غلام رسول اور چودھری صحبت علی اس کے ابتدائی ممبران میں شامل تھے ۔ جب پارلیمانی نظام حکومت کا مطالبہ زور پکڑا تو حکومت پاکستان نے عبوری ایکٹ 1974 کو قانون ساز اسمبلی سے منظور کروا کر لاگو کیا۔ کچھ ماہرین یہ بھی کہتے ھیں کہ بھٹو دراصل سردار قیوم خان کی عوامی مقبولیت سے خائف ھو کر پارلیمانی نظام حکومت لے کر آئے۔ اس نظام حکومت کے ذریعے آزاد ریاست جموں کشمیر کے عوام کو جموں کشمیر کونسل کا ادارہ ملا ۔
ایکٹ 1974 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت جس میں جناب خان حمید خان وزیر اعظم آزاد کشمیر تھے میں کافی ترامیم لائی گئیں جس کی وجہ سے اس کا پارلیمانی حلیہ بگڑ گیا ۔ کونسل کے چہرمین ایک غیر ریاستی شخص وزیر اعظم پاکستان بنے ۔ چھ ممبران کو آزاد کشمیر اسمبلی نے منتخب کیا ۔ پاکستان کی قومی اسمبلی سے پانچ ممبران کونسل کے لیے نامزد ھوئے ۔ وزیر امور کشمیر کو کونسل کا انچارج وزیر بنایا گیا ۔ خزانہ ، کرنسی ، دفاع اور خارجہ امور اقوام متحدہ کی قرار داروں کے مطابق حکومت پاکستان کے سپرد ھوئے اور تقریبا 32محکمہ جات کے لیے کونسل کو قانون سازی کا اختیار دیا گیا۔ ان محکمہ جات میں بجلی ، سماجی بہبہود ، ٹیکس ، ایکسائز ، ٹورزم اور مدنی وسائل کے محکمہ جات بھی شامل تھے ۔ پاکستان میں موجود سٹیٹ پراپرٹی کو اگرچہ کونسل لسٹ کا حصہ دکھایا گیا لیکن عملا یہ ریاستی پراپرٹی وزارت امور کشمیر کے پاس رھی ۔ یوں آزاد ریاست میں چار حکومتیں بن گئیں ۔ وزیراعظم پاکستان ، وزارت امور کشمیر ، آزاد جموں کشمیر کونسل اور منتخب حکومت آزاد ریاست جموں کشمیر ۔
آزاد جموں کشمیر میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ھائی کورٹ کے چیف جسٹس سمیت عدالت اعظمی اور عدالت عالیہ کے ججز کی تقرری وزیر اعظم پاکستان بحیثیت چہرمین کشمیر کونسل کرتے ھیں ، چیف الیکشن کمشنر کا تقرر بھی وہی کرتے ھیں ۔ چیف سیکرٹری ، آئی جی پولیس ، فنانس سیکرٹری ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات ، اکوٹنٹ جنرل اور آڈیٹر جنرل کی تقرری کا اختیار بھی معاہدہ کراچی کے تحت وزیراعظم پاکستان کے پاس ھے ۔ یاد رھے اوپر بیان کیے گئے تمام اختیارات تیرھویں آئینی ترمیم کے بعد بھی وزیر اعظم پاکستان اور چہرمین کشمیر کونسل کے پاس ھی رھے۔سطور بالا میں جن چار حکومتوں کا ذکر ھے وہ آزاد جموں کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974 مب جون 2018 تک برقرار رھیں ۔وزیر اعظم پاکستان جناب محمد نوازشریف نے جب آزاد جموں کشمیر کے 2016 کے عام انتخابات کے بعد آزاد کشمیر کا پہلا سرکاری دورہ کیا تو پاکستان مسلم لیگ ن آزاد جموں کشمیر کی پارلیمانی پارٹی نے وزیر اعظم راجہ محمد فاروق حیدر کی سربراہی میں پی سی ھوٹل مظفرآباد میں دی گئی ایک بریفنگ میں جس میں جناب اسحاق ڈار اور جناب برجیس طاھر شامل تھے ، آزاد کشمیر کو درپیش آئینی ، انتظامی اور مالی مشکلات کا ذکر زور دار مطالبے کی صورت میں کیا ۔ جس میں آزاد جموں کشمیر کونسل کے خاتمے سمیت ، واٹر یوزچارجز، وفاقی ٹیکسس میں حصہ اور وسائل کو آزاد کشمیر حکومت کے حوالے کیے جانے کی بات شدومد کے ساتھ بات کی گئی۔ ترقیاتی بجٹ میں دگنا اضافہ بھی دئیے جانے کی بات ھوئی ۔جناب نوازشریف صاحب نے تقریبا تمام مطالبات کے حل کیے جانے کی یقین دہانی کروائی اور تمام حل طلب امور سے اتفاق کیا ۔
یوں عبوری ایکٹ 1974 میں تیرھویں آئینی ترمیم کی راہ ھموار ھوئی ۔ جسے بعدازاں جناب شاھد خاقان عباسی وزیر اعظم پاکستان (وقت ) نے اپنے قائد جناب نوازشریف کے حکم پر جون 2018 میں وفاقی کابینہ کی منظوری سے پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ قومی سلامتی کے ادارے بھی ابتدائی طور پر اس عمل میں شریک رھے۔قانون ساز اسمبلی اور آزاد جموں کشمیر کے مشترکہ اجلاس میں اس تیرھویں ترمیم کو جب پاس کرنے کے لیے پیش کیا گیا تو مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کی تمام پارلیمانی پارٹی اور آزاد جموں کشمیر کونسل کے دو اراکین جناب ملک پرویز اعوان اور سردار عبدالخالق وصی سمیت 36 اراکین شریک تھے ۔ پی ٹی آئی ، مسلم کانفرنس ، جموں کشمیر پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی و کونسل سمیت تمام نے بوقت منظوری بوجوہ بائیکاٹ کیا ۔ جناب نواز شریف کی لیڈرشپ اور فاروق حیدر کی سربراھی میں تمام 36 اراکین کی پارلیمانی پارٹی اس امتحان میں تمام تر دباو کے باوجود سرخرو ھوئی ۔ اس تیرھویں آئینی ترمیم کے ذریعے آزاد جموں کشمیر کونسل کے قانون سازی ، انتظامی اور مالیاتی اختیارات ختم کر دیے گئے ۔ تمام مالی وسائل حکومت آزاد کشمیر کو منتقل ھو گئے ۔ یہ ادارہ صرف ایک مشاورتی ادارہ بن گیا۔ صرف عدالتی اختیارات ججز کی تقرری اور چیف الیکشن کمشنر کی حد چہرمین کشمیر کونسل کے پاس رھے ۔ یوں وہ ادارہ جو آزاد ریاست کے آئین کے ذریعے وجود میں آکر مالک کل بن گیا تھا ۔ قانون سازی کے ساتھ ساتھ انتظامی ، مالیاتی اور ترقیاتی امور بھی اپنے سے باھر ھو کر سر انجام دینا شروع کر گیا تھا ۔کسی عدالت یا اتھارٹی کے سامنے اپنے کیے کے لیے جوابدہ نہیں تھا ۔ جس کے نوے فیصد ملازم غیر ریاستی تھے ۔جو سال میں دو سال کی تنخواہیں دیگر مراعات کے ساتھ حاصل کرتے تھے ۔ آزاد حکومت پر سے ان کا غیر آئینی ، غیر قانونی اور غیر ضروری بوجھ اتر گیا ۔آزاد ریاست اور قانون ساز اسمبلی کافی حد بااختیار ھو گئی ۔ اقوام عالم اور انسانی حقوق کے اداروں میں بھی حکومت پاکستان کافی حد تک تنقید سے بچ گئی اور بھارتی پروپیگنڈہ دم توڑ گیا۔شکریہ نواز شریف
جناب محمد نواز شریف اور شاھد خاقان عباسی کی حکو مت کے خاتمہ کے بعد اور عمرانی حکومت کے قیام کے ساتھ ھی اس تیرھویں آئینی ترمیم کو ختم کرنے کے لیے آزاد جموں کونسل کے مراعات یافتہ ملازمین اور حکومت پاکستان نے سازشیں کرنا شروع کر دیں ۔ طاقتور حلقوں کا تعاون بھی انہیں حاصل ھو گیا۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی سربراھی میں اس ترمیم کا خاتمہ کر کے پندرھویں آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ ھوا۔ وفاقی وزرا کی ایک اعلی سطحی کمیٹی بنی ۔ حکومت آزاد کشمیر پر دباو ڈالا گیا ۔ کئی نان پیپر ڈرا فٹ تیار ھوئے جنہیں راجہ فاروق حیدر صاحب کی کابینہ کے سینئر وزرا کی ٹیم راجہ نثار خان ، بیرسٹر افتخار گیلانی ، چوھدری محمد عزیز ، ڈاکٹر نجیب نقی خان ، سردار فاروق طاھر اور راقم نے زیر غور لا کر کئی بار مسترد کر دیا۔ اعلی بیوروکریسی کو زیر عتاب لایا گیا۔ وزرا پر پارٹی چھوڑنے کے لیے دباو ڈالا گیا ۔ یہاں تک کہ عبوری آئین کے آرٹیکل 56 کے استعمال کی دھمکی دی گئی ۔ حکومت کو گھر بھیجنے کی بات ھوئی ۔ ترمیم پر رضامندی کی صورت میں آئندہ عام انتخابات میں حکومت دیے جانے کی بھی بات کی گئی ۔ جو رد کر دی گئی ۔ وزرا کو آمدہ انتخابات میں نشان عبرت بنانے کی دھمکیاں ریکارڈ پر ھیں ۔ پھر عام انتخابات میں ایسا ھوا بھی ، ماسوائے راجہ نثار خان جنہوں نے ان انتخابات میں حصہ نہ لیا یہ تمام وزرا الیکشن میں ہرا دئے گئے۔ صرف راجہ فاروق حیدر صاحب کو اپنے آبائی حلقہ سے کامیابی ملی ۔ ۔ لیکن نہ نواز شریف صاحب کی پارٹی ٹوٹی اور نہ ھی پندرھویں آئینی ترمیم کا خواب پورا ھوا۔چند افراد خریدے جا سکے جنہوں نے بعد میں پارٹی سے بے وفائی کی بھاری قیمت چکائی ۔ اس پر پھر کبھی کھل کر بات ھو گی ۔


واپس کریں