دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وزیر امور کشمیر، وائسرائے ہند نہ بنیں
 بیرسٹر حمید بھاشانی خان
بیرسٹر حمید بھاشانی خان
یہ ایک مایوس کن پریس کانفرنس تھی۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر امور کشمیر قمر زمان کائرہ نے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں ایک پریس کانفرنس کی۔ یہ پریس کانفرنس آزاد کشمیر کے ایکٹ انیس سو چوہتر میں مجوزہ پندرہویں ترمیم کے تناظر میں ہوئی تھی۔ قمر زمان کائرہ ایک بھلے مانس آدمی ہیں۔ کئی لوگ ان کو انسان دوست اور دانشور قسم کا آدمی سمجھتے ہیں۔ اس لیے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ کائرہ صاحب اس موضوع پر عوام کے خدشات دور کریں گے۔ تحفظات اور ابہام پر بات کریں گے، جس سے صورت حال واضح ہو گی۔ مگر قمر زمان کائرہ نے جو گفتگو اس سے عیاں تھا کہ انہوں نے مجوزہ ترمیم کا مسودہ نہیں پڑھا، یا وہ آزاد کشمیر کے آئینی ارتقا کی تاریخ سے نا واقف ہیں۔ اور اس جد و جہد کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے، جو مقامی لوگوں نے گزشتہ ستر سالوں میں اپنے حق حکمرانی اور حق ملکیت کے لیے کی ہے۔

آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کے پاس اس وقت کوئی باقاعدہ آئین نہیں ہے۔ آئین کی جگہ جس انتظامی و قانونی بندو بست کے تحت آزاد کشمیر چلتا ہے، اسے ایکٹ 1974 کہتے ہیں۔ اس ایکٹ میں 1974 سے لے کر گزشتہ اڑتالیس برسوں میں 14 ترامیم ہو چکی ہیں۔ اب بات ہو رہی ہے پندرہویں ترمیم کی۔ اس ترمیم کا بیان کردہ مقصد حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کے مابین اختیارات کی تقسیم یا از سر نو تقسیم ہے۔ اس کہانی کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر کے ایکٹ میں پندرہویں ترمیم لانے کے لیے آزاد کشمیر حکومت نے ایک کمیٹی قائم کی۔اس کمیٹی کے اراکین میں مقامی حکومت کے چھ وزرا کے علاوہ سیکرٹری زراعت اور سیکرٹری قانون و انصاف، پارلیمانی امور اور سیکرٹری انسانی حقوق کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کمیٹی کی مشاورت سے ایکٹ میں ترمیم کا مسودہ تیار کیا گیا۔ اس مسودہ کے جو چیدہ چیدہ نقاط منظر عام پر آئے ان پر سیاسی و سماجی حلقوں میں ایک بڑی بحث چھڑ گئی۔

آزاد کشمیر کے ایکٹ میں اس ترمیم کے لئے ایک خط وزارت امور کشمیر کی جانب لکھا گیا۔ اس خط کے مندرجات کے مطابق وزیر اعظم پاکستان کی ہدایات کے مطابق وفاقی سیکرٹری قانون و انصاف کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودہ کا جائزہ لے کر اسے حتمی شکل دے، تاکہ اس ترمیم کے ذریعے آزاد کشمیر حکومت کے فرائض و اختیارات کو واضح کیا جا سکے۔اس سب کمیٹی میں تین ممبران حکومت پاکستان کی طرف سے شامل کیے گئے، اور تین آزاد کشمیر کی طرف سے۔ اس مسودے کو لے کر تین قسم کی تھیوریاں یا خدشات گردش کر رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ آزاد کشمیر کے ایکٹ میں ترمیم کے لیے تیار کیے گئے مسودے کا مقصد ایکٹ کی 13 ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کر کہ کشمیر کونسل کو بطور ادارہ دوبارہ بحال کرنا اور اس کو پہلے سے زیادہ اختیارات دینا ہے۔ دوسری تھیوری یہ ہے کہ اس ترمیم کا مقصد آزاد کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کر کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرز پر نیا سیٹ اپ قائم کرنا ہے۔ اور تیسری تھیوری یہ ہے کہ 15 ویں آئینی ترمیم کے کا مقصد مقامی اسمبلی کے تمام تر اختیارات کشمیر کونسل کو منتقل کرنا ہے۔

جو کچھ اب تک مسودہ کی شکل میں منظر عام پر آیا ہے، اس کے مطابق پہلی اہم بات یہ ہے کہ کشمیر کونسل کی تشکیل نو ہوگی، جس میں پاکستان کے وزیر خارجہ، وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ کو شامل کیا جائے گا۔ دوم آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کی طرف سے آئین میں کسی قسم کی ترمیم کے لئے حکومت پاکستان کی پیشگی اجازت لازمی قرار دی گئی ہے، جبکہ اس سے قبل صرف تین دفعات میں ترمیم کرنے کے لیے حکومت پاکستان کی پیشگی اجازت درکار تھی۔تیسری ایم بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں ایمرجنسی کے نفاذ کے لئے آزاد کشمیر اسمبلی کی پیشگی منظوری کی ضرورت کو ختم کر دیا جائے گا۔

چوتھی اہم بات یہ ہے کہ اس آئینی ترمیم کے تحت جن معاملات پر قانون سازی کا اختیار آزاد کشمیر اسمبلی کو حاصل تھا، وہ بھی کشمیر کونسل کو تفویض کر دیا جائے گا۔ اس طرح اسمبلی کے ہر قسم کے مالیاتی، انتظامی اور قانون سازی کے اختیارات کشمیر کونسل کو منتقل ہو جائیں گے۔ ان میں ہائیڈل پاور کے تمام منصوبے، ان منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی، معدنیات، نظام انصاف سے جڑے اختیارات جن میں اعلی عدالتوں کے دائرہ اختیار کا تعین، نصاب تعلیم کے متعلق تمام قانون سازی جیسے اختیارات شامل ہیں۔اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کا اختیار بھی بطور چیئرمین کشمیر کونسل وزیر اعظم پاکستان کے پاس ہو گا، اور وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے کی گئی تقرریوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ چیف الیکشن کمشنر اور آڈیٹر جنرل کی تقرری کا اختیار بھی وزیر اعظم پاکستان کا ہو گا، اور یہ تقرری بھی کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکے گی۔ پاکستان میں موجود کشمیر پراپرٹی کشمیر کونسل کی ملکیت قرار دی جائے گی اور آزاد کشمیر میں ایمرجنسی لگانے کا اختیار قانون ساز اسمبلی سے لے کر وزیر اعظم پاکستان کو تفویض کیا جائے گا۔ اس طرح اس مجوزہ ترمیم کے ذریعے تمام اختیارات کشمیر کونسل کو منتقل کر دیے جائیں گے اور اس خطے کی اپنی الگ شناخت کو ختم کر کے صوبائی طرز کے ڈھانچے میں تبدیل کر دیا جائے گا۔

مہاراجہ ہری سنگھ کے زمانے سے رائج سٹیٹ سبجیکٹ رول کی وجہ سے آزاد کشمیر میں کوئی غیر ریاستی شخص باہر سے آ کر زمین نہیں خرید سکتا، اسی طرح سرکاری ملازمت نہیں کر سکتا اور آزاد جموں کشمیر کی شہریت حاصل نہیں کر سکتا۔ حکمران اشرافیہ کا خیال ہے کہ یہ باتیں سرمایہ کاری اور سیاحت کی ترقی کے راستے میں حائل ہیں۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ٹورازم پروموشن ایکٹ 2019 ء میں ترمیم کر کے ٹوور ازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام عمل میں لایا جائے گا، جس کے تحت 571 مربع کلومیٹر کے لگ بھگ سیاحتی مقامات کی اراضی کو بیرونی سرمایہ کاروں کو لیز پر دینے کی گنجائش نکالی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے پندرہوویں آئینی ترمیم لانا اور اس خطہ کی آئینی حیثیت تبدیل کیا جانا ضروری ہے۔

قمر زمان کائرہ نے اپنی پریس کانفرنس میں پندرہویں ترمیم کا جواز یہ پیش کیا کہ چونکہ آزاد کشمیر پاکستان کا آئینی صوبہ نہیں ہے، اس لیے پاکستان قومی اسمبلی اور سینٹ آزاد کشمیر کے بارے میں قانون سازی نہیں کر سکتی، یہ ایک خلا ہے، جس کو پر کرنے کے لیے کشمیر کونسل جیسے ادارے کو قانون سازی کے اختیارات دینا ضروری ہے۔ قمر زمان کائرہ نے جان بوجھ کر، یا لاعلمی میں اس حقیقت سے صرف نظر کیا ہے کہ اگر آزاد کشمیر پاکستان کا آئینی طور پر صوبہ نہیں ہے تو پھر وفاق اور صوبوں کے اختیارات کی فہرست کا اطلاق بھی آزاد کشمیر پر نہیں ہوتا۔

یہاں وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کا معاملہ درپیش نہیں ہے، بلکہ وفاق اور ایک ریاست کے درمیان اختیارات کی تقسیم کی بات ہو رہی ہے، جس کی تاریخی طور پر خصوصی اور الگ حیثیت ہے۔ اور اگر اس ریاست کو صرف صوبوں کے برابر ہی اختیارات دیے جائیں تو پھر بھی یہ فہرست بہت مختصر بنتی ہے، جس میں خارجہ، داخلہ، کرنسی، مواصلات کے علاوہ چند ہی امور باقی رہ جاتے ہیں، جو اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاق کے پاس رہ گئے ہیں۔اس کے لیے کشمیر کونسل کو دوبارہ متحرک کرنے اور قانون سازی کے اختیارات دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ آزاد کشمیر اسمبلی کو مکمل طور پر با اختیار بنا کر قانون سازی کے تمام اختیارات دینے کی ضرورت ہے تاکہ آزاد کشمیر کے شہریوں کے حق ملکیت اور حق حکمرانی کو تحفظ حاصل ہو۔ وزیر امور کشمیر کو وائسرائے کی طرح نہیں، ایک عوامی نمائندے کی طرح سوچنا چاہیے، جس کی پارٹی نے پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ہے، اور جو عوام کے حقوق کی لڑائی لڑنے کی دعوے دار ہے۔
واپس کریں